ندیم احمد کا غزالِ شب


ندیم احمد کا غزالِ شب

(شہرام سرمدی)

ندیم احمد کی شاعری کا بنیادی جوہر اور سروکار ان کی شخصیت میں علم و آگہی اور غور و فکر کے عناصر کا تخلیقی سطح پر باسلیقہ اظہار ہے جس کی قابلِ دید مثالیں ان کے شعری مجموعے ‘غزالِ شب’ میں دیکھی جاسکتی ہیں۔ کمیت کے اعتبار سے یہ مجموعہ مختصر بھی ہے اور ندیم کا نقشِ اول بھی۔ خوبی یہ ہے کہ اپنی متانت اور ذہانت کے سبب یہ نقش پڑھنے والے کے ذہن پر نہ صرف قابلِ توجہ حد تک منقش ہوتا ہے بلکہ نقش ہاۓ آئندہ کے قابلِ قدر اور خوش آئند نقوش کے روشن امکانات کی ضمانت بھی ہے۔

‘غزال شب’ کی قرات کے دوران ایک خوشگوار اتفاق یہ ہوتا ہے کہ قاری کو زبان و بیان کی فاش غلطیوں سے دوچار نہیں ہونا پڑتا۔ اس لحاظ سے ندیم احمد کی شاعری میں ایک ایسی تخلیقی فضا قائم ہوتی ہے جو اہمیت کی حامل بھی ہے اور مطالعے پر اصرار کرتی ہے۔ ان کے یہاں جن باتوں کا اظہار ہوا ہے ان سے ایک سوچتے ہوۓ باشعور شخص کا قیافہ بنتا ہے۔ یہ شخص اپنے گرد و پیش سے بھی آگاہ ہے اور اپنی ذات کی بساط سے بھی باخبر ہے۔ ندیم احمد کی آنکھ میں سیاہ و سفید کی تمیز بھی ہے اور اس پر دانشمندانہ تنقید بھی۔ ایک اہم بات جو ندیم احمد کو دوسروں سےمختلف بناتی ہے اور جس کے لیے قدرے ضبطِ نفس اور ایک خاص بلوغت درکار ہوا کرتی ہے، وہ ہے تمیزِ سیاہ و سفید کے دوران معیار وسطح سے نیچے نہ گِرنا۔

ندیم احمد کی روایت کی پاسداری آگہی اوربصیرت پر مبنی ہے اس میں وہ سپردگی نہیں ہے جو عام طور پر ہمارے یہاں روایت کی پاسداری کے نام پر دکھائی دیتی ہے۔ وہ جنون و گریبان کے روابط اور ان کی دیرینہ نسبتوں سے واقف ہیں لیکن اپنے سلیقے اور ذہنی معیار کو ملحوظ رکھتے ہوۓ:

پھر اس کے بعد جنوں کیا کرے گا دیکھیں گے
ابھی تلک تو گریبان کا سہارا ہے

ندیم احمد کے یہاں وقت کے ساتھ جنون کی بدلتی قدروں کا احساس بھی ہے۔ اسی لیے ان کا جنون فرسودہ نہیں لگت۔ اس ضمن میں وہ اپنے تئیں فرائض کی ادائیگی کو انجام بھی دیتے ہیں۔ مقابل کے غیر متوقع جواب پر ان کے ردِ عمل میں کوئی جھنجھلاہٹ یا غصہ نہیں دکھائی دیتا بلکہ ایک ‘چپ’ باقی رہ جاتی ہے۔

جس کے لیے کیا تھا جنوں کا یہ کاروبار
اس نے کہا دِوانہ تو اچھا نہیں لگا

ندیم احمد کے یہاں تجربات کا اختتام ان کو سوچنے کے مراحل میں داخل کر دیتا ہے۔ ان کی اصل ریاضت نتائج پر غور و فکر اور اس کا بیان ہے:

پھر اس کے بعد تیاری کریں گے
گزرنے دو ابھی طوفان سارا

جس وادی میں ندیم احمد سفر پر گامزن ہوتے ہیں وہ اپنی روشنی کے سبب آنکھوں کو چُندھیانے کے لیے کافی ہے۔ وہ اپنی آنکھوں کو ‘پاسبانِ عقل’ کی ہمراہی میں خیرگی سے تو بچا لیتے ہیں البتہ ابھی وہ ‘دل’ کو تنہا چھوڑنے کا جوکھم اٹھانے کی طرف مائل نہیں ہیں۔ اس کی وجہ ان کا درج ذیل تجربہ بھی ہوسکتا ہے:

جن لوگوں نے بس ذکر ہی سن رکھا ہے تیرا
کچھ روز سے وہ لوگ بھی پگلاۓ ہوۓ ہیں

یا ممکن ہے ان کے یہاں جو ایک خاص طرح کی غیرت ہے وہ مانع رہتی ہو۔ جس کی وجہ سے وہ ہر قسم کی پیش قدمی سے پرہیز کرتے ہوں کیونکہ یہی رویہ ان کی شخصیت میں بھی دکھائی دیتا ہے۔ وہ کم آمیز ہیں اور کم نما بھی۔ وہ جہاں موجود بھی ہوتے ہیں تو اپنے وجود کو کم کرکے ہی موجود ہوتے ہیں لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ ہوش و خرد کے وجود پر پوری دیانت داری کے ساتھ مُصر رہتے ہیں۔ اس کام کو وہ بطورِ فرض انجام دینے میں غیرت کو کنارہ کردیتے ہیں۔ یہ بات الگ کہ چاہیے یہاں بھی کچھ نہیں:

وہ ہاتھ جو پھیلاۓ تو مل جاۓ بہت کچھ
لیکن اسے غیرت ہے ضرورت سے زیادہ

جاننے والے جانتے ہیں کہ ایک سوچتے ہوۓ ذہن کا اضطراب کیا ہوتا ہے۔ ایسے اذہان کس طرح کی وحشت کی زد پر ہوا کرتے ہیں۔ ندیم احمد کے یہاں اس بات کا اظہار جس سطح پر اور شدت کے ساتھ کیا گیا ہے وہ قابلِ غور ہے۔ ‘دشتِ امکاں’ جیسی منزل میں وہ خود کو موجود دیکھتے ہیں اور وہاں بھی ان کی سانس کی کیفیت دیدنی ہے۔ دشتِ امکاں سے بھاگ نکلنے کا تصور کس قدر اذیت ناک ہے، وہ اربابِ فکر سمجھ سکتے ہیں:

نکل کے بھاگ ہی جاۓ گی دشتِ امکاں سے
ہماری سانس بہت دن سے پارا پارا ہے

ندیم احمد کے یہاں Level Headedness ایک ایسی صفت جو ہمارے یہاں کم نظر آتی ہے۔ یعنی آگہی کی سطح پر پُرسکونی اور سمجھداری؛ مشکل حالات میں مناسب فیصلے کرنے کی قابلیت والی صفات۔ یہی وجہ ہے کہ وہ حدِ مقررہ سے باہر نہیں نکلتے اور یہ حد ان کی اپنی طے کردہ ہے جس سے ان کی شخصیت تشکیل پاتی ہے۔ ندیم احمد کے یہاں صیغہء واحد غائب کی شکل میں کسی طرف اشارے ملتے ہیں جو اصل فاعل کے طور پر نظر آتا ہے۔

اسی کا حکم چلتا ہے یہاں ساری کہانی پر
اسی کا شوق قصہ مختصر ہونے نہیں دیتا

دوسرے مصرع میں جو خیال پیش ہوا ہے اس کی رُو سے یہ سمجھنا مشکل نہیں کہ دشتِ امکاں میں ندیم احمد کی سانس پارا پارا کیوں ہوئی اور اس کے نکل بھاگنے کی بات کیوں آئی۔ ہمارے سماج کا عمومی رویہ ہے کہ ایسے فرد سے لوگ کنارہ کرلیتے ہیں۔ نتیجے میں تنہائی اس کی جاۓ پناہ رہ جاتی ہے اور جاۓ آرامِش بھی:

رفتہ رفتہ ہم نے سب سے ملنا جلنا چھوڑ دیا
تنہائی میں خوب مزے تھے بھیڑ لگاکر کرتے کیا

پیشے کے اعتبار سے ندیم احمد کا کارزارِ عمل، تدریسِ زبان و ادب ہے۔ جسکی وجہ سے ان کے یہاں زبان و ادب کے تئیں پاسداری اور سنجیدگی نہ صرف ان کی شخصیت کا نمایاں پہلو ہے بلکہ ان کا امتیاز بھی ہے۔ وہ اپنی پیشہ ورانہ زندگی کے حقائق کو دیکھتے ہیں، سمجھتے ہیں اور ان کا ادبی سطح پر اظہار بھی کرتے ہیں۔:

فقط دو دن کے سیمنیار سے ہی
بدلتا ہے کہیں رجحان سارا

شعر کہنے کو تو کہہ ڈالے مگر شہر میں اب
شور برپا ہے کہ یہ شاعری ہے بھی کہ نہیں

کچھ پرانے سے اوب جاتا ہوں
کچھ نیا بھی کہا نہیں جاتا

اپنی تلاش یا خود کو Explore کرنے کے لیے جب وہ نسبتا ایک کشادہ میدان کی جانب توجہ کرتے ہیں تو وہاں اظہار کی وسعت میں اضافہ نظر آتا ہے۔ ہرچند کہ وہ یہاں اپنے آپ سے ایک جداگانہ سطح پر رابطہ کرتے ہیں لیکن ان کا مطالعہ درمیان میں آ کر اکثر ان کی حمایت کرتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔ ان کی نظموں میں خیال کو اس کے مناسب ترین کرافٹ کے ساتھ پیش کرنے کا عمل قابلِ ستائش ہے۔ وہ موضوع کے لحاظ سے اس کو عمدہ پیرایہ فراہم کرتے ہیں۔ جس کی وجہ سے ان کی نظم باوجود اپنے خیالات کی گہرائی اور گیرائی کے ترسیل میں کامیاب ہے۔ ان کی نظموں میں غیر ضروری طوالت ناپیدا ہے جس سے ارتکاز کا وصف مضبوط ہوتا ہے۔ نظم کے بیانیے پر ان کی گرفت دیدنی ہے۔ ان کی نظمیں: میرا قاری میرا دشمن، سڑک پر چار آوارہ، ایک نظم روحوں کے نام، بامعنی کا مہمل ہونا، وقت=آسیب، نیند میں ہوں پر جاگ رہا ہوں اور آفتاب زمیں وغیرہ ان کے نقوشِ اول کی رُو سے قابلِ توجہ ہیں۔

یہ سوچتا ہوں
کہ نظم لکھ کر
انہیں بزرگوں کے پیچھے جاؤں
یا مختصر تر کروں سفر کو
کچھ اس طرح سے کہ
کھینچوں زنجیر اور اتر جاؤں

ندیم احمد کے یہاں سوچنے کا طریقہ و عمل ان کو قابلِ ذکر بناتا ہے اور ان کو ممتاز بھی کرتا ہے۔ ان کے یہاں سوچنے کا یہ عمل جس نہج پر جاری و ساری ہے اس کو دیکھ کر یقین کیا جاسکتا ہے کہ ان کا نقشِ دوم ان کی انفرادیت کا اہم شناختی کارڈ ثابت ہوگا۔ البتہ اس کے لیے حافظ شیرازی کی سنت کی پاسداری کا لحاظ شرط ہے۔ خواجہ ء شیراز نے ایک مرتبہ فرمایا تھا:

استادِ غزل سعدی پیشِ ہمہ کس اما
دارد سخنِ حافظ طرزِ سخنِ خواجو

عالم گواہ ہے کہ ہرچند حافظِ شیرازی نے اپنی شاعری پر طرزِ سخنِ خواجو کرمانی کا برملا اظہار کیا ہے لیکن حافظ شیرازی بہر طور اپنے سخن میں موجود ہیں۔وہ لسانِ غیب ہیں، لاریب ہیں۔ ندیم احمد کے ‘غزالِ شب’ کو اگر دیکھنا مقصود ہے تو ایک مرتبہ دیانت داری سے اسے دیکھنا ضروری ہے۔ یہ غزال عجب چوکڑیاں بھرتا نظر آۓ گا۔ اس کی کئی چوکڑیاں ایسی ہیں جن کا کہیں اور ملنا مشکل ہے.
/

ندیم احمد کی شاعری کا بنیادی جوہر اور سروکار ان کی شخصیت میں علم و آگہی اور غور و فکر کے عناصر کا تخلیقی سطح پر باسلیقہ اظہار ہے جس کی قابلِ دید مثالیں ان کے شعری مجموعے ‘غزالِ شب’ میں دیکھی جاسکتی ہیں۔ کمیت کے اعتبار سے یہ مجموعہ مختصر بھی ہے اور ندیم کا نقشِ اول بھی۔ خوبی یہ ہے کہ اپنی متانت اور ذہانت کے سبب یہ نقش پڑھنے والے کے ذہن پر نہ صرف قابلِ توجہ حد تک منقش ہوتا ہے بلکہ نقش ہاۓ آئندہ کے قابلِ قدر اور خوش آئند نقوش کے روشن امکانات کی ضمانت بھی ہے۔

‘غزال شب’ کی قرات کے دوران ایک خوشگوار اتفاق یہ ہوتا ہے کہ قاری کو زبان و بیان کی فاش غلطیوں سے دوچار نہیں ہونا پڑتا۔ اس لحاظ سے اس ندیم احمد کی شاعری میں ایک ایسی تخلیقی فضا قائم ہوتی ہے جو اہمیت کی حامل بھی ہے اور مطالعے پر اصرار کرتی ہے۔ ان کے یہاں جن باتوں کا اظہار ہوا ہے ان سے ایک سوچتے ہوۓ باشعور شخص کا قیافہ بنتا ہے۔ یہ شخص اپنے گرد و پیش بھی آگاہ ہے اور اپنی ذات کی بساط سے بھی باخبر ہے۔ ندیم احمد کی آنکھ میں سیاہ و سفید کی تمیز بھی ہے اور اس پر دانشمندانہ تنقید بھی۔ ایک اہم بات جو ندیم احمد کو دوسروں سےمختلف بناتی ہے اور جس کے لیے قدرے ضبطِ نفس اور ایک خاص بلوغت درکار ہوا کرتی ہے، وہ ہے تمیزِ سیاہ و سفید کے دوران معیار وسطح سے نیچے نہ گِرنا۔

ندیم احمد کی روایت کی پاسداری آگہی اوربصیرت پر قائم ہے اس میں وہ سپردگی نہیں ہے جو عام طور پر ہمارے یہاں روایت کی پاسداری کے نام پر دکھائی دیتی ہے۔ وہ جنون و گریبان کی روابط اور ان کی دیرینہ نسبتوں سے بخوبی واقف ہیں لیکن اپنے سلیقے اور ذہنی معیار کو ملحوظ رکھتے ہوۓ:

پھر اس کے بعد جنوں کیا کرے گا دیکھیں گے
ابھی تلک تو گریبان کا سہارا ہے

ندیم احمد کے یہاں وقت کے ساتھ جنون کی بدلتی قدروں کا احساس بھی ہے۔ اس ضمن میں وہ اپنے تئیں فرائض کی ادائیگی کو انجام بھی دیتے ہیں۔ مقابل کے غیر متوقع جواب پر ان کے ردِ عمل میں کوئی جھنجھلاہٹ یا غصہ نہیں دکھائی دیتا بلکہ ایک ‘چپ’ باقی رہ جاتی ہے۔

جس کے لیے کیا تھا جنوں کا یہ کاروبار
اس نے کہا دِوانہ تو اچھا نہیں لگا

ندیم احمد کے یہاں تجربات کا اختتام ان کو سوچنے کے مراحل میں داخل کر دیتا ہے۔ ان کی اصل ریاضت نتائج پر غور و فکر اور اس کا بیان ہے:

پھر اس کے بعد تیاری کریں گے
گزرنے دو ابھی طوفان سارا

جس وادی میں ندیم احمد سفر پر گامزن ہوتے ہیں وہ اپنی روشنی کے سبب آنکھوں کو چُندھیانے کے لیے کافی ہے۔ وہ اپنی آنکھوں کو ‘پاسبانِ عقل’ کی ہمراہی میں خیرگی سے بچا لیتے ہیں البتہ ابھی وہ ‘دل’ کو تنہا چھوڑنے کا جوکھم اٹھانے کی طرف مائل نہیں ہیں۔ اس کی وجہ ان کا درج ذیل تجربہ بھی ہوسکتا ہے:

جن لوگوں نے بس ذکر ہی سن رکھا ہے تیرا
کچھ روز سے وہ لوگ بھی پگلاۓ ہوۓ ہیں

یا ممکن ہے ان کے یہاں جو ایک خاص طرح کی غیرت ہے وہ مانع رہتی ہو۔ جس کی وجہ سے وہ ہر قسم کی پیش قدمی سے پرہیز کرتے ہوں کیونکہ یہی رویہ ان کی شخصیت میں بھی دکھائی دیتا ہے۔ وہ کم آمیز ہیں اور کم نما بھی۔ وہ جہاں موجود بھی ہوتے ہیں تو اپنے وجود کو کم کرکے ہی موجود ہوتے ہیں لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ ہوش و خرد کے وجود پر پوری دیانت داری کے ساتھ مُصر رہتے ہیں۔ اس کام کو وہ بطورِ فرض انجام دینے میں غیرت کو کنارہ کردیتے ہیں۔ یہ بات الگ کہ چاہیے یہاں بھی کچھ نہیں:

وہ ہاتھ جو پھلاۓ تو مل جاۓ بہت کچھ
لیکن اسے غیرت ہے ضرورت سے زیادہ

جاننے والے جانتے ہیں کہ ایک سوچتے ہوۓ ذہن کا اضطراب کیا ہوتا ہے۔ ایسے اذہان کس طرح کی وحشت کی زد پر ہوا کرتے ہیں۔ ندیم احمد کے اس بات کا اظہار جس سطح پر اور شدت کے ساتھ کیا گیا ہے وہ قابلِ غور ہے۔ ‘دشتِ امکاں’ جیسی منزلِ امکان میں وہ خود کو موجود دیکھتے ہیں اور وہاں بھی ان کی سانس کی کیفیت دیدنی ہے۔ دشتِ امکاں سے بھاگ نکلنے کا تصور کس قدر اذیت ناک ہے، وہ اربابِ فکر سمجھ سکتے ہیں:

نکل کے بھاگ ہی جاۓ گی دشتِ امکاں سے
ہماری سانس بہت دن سے پارا پارا ہے

ندیم احمد کے یہاں Level Headedness ایک ایسی صفت جو ہمارے یہاں کم نظر آتی ہے۔ یعنی آگہی کی سطح پر پُرسکونی اور سمجھداری؛ مشکل حالات میں مناسب فیصلے کرنے کی قابلیت والی صفات۔ یہی وجہ ہے کہ وہ حدِ مقررہ سے باہر نہیں نکلتے اور یہ حد ان کی اپنی طے کردہ ہے جس سے ان کی شخصیت تشکیل پاتی ہے۔ ندیم احمد کے صیغہء واحد غائب کی شکل میں کسی طرف اشارے ملتے ہیں جو اصل فاعل کے طور پر نظر آتا ہے۔

اسی کا حکم چلتا ہے یہاں ساری کہانی پر
اسی کا شوق قصہ مختصر ہونے نہیں دیتا

دوسرے مصرع میں جو خیال پیش ہوا ہے اس کی رُو سے یہ سمجھنا مشکل نہیں کہ دشتِ امکاں میں ندیم احمد کی سانس پارا پارا کیوں ہوئی اور اس کے نکل بھاگنے کی بات کیوں آئی۔ ہمارے سماج کا عمومی رویہ ہے کہ ایسے فرد سے لوگ کنارہ کرلیتے ہیں۔ نتیجے میں تنہائی اس کی جاۓ پناہ رہ جاتی ہے اور جاۓ آرامِش بھی:

رفتہ رفتہ ہم نے سب سے ملنا جلنا چھوڑ دیا
تنہائی میں خوب مزے تھے بھیڑ لگاکر کرتے کیا

پیشے کے اعتبار سے ندیم احمد کا کارزارِ عمل، تدریسِ زبان و ادب ہے۔ ندیم احمد کے یہاں زبان و ادب کے تئیں پاسداری اور سنجیدگی نہ صرف ان کی شخصیت کا نمایاں پہلو ہے بلکہ ان کا امتیاز بھی ہے۔ وہ اپنی پیشہ ورانہ زندگی کے حقائق کو دیکھتے ہیں، سمجھتے ہیں اور ان کا ادبی سطح پر اظہار بھی کرتے ہیں۔:

فقط دو دن کے سیمنیار سے ہی
بدلتا ہے کہیں رجحان سارا

شعر کہنے کو تو کہہ ڈالے مگر شہر میں اب
شور برپا ہے کہ یہ شاعری ہے بھی کہ نہیں

کچھ پرانے سے اوب جاتا ہوں
کچھ نیا بھی کہا نہیں جاتا

اپنی تلاش یا خود کو Explore کرنے کے لیے وہ نسبتا ایک کشادہ میدان کی جانب جب توجہ کرتے ہیں تو وہاں اظہار میں وسعت میں اضافہ نظر آتا ہے۔ ہرچند کہ وہ یہاں اپنے آپ سے ایک جداگانہ سطح پر رابطہ کرتے ہیں لیکن ان کا مطالعہ درمیان میں آ کر اکثر ان کی حمایت کرتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔ ان کی نظموں میں خیال کو اس کے مناسب ترین کرافٹ کے ساتھ پیش کرنے کا عمل قابلِ ستائش ہے۔ وہ موضوع کے لحاظ سے اس کو عمدہ پیرایہ فراہم کرتے ہیں۔ جس کی وجہ سے ان کی نظم باوجود اپنے خیالات کی گہرائی اور گیرائی کے ترسیل میں کامیاب ہے۔ ان کی نظمیں میں غیر ضروری طوالت ناپیدا ہے جس سے ارتکاز کا وصف مضبوط ہوتا ہے۔ نظم کے بیانیے پر ان کی گرفت دیدنی ہے۔ ان کی نظمیں میرا قاری میرا دشمن، سڑک پر چار آوارہ، ایک نظم روحوں کے نام، بامعنی کا مہمل ہونا، وقت=آسیب، نیند میں ہوں پر جاگ رہا ہوں اور آفتاب زمیں وغیرہ ان کے نقوشِ اول کی رُو سے قابلِ توجہ ہیں۔

یہ سوچتا ہوں
کہ نظم لکھ کر
انہیں بزرگوں کے پیچھے جاؤں
یا مختصر تر کروں سفر کو
کچھ اس طرح سے کہ
کھینچوں زنجیر اور اتر جاؤں

ندیم احمد کے یہاں سوچنے کا طریقہ و عمل ان کو قابلِ ذکر بناتا ہے اور ان کی امیتاز بھی عطا کرتا ہے۔ان کے یہاں سوچنے کا یہ عمل جس نہج پر جاری و ساری ہے اس کو دیکھ کر یقین کیا جاسکتا ہے کہ ان کا نقشِ دوم ان کی انفرادیت کا اہم شناختی کارڈ ثابت ہوگا۔ البتہ اس کے لیے حافظ، شیرازی کی سنت کی پاسداری کا لحاظ شرط ہے۔ خواجہءشیراز نے ایک مرتبہ فرمایا تھا:

استادِ غزل سعدی پیشِ ہمہ کس اما
دارد سخنِ حافظ طرزِ سخنِ خواجو

عالم گواہ ہے کہ ہرچند حافظِ شیرازی نے اپنی شاعری پر طرزِ سخنِ خواجو کرمانی کا برملا اظہار کیا ہے لیکن حافظ شیرازی بہر طور اپنے سخن میں موجود ہیں۔وہ لسانِ غیب ہیں، لاریب ہیں۔ ندیم احمد کے ‘غزالِ شب’ کو اگر دیکھنا مقصود ہے تو ایک مرتبہ دیانت داری سے اسے دیکھنا ضروری ہے۔ یہ غزال عجب چوکڑیاں بھرتا نظر آۓ گا۔ اس کی کئی چوکڑیاں ایسی ہیں جن کا کہیں اور ملنا مشکل ہے.
/

کوئی تبصرہ نہیں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے