قمر صدیقی کی دس غزلیں


قمر صدیقی کی دس غزلیں

غزل

——–

رات کو رات سے بھی بڑھ کے گزارے ہوئے لوگ

یعنی فرقت میں تری چاند ستارے ہوۓ لوگ

سچ تو یہ ہے کہ یہاں کس سے وفا کی تم نے

معجزہ یہ ہے کہ اس پر بھی تمہارے ہوۓ لوگ

نہ ہے قسمت سے شکایت نہ ستم گر سے گلہ

ملتے رہتے ہیں غم عشق کے مارے ہوۓ لوگ

تیرے چہرے کی ملاحت پہ یہ راتیں قربان

تیری آنکھوں میں جو دیکھا تو ستارے ہوئے لوگ

آج بازار میں رونق ہے کہ نکلے ہیں یہاں

شوق پہنے ہوئے زلفوں کو سنوارے ہوئے لوگ

لوگ تو لوگ ہیں کیا ان کا بھروسہ کیجیے

اک ذرا وقت پڑا اور کنارے ہوۓ لوگ

زیست کی دوڑ میں آگے نہیں بڑھنے کے کبھی

ہاتھ پر ہاتھ دھرے پاؤں پسارے ہوئے لوگ …

———–

غزل

——–

پرانے لوگ تھے دنیا نئی نئی نہیں تھی

کہ جنگلوں سے یہ بستی ابھی ملی نہیں تھی

ہوا جہاں بھی ہمیں التباس پانی کا

ندی کا عکس تھا لیکن وہاں ندی نہیں تھی

ہمارے حصے میں آئی ہے کب مکمل سی

بنی تھی جب یہی دنیا تو کچھ کمی نہیں تھی

چلے تھے جب یہ سفر کس قدر سہانا تھا

ہمارے چہرے پہ کچھ دھول بھی جمی نہیں تھی

ہمارا حوصلہ اس وقت تک بلا کا تھا

تمہارے ظلم میں جب تک کوئی کمی نہیں تھی

کہ آسمان بھی اُس پار نیلگوں نہیں تھا

سو یہ زمین بھی اِس پار کچھ ہری نہیں تھی

قمر ہمارا بھی رشتہ تھا رنگ و نکہت سے

یہ زندگی کئی خانوں میں جب بٹی نہیں تھی

———–

غزل

——–

حصار ذات سے باہر بھی اک حصار میں تھا

مرا وجود تو بس تیرے اختیار میں تھا

نئے زمانے کے آداب بھی نئے تھے میاں

خبر میں ہونا تھا جس کو وہ اشتہار میں تھا

ملے جو ہم تو یقیناً خوشی ہوئی ہم کو

مگر وہ لطف سوا تھا جو انتظار میں تھا

بچھڑنے والے تو بس اک ہمیں تھے ورنہ یہاں

زمین اپنے تو چاند اپنے ہی مدار میں تھا

پلٹ کے دیکھا پسِ کارواں تو میں یارو

کسی کی یاد کے اٹھتے ہوئے غبار میں تھا

وہ ایک لمحہ مری زندگی کا حاصل تھا

وہ ایک لمحہ جو ٹھہرا نگاہِ یار میں تھا

وہ التباس تھا یا پھر کوئی حقیقت تھی

میں ہوش میں تھا قمر یا کسی خمار میں تھا

———–

غزل

——–

کوئی خیال کے پردے پہ چل رہا ہے ابھی

چراغ چشمِ تمنا میں جل رہا ہے ابھی

کہیں پہ پھر کوئی فرعون بن رہا ہے خدا

کہیں پہ پھر کوئی دریا ابل رہا ہے ابھی

مرے خیال میں دنیا تو مر چکی کب کی

ہے اس کا عکس جو آنکھوں میں چل رہا ہے ابھی

عجیب شورِ قیامت بپا ہے چاروں طرف

یہ کون پیرہنِ جاں بدل رہا ہے ابھی

وہ کون تھا جو مجھے چھوڑ کر چلا گیا تھا

یہ کون ہے جو مرے ساتھ چل رہا ہے ابھی

یہ وسوسہ کسی خدشے میں ڈھل نہ جائے کہیں

خیالِ خام سا کچھ دل میں پل رہا ہے ابھی

ملے گا مجھ سے بھی لیکن ذرا سا دم لے لے

قمر وہ بھیڑ سے بچ کر نکل رہا ہے ابھی

———–

غزل

——–

ترے خیال کو مہمیز کرتے رہتے ہیں

سو دل کے زخموں کو خوں ریز کرتے رہتے ہیں

انھیں یہ ضد ہے کہ پردہ نشیں رہے الفت

سو ہم بھی عشق میں پرہیز کرتے رہتے ہیں

کھلے ہیں یوں ہی نہیں دل میں پھول یادوں کے

ہم اس زمین کو زرخیز کرتے رہتے ہیں

یہ راستے بھی کہاں سست ہوکے رکتے ہیں

قدم کو ہم بھی ذرا تیز کرتے رہتے ہیں

اُنھیں میں وقت کی نیرنگیاں دکھاتا ہوں

وہ بیٹھے کابل و تبریز کرتے رہتے ہیں

انھیں کی آنکھ میں پانی ہے اِس زمانے میں

زمینِ دل کو جو کاریز کرتے رہتے ہیں

سجائے رہتے ہیں اس پر کتاب یادوں کی

گزرتے وقت کو ہم میز کرتے رہتے ہیں

حدیثِ عشق میں رنج و محن تو لازم ہے

سو خود کو درد سے لبریز کرتے رہتے ہیں

ہمارے حصے میں آۓ تھے نیند سے پہلے

قمر یہ کام جو انگریز کرتے رہتے ہیں

———–

غزل

——–

ویسے نظر تو آتے ہیں محضر الگ الگ

سارے ستم وہی ہیں ستم گر الگ الگ

ساحل بھی ایک، موجہ و گرداب بھی ہیں ایک

پر دیکھنے میں لگتے ہیں منظر الگ الگ

گر ایک ہوں تو بنتے ہیں بنیاد بھی یہی

بکھرے ہوئے یہ راہ کے پتھر الگ الگ

ہے شہرِ نا سپاس میں ہر شخص فرد فرد

مسکن سبھی کا ایک ہے پر گھر الگ الگ

خوشبو تمہاری یاد کی پھیلی ہے چارسو

مہکے ہیں عود و صندل و عنبر الگ الگ

سب کو وہیں پہچنا ہے منزل ہے سب کی ایک

لیکن قمر ہے فکر کا محور الگ الگ

———–

غزل

——–

سچ کہوں تو یہ تمہاری بھول ہے

یار دنیا تو بہت معقول ہے

روزمرہ کے ہی کاموں کی طرح

عشق بھی تو ان دنوں معمول ہے

میں بھی اپنے کام میں مصروف ہوں

 وہ بھی اپنے آپ میں مشغول ہے

تم بھی چلتے چلتے آخر تھک گئے

اور میرے چہرے پر بھی دھول ہے

کیا بتائیں ہجر کا یہ فاصلہ

کس جہاں کا عرض ہے اور طول ہے

کوئی موسم ہو نظر میں ہے خزاں

یار اپنی آنکھ میں ہی پھول ہے

آدمی کو آدمی سے جوڑ دے

اس زمانے میں وہی بہلول ہے

مکر کا یہ دور ہے اور ان دنوں

جذبہء مہر و وفا معزول ہے

اُس کے در پہ تم بھی جاتے ہو قمر

دیکھ لو وہ کس قدر مقبول ہے

———–

غزل

——–

سیدھی سچی بات ہے یہ دن نہیں یارو رات ہے یہ

چھوڑ کے اک دن چل دیں گے دنیا کی اوقات ہےیہ

آنکھ میں غصہ لب خاموش نفی نہیں اثبات ہے یہ

مفت ملے گر دنیا تو بھیک ہے یہ خیرات ہے یہ

ہاتھ ملے پر دل نہ ملے جیت نہیں ہے، مات ہےیہ

یہ ہے طاقت کا نشّہ بچ کے رہنا گھات ہے یہ

غم کو رکھا ہے سینت کے یوں عشق تری سوغات ہے یہ

پھول سے خوشبو کب ہے جدا تیرا میرا ساتھ ہے یہ

اس پر تو کچھ دھیرے چل یار قمر فٹ پاتھ ہے یہ

———–

غزل

——–

یہ مارِ سبز و سیہ تو سبھی ہیں بین کے سانپ

پہ ان تمام سے بڑھ کے ہیں آستین کے سانپ

عصائے عصر بنے گا عصائے موسی کب

زمیں پہ گھوم رہے ہیں منافقین کے سانپ

نہیں یہ ہونٹ نہیں، ہیں یہ لولو و مرجاں

نہیں یہ زلف نہیں، ہیں یہ مہہ جبین کے سانپ

عذاب مار جہنم بھی کچھ پتہ ہے انھیں

ڈرا رہے ہیں یہاں جن کو یہ زمین کے سانپ

امید و بیم سے باہر نکل کے آئیں گے

گماں کے گنج پہ بیٹھیں گے جب یقین کے سانپ

ہمارا نیرو تو بس بانسری بجاتا ہے

ہماری سمت بڑھے آرہے ہیں چین کے سانپ

یہ کنکریٹ کے جنگل، یہ پھول کاغذ کے

ہمارے بچے لیے پھرتے ہیں مشین کے سانپ

ذرا سا وقت پڑا اور کھل گئی آنکھیں

نظر میں آگئے سارے ہی دوربین کے سانپ

عجب طرح کی کہی ہے غزل قمر میں نے

لپک رہے ہیں مری سمت ناقدین کے سانپ

———–

کوئی تبصرہ نہیں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے