ذکر میر کے لطائف میں ایک لطیفہ یہ بھی درج ہے کہ ایک بار ایک قزوینی مرزا صائب کے پاس آیا اورکہا کہ وہ ان کا کلام سننے کا خواہشمند ہے۔ مرزا صاحب شائستہ انسان تھے ، انکار نہ کر سکے اور کچھ عام قسم کے موضوعاتی اشعار سنا دیے اور سوچا کہ شاید کچھہ توصیفی کلمات سننے کو ملیں گے لیکن جو ہوا اس کے عین برعکس تھا۔ قزوینی نے ان کے لئے ایک ناشائستہ لفظ کا استعمال کرتے ہوئے کہا کہ مرزا جو تم دیکھتے وہی نظم کرتے ہو اور اس پر خود کو شاعر بھی سمجھتے ہو۔ شعر پڑھتے ہوئے مجھے اکثر یہ بات یاد اتی ہے کہ یہ شخص جس کا کلام میرے ہاتھوں میں ہے وہ دراصل مرزا صائب ہے یا قزوینی۔ بلا تضحیک و توصیف ایک بات تو صاف طور پر میری سمجھ میں آتی ہے کہ شعر چیزے دیگر است اور شاعر شخص دیگراں۔
ابھی کچھہ ہی دن ہوئے ہیں کہ شہرام سرمدی کی نظموں کی کتاب حواشی میرے پاس آئی۔ پہلے تو یہ خیال گزرا کہ آخر سرمدی نے اپنے کلام کے لئے بھلا یہ عنوان کیوں کر انتخاب کیا ۔ یہی وجہ ہوئی کہ رفتہ رفتہ ، جستہ جستہ ان کی نظمیں پڑھنے لگا کہ شاعری تو باوجود اپنی کم جسامت کے رفتہ رفتہ اور جستہ جستہ ہی پڑھی جا سکتی ہے۔
اب جبکہ اس کتاب میں شامل اسی (80) نظمیں پڑھ چکا ہوں اور یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے کہ یہ نظمیں قرأتِ مکرر کا تقاضا کرتی ہیں۔ اسی درمیان یہ خیال بھی گزرا کہ جو تاثر قائم ہوتا جاتا ہے اسے رقم بھی کرتا جاؤں۔ سو کچھ پختہ اور کچھ خام خیالات حاضر کرتا ہوں۔
تو چلئے ایک بار پھر قزوینی اور مرزا کو یاد کرتے ہیں۔ اور وہ اس حوالے سے کہ سرمدی ظاہر کو نہیں، باطن کو نظم کرتے ہیں یعنی یہ کہ ارضیت سے ماورائیت کا سفر کرتے ہیں۔ آپ ان کی نظمیں پڑھیں اور یہ دیکھیں کہ کس طرح ان کے لفظ پیکر بنتے ہیں، پیکر استعارے، استعارے علامتیں اور علامتیں مِتھ Myth کی صورت اختیار کرتی جاتی ہیں۔ میرے نزدیک یہ مدارج کمالِ شعر کی میزان بندی کا ذریعہ ہیں اور شعری بوطیقا کی تخلیق کا پیمانہ بھی۔ نظموں کی ہیئت کا معاملہ بھی اسی بوطیقا کا ایک اہم حصہ ہے ۔ مناسب ہوگا کہ یہاں یہ بھی کہتا چلوں کہ سرمدی کی نظمیں ہیئت کے اعتبار سے مجھے بطورِ خاص متوجہ کرتی ہیں۔ میرے لئے ان کا یہ کمال کسی صورت کم نہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی نظمیں میری خاص توجہ کا مرکز بن گئی ہیں ۔
اب میرے لئے ایک اہم سوال یہ ہے کہ میں ان کی نظم کی قرأت کیسے کروں۔ سوچتا ہوں کہ کیا نظم ایک لمبی سانس سے مشابہ نہیں ہے جو ظاہر ہے کہ غزل کا خاصہ نہیں ہے۔ یعنی یہ کہ کیا نظم کے مصرعے سانسوں کے زیر و بم کی صورت نہیں ہیں۔ میں تو یہ سمجھتا ہوں کہ معاملہ کچھہ ایسا ہی ہے۔ چنانچہ میں نے یہ جانا کہ سر مدی کا ایک مصرعہ دوسرے مصرعے میں در آتا ہے اور عمومی طور پر ایک نظم دوسری نظم میں در آتی ہے۔ یعنی یہ کہ سرمدی کی ایک نظم میں دوسری نظم کی داغ بیل پڑتی جاتی ہے اور اس طرح حواشی کی نظمیں ایک طویل سلسلۂ نظم کی صورت گری کا جواز بن جاتی ہیں۔
اب دوسری بات۔ اور وہ یہ کہ سرمدی کی نظمیں میرے نزدیک ماضی، حال اور استقبال کے اشاریے ہیں۔ ان کے علامیے ہیں۔ گویا میرے لئے سرمدی کی نظمیں ان نظموں سے یکسر مختلف ہیں جو ہماری قرأتوں کا حصہ رہی ہیں۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ نئی نظم کی ہیئت، قرأت، لفظیات اور اسالیب کے مباحث تو عام ہیں لیکن راشد اور میرا جی کے بعد کی نظم کی بوطیقا اب بھی ہم سے مزید مطالعے کا مطالبہ کر تی ہے۔ یہاں فیض کا ذکر نہیں کرتا کہ وہ ایک دوسری روایت کی مثال ہیں جس کا تعلق سرمدی کی شعریات سے براہِ راست نہیں ہے۔
اگر سرمدی کے واضح ترین نشانات کا ذکر کریں تو مجموعی اعتبار سے میں یہی کہوں گا کہ ان کے یہاں مصرعوں کا در و بست مجھے بہت متوجہ کرتا ہے۔ لفظی، بصری، سمعی اور حَرَکی یپکروں کا مدغم ہونا مجھے اچھا لگتا ہے۔ نظم کا کولاج کی صورت اختیار کرنا مجھے پسند آتا ہے۔ شعری قصہ گوئی کے اسلوب بھی مجھے بھاتے ہیں۔ حیرت کے تجربات سے گزرتے ہوئے ذاتی بالیدگی کا احساس بھی ہوتا ہے۔ ان کے یہاں حسیات کی ہم آہنگی سے جب نظم کی رگیں پھڑکتی ہیں تو لطف دوبالا ہو جاتا ہے۔ ابہام کی صورتیں مجھے پسپا نہیں کرتیں کہ شرح کے رستے بھی اس کے آس پاس سے گزرتے ہیں۔ نظم کا الیگری Allegory بن جانا بھی ان کی تازہ کاری کی مثال بن جاتی ہے۔ تاریخ اور فلسفہ ان کے اہم حوالے ہیں، واہمے سے تیقن کی کیفیت پیدا کرنا، ان کا ایک مخصوص طریقۂ کا ر ہے۔ یعنی یہ کہ ان کی شاعری سکوت سے مکالمے کی ایک صورت ہے۔ پیکر پیکر نظم خلق کرنا، ان کا خاصہ ہے، علوم سے اکتساب کرنا، ان کا ایک رویہ ہے۔ اصحاب و اشخاص ان کی توجہ کا مرکز ہیں۔ رواں دواں اور دم لیتے ہوئے مصرعوں میں ایک صوتیاتی نظام بھی قائم کرتے ہوئے سرمدی مجھے اچھے لگتے۔ کئی اور خصائص بھی ہیں جو قارئین اپنی شعری حِس کی بِنا پر ان کی نظموں کا مطالعہ کرنا چاہیں گے۔
سلسلۂ توصیف طویل ہے اور سرمدی کے شعری سفر کی روداد طویل تر۔ ان کی شاعری کی اساس فلسفیانہ ہے اور فلسفہ میرا میدان نہیں۔ ہاں یہ ضرور پڑھا ہے کہ دیر پا شاعری کی اساس فلسفیانہ ہوتی ہے۔ دوسرے یہ کا ان کا لہجہ سرمدی ہے اور میں سمعی طور پر بے بضاعت۔ سو یہ موقع ہے کہ سلسلۂ کلام مختصر کروں۔ میری یہ تحریر ان سے ایک غائبانہ مکا لمہ ہے۔ ان سے میرى کوئی ملاقات بھی نہیں ہے۔ لیکن ان کی شاعری سے ملنا خوشگوار تجربہ رہا۔ سو یہ باتیں واٹس ایپ پر لکھی ہیں ۔ شاید ان کے لئے ہی لکھیں ہیں بطور خاص۔ اگر وہ چاہیں تو اسے عام کر دیں کہ بقول استاد عالی مقام صلائے عام ہے یاراں نکتہ داں کے لئے۔
والسلام۔
انیس الرحمٰن
کوئی تبصرہ نہیں