تعبیر
معین الدین جینابڑے
یوں تو شام جب ہوتی ہے، اکیلے دھرم پور میں نہیں ہوتی اور چوپال بھی ایک دھرم پور ہی میں نہیں، لیکن شام کے وقت دھرم پور کی چوپال پر جمع لوگوں کے چہروں سے ٹپکتی بشاست اور آنکھوں سے چھلکتا سکون، صاف کہہ دیتا ہے کہ چاہے یہ لوگ منہ سے نہ کہیں، اندر ہی اندر سب یہی سمجھتے ہیں کہ روز دوپہر ڈھلنے کے بعد اور دن ڈھلنے سے پہلے اگر شام کہیں اترتی ہے تو دھرم پور کی چوپال پر!
پتا نہیں یہ ذکر دھرم پور کی چوپال پر اتری کتنی پرانی شام کا ہے، ٹھیک ٹھیک نہیں کہا جا سکتا۔ کہیں لکھا ہوا تو ہے نہیں کہ بات کتنی پرانی ہے اس لیے ہر شخص اپنی سی کہتا ہے۔ کوئی دو ہزار برس بتاتا ہے تو کوئی ڈھائی ہزار برس۔ ہزار ڈیڑھ ہزار برس بتانے والے بھی مل جاتے ہیں۔ سب سے کم اگر کسی نے بتایا ہے تو وہ ہے پانچ سو برس۔ اس لیے بلا پس و پیش یہ کہا جا سکتا ہے کہ کم از کم پانچ سو برس قبل دھرم پور کی چوپال پر ایک شام اتری تھی، جس نے گاؤں والوں کو اچنبھے میں ڈال دیا تھا۔
ہوا یہ کہ دھرم پور کے چودھری دھرم پال اس شام جب چوپال پر آئے تو ان کے تیور ہی بدلے ہوئے تھے۔ وہ، وہ چودھری دھرم پال نہیں تھے جنہیں گاؤں والے جانتے تھے۔ چودھری دھرم پال تو بڑے لیے دیے رہتے تھے۔ ہر کسی کو منہ نہیں لگاتے تھے۔ روز شام چوپال پر آتے ضرور تھے لیکن کچھ ایسے لاتعلق سے بیٹھے رہتے گویا وہ چوپال پر اوروں کے بیچ نہیں، ندی کے کنارے اکیلے بیٹھے ہوں۔ آدمی بڑے ملنسار تھے۔ حفظ مراتب کا بڑا خیال رکھتے تھے۔ غصے کے عالم میں بھی کبھی کسی کو سخت سست نہ کہتے۔ بس مسکرا کر رہ جاتے تھے۔ کم گوئی اور کم آمیزی نے انہیں دوسروں کے حق میں بے ضرر بنا دیا تھا۔ یار لوگوں نے انہیں اﷲ والے قسم کے آدمی مشہور کر دیا تھا اور وہ تھے بھی کچھ ویسے ہی۔ نہ کسی کے لینے میں رہتے نہ دینے میں۔ سدا اپنی موج میں مست۔ اپنی ترنگ سے نکل کر کبھی کچھ کہتے تو ان کے دو ایک دوست تھے جو بات کو پا لیتے ورنہ دوسرے تو سوچتے ہی رہ جاتے کہ انہوں نے کیا کہا۔ مجذوب نہیں تھے لیکن مجذوبوں کی بہت سی باتیں ان کی فطرت میں داخل تھیں۔ اس قدر بے ضرر اور ملنسار تھے کہ سب ان کی قدر کرتے تھے۔ گاؤں میں بڑی عزت تھی ان کی۔ گاؤں کے بڑے بوڑھے بھی ملاقات ہونے پر ان سے بات کرنے اور خیریت پوچھنے میں پہل کرتے اور وہ شیش جھکائے اس سعادت مندی سے جواب دیتے کہ معلوم ہو تا ان کی عمر ساٹھ کی نہیں سولہ کی ہے۔
اس شام یہ ہوا کہ چوپال پر بیٹھ کر ندی کے کنارے ہونے والے دھرم پال پوری طرح چوپال پر آ گئے تھے۔ اس کی خبر وہاں جمع لوگوں کو اس وقت ہوئی جب انہوں نے پہلی مرتبہ دھرم پال کے منہ سے بارہ بٹے چھ سنا۔ یہ بارہ بٹے چھ ایک گالی تھی جو ان دنوں دھرم پور میں خوب چلتی تھی۔ یہ گالی دھرم پور کی اپنی تھی اور صرف دھرم پور ہی میں چلتی تھی۔ اس لیے گاؤں والے موقع و محل کی مناسبت سے اسی ایک گالی کو ہر بار نئے معنوں میں استعمال کرتے تھے۔ چونکہ باقی تمام گالیاں پاس پڑوس کے سبھی گاؤں والوں کی زبان کی نوک پر رہتی تھیں اس لیے دھر م پور والوں کے نزدیک وہ گالیاں اب گالیاں نہ رہیں، گالیوں کی جھوٹن ہو گئی تھیں۔ دھرم پور میں تو بارہ بٹے چھ چلتی تھی اور بڑی شان سے چلتی تھی۔ دھرم پور میں کسی کو کسی پر پیار آتا تو وہ اس کا بارہ بٹے چھ کر دیتا اور اگرکسی کو کسی پر غصہ آتا تو بھی چار و نا چار بارہ بٹے چھ ہی کرتا!
دھرم پور میں بارہ بٹے چھ کہنے کی حد تک رائج تھا۔ سچ مچ ایسا کبھی کسی نے کیا نہیں۔ جس فیاضی کے ساتھ گاؤں میں اس کا چلن عام تھا اس رفتار سے اگر واقعی ہر ایک کا بارہ بٹے چھ ہو جاتا تو کشتوں کے پشتے لگ جاتے اور اس شام کی خنک ہوا کے لمس کو ہم تک پہنچانے کے لیے کوئی نہ بچتا۔
چودھری دھرم پال گاؤں میں اکیلے آدمی تھے جس کا کبھی کسی نے بارہ بٹے چھ نہیں کیا تھا اور نہ کبھی کسی کو انہوں نے اس لائق سمجھا تھا جب کبھی اس کا موقع آتا، جیسا کہ ذکر ہو چکا ہے، وہ مسکرا کر رہ جاتے اور سامنے والا اپنے آپ بارہ بٹے چھ ہو جاتا۔ لیکن آج تو عالم ہی دوسرا تھا۔ مونی بابا، چودھری دھرم پال آج ہر ایک سے بات کر رہے تھے اور باتوں باتوں میں ہر ایک کا بارہ بٹے چھ کئے دے رہے تھے۔ پورا چوپال سانس روکے دم بخود تھا کہ کہاں مجذوب نما چودھری دھرم پال اور کہاں یہ لگاوٹ کی مٹھاس اور تو کسی کی ہمت نہ ہوئی۔ قاضی نورالدین کی بات البتہ دوسری تھی۔ انہوں نے پوچھا،
’’کیوں چودھری! آج بہت خوش معلوم ہوتا ہے ؟‘‘
چودھری تو ویسے ہی الٹ بانسی میں بات کرنے والا آدمی! وہ صاف مکر گیا،
’’نہیں بالکل نہیں!‘‘
قاضی نے اسے چھیڑتے ہوئے پوچھا،
’’تو کیا بہت غمگین ہے آج؟‘‘
’’میں کس کا غم کھانے لگا؟ غمگین ہوں سسرے تم سب۔ تم سب کا بارہ بٹے چھ کرنے کو من کرتا ہے!‘‘
’’وہ تو ہم دیکھ ہی رہے ہیں چودھری۔ بھلا بتا تو خوشی کس بات کی ہے ؟‘‘
’’کہہ جو دیا کہ کوئی خوشی ووشی نہیں‘‘
’’چودھری تو مجھ سے نہیں چھپا سکتا۔ تیرا بچپن کا دوست ہوں۔ چہرہ پڑ ھ لیتا ہوں تیرا‘‘
’’پڑھ لے چہرہ، سر تو مت کھا۔ بے کار کی خوشی مجھ پر لادے جا رہا ہے۔ میں کسی اور کا کروں یا نہ کرو ں تیرا بارہ بٹے چھ ضرور کروں گا۔‘‘
’’کر لینا چودھری لیکن سچ بتا تو خوش نہیں ؟‘‘
’’نہیں!‘‘
’’بالکل نہیں ؟‘‘
’’بالکل نہیں!‘‘
’’تیری پرانی عادت ہے۔ بے بات کی بات کو الجھاتا ہے۔ لیکن تو مجھے الجھا نہ پائے گا۔ آج میں نے تجھے مسجد کے دیے میں تیل ڈالتے ہوئے دیکھا ہے۔‘‘
’’یہ کونسی نئی بات ہے۔ وہ تو میں روز ہی ڈالتا ہوں۔‘‘
’’لیکن چودھری آج تو نے تیل نہیں گھی ڈالا ہے۔ تبھی تو کہہ رہا ہوں کہ تو سسرا خوش ضرور ہے!‘‘
مسجد سے دھرم پال کے رشتے کو پورا گاؤں جانتا تھا۔ پورے گاؤں کو معلوم تھا کہ چودھری کی ماں کے یہاں اولاد گھنٹے ڈیڑھ گھنٹے سے زیادہ نہ جیتی تھی۔ وہ غریب بیسیوں ٹونے ٹوٹکے کر چکی تھی لیکن ہر بار یہی ہوا کہ اس نے بچے کو جنم دیا اور اس کی گود بانجھ رہ گئی۔ چھٹی بار جب وہ امید اور دھڑکے کے بیچ ڈولنے لگی تو اس نے منت مانی کہ اب کے یہ جی جائے تو وہ روز سانجھ کے سمئے محلے کی مسجد کے آنگن کو بہارے گی اور چوکھٹ پر ایک دیا روشن کرے گی۔ ایشور نے چاہا تو وہ دن بھی آئے گا جب وہ بہو بیاہ کر لائے گی۔ اس دن مسجد کی چوکھٹ کے دیے کو اس کا بیٹا اندر لے جا کر محراب میں رکھے گا اور پھر سدا کے لیے اس پوتر استھان کی سیوا کا سمان اس کا ہو جائے گا!
اس دوران دھرم پال کے بیاہ کو چالیس سال تو ہو ہی گئے ہوں گے۔ ان چالیس برسوں میں ایک بھی دن ایسا نہیں آیا کہ دھرم پال نے مسجد کے صحن کی جاروب کشی نہ کی ہو اور اندر محراب میں دیا روشن نہ کیا ہو۔ ادھر عصر کی نماز کے لیے صفیں درست ہونے لگتی ہیں اور وہاں دھرم پال اپنا پیلا صافہ باندھے مسجد کے صحن میں داخل ہوتا ہے۔ وضو کے پانی سے منہ ہاتھ دھوتا ہے۔ پیروں کو خوب رگڑ رگڑ کر صاف کرتا ہے۔ جب اسے پوری طرح اطمینان ہو جاتا ہے تو اندر جا کر ساتھ لائی ہوئی تیل کی کٹوری محراب کے دیے میں خالی کرتا ہے اور دیکھتے دیکھتے دیے کی لو نور بن کر مسجد کے درو دیوار سے ٹپکنے لگتی ہے!
دھرم پال الٹے پیروں باہر آتا ہے۔ مسجد کی سیڑھیوں پر اور صحن میں جابجا بکھری ہوئی نمازیوں کی جوتیوں اور چپلوں کو سمیٹ کر سلیقے سے ایک جگہ رکھتا ہے اور صحن صاف کرنے کے بعد کچھ دیر کے لیے شہتوت کے پیڑ کے نیچے رکھے بڑے پتھر پر ٹِک جاتا ہے۔
کچھ دیر میں امام صاحب سلام پھیرتے ہیں۔ دعا اور مناجات کے بعد ایک ایک کر کے نمازی باہر نکلتے ہیں۔ اپنی اپنی چپلیں پیروں میں اڑا کر آگے بڑھ جاتے ہیں۔ شہتوت کے پیڑ کے نیچے بیٹھا دھر م پال ہر نمازی کے سلام کا فرداً فرداً جواب دیتا ہے۔ لڑکے بالے آگے بڑھ کر اس کے ہاتھ چومتے ہیں اور وہ ان پر اپنی دعائیں برساتا ہے۔
قاضی نورالدین بھی اس کے ساتھ آخری نمازی کے جانے کا انتظار کرتا ہے۔ تمام نمازی جا چکتے ہیں تو امام صاحب باہر نکلتے ہیں۔ دھرم پال آگے بڑھ کر انتہائی عقیدت و احترام کے ساتھ ان کے ہاتھوں کو بوسہ دیتا ہے اور پھر قاضی کے ہمراہ چوپال کا رخ کرتا ہے، جہاں قاضی گاؤں والوں کے ساتھ کچھ وقت گزارتا ہے اور دھرم پال حسبِ معمول خود اپنے ساتھ!
چوپال پر جب دھرم پال اپنے ساتھ گذارنے کا وقت گذار چکتا ہے تو سورج دھیرے دھیرے پچھم کی اور بڑھنے لگتا ہے۔ جیسے جیسے وہ پچھم کی طرف گہرا اترتا ہے، پورب سے ابھرتی اس کی سرخی سرمئی ہونے لگتی ہے۔ اس وقت دھرم پال قاضی کا ہاتھ پکڑ کر محلے کی طرف چل دیتا ہے کہ یہ مغرب کی نماز اور سندھیا کی عبادت کا وقت ہے!
دھرم پال کو بے بات کی بات کو الجھانے کا شوق نہیں تھا۔ یہ اس کی عادت بھی نہیں تھی۔ اصل معاملہ ترنگوں کا تھا۔ وہ الجھ جاتی تھیں۔ دھرم پال تو خیر اپنے میں مگن رہتا گاؤں والے البتہ پریشان ہو جاتے تھے۔ جب کبھی ایسا ہوتا اور اکثر ایسا ہی ہوتا، وہ چپ سادھ لیا کرتا تھا۔ اب بھی کچھ ایسا ہی ہو رہا تھا کہ قاضی نے مسجد کے دیے میں گھی ڈالنے والی بات کہی اور الجھن جاتی رہی۔ چودھری نے اقرار کر لیا کہ آج وہ واقعی بڑا خوش ہے۔ وجہ پوچھنے پر اس نے بتانے سے صاف انکار کر دیا۔ گاؤں والے پوچھ پوچھ کر ہار گئے لیکن چودھری ٹس سے مس نہ ہوا۔ قاضی، چودھری کا مزاج شناس تھا۔ اس نے کہا،
’’چودھری وجہ نہیں بتاتا، نہ بتا لیکن نہ بتانے کا کارن تو بتا؟‘‘
’’بھیا! کارن بس اتنا ہے کہ ابھی بتانے کا حکم نہیں ہے‘‘
پورا دھرم پور سمجھدار لوگوں سے بھرا پڑا تھا۔ سب کے سب شردھا اور آستھا والے تھے۔ انہیں اس بات کا پور ا احساس تھا کہ اﷲ والے قسم کے لوگوں سے کچھ باتیں نہیں پوچھی جاتیں۔ اس لیے گاؤں میں آج تک کسی نے دھرم پال سے یہ نہیں پوچھا کہ وہ کس کے حکم کی بات کرتا ہے۔ ہر بار یہی ہوا کہ جب کبھی دھرم پال نے حکم کی بات کہی سب خاموش ہو گئے ہیں۔ سبھوں نے من ہی من اسے نمسکار کیا ہے اور اپنی راہ لی ہے۔ آج بھی کچھ ایسا ہی ہوا۔ ایک ایک کر کے چوپال خالی ہوتا جا رہا تھا کہ قاضی نورالدین نے دھیرے سے اس سے پوچھا،
’’چودھری یہ بتا حکم کب کا ہے ؟‘‘ چودھری نے اسی لہجے میں جواب دیا،
’’آج رات کا!‘‘
عشاء کی نماز کے بعد قاضی نورالدین نے رات کے پہلے پہر کے بیتنے کا انتظار کیا۔ چودھری کے یہاں جانے کے لیے جب وہ باہر نکلا ہے تو چاندنی پوری طرح کھیت کر چکی تھی۔ چڑھتے چاند کی آخری تاریخیں تھیں۔ ایک دودھیا چادر رات کی سیاہی پرتان دی گئی تھی اور رات کے اسرار تھے کہ اس چادر سے چھن رہے تھے۔ گاؤں پر چاندنی نہیں پر اسرار خوشگواری برس رہی تھی!
ویسے تو ہر رات خود ایک پہیلی ہوتی ہے اور اس میں کہی جانے والی ہر بات پہیلی بن جاتی ہے۔ لیکن قاضی کا تجربہ یہ رہا ہے کہ خوشگوار پر اسراریت سے بھر پور رات پہیلیوں کی نہیں بستارکی رات ہوتی ہے۔ ایسی ہی راتیں ہوا کرتی ہیں جب بے بات کی بات کو الجھانے والے دھرم پال کی خموشی دھیرے دھیرے لفظوں میں ڈھلنے لگتی ہے اور جب اس کی آواز رس بن کر کانوں میں ٹپکتی ہے تو قاضی نورالدین سوچنے لگتا ہے کہ اس آدمی پر ضرور کسی ولی کا سایہ ہے یا اس کی کایا میں کسی مہان رشی کی آتما کا باس ہے۔
چودھری اور قاضی دونوں ندی کے کنارے اس اونچے ٹیلے پر بیٹھے تھے جس کی اونچائی ہمیشہ سے باڑھ کے پانی کی لہروں سے بھی اونچی رہی ہے۔ کہتے ہیں صدیوں پہلے کسی سادھو نے دھونی رمانے کے لیے اس ٹیلے کا انتخاب کیا تھا۔ برسوں کی سادھنا کے بعد جب اس کی تپسیا پوری ہوئی اور اس نے مسکراتی نظروں سے اپنے اطراف پھیلی ہوئی سر شٹی کو دیکھا تو اس کے من میں یہ خیال آئے بغیر نہ رہ سکا کہ دور تک پھیلی اس کھلی زمیں پر سب کچھ ہے لیکن جیون پھر بھی ادھورا ہے۔ پر ماتما نے چاہا تو یہاں ایک گاؤں ضرور آباد ہوگا۔ دھرم پور اس انام سادھو کی نش کام اچھا کا پہلا پھل ہے۔ دھرم پور والے اس سادھو کی عظمت اور بزرگی کے احترام میں اس ٹیلے کو آج بھی بڑا ٹیلہ کہتے ہیں۔ حالاں کہ گاؤں کے دوسرے حصے میں اس سے کہیں بڑے ٹیلے پائے جاتے ہیں۔ پرانی پوتھیوں میں گاؤں کا نام آج بھی ٹیلہ دھرم پور لکھا ملتا ہے، اسے بڑے بوڑھے بھولے نہیں ہیں، نئی پیڑھی کی بات البتہ دوسری ہے!
قاضی نے چودھری سے پوچھا،
’’چودھری بول بات کیا ہے ؟‘‘
’’بات یہ ہے قاضی کہ مجھے درشن ہوئے ہیں۔‘‘
’’مبارک ہو چودھری۔ میں جانتا تھا کہ تجھے ایک دن ضرور۔۔۔‘‘
’’لیکن قاضی میں نے ایسا کچھ نہیں کیا کہ مجھے۔۔۔ میں نے تو کہہ دیا بھگوان سے کہ میں پاپی آدمی ہوں۔ مجھ میں ایسا کوئی گن نہیں جس کے برتے پر میں کوئی مہاتماؤں والی بات سوچ سکوں۔‘‘
’’لیکن چودھری یہ کب کی بات ہے ؟ کل رات کی؟‘‘
’’اور نہیں تو کیا پارسال کی؟ میں سویا تھا۔ آنکھ لگے کچھ دیر ہوئی ہو گی۔ دیکھتا کیا ہوں کہ سامنے بھگوان کھڑے ہیں۔‘‘
’’کچھ کہا انہوں نے ؟‘‘
کہہ رہے تھے وہ مجھ سے بڑے خوش ہیں اور کہہ رہے تھے۔۔۔ اب میں کیسے کہوں۔ سچی بات تو یہ ہے کہ میں نے سیوا ویوا کچھ نہیں کی لیکن وہ کہہ رہے تھے کہ میری سیوا سے وہ بڑے خوش ہیں۔‘‘
’’سیوا تو تو کر رہا ہے چودھری!‘‘
’’کیسی سیوا قاضی؟‘‘
’’چالیس برسوں سے دیکھ رہا ہوں کبھی مسجد میں اندھیرا۔۔۔‘‘
چودھری نے قاضی کی بات کاٹی،
’’قاضی یہ تو نیم دھرم کی بات ہے اس میں سیوا کہاں سے ہو گئی؟‘‘
’’تو باؤلا ہے۔ آگے بول۔‘‘
’’آگے کیا بولوں۔ بھگوان نے کہا وہ میری کوئی ایک اچھا پوری کریں گے‘‘
’’تو!‘‘
’’تو کیا۔ میری تو ایک بھی اچھا نہیں۔ وہ کیسے پوری کرتے‘‘
’’پھر۔۔۔‘‘
’’پھر مجھے یاد آیا کہ ایک اچھا میرے باپو کی پوری نہ ہوسکی۔۔۔‘‘
’’وہ مندر والی؟‘‘
’’ہاں!میں بھگوان سے باپو کی اچھا کہنے ہی والا تھا کہ وہ بولے تیرے پتا کی اچھا تو پوری کر۔ یہاں اس ٹیلے پر میرا مندر بنا۔ قاضی! میں نے چونک کر دیکھا تو میں اس ٹیلے پر کھڑا تھا۔ پلٹ کر بھگوان کی طرف دیکھا تو وہ جا چکے تھے۔ پھر میری آنکھ کھل گئی‘‘
دھرم پال کے والد چودھری یشپال صرف گاؤں ہی کے نہیں پوری تحصیل کے بڑے زمیندار تھے اور ٹھاٹ دار رئیس تھے۔ زمینداروں والی کوئی لت ان میں نہیں پائی جاتی تھی اس لیے ٹھسے سے زندگی بتانے کے بعد بھی اتنا کچھ چھوڑ گئے کہ ان کی آنے والی سات پشتیں بیٹھی کھاتی رہیں اور پھر بھی ختم نہ ہو۔ خدا ترس انسان تھے۔ پرائی پیڑ کو اپنی جانتے تھے اور اپنی حیثیت اور مرتبے کو پچھلے جنم کے کرموں کا پھل سمجھتے تھے۔ وہ ایک گھنے برگد کی چھاؤں کی طرح دھرم پور پر چھائے ہوئے تھے۔ دھرم پور کو بھی یہ چھاؤں خوب راس آئی تھی۔ دونوں ایک دوسرے کی پہچان بن گئے تھے۔ تحصیل میں جب کبھی جاتے، اپنا نام کبھی نہ لیتے۔ بس اتنا کہتے کہ ہم دھرم پور سے آئے ہیں اور تحصیل میں دھرم پور چودھری یشپال والا دھرم پور کہلاتا تھا۔
مزاج کے بڑے سخت تھے اور اپنی بات کو اپنی آن سمجھ کر نبھاتے تھے۔ اپنے فیصلوں اور نج کے معاملات میں کسی کی دخل اندازی برداشت نہیں کرتے تھے۔ چودھرائن تک کو یہ آزادی حاصل نہیں تھی۔ ویسے گھر میں چودھرائن کا بڑا مان تھا۔ وہ بڑی نیک اور پارسا بی بی تھیں۔ ان کے میکے مادھوپور میں بچپن سے ان کی تربیت مذہبی ماحول میں بڑے سلجھے ہوئے ڈھنگ سے ہوئی تھی۔
مادھو پور والوں کی کرشن بھکتی کا رنگ بڑا گہرا تھا۔ دور دور تک مادھو پور کی جنما شٹمی مشہور تھی۔ جس دھوم سے وہاں کرشن لیلا ہوتی وہ تو بس دیکھنے سے تعلق رکھتی تھی۔ بھگوان کرشن کی جیون گا تھا وہاں کے بچوں کی گھٹی میں پڑی ہوئی تھی۔ گاؤں کی اور لڑکیوں کی طرح چودھرائن بھی بچپن ہی سے سری کرشن کی پرم بھکت تھیں۔ فرق یہ تھا کہ دوسری لڑکیوں کی آئیڈیل میرا بائی یا رادھا تھیں تو ان کے آئیڈیل گو سائیں تلسی داس تھے۔ کم عمری ہی میں تلسی داس کے جیون کی ایک گھٹنا ان کے دل پر نقش ہو گئی تھی۔
کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ تلسی داس کچھ بھکتوں کے ساتھ بھگوان وشنو کے مندر میں گیے۔ سبھوں نے شیش نو اکر پر نام کیا لیکن تلسی داس جیسے تنے کھڑے تھے ویسے ہی کھڑے رہے۔ جب ان سے پوچھا گیا تو انہوں نے کہا،
’’پرنام تو میں بھی کرتا لیکن ان کے ہاتھ میں دھنش نہیں ہے۔‘‘
بھکتوں نے کہا،
’’گوسائیں! یہ پرتیما سوئم بھگوان وشنو کی ہے۔ دھنش تو ان کے اوتاری روپ کا آبھوشن ہے۔‘‘
گو سائیں بولے،
’’جو بھی ہو۔ رام کا بھکت کسی اور کے سامنے جھکنے سے رہا۔ وہ وشنو کے سامنے بھی تبھی جھکے گا جب اس کے ہاتھ میں دھنش ہوگا۔‘‘
بھکتوں نے سمجھایا،
’’گوسائیں! آپ گیانی ہو کر اپ شبد بول رہے ہیں۔ جان پڑتا ہے گیان کا بڑا گمان ہے آپ کو!‘‘
گو سائیں پھر بھی اڈگ رہے۔ انہوں نے کہا۔
’’بھکت کو کیسا گمان اور کس کا گمان! میں تو بھکت ماتر ہوں‘‘
اس پر کسی نے بڑے ہی تیکھے سور میں کہا،
’’معلوم ہوتا ہے آپ کو اپنی بھکتی ہی کا گمان ہو گیا ہے‘‘
اب کے گو سائیں خاموش رہے۔ گیان اور بھگتی کے گمان میں الجھنے والے بھکتی کی آن کو کیا سمجھتے۔ جتنی گہری پینٹھ ہوتی ہے اتنی گہری بات آدمی سمجھ سکتا ہے۔ اس لیے ہر بات ہر آدمی کو سمجھائی نہیں جاتی۔
گوسائیں ایک ٹک لگائے بھگوان وشنو کی مورت کو دیکھتے رہے اور وہ سب پھٹی پھٹی نظروں سے کبھی گو سائیں کی طرف دیکھتے تو کبھی بھگوان وِشنو کی مورتی کی اور۔ ذرا سی دیر میں ان کو لگا کہ بہت دیر ہو گئی ہے۔ وہ گو سائیں کو اکیلا اندر چھوڑ کر باہر جانے کے لیے پلٹنے ہی والے تھے کہ انہوں نے دیکھا کہ بھگوان کی مورتی کی جگہ سوئم بھگوان پرکٹ ہوئے ہیں۔ ان کے ایک ہاتھ میں دھنش بھی تھا اور وہ مسکرا رہے تھے۔ ساکشات بھگوان کو دیکھ کر ان پر عجیب کیفیت طاری ہو گئی وہ سوچتے ہی رہ گئے کہ کیا کریں اور کیا نہ کریں۔ اتنی دیر میں گو سائیں نے شیش نوا کر پر نام کیا ور آشیر واد دے کر باہر نکل آئے۔
بچپن ہی سے چودھرائن خود کو کرشن کا ویسا ہی بھگت سمجھتی آئی تھیں جیسے گو سائیں تلسی داس بھگوان رام کے تھے۔ اس لیے جب شادی کے دو ایک برس بعد ہی چودھری یشپال نے گاؤں میں وشنو کے اوتار شری رام چند رجی کا مندر بنانے کا ڈول ڈالا تو چودھرائن سوچنے لگیں کہ سیاپتی کا ایک مندر تو ویسے ہی پہلے سے گاؤں میں ہے کیوں نہ ان سے کہہ کر کرشن بھگوان کا مندر بنوایا جائے۔
چودھرائن نے ایک دن خوب جتن کر کے چودھری کو گھیرا اور باتوں باتوں میں اپنے من کی بات کہہ دی۔ چودھری نے اوں ہاں کر کے بات ٹالنے کی کوشش کی تو چودھرائن بڑے تیہے سے بولیں۔
’’دیکھو جی مندر سیاپتی کا نہیں برج بہاری کا بنے گا۔ میں کہے دیتی ہوں۔ ہاں!‘‘
اس پر چودھری آپے سے باہر ہو گئے اور برس پڑے،
’’بے وقوف عورت! اتنی دیر سے سن رہا ہوں ایک ہی رٹ لگا رکھی ہے کہ سیاپتی کا مندر نہیں بنے گا۔ کیا تیرے کہنے سے میں دوسرا مندر نہ بنواتا جو یہ کہتی ہے کہ برج بہاری ہی کا مندر بنے گا۔‘‘
چودھری کی بات تو ٹھیک تھی۔ چودھرائن یہ بھی کہہ سکتی تھیں کہ ایک مندر برج بہاری کا بھی بنوا دو۔ چودھرائن یوں کہتی تو وہ ایک نہیں دس مندر بنوا دیتے لیکن اب تو وہ ہتھے سے اکھڑ گئے تھے۔ انہوں نے فیصلہ کر لیا کہ اب نہ تو سیاپتی کا مندر بنے گا اور نہ ہی مور مکٹ دھار ی برج بہار ی کا!
اس واقعے کے بعد ہی یہ ہوا کہ ان کے یہاں جا پے تو ہوئے لیکن نام کرن کی شبھ گھڑی نہ آسکی۔ چودھرائن نے ہر بار منتیں مانی، ہر بار ٹونے ٹوٹکے کئے لیکن مراد بر نہ آئی۔ برادری میں عورتیں باتیں کرنے لگیں۔ بڑی بوڑھیوں نے سمجھایا کہ کسی طرح چودھری کو منانا بہت ضروری ہے۔ اگر دونوں مندر نہ بنے تو کل کا نام آگے نہیں بڑھے گا۔ چودھرائن نے چودھری کے سامنے بڑی عاجزی کی لیکن چودھری آخر چودھری تھے۔ انہیں نہ مانناتھا اور نہ وہ مانے۔ تھک ہار کر چودھرائن نے سوچا کہ چودھری نہیں مانتے تو نہ مانیں۔ بھگوان ہی کو کسی طرح راضی کر لیا جائے۔ حالانکہ وہ بھگوان کو راضی کرنے کے سارے جتن کر چکی تھیں۔ جس جس نے جو کہا انہوں نے وہ کیا تھا۔ اس کے باوجود انہیں یقین تھا کہ بھگوان اتنے کٹھور نہیں ہو سکتے جتنے چودھری ہیں۔ چونکہ اور سب تو وہ پہلے ہی آزما چکی تھیں اس لیے اب کی بار انہوں نے ایک انوکھی ترکیب سوچی۔ یہ موقع اس ترکیب کو دہرانے کا نہیں۔ ہاں! اتنا کہا جا سکتا ہے کہ چودھرائن نے آخر بھگوان کو راضی کر لیا، جس کا جیتا جاگتا ثبوت چودھری دھرم پال ہے جو آج بڑے ٹیلے پر بیٹھا قاضی نورالدین کو اپنا خواب سنا رہا ہے۔ ایک ایسا خواب جس پر ہر حقیقت قربان کی جا سکتی ہے!
’’اچھا یہ بتا بھگوان کس روپ میں آئے تھے ؟‘‘
’’یعنی؟‘‘
’’یعنی یہ کہ وہ دھنش دھاری روپ میں تھے یا مور مکٹ۔۔۔
’’تو اوتار کی پوچھ رہا ہے ؟‘‘
’’ہاں!‘‘
’’اور میں سوئم بھگوان کی کہہ رہا ہوں‘‘
’’تونسوئم بھگوان آئے تھے ؟‘‘
’’اور نہیں تو کیا؟‘‘
’’لیکن کس روپ میں ؟‘‘
’’پھر وہی روپ۔ قاضی تجھے عقل کب آئے گی؟‘‘
’’چودھری میں مورکھ ہوں تبھی تو پوچھ رہا ہوں۔ یہ بتا بھگوان دکھنے میں کیسے تھے ؟‘‘
’’بھگوان جیسے تھے ویسے ہی تھے!‘‘
’’میرا مطلب ہے تو نے اتنے سارے مندر اور اتنی ساری مورتیاں دیکھی ہیں، بھگوان کس مندر کی مورتی جیسے دِکھ رہے تھے ؟‘‘
’’بھگوان بھی کہیں کسی مندر کی مورتی جیسے ہوتے ہیں۔ مندر کی مورتی ہو گی بھگوان جیسی۔‘‘
’’چل تو ان کا ورنن کر دے۔ آگے ہم سمجھ لیں گے۔‘‘
’’ورنن لے کر کیا کرے گا؟‘‘
’’ارے مورکھ! جب ہم مندر بنائیں گے تو اس میں مورتی تو استھاپت کرنی ہوگی کہ نہیں۔ تو ورنن نہیں کرے گا تو گاؤں والے کس کی مورتی کو استھا پت کریں گے ؟‘‘
اب کہیں جا کر دھرم پال نے قاضی کے سوال کو سمجھا اور اس کی اہمیت اس پر آشکار ہوئی لیکن یہ وہ سوال تھا جس کا جواب دھرم پال کے پاس نہیں تھا۔
’’ورنن والی بات تو بھیا مجھ سے نہیں ہو سکتی۔ سب کچھ پوری طرح صاف نظر آ رہا تھا۔ لیکن پھر بھی سب کچھ دھندلا دھندلا سا تھا۔ بھگوان تھے تو بھگوان تھے۔ اس نظر سے میں تھوڑے ہی دیکھ رہا تھا کہ کل کو تجھے ورنن دینا پڑے گا؟‘‘
دوسرے دن گاؤں بھر میں مندر ہی کا چرچا رہا۔ جس نے بھی سنا ہاتھ کا کام روک دیا۔ ابھی دوپہر بھی نہیں ہوئی تھی کہ گاؤں کا سارا کاروبار ٹھپ ہو گیا۔ گاؤں والے ایسے کسی مندر کا تصور نہیں کر سکتے تھے جس میں کسی دیوتا کی مورتی استھا پت نہ کی جا سکے۔ سب فکر مند تھے کہ کہیں دھرم کے نام پر ادھر م تو نہیں ہو رہا۔ سوال یہ تھا کہ مندر بنایا جائے یا نہیں۔ ایسے مندر کو بنانے سے کیا فائدہ جس میں کوئی مورتی استھا پت نہ کی جا سکے!
شام کو گرام سبھا بلائی گئی۔ گاؤں کے معتبر و معزز لوگوں میں سے پنچ چنے گئے۔ پنچوں نے پہلے دھرم پال کی بات سنی۔ دھرم پال نے اپنے ڈھنگ سے اپنی بات کہی۔ بیچ بیچ میں قاضی نور الدین کو ترجمانی کے فرائض انجام دینے پڑے۔ ہر بار قاضی کی وضاحت کے بعد پنچ دھرم پال سے پوچھ لیتے کہ کیا اس نے وہی بات کہی تھی جو قاضی نے بیان کی اور دھرم پال ہاں کہہ کر اثبات میں گردن بھی ہلا دیتا تھا۔
پنچوں نے گاؤں والوں سے پوچھا کہ مندر بنانے یا نہ بنانے کے بارے میں ان کی کیا رائے ہے اور یہ بھی کہ مندر میں مورتی استھاپت ہوگی یا نہیں اور اگر ہوگی تو کس کی؟ اس مسئلے پروہ کیا کہتے ہیں۔ گاؤ ں والوں نے ایک آواز ہو کر کہا کہ مندر بنے یا نہ بنے اس کا فیصلہ پنچ کریں اور فیصلہ کرتے وقت یہ خیال رہے کہ ادھرم نہ ہو۔ اسی طرح اگر مندر بنتا ہے تو اس میں مورتی استھا پت ہوگی یا نہیں، ہوگی تو کس کی ہوگی یہ فیصلہ بھی پنچ کریں اور یہ خیال ضرور رکھیں کہ ادھر م نہ ہو۔
انہیں یقین تھا کہ بھگوان نہ کرے، اگر ادھرم ہوا تو گاؤں کا بارہ بٹے چھ ہو جائے گا اور ہمیشہ ہمیشہ کے لیے سکھ شانتی اور سمر دھی کی آسمانی برکتیں گاؤں سے اٹھ جائیں گی۔ وہ جانتے تھے کہ دیوتاؤں کی کرپا اور کرودھ میں انتر بہت کم ہوتا ہے!
پنچوں نے آپس میں مشورہ کرنے کے بعد دوسرے دن شام تک سبھا بر خواست کر دی۔ دوسرے دن بھی گاؤں کا کاروبار ٹھپ رہا۔ کام میں کسی کا من ہی نہیں لگ رہا تھا۔ سب اسی فکر میں تھے کہ دیکھیں پنچ کیا فیصلہ سناتے ہیں۔ شام سے پہلے ایک ایک کر کے سب چوپال پر جمع ہو گئے۔ عصر کی نماز کے بعد دھرم پال اور قاضی نورالدین بھی آ گئے تو باقاعدہ سبھا کی کارروائی شروع ہوئی۔
پنچوں نے متفقہ طور پر فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ دھرم پال کا پورا جیون دھرم کی سیوا میں بیتا ہے۔ ان کی راست گوئی اور نیک چلنی کی قسم کھائی جا سکتی ہے۔ یہ ان لوگوں میں سے ہیں جن کی ہستی کسی بھی گاؤں کے لیے خیرو برکت کا موجب ہو سکتی ہے۔ ان کو جو بشارت ہوئی ہے وہ پورے گاؤں کے لیے روحانی مژدے کی حیثیت رکھتی ہے۔ اس بشارت کا احترام کرتے ہوئے مندر کی تعمیر میں پورے گاؤں کو ان کا ساتھ دینا چاہیے۔ رہی بات مورتی استھا پت کرنے کی تو پنچ اس فیصلے پر پہنچے ہیں کہ بھگوان کے اَنیک روپ ہیں اور ہر روپ بھگوان کا ہے۔ اس لیے یہ غیر اہم بات ہے کہ کس مندر میں کس کی مورتی استھاپت کی گئی ہے۔ لیکن اس حقیقت کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ بھگوان کا ہر روپ کسی خاص صفت کا مظہر ہوتا ہے۔ بھگوان کا وہ روپ جس میں انہوں نے دھرم پال کو درشن دیئے، ایک ایسا روپ ہے جسے آج تک کسی نے مورتی میں نہیں ڈھالا ہے۔ بھگوان ہی جانیں وہ روپ کس صفت کا مظہر ہے۔ خود دھرم پال اس روپ کا ورنن نہیں کر پا رہے ہیں اس لیے ہم مندر بنا کر اس کے پٹ کھلے چھوڑ دیں گے تاکہ جب اور جس روپ میں چاہیں بھگوان آئیں اور آ کر آسن کی شوبھا بڑھائیں!
کھلے کواڑ کے مندر کی شہرت اس کی تعمیر کی تکمیل سے قبل ہی دور دور تک پھیل گئی۔ مستریوں اور کاریگروں کا ہاتھ بٹانے کے لیے دھرم پور والے ہی کیا کم تھے کہ پاس پڑوس کے گاؤں والوں نے بھی آ کر اپنی خدمات پیش کیں۔ سبھوں نے مل کر بڑی عقیدت کے ساتھ مندر بنانے میں دن رات ایک کر دیئے۔ جب مندر بن کر تیار ہوا تو پنچوں کے فیصلے کے مطابق کے اس کے کواڑ کھلے چھوڑ دیئے گئے!
پرسوں کا واقعہ ہونے تک تو یہ کواڑ کھلے ہی تھے اور سو، سوا سو برس پہلے تک یہاں برس کے بارہ مہینے جاترا لگی رہتی تھی۔ ہر جاتری کے من میں بھگوان کے کسی ایک روپ کی مورت بسی ہوتی ہے۔ اس مندر میں اس مورت کے پرتی بھکت کی نشٹھا اور شردھا کی اپنے آپ پریکشا ہو جاتی تھی۔ ویسے بھگوان خود بھکتوں کی پریکشا لینے کا ارادہ نہیں رکھتے تھے۔ دھرم پور کی چوپال پر جب پنچوں نے اپنا فیصلہ سنایا تو بھگوان کو مجبوراً یہ فیصلہ کرنا پڑا کہ اس مندر میں وہ اپنے سچے بھکتوں کو اس روپ میں سا کشات درشن دیں گے جس کی انہوں نے شردھا پوروک پوجا ارچنا کی ہو!
اچھے دنوں کا ذکر ہے اس لیے سچے بھکتوں کی کمی نہیں تھی۔ اس مندر میں بھکتوں کی شردھا، پریکشا کے چھن کو وردان کے چھن سے بدل دیتی تھی۔ جس دیش میں بھگوان کے تینتیس کروڑ روپ پوجے جاتے ہوں وہاں ایک ہی جگہ ہر روپ میں بھگوان کے سا کشات درشن پانے کے وردان نے دھرم پور کو ایک مہان تیر تھ استھان بنا دیا۔ جب تک اچھے دن رہے، ہر پل کسی نہ کسی روپ میں وہاں بھگوان براجے ہوے ہوتے تھے۔
وقت گذرتا رہا۔ دھرم پور کی نئی حیثیت نے اسے بہت جلد ایک مہانگر بنا دیا۔ اس کے مہانگر بنتے ہی دیس کی تمام اہم منڈیوں سے اس کا سیدھا رابطہ قائم ہو گیا اور پھر ذرا سی دیر میں خود دھرم پور ایک بڑی منڈی میں بدل گیا۔ دھرم پور دن دونی رات چوگنی ترقی کی راہوں پر بڑھتا چلا گیا۔ ایک مہان تیرتھ اِستھان اور دیس کی اہم بیوپاری منڈی کی دوہری حیثیت نے مل کر دھرم پور کے شب و روز ہی بدل دیے۔
دھرم پور اب پہلے والا دھرم پور نہیں رہا۔ بس اس کا نام رہ گیا۔ وہ کیف و سرور برسانے والی شامیں اب یہاں نہیں اترا کرتیں۔ ہونے کو تو دن بھی ہوتا ہے اور رات بھی آتی ہے لیکن دن دن نہیں معلوم ہوتا ور رات رات نہیں جان پڑتی۔ یہ دونوں اب چاند اور سورج کا معمول بن کر رہ گئے ہیں۔ دھرم پور کے حصے میں اگر کچھ آیا ہے تو وہ ہے دن کی سیاہی اور رات کی چکا چوند۔ اندھیرے اجالے کی بازی پلٹ گئی ہے۔ سچی اور سیدھی بات یہ ہے کہ دھرم پور کے بارہ بٹے چھ ہونے کے پورے آثار رونما ہو چکے ہیں۔
اور تو اور بارہ بٹے چھ بھی دھرم پور سے رخصت ہو چکا ہے۔ یہاں کے لونڈوں ہی کو نہیں بڑوں کو بھی بارہ بٹے چھ کی بجائے ون کا ٹو اور ٹوکا فور کہتے ہوئے سنا گیا ہے۔ اب صرف کہنے پر اکتفا نہیں کیا جاتا بلکہ اکثر یہ ہوتا ہے کہ وہ بلا تکلف پہلے ایک کے دو اور پھر دو کے چار کر گذرتے ہیں۔ واقعتاً!
اسی لیے تو صورت واقعہ یہ ہے کہ دن رات دن رات نہ رہے کچھ اور ہو گئے ہیں۔ چونکہ یہ بات ہوہی گئی ہے اس لیے اب گھر بازار ہو گئے ہیں اور بازاروں میں گھر بن گئے ہیں۔ تھانہ، تھانہ نہ رہا چانڈو خانہ معلوم ہوتا ہے اور چانڈو خانے کے دروازے پر بڑی توندوں والے سپاہی کھڑے جھولا کرتے ہیں۔ شہر بھی تو شہر معلوم نہیں ہوتا۔ پتا نہیں کیا ہو گیا ہے۔ غارتگر دندناتے پھرتے ہیں اور کوئی ان سے کچھ نہیں کہتا۔
یہ سب دیکھ کر کبھی کبھی یہ خیال آتا ہے کہ یہ کوئی اور جگہ ہے، دھرم پور نہیں اور یہاں رہنے والے دوسرے ہی لوگ ہیں دھرم پور والے نہیں۔ لیکن پھر سوال اٹھتا ہے کہ اگر یہ دھرم پور نہیں تو یہاں مسجد کے محراب میں دیا کیوں ٹمٹما رہا ہے اور وہ اس ٹیلے پر بنے بڑے مندر کا کلس بھی تو جگمگا رہا ہے۔ یہ اور بات ہے کہ اب پریکشا کے چھن کو وردان کے چھن سے بدلنے والی وہ بھکتی نہیں رہی!
مندر کے کواڑ ہر گز بند نہ ہوتے لیکن اِسے کیا کیا جائے کہ پرسوں راتوں رات یہاں سری کرشن جی کی مورت پر کٹ ہو گئی۔ صبح ہونے تک جنگل کی آگ کی طرح یہ خبر پورے شہر میں پھیل گئی۔ جس نے بھی سنا اس نے کانوں پر ہاتھ رکھ لیے۔ دل مانتا نہیں تھا لیکن آنکھوں دیکھی کو جھٹلا بھی نہیں سکتے تھے۔ پورے شہر پر دہشت اور سراسیمگی چھا گئی۔ سناٹا چھا گیا تھا چاروں طرف۔ ایسا معلوم ہو رہا تھا کہ آسمان سے ماتم برس رہا ہے۔
پورا شہر مغموم تھا لیکن کرشن منڈلی کے ممبر جشن منا رہے تھے۔ منڈلی کے ادھیکش بابو گووردھن داس کے بنگلے پر مجمع لگا ہوا تھا۔ آپس میں بدھائیاں دی جا رہی تھیں۔ مٹھائی سے منہ میٹھے ہو رہے تھے اور پٹاخے بھی چھوٹ رہے تھے۔
لوگ باگ اب اس بات کو بھول بھال چکے کہ بابو گوردھن داس گھر کا چولہا گرم رکھنے کے لیے شروع شروع میں کیا کام کرتے تھے۔ یادداشت پلٹ کر جہاں تک جاتی ہے یہی یاد پڑتا ہے کہ پہلے بھی یہ نیتا تھے اور اب بھی نیتا ہیں۔ اتنا فرق ضرور ہوا ہے کہ پہلے ان کا شمار چھوٹے موٹے قسم کے نیتاؤں میں ہوتا تھا اور اب ان کی گنتی اہم لیڈروں میں ہوتی ہے۔ ان دنوں دوہی تو نیتا ہیں جن کے مزاج اور موڈ پر دھرم پور کی قسمت کا انحصار ہے۔ ایک بابوجانکی داس اور دوسرے بابو گوردھن داس!
دونو ں کی حریفائی پرانی ہے۔ دونوں ساتھ ہی سیاست کے اکھاڑے میں اتر ے تھے۔ گوردھن اِدھر ادھر ہاتھ پاؤں ہی مارتے رہ گئے اور جانکی داس نے کچھ ایسا چکر چلایا کہ پہلے بڑے مندر کے بورڈ آف ٹرسٹیز کے ممبر اور بعد میں صدر بن گئے۔ وہ دن ہے اور آج کا دن، نگر سیوک کے الیکشن میں ہر بار انہوں نے دوسروں کی ضمانتیں ضبط کروا دی ہیں۔
گوردھن داس کرشن منڈلی کے زور پر اب کہیں جا کر اس قابل ہوئے تھے کہ ان کی ہار اور جانکی داس کی جیت میں فرق گھٹ گھٹا کر ہزار بار ہ سو ووٹوں کا رہ گیا تھا۔ انہوں نے موقعے کو غنیمت جانا اور جلوس کی تیاریاں شروع کر دیں۔ منڈلی کے ممبروں کو ضروری ہدایتیں دے کر دوسرے شہروں کے کرشن بھکتوں سے فون پر رابطہ قائم کیا۔ وہ سب تو جیسے تیار ہی بیٹھے تھے۔ شام ہوتے ہوتے دھرم پور میں جے شری کرشن کے نعرے گونجنے لگے۔ جلوس کی قیادت بابو گوردھن داس کے علاوہ بھلا کون کر سکتا تھا۔
شہر کے گلی کوچوں میں گھوم گھوم کر اپنی طاقت اور ایکتا کا مظاہرہ کرنے کے بعد جلوس نے مندر کی راہ لی۔ ہزاروں لاکھوں کرشن بھکتوں نے بڑے مندر کو چاروں طرف سے گھیر لیا۔ اس دوران کرشن منڈلی کے ممبر منچ اور لاؤڈ اسپیکر کا انتظام کرچکے تھے۔ جلوس کے قائد اور پرم کرشن بھکت بابو گوردھن داس نے مجمعے سے خطاب کیا۔
کرشن بھکتوں کو برج بہاری کے اس ادنیٰ سیوک کا پرنام! آج میں اس پوتر استھان سے اعلان کرنا چاہتا ہوں کہ ہم سب کو دیش کی صدیوں پرانی پر مپرا پر فخر ہے اور ہم سب اس کے رکھوالے ہیں۔ اس پر مپرا کی سرکشا کے لیے ہم اپنی جانیں تک قربان کر دیں گے۔ ہمیں زندگی نہیں اپنی دھارمک پر مپرا پیاری ہے۔
یہ خوشی کی بات ہے کہ یہ صدیوں کا پرانا مندر جو پہلے دن سے ویران پڑا تھا اب سری کرشن کے سوئم بھُو مندر میں بدل گیا ہے۔ بھگوان کے اس فیصلے کو ہم قبول کرتے ہیں اور اس مندر کی سرکشا کی قسم کھاتے ہیں۔
بھکت جنو! اچت یہی ہے کہ سری کرشن سوئم بھومندر کا کام کاج اب کرشن منڈلی کو سونپ دیا جائے اس لیے میں بڑے مندر کے ٹرسٹیوں سے ونمر پرارتھنا کرتا ہوں کہ وہ ٹرسٹ کی ممبر شپ سے الگ ہو جائیں۔
آپ سب پہلے سے جانتے ہیں کہ کرشن منڈلی سیوکوں کی جماعت ہے۔ اسے ستا اور شاسن سے کچھ مطلب نہیں۔ ہم سے جیت کر کوئی ہم سے کچھ چھین نہیں سکتا۔ لیکن اسے نہیں بھولنا چاہیے کہ سری کرشن کے یہ ہزاروں لاکھوں سیوک اپنا سیوا دھرم نبھانے کے لیے جان پر کھیل سکتے ہیں۔
بھکت جنو! اب ہمیں دیر نہیں کرنی چاہیے۔ آج ہم مندر کے کواڑ بند کر، پرتی کا تمک روپ سے اس کا کام کاج اپنے ہاتھوں میں لیتے ہیں اور پرن کرتے ہیں کہ جب تک مندر کرشن بھکتوں کے حوالے نہیں کیا جاتا ہم اپنا آندولن جاری رکھیں گے!‘‘
گوردھن داس نے بڑی کاری چوٹ کی تھی۔ کوئی دوسرا ہوتا تو کمر کھول کر اکھاڑے سے الگ ہو جاتا۔ بابو جانکی داس یوں ہار ماننے والوں میں سے نہیں تھے۔ یہ تو وہ جانتے تھے کہ عدالت اور پولس کے پھیر میں پڑنا لاحاصل ہے۔ عدالت کی جیت ہار سے بدتر ہوتی ہے اور جہاں تک پولس کا سوال ہے، کل تک ان کے ساتھ تھی لیکن آج پلڑا گوردھن کی طرف جھکا ہوا ہے۔
بابو جانکی داس منجھے ہوئے کھلاڑی تھے۔ انہوں نے بڑے مندر کے بورڈ آف ٹرسٹیز کی صدارت سے استعفیٰ دے دیا۔ شہر کے رام بھکتوں کو جمع کیا۔ ایک رام منڈلی بنائی اور خود اس کے ادھیکش بن گئے۔ دوسرے شہروں کے رام بھکتوں سے فون پر رابطہ قائم کیا۔ وہ سب تو جیسے تیار ہی بیٹھے تھے۔ شام ہوتے ہوتے دھرم پور میں جے شری رام کے نعرے گونجنے لگے۔ جلوس کی قیادت بابو جانکی داس کے علاوہ بھلا کون کر سکتا تھا۔
شہر کے گلی کوچوں میں گھوم گھوم کر رام بھکت اپنی طاقت اور ایکتا کا مظاہر ہ کر چکے تو جلوس نے مندر کی راہ لی۔ ہزاروں لاکھوں رام بھکتوں نے مندر کو چاروں طرف سے گھیر لیا۔ رام منڈلی کے ممبر منچ اور لاؤڈ اسپیکر کا انتظام پہلے سے کر چکے تھے۔ جلوس کے قائد اور پرم رام بھکت بابو جانکی داس نے مجمعے سے خطاب کیا۔
’’رام بھکتوں کو سیاپتی کے اس ادنیٰ سیوک کا پرنام!‘‘
آپ سبھی جانتے ہیں کہ رام کے اس داس کو کبھی بھی ستّا کا لوبھ نہیں رہا۔ جب کبھی دھرم اور ستّا کے بیچ چناؤ کی گھڑی آئی ہے میں نے دھرم کو چنا ہے، ستا کو نہیں۔ جب کبھی سیوا اور ستا کے بیچ چناؤ کی گھڑ ی آئی ہے میں نے سیوا کو چنا ہے، ستا کو ٹھکرایا ہے۔ بڑے مندر کی کرسی کی اور کچھ لوگ ستّا کی لوبھی نظروں سے دیکھتے ہیں۔ سیوا بھاؤ سے نہیں۔ آپ کو یہ بتاتے ہوئے مجھے خوشی ہو رہی ہے کہ آج ایک بار پھر میں نے بھکتی اور سیوا کے مارگ کو چنا ہے۔ میں نے مندر کے ٹرسٹ سے استعفیٰ پہلے دیا اور بعد میں جلوس کی قیادت سوئیکار کی۔
بھکت جنو! ہمارے شہر میں جو کچھ ہوا وہ نہیں ہوتا تو اچھا تھا۔ یہ ہمارے دیس کی پرمپرا کے بالکل خلاف ہے۔ یہ ہماری پرمپرا کا گھور اپمان ہے اور ایک ایسی بھول ہے جسے سدھارا نہیں جا سکتا۔ کواڑ بند کر دینے سے مندر کی مریادا بھنگ ہونے کے کارن مندر کو ملا ہوا ساکشات درشن کا وردان بھی جاتا رہا۔ اب اس کی حیثیت پہلے جیسی نہیں رہی۔ اب یہ ایک عام مندر ہے۔ ایک ایسا مندر جو اپنے دیوتا کی مورتی کی پرتکشا کر رہا ہے۔ وہ مورتی اور کسی کی نہیں سری رام چند ر جی ہی کی ہو سکتی ہے۔ بھکت جنو! آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ سرکاری گزٹ میں لکھا ہے کہ چودھری یشپال یہاں رام مندر ہی بنانا چاہتے تھے۔
اس لیے میں تمام رام بھکتوں کی اورسے کرشن منڈلی سے ونمر پرار تھنا کرتا ہوں کہ وہ مندر پر اپنے دعوے سے دست بردار ہو جائے۔ اب یہ کرشن بھکتوں کی اخلاقی ذمہ داری ہے کہ وہ آگے بڑھ کر خود اپنے ہاتھوں سے مندر پر لگے تالے کو کھولیں اور اپنی خوشی سے اس کی چابی رام منڈلی کے حوالے کریں۔ آج ہم پر ن کرتے ہیں کہ جب تک مندر رام بھکتوں کے حوالے نہیں کیا جاتا ہمارا آندولن جاری رہے گا۔ رام بھکتوں کو جو ہزاروں، لاکھوں کی تعداد میں ہیں، مندر اپنی جان سے زیادہ پیارا ہے۔ اگر کوئی آزمانا چاہتا ہے تو آزما کر دیکھ لے۔‘‘
مندر تو کرشن بھکتوں کو بھی جان سے زیادہ پیارا تھا۔ ان کے حوصلے بھی یہی کہہ رہے تھے کہ کوئی آزمانا چاہتا ہے تو آزما کر دیکھ لے۔ تعداد میں بھی وہ کسی سے کم نہیں تھے پھر وہ کیوں ہیٹے رہتے۔ انہوں نے اپیل کی کہ رام منڈلی کے بے بنیاد دعوے کی مذمت میں کل شہر کا سارا کاروبار بند رکھا جائے۔
دھرم پور والے خوب سمجھتے تھے کہ مہذب سماج میں حکم یا دھمکی کا دوسرا نام اپیل بھی ہے۔ اس پہلی اپیل ہی سے وہ ابھی سنبھلے نہیں تھے کہ شہر میں دوسری اپیل گشت کرنے لگی۔ رام منڈلی نے شہریوں سے درخواست کی تھی کہ مندر کی مریادا بھنگ کرنے اور اس پر جبراً قبضہ کرنے جیسی کرشن منڈلی کی مذہب اور سماج دشمن حرکتوں کی مذمت میں پرسوں شہر کا کاروبار بند رکھا جائے۔
شہریوں کی جان ہر طرح آفت میں تھی۔ دو دنوں کا بند دوہر ی قیامت سے کم نہ تھا۔ ایک بند جی جانا آگ کے دریا کو صحیح سلامت پار کرنے کے برابر تھا۔ یہاں تو دو دو بند درپیش تھے۔ ایک میں جی بھی گئے تو دوسرے میں جینا معلوم۔ ہر پہلو سے غور کرنے کے بعد یہ بات صاف ہو گئی کہ جان و مال کی سلامتی کو کسی طرح یقینی نہیں بنایا جا سکتا۔ نہ کہیں جائے امان تھی نہ کوئی راہ مفر۔ زمین کے لیے وہ پرائے ہو چکے تھے اور آسمان ان کے لیے بے گانہ تھا۔ انتہا درجے کی بے بسی اور مایوسی کے عالم میں انہیں بے ساختہ خدا کی یاد آئی اور انہوں نے چاہا کہ اس سے دعا کی جائے تو ان پر روشن ہوا کہ وہ دعا کے آداب بھول چکے ہیں!
ان حالات میں وہی ہوا جو ہونا تھا۔ آدھا شہر پہلے دن لٹ کر قلاش اور جل کر راکھ ہوا تو دوسرا آدھا دوسرے دن۔ زندگی ہر طرف سے کھنچ کر قبرستان اور شمشان میں آ رہی تھی اور یہ دونوں پھیلتے چلے جا رہے تھے۔ یہ اتنے پھیلے کہ ان کی حدیں شہر کی حدوں سے جا ملیں۔ معلوم ہوتا تھا کہ اٹھارہ دنوں کی جنگ یہاں دو دنوں میں لڑی گئی ہے۔ دھرم پور دھرم پور نہیں کروکیشتر کا میدان ہے جہاں ہارنے والے کی ہار تو ہوتی ہے جیتنے والا بھی مات کھاتا ہے اور دونوں کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہیں رہتے۔
بڑا مندر جو کبھی جانکی داس تو کبھی بابو گوردھن داس کی فتح کے نشان کی حیثیت رکھتا تھا آج دونوں کی شکست اور رسوائی کی علامت بن گیا تھا۔ اس کے ہوتے اب وہ شہر میں سر اٹھا کر نہیں چل سکتے تھے۔ کسی سے آنکھ ملا کر بات نہیں کر سکتے تھے۔ دونوں اکیلے پڑ گئے تھے اور دونوں چوٹ کھائے ہوئے تھے۔ ایک دوسرے کی چوٹ سہلانے کی خاطر رات کا پہلا پہر بیتنے کے بعد جب دونوں ندی کنارے ملے ہیں تو سارے میں بن اماوس کے اماوس کا اندھیرا پھیل گیا!
رات کی عملداری میں اندھیرا تو ہوتا ہے۔ اندھیرے کے باوجود کسی وقت دھرم پور کی راتیں نورانی اور رومانی ہوا کرتی تھیں۔ آج پہلی بار کالی رات نے دھرم پور میں ڈیرہ ڈالا تھا اور اس کی تاریکی کا مقابلہ کرنے کی سکت کسی میں نہ رہی تھی۔ سب بے بس، لاچار اور بے سدھ پڑے تھے سوائے اس ایک دیے کی لو کے جو شہر کی پرانی مسجد کے محراب میں رکھا تھا۔
دھرم پور کے مقدر میں لکھی یہ کالی رات ضرور ٹل جاتی لیکن ابھی رات کا دوسرا پہر ختم نہیں ہوا تھا کہ بڑے مندر کے آنگن سے سر سراتے ہوئے دو سایے نکلے اور لپک کر اندھیرے میں گم ہو گئے۔ اندھیرے میں ان کے گم ہوتے ہی ایک زور کا دھماکہ ہوا اور آن واحد میں مندر کی جگہ اس کے ملبے نے لے لی۔
مندر کے ڈھہ جانے کے ساتھ ہی وہ آخری دیا بھی بُجھ گیا جو تنِ تنہا اس رات سے لوہا لے رہا تھا جو صدیوں پر بھاری تھی!
کوئی تبصرہ نہیں