ذکر و کار نیکاں: مہتاب حیدر نقوی


ذکر و کار نیکاں: مہتاب حیدر نقوی

(شہرام سرمدی)

ممبئی میں نو برس اقامت کے دوران، پارسی حضرات اور ان کے درمیان اٹھنے بیٹھنے کا مجھے کافی موقع ملا۔ واقف احباب متفق ہوں گے کہ پارسیوں کے مزاج میں رفتار کے اعتبار سے سُرعت عموما کم نظر آتی ہے۔ یہ صفت ان کی حاصل کردہ بڑی بڑی کامیابیوں کی حقیقت کو سمجھنے میں میرے لیے مانع رہا کرتی تھی۔ ایک روز، میں اپنے ایک پارسی دوست کے یہاں گھولوَڈ میں اس کی چیکو واڑی والے گھر پر ٹھہرا ہوا تھا۔ برسرِ تذکرہ جب میں نے اس رمز کو جاننا چاہا تو اس نے بتایا کہ دیکھنے میں وہ آہستہ کام ضرور کرتا ہے لیکن مسلسل کرتے رہنے کی وجہ سے نتیجہ اُیک تیز رفتار والے شخص سے کہیں بہتر ہوتا ہے اور قابلِ مثال بھی۔

مہتاب حیدر نقوی ہماری اردو غزل کا ایک ایسا ہی پارسی ہے۔ بہت سے احباب کے لیے ممکن ہے کہ یہ پارسی بذات خود سلمان فارسی ہوں، تو کوئی مضائقہ نہیں۔ اندیشہ ء عجم نے سب کچھ زیب داستاں کے لیے نہیں بڑھایا۔ فن شعر کے اخلاق کی پاسداری انہی ضروری اضافوں میں سے ایک ہے۔ دین برحق کا احترام و مرتبہ مسلم لیکن ‘ذہبۃ’ پر گامزنی اور زیبائی تو اسی اندیشے نے بہم پہچائی ہے۔ سخن میں جو رعنائی ہے بہت کچھ وہ ‘سمرقند و بخارا’ کو بخشنے سے آئی ہے۔

مہتاب حیدر نقوی کے یہاں کرافٹ کب تخلیق میں ڈھل جاتی ہے اس کی اکثر اوقات چاپ تک سنائی نہیں دیتی۔ جس خاموشی اور توانائی کے ساتھ وہ زندگی میں موجود ہیں، اسی نہج پر اپنی شاعری میں بھی۔ وہ فرد جس کی ضرورت سخن کو ہے۔ سخنے سخنے مہتاب حیدر نقوی کی زبان اور ان کے بیان میں موجود ہے۔ شاعرئ محض کی ورق گردانی سے اوب چکے وہ ذہن جو فردِ مناسب اور فرد کی مناسب بات سننے کے جویا ہیں۔ وہ اس شاعری سے اپنی طلب پوری کرسکتے ہیں۔

مہتاب حیدر نقوی کی غزل میں گوشہ نشینی کی مہک کی سادگی بھی ہے اور ایک ایسا رکھ رکھاؤ بھی ہے جو سخن کا جزو بن گیا ہے۔ ہاتھی کی شناخت کرنے والے ‘روشن دل’ اسے مرصع سازی کا نام دے سکتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ وہ ‘سخن مرصع’ ہے جس میں منصوبہ بند ‘سازی’ ندارد ہے۔ مہتاب حیدر نقوی کے یہاں لفظ بیان میں گھل مل کر کچھ اس طرح کروٹیں لیتا ہے جیسے مخملیں دُلائی کی تہوں میں چھپے دوپٹے کو بڑی بی آہستگی سے از تہہ بہ تہہ نکالا کرتی تھیں۔ یہ تہذیب اب نوادر زمانہ ہوئی لیکن اس تہذیب کا پوری متانت اور دلپذیر فطری انداز کے ساتھ اہتمام مہتاب حیدر نقوی کی غزل میں ملتا ہے۔

مہتاب حیدر نقوی کی شاعری ‘انفرادیت’ لفظ کے عملی معنی کی نمائندہ شاعری ہے۔ یہاں ہر طرح کے سستے بازاری رویے کا ورود ممنوع ہے۔ ان کی ‘بے خبری’ یا ‘نادانی’ دراصل خبر اور دانائی کے دائرے کے اُس طرف کا معاملہ ہے۔ مہتاب حیدر نقوی جیسے زرگر کی نفیس ضربیں اردو غزل کے خط و خال کو روپ دینے میں قابلِ ذکر نقوش کے طور پر بخوبی اپنی آب کے ساتھ منقش ہیں۔ اس آب کی روانی میں مہتاب حیدر نقوی کا بہت کچھ بہہ گیا ہے جس کی بابت سب کچھ یہ نادان خاموشی مگر دل گداز انداز میں کہہ گیا ہے۔

غزل

مطلب کے لۓ ہیں ، نہ معانی کے لۓ ہیں

یہ شعر طبیعت کی روانی کے لۓ ہیں

جو میرے شب و روز میں شامل ہی نہیں تھے

کردار وہی میری کہانی کے لۓ ہیں

یہ داغ محبت کی نشانی کے علاوہ

اے عشق تری مرثیہ خوانی کے لۓ ہیں

آتی ہے سکوت سحر و شام کی آواز

در اصل تو ہم نقل مکانی کے لۓ ہیں

جو رنگ گل و لالہ و نسریں سے تھے منسوب

وہ رنگ اب آشفتہ بیانی کے لۓ ہیں

غزل

باب رحمت کے منارے کی طرف دیکھتے ہیں

کب سے ہم ایک ستارے کی طرف دیکھتے ہیں

جس سے روشن ہے جہان دل و جان نرجس

ہم اسی نور کے دھارے کی طرف دیکھتے ہیں

رخ سے پردہ جو اٹھے،وصل کی صورت بن جاۓ

سب ترے ہجر کے مارے کی طرف دیکھتے ہیں

موجزن ایک سمندر ہے بلا کا جس میں

ڈوبنے والے کنارے کی طرف دیکھتے ہیں

جس پہ آیا ہے یہ اکملت لکم کا آیہ

اسی قرآن کے پارے کی طرف دیکھتے ہیں

آج یوں ہے طلب شربت دیدار کہ بس

اک جزیرے کے نظارے کی طرف دیکھتے ہیں

آنے والے ترے آنے میں ہے کیا دیر کہ لوگ

کس وناکس کے سہارے کی طرف دیکھتے ہیں

۔۔۔

 

All reactions:

18محمد ہاشم خان, Anisur Rahman and 16 others

 

کوئی تبصرہ نہیں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے