سالم سلیم کا واہمہ جو وجود بن گیا
(شہرام سرمدی)
فرد کی نشوونما میں، صحبتوں کے اثرات کا مطالعہ بھی اہمیت کا حامل ہے۔ دراصل صحبت ایک معنی میں تربیت گاہ کا کام انجام دیتی ہے۔ ادبی و علمی صحبتیں وہ آلہ ہیں جن کے زیرِ اثر ہونہار بِروا کے چِکن چِکن پات کو نکھرنے کا خوب خوب موقع ملتا ہے٫ جمالِ ہم نشیں کی مہک عطا ہوتی ہے وگرنہ خاک، تو محض خاک ہوا کرتی ہے۔
سالم سلیم ایک ایسا سخن ور ہے جس کی خاک میں قدیم و جدید دونوں علمی و تہذیبی دھارے متانت کے ساتھ تخلیقی سطح پر جمع ہوۓ ہیں۔ وہ مدرسہ فلاح سے فارغِ تحصیل ہے اور دہلی یونیورسٹی سے ڈاکٹریٹ بھی۔ حالانکہ شاعر ہونے کے لیے ان سندوں کا ہونا نہ ہونا چنداں اہم نہیں لیکن فرد کی شخصیت اور تخلیقیت میں مذکورہ عوامل کے نقوش کی موجودگی کا ہونا بھی فطری ہے۔ اس پر نور علی نور، ریختہ سے اس کی وابستگی۔ اس لحاظ سے وہ اپنے اندر تروینی کی شکل اختیار کرلیتا ہے۔
ادب کوئی ایم بی اے یا بی ٹیک کا کورس نہیں جس میں آبجیکٹِو سوالوں کے ذریعے زیادہ سے زیادہ نمبر حاصل کرنے کی دوڑ میں اول آنا کامیابی مانا جاتا ہے۔ ادب، فرد سے زندگی اور اس سے حاصل شدہ تجربے کی سرمایہ گزاری مانگتا ہے۔ اس زاویے سے سالم سلیم کی شاعری نہ صرف اہم ہوجاتی ہے بلکہ اس کو قابلِ ذکر بھی بناتی ہے۔
اگر میں ایک جملے میں کہوں تو سالم سلیم دشتِ وحشت میں اپنےچہرے پر اپنی خاک کی بھبھوت ملنے والا قابل توجہ شاعر ہے۔ ترقی پسندی، جدیدیت، مابعد جدیدیت یا نئی نسل کی گردان کرنے والے مبتدیوں کی آنکھ اس حقیقت سے اب تک محروم ہے کہ شعر کی پہلی شرط شعر ہونا ہے۔ یہ ‘اِزم’ کی نام گزاریاں اور تختی آویزی تو اپنی شناخت کے لیے پریشان سیانوں کی کرتب بازیاں ہیں۔
آج ہم سب لوگ ایک گاؤں کے واسی ہیں۔ سوشل میڈیا نے اکثر رسالوں کے شمارے باز مدیروں کی سامراجیت کو کوسوں پیچھے پھینک چھوڑا ہے۔ آج تقریبا بیشتر سینئر اور نوجوان اہلِ قلم سوشل میڈیا پر موجود ہیں۔ جو نہ صرف اپنی تخلیقات پیش کرتے ہیں بلکہ دیگر تخلیق کاروں کی تخلیقات پر سنجیدگی سے اپنی رائے بھی دیتے ہیں۔ رسائل کے خود اعلان نام نہاد منشی حضرات بھی جو سینئر ناموں کی آڑ میں اپنی شناخت قائم کرنے میں لگے ہیں وہ بھی انہی سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر اپنے مقاصد کے حصول کے کاروبار میں مشغول ہیں۔ اس مقام پر اگر ہم دیکھیں تو سالم سلیم کسی بڑے نام کی آڑ میں اپنے آپ کو منوانے کی کوشش نہیں کرتا۔ وہ شاعری کی بنیاد پر سینئر اور نوجوانوں کے حلقے میں توجہ کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔
سالم کی شاعری ایک ایسے نوجوان کی شاعری ہے جو زندگی کی برہنگی کو دیکھتا ہے اور اپنی روزمرہ زندگی کی معاشی اور سماجی جدوجہد سے جو کچھ وقت اس کے ہاتھ لگتا ہے اس میں وہ زندگی کی وحشتوں کو اجاگر کرتا ہے۔ ان وحشتوں نے اس کے ذہن و دل کے خلیوں کو دگرگوں کر کے رکھ ڈالا ہے۔
‘واہمہ وجود کا’ دراصل استعارہ ہے سالم سلیم کی ذات کا۔ جو اپنے گاؤں سے زندگی کو نسبتا ایک آسودہ راہ پر لانے کے لیے ملک کے مرکز کی طرف روانہ ہوتا ہے اور یہ مرکز اسے بہت کچھ دیتا بھی ہے لیکن ساتھ ہی اس کے وجود ہی کو واہمے میں تبدیل بھی کردیتا ہے۔ جب سالم سلیم جیسا پڑھا لکھا نوجوان وجود کی گم شدگی کے رقص میں محو ہوتا ہے تو ‘واہمہ وجود کا’ جابجا سرِ بازار رقص کرتا نظر آتا ہے۔
بھرے بازار میں بیٹھا ہوں لیے جنس وجود
شرط یہ ہے کہ مری خاک کی قیمت دی جائے
زندگی نے جو کہیں کا نہیں رکھا مجھ کو
اب مجھے ضد ہے کہ برباد کیا جائے اسے
سنا ہے گھر پہ مرا منتظر نہیں کوئی
سو اب کے بار میں ہرگز نہیں سنبھلنے کا
نہ تھا کچھ بھی مری پیچیدگی میں
تو میں نے خود کو سادہ کر لیا ہے
کوئی بتاۓ کہ بین السطور کیا ہوگا
یہ کائنات اگر حاشیہ وجود کا ہے
اب اس کے بعد کچھ بھی نہیں اختیار میں
وہ جبر تھا کہ خود کو خدا کرچکے ہیں ہم
سالم کسی بات کو جب شعر میں ڈھالتا ہے تو اس ہنر سے کہ اس شعر کے ساتھ ساتھ اولین لمس کا احساس ایک دل چسپ تازگی پیدا کرتا دیتا ہے جو اس کے یہاں باسی پن کو داخل نہیں ہونے دیتا۔ سالم کے یہاں شعر ہوتے ہیں ان میں ہنر بازیاں نہیں دکھائی جاتیں بلکہ تخلیقی رحجان غالب رہتا ہے۔ تخلیقی فن پارے میں شعوری ذہانت کی زیادہ دخالت فن پارے کو بے روح بنا دیتی ہے۔ سالم کے یہاں شعری کرافٹ میں توازن کی حرارت نہ صرف ذہن و دل کو گرمی بخشتی ہے بلکہ حضرت آتش کی یاد دلاتی ہے یعنی قاری کو معلوم ہوتا ہے کہ در واقعہ شعر بنانا کہتے کسے ہیں۔ اس کی شاعری، قابل توجہ حد تک شعر گوئی پر اس کی دسترس اور استعداد ظاہر کرتی ہے۔ وہ لفظ میں خود کو پرونے کے ہنر سے واقف ہے۔ اس کی شاعری کے دو پڑاؤ ہیں: (۱) قبل از فکر معاش اور (۲) بعد از حصول معاش۔
‘واہمہ وجود کا’ بیشتر اس کے پہلے پڑاؤ کی روداد کا بیانگر ہے جو اپنی شعری متانت٫ تہذیب و روایت کی سلیقے کے ساتھ پاسداری کے سبب، سنجیدہ ادبی حلقوں میں ایک خوش آئند واقعے کی حیثیت رکھتا ہے اور اپنے عمومی رویے میں دل و نگاہ کو اپنی طرف متوجہ کرنے میں کامیاب ہے۔
اس مجموعے کا استقبال، دراصل اپنی تہذیب اور اس کے رکھ رکھاؤ کا استقبال ہے۔ یہ استقبال ہے حقیقت میں نوجوانوں کے شعری وفور کے دلکش اظہار کا۔ وہ لوگ جو وحشتوں کے امین ہیں اور آنکھ والے ہیں دیکھیں کہ ‘واہمہ وجود کا’ مسلسل کہہ رہا ہے:
بیا جانان تماشا کن ۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کوئی تبصرہ نہیں