خاک پریشاں


خاک پریشاں

شہرام سرمدی کی کتاب نا موعود پر سالم سلیم کا تبصرہ

سالم سلیم

معاصر شاعری میں ایک آواز اپنی پوری قوت کے ساتھ ہماری سماعتوں میں وارد ہوئی ہے۔ اپنی تعلیق شخصیت اور تہذیب یافتہ وحشت کے درمیان کھڑے اس آواز کے خالق کا جسم دفتری فائلوں میں کھویا ہوا ہے اور اس کی روح سیر سماوات میں گم ہے۔ اس کے وجود میں تخلیقی بے چینی اور اضطراب کی ایک دبیز پرت جھی ہوئی تھی اور آج نا موعود سامنے ہے تو گویا پہلا پردہ اٹھا دیا گیا ہو۔

جہاں کہیں بھی گیا ساتھ تھا غبار حیات

کہاں سے خاک پریشاں یہ میں اٹھا لایا

شہرام سرمدی کی صورت میں نہ صرف ایک طرح دار شاعر کا اضافہ ہوا ہے بلکہ انھوں نے موضوع ساخت اور جذبے کا ایک منفرد دریچہ وا کیا ہے۔ ان کی شاعری میں وجود، عدم، ازل، ابد اور نفی و اثبات کی پر شور ہوائیں تیزی سے چل رہی ہیں اور ان پر اسرار خوشبوؤں میں لپٹا ہوا شاعر اپنے دشت وجود کے ایک ایک ذرے کے ساتھ زندگی میں مصروف ہے۔ ان کی شاعری کے یہی ابعاد میں اور انھیں انتہاؤں پر جا کر انھوں نے اپنا اظہار کیا ہے۔ شہرام کی بیشتر نظموں میں ایک ایسا شخص ابھر کر سامنے آتا ہے جو اپنے فکریاتی وجود میں کھویا ہوا ہے، اس نے اپنی شرطوں پر نفی و اثبات اور وجود و عدم سے معاہدہ کیا ہے ۔ دراصل ان کے یہاں تفکر ایک زندہ تجربے اور تھرک کی شکل میں در آیا ہے۔ یہاں نا کامی اور کامیابی کا سوال نہیں بلکہ جذب کا معاملہ ہے ۔ وہ اپنی نظموں کا تارو پود یہیں سے تیار کرتے ہیں۔ اس فکر میں ایک والہانہ انبساط و سرور کی کیفیت بھی شامل ہو گئی ہے اور اس آمیزش سے ان کے وجود کے اندر بر پا ہونے والی شکست و ریخت کی بازگشت نے ان کو ایک آہنگ دے دیا ہے یعنی ذات کا آہنگ ۔ شہرام اس آہنگ میں ڈوبتے ہیں اور تازہ زخموں کے نشانات تلاش کرتے ہیں۔

ھو العشق، نفی کی حمایت میں منکر حق اور تجزیہ اسی قبیل کی نظمیں ہیں ۔ ان نظموں میں متکلم کا مخاطب خدا سے ہے۔ بین السطور میں شہرام اپنی آگہی اور وجدان کی اس سطح پر کھڑے ہیں جہاں خدا سے کوئی حجاب نہیں رہ جاتا۔ یہاں تک کہ ذات کی دیوار بھی ہٹ جاتی ہے اس کے بعد صرف اور صرف سرمدی بیچتا ہے۔ اسی سرمدیت میں جی کر انھوں نے اپنا رنگ پایا ہے۔ ان کی روح نے بھی نہیں ٹھکانا کیا۔ یہاں ان کا وجدان گہرے سانس لے رہا ہے اور غیب سے ایک آواز پلٹ پلٹ کر شہرام کا قالب اختیار کرتی ہے۔ یہ آواز ان کے باطن میں اندر تک اتر گئی ہے کیوں کہ ان کا اس آواز سے ہمزادگی کا رشتہ ہے۔

نا موعود کی تمام تر شاعری کو ایک اکائی کے طور پر دیکھنا مناسب ہو گا۔ ان کے احساس اور وجدان نے اپنا پیمانہ خود تلاش کر لیا ہے۔ خواہ نظم ہو یا غزل تجربے اور شعور کی کارفرمائی ہر جگہ  موجود ہے۔ اس شاعری میں ملال اور محزونی کا عرصہ پھیلتے پھیلتے اچانک بلند آہنگی سے وصل کرتا ہے ۔ غزلوں میں بھی ان کے یہاں فکری کش مکش کی تیز کاٹ موجود ہے۔ وہ اپنی روح پر لفظوں کو صیقل کرتے ہیں اور اپنے خلا کو پُر کرتے ہیں۔ یہ خلا مادی وجود سے لے کر ان کی مابعد الطبیعات

تک پھیلا ہوا ہے۔

کبھی تلاش کیا تو وہیں ملا ہے مجھے

نفس کی آمد و شد میں جہاں خلا ہے

طویل سلسلہ مصلحت ہے چار طرف

یقین کرلے مری جاں خدا ابھی تک ہے

شہرام کی شاعری میں ایک بہت ہی پر اسرار اور ناقابل فہم خوف بھی در آیا ہے۔ یہ خوف کائنات اور اس کے مظاہر کے سلسلے میں بھی ہے اور ان کی ذات کے حوالے سے بھی ہے۔

میں جس سے خوف زدہ تھا شروع سے آخر

تماشا کر گئی یہ کائنات ایساہی

اک غروب بے نشاں کی سمت رستے پر ہوں میں

خوف یہ در پیش ہوں گی کیسی دنیا ئیں وہاں

غروب بے نشاں کی یہ کش شہرام کو اپنی طرف کھینچتی ہے ۔ ان کے یہاں وہم، نامعلوم اور ناموجود کے تئیں ایک دلچسپ اور گہری مراجعت نظر آتی ہے۔ سو یہ شاعری بھی انھیں خارزار جنگلوں سے ہو کر گزرتی ہے۔ ان کے سفر کا حاصل الحصول وہی آبلہ پائی اور زخم انگیزی ہے جو اس راہ کے دوسرے مسافروں کا مقدور رہا ہے۔ نا موعود اسی سفر کا بیانیہ ہے۔ اس بیانیہ کے اظہار میں انھوں نے اپنی تنہائی کو بھی شریک کر لیا ہے۔ ان کی تنہائی بہت پیچیدہ اور اذیت ناک ہے، اسی لئے وہ شعور ولا شعور کی ہر سطح پر تنہا نظر آتے ہیں مگر اس تنہائی کے پس منظر میں عشق ہجر” اور خدائی مصلحتیں موجود ہیں لہذا اس منزل پر آکر شہرام کے لئے سوائے خود کلامی کے کوئی جائے پناہ نہیں ہے ۔ پھر یہ خود کلامی اور تنہائی ایک کیف آور نشے میں تبدیل ہو جاتی ہے اور ان کا یہ مجنونانہ رقص دیکھنے کے لئے زمین و آسمان کے ساتھ خدا بھی آموجود ہوتا ہے اور یہیں سے شہرام کی تنہائی ایک

بہت بڑے حلقہ نور میں تبدیل ہو جاتی ہے۔

اک انبوه فراواں

جوق اندر جوق سب افراد

اقرا کی طرف جاتے ہوئے

اور میں اُدھر غار حرا کی

چہل سالہ خامشی میں

محو ہوتا جارہا ہوں

کوئی تبصرہ نہیں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے