حواشی: "شہرام کا رقصِ سرمدی”


حواشی: "شہرام کا رقصِ سرمدی”
تبصرہ: رضوان الدین فاروقی

شہرام سرمدی کا مجموعہ کلام "حواشی ” زیر مطالعہ ہے جو نظموں پر مشتمل ہے۔ اس سے قبل ان کا ایک شعری مجموعہ "ناموعود” کے نام سے منظر عام پر آچکا ہے۔ اسے میری بدقسمتی کہیے کہ وہ مجموعہ میری نظر سے نہیں گزرا۔اس کی وجہ یہ رہی کہ میں اس وقت شہرام سرمدی صاحب کے حلقہ احباب میں شامل نہیں تھا۔ شہرام صاحب سے میری شناسائی فیسبک کے توسط سے ہی ہوئی۔ حالانکہ میری ان سے کبھی ملاقات نہیں ہوئی لیکن ان کی نظموں اور غیر جانبدارانہ تبصروں سے ان کی علمی بصیرت اور فنکارانہ صلاحیتوں کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے۔
ان کے غیر جانبدارانہ تبصرے پڑھ کر مولانائے روم کا یہ شعر بیساختہ یاد آجاتا ہے جو میں سمجھتا ہوں ان کی شخصیت کے مصداق بھی ہے :

فارقم فاروقیم غربیل وار
تاکہ کاہ از من نمی یا بدگزار

ان سے بڑا محتاط ہوکر بات کرنا پڑتا ہے کیونکہ پتہ نہیں وہ کب کس جملہ پر آپ کی گرفت فرما لیں اس کا آپ کو اندازہ نہیں رہتا۔ بہرحال یہ چند باتیں ان کی شخصیت کے حوالے سے بطور تمہید پیش کیں ورنہ اصل مدعا تو ان کے مجموعہ کلام "حواشی” کی رسید پیش کرنا ہے جو اس وقت میرے پیش نظر ہے۔

حواشی کی نظمیں اپنے اندرون میں بہت کچھ سمیٹے ہوئے ہیں ۔ یہاں جو بیان ہے اس کے بین السطور میں دیکھا جائے تو ایک دنیا آباد ہے۔ یہاں فکر و فلسفے کے چراغ بھی روشن ہیں، مادیت کے گھنے اندھیرے بھی ہیں اور تصوف کے نورانی رنگ بھی۔ حواشی کی شاعری کا جائزہ لینے سے قبل میں یہاں پروفیسر ناصر عباس نیر کی کتاب "نظم کیسے پڑھیں” کا اقتباس پیش کرنا چاہتا ہوں:

"اکثر لوگ جدید نظم کی دنیا میں کھلنے والے دروازوں کو پہچان لیتے ہیں، ان تک پہنچ بھی جاتے ہیں، مگر انھیں کھولنے، اور اندر کی نیم تاریک دنیا میں داخل ہونے سے ہچکچاتے ہیں ؛ شاید اس لیے کہ یہ دروازے محض قدموں کی چاپ سے کھلتے ہیں، نہ دستک سے؛ انھیں خود کھولنا پڑتا ہے۔ کسی بھی نئے دروازے کو خود کھولنا، اندیشہ ناک عمل ہے: ایک آرٹ ہے، ایک احتیاط طلب تکنیک ہے، اور ایک ذمہ داری ہے۔ جدید نظم کی قرات بھی اندیشہ ناک ہے، ایک آرٹ ، ایک تکنیک اور ذمہ داری ہے۔ اکثر لوگ جدید شاعری کے دروازے کے ضمن میں پرانے طریقے استعمال کرنا چاہتے ہیں؛ وہ چاہتے ہیں کہ جوں ہی قدم رنجہ فرمائیں، ان کی مانوس آہٹ سے دروازہ وا ہو جائے، یا جیسے ہی وہ دستک دیں، آگے ان کے استقبال کے لیے کوئی شخص حاضر ہو ان کا ہاتھ پکڑ کر انھیں اندر کی پرتکلف، آرائشی دنیا میں لے جائے ۔ جدید نظم ایک ایسی میزبان نہیں جو آپ کی پرتکلف ضیافت کا اہتمام کرے۔ وہ سرے سے میزبان ہی نہیں۔ وہ آپ کی ہم سفر بننے کا ایک ایسا امکان رکھتی ہے، جسے آپ نے خود بروے کار لانا ہے۔ (الخ) جدید شاعر خود کو ابتدا یا انتہا میں نہیں، وسط میں دریافت کرتا ہے۔ ابتدا ماضی ہے، اور انتہا مستقبل ہے، جب کہ وسط زمانہ حال ہے۔
اس حوالے سے جب ہم شہرام سرمدی کی نظموں کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہمیں ایسی ہی دنیا سے واسطہ پڑتا ہے جس میں داخل ہونے کے لیے ہمیں ظاہر سے زیادہ باطن کی جانب رجوع کرنا پڑتا ہے اور باطن ہی وہ کھل جا سم سم ہے جو اس خزانے کی کلید ہے۔ شہرام سرمدی کی نظموں میں لفظوں کا یہ استعاراتی نظام جو نظم کو ہمارے اذہان پر مختلف انداز میں اثر انداز کرتا ہے اس کو ہم اگر غور سے دیکھیں تو یہ لفظ اپنے ظاہری معنی کے علاوہ بین السطور میں بھی بہت کچھ کہتے نظر آتے ہیں اور میں سمجھتا ہوں کہ آج جو نئی نظم اہل دانش کی توجہ کا مرکز ہے یا ہو سکتی ہے وہ یہی فکر ہے کہ بیان واقعہ کے پشت پر اصل محرکات کیا ہیں۔

ان کی ہر نظم اپنے اندر علامتوں اور استعاروں کا ایک سیل بے پناہ رکھتی ہے اور جب ہم ان علامتوں اور استعاروں کے بین السطور میں جاتے ہیں تو کہیں ماضی کی وہ بازگشت بھی سنائی دیتی ہے جس میں ظل الٰہی کا زوال بھی ہے محل سراؤں کا کی سازشیں بھی ہیں اور وہاں کی ٹکسالی زبان کا بہتا دریا بھی۔ یہ اشارتی زبان جو ابھی میں نے لکھی ہے اس کا محرک یہ نظم ہے۔

چند نا مطبوعہ تراشے
۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔

ظل الہی کے گزرنے کی خبر

قلعہ معلیٰ۔
روزن و محراب – خاموش و خمیده
در چقیں بوسیدہ و کہنہ
حرم کے طاقچے – کالک میں لتھڑے

ریختہ بانو۔
بظاہر کسی میرسی
گوشہ نا امنیت میں
در حقیقت اپنے آئندہ کو اک سر سبز سا
چہرہ نیا دیتی ہوئی

خواجہ سراؤں کی امڈتی بھیڑ
ہر جانب سے ہر لحظہ
شہنشاہی کے دعوے
اور خود اعلانی
ہتھیلی کا وہ مس ہونا بہم
گدّوں سے اڑتی تالیاں

درویش۔
کوچہ داغ میں
مستانہ و اراک تارے پر گاتا ہوا :
” اردو ہے جس کا نام ۔۔۔”
_________

اسی طرح ان کی ایک اور نظم "حضرت دہلی” بھی ہے ۔ دہلی جو کہیں نئی دہلی کے نام سے اور کہیں پرانی دہلی کے نام سے بزرگوں کے مزارات اور شہنشاہوں کے نشانات سے بھری پڑی ہے ۔ اب کو شخص اس تاریخ سے پوری طرح واقف ہے اس کو اس نظم کے بیانیہ میں کوئی اجنبیت نہیں محسوس ہوگی کہ کل تک جہاں آدمی آہستہ رو، آس پاس کے مناظر جن میں شاہی مسجدیں اور صوفیوں کے مزارات بھی ہیں، قدیم اور جدید سڑکیں بھی ہیں، آج کی تیز رو میٹرو نے ان تمام مناظر کو دھواں کردیا ہے۔

ان کی نظموں میں ایک توانا موضوع وقت بھی ہے جو کبھی ماضی کے اوراق سے نکل کر جامع مسجد کی اونچی سیڑھیوں یا قلعہ معلیٰ کی خون آلود فصیلوں کے پس منظر میں مغل شہزادوں کا پیج و تاب دکھاتا ہے اور کبھی ملا عبدالصمد کے حوالے سے بلی ماران کے اس گلشن نا آفریدہ کا دیدار کراتا ہے جسے غالب کہتے ہیں۔ یہی وقت جب عصر حاضرکے کیف و کم کو سمیٹتا ہے تو کہیں تصفیہ بیان میں اور تہذیب گفتار بیان میں حکایات ہوتی ہیں اور کہیں گلیوں سے گزرتے ہوئے حیلہ گر اور شکایت فرسودہ کی شکل میں معاشرے کا ایک کینوس ہمارے سامنے آجاتا ہے۔ گومتی کے ساحل پہ پہنچتے ہی افتخار عارف کے ساتھ ساتھ احمد جہاں گیر اور ان کے درج ذیل اشعار یاد آجاتے ہیں جو میرے خیال میں کہیں نہ کہیں سرمدی کی شاعری اور اس کی لفظیات سے سمبندھت لگتے ہیں۔ اسی لیے انھیں یہاں ٹانکنا ضروری سمجھتا ہوں :
شمع دانِ غزل سے بھڑکتی ہوئی، بٙلّی ماراں میں کوئی حویلی نہیں
گومتی کے کنارے اندھیرا ہوا، مرثیہ سن کے مجلس سے بانکے گئے

چِق اٹھائی تو دنیا کے بازار میں، خواہشوں کی نجاست کا انبار تھا
ہم نے بجتا ہوا ہر کٹورہ سنا، اور کھڑکی سے چپ چاپ جھانکے گئے

شہرام سرمدی نے اپنی نظموں میں ہندی و سنسکرت الفاظ کا بھی نہایت خوش اسلوبی سے خلاقانہ استعمال کیا ہے۔ یہ الفاظ (سمے، دُوار، آواگمن،سندور، بھکشو، بھکشا مدہ، مون، سرو منگل، ساون، سوریہ گرہن، سوگند، وانی، جنموں وغیرہ ) ان کی نظموں میں گویا موتیوں کے مانند جڑے ہوئے ہیں اور ان کا استعمال اتنا والہانہ ہے کہ سرمدی کے لیے بے ساختہ داد نکلتی ہے۔
شہرام سرمدی کا تصوف کے حوالے سے مطالعہ یقیناً عمیق ہے اور انہوں نے مولانا روم سے لے کر حضرت داتا گنج بخش (علی ہجویری) اور دیگر صوفیائے کرام کے افکار و نظریات کو بہت گہرائی سے پڑھا ہے ۔ جبھی ان کی نظموں میں تصوف کے رنگ رہ رہ کر روشن ہوجاتے ہیں ۔اس حوالے سے دیکھا جائے تو ان کی نظمیں "خاموشی کا احیا”، قصّہء تازہ سا لگتا ہے، چشم بددور، گندمی آواز، حکایت: تصفیہ کے بیان میں، حکایت تہذیب گفتار کے بیان میں وغیرہ اس کی عمدہ مثالیں ہیں ۔

بہرحال شہرام سرمدی جہانِ شعر و سخن کا ایسا دریائے لفظ و معنی ہے جس کی تہہ میں علامتوں اور استعاروں کا خزانہ موجود ہے جس تک پہنچنے کے لئے غواصی شرط ہے اور میں سچ پوچھیے تو ساحل آشنا بھی نہیں ۔ پھر بھی ایک کشش ہے جو مجھے کھینچے لیے جاتی ہے حواشی کی طرف۔

آخر میں بغیر کسی تشریح کے یہ چند نظمیں جو ورق گردانی کے دوران مجھے روک کر اپنی کہانی سناتی رہیں وہ یہاں پیش کررہا ہوں ۔

خاموشی کا احیا
۔۔۔۔
تصرف آسمانی خامشی پر کرنے والے
کاش یہ بھی سوچتے
جس روز خاموشی
صدا کی شکل میں آزاد ہو گی
یہ زمیں کس کس طرح برباد ہو گی

میں ابھی بغداد میں جب تھا
تو دیکھا
اک عجب ہنگامہ برپاتھا
سید پرچم کے زیر سایہ
خاموشی کا احیا تھا

کہ نوحہ تھا ؟

(تصرف خامشی پر کرنے والوں نے
صدا کے رنگ بے رنگی کو آخر کیوں نہیں دیکھا )

میں اکثر سوچتا ہوں
جو بھی کچھ ہے”
اتنا بے ارزش نہیں
اس کو نظر انداز کر کے
غیر ہے حاصل کریں
یعنی جو ہے زائل کریں
وقت سحر جس دم پرندے چہچہائیں
کیا قباحت ہے
اذاں تاخیر سے اک دن لگا ئیں
_________

دیکھو تو ذرا
۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔

بے سبب ہی
اس طرح اندر چھپے ہو
تم کو حاجت ہی نہیں ہے
غار کی
عنکبوتی تار کی
دیکھو تو چہرے کو ذرا
کتنے گھنے تاروں کا اس پر جال ہے
کیا حال ہے
اس حال میں
باہر سے کوئی وار ہو
ممکن نہیں
البتہ اندرکس سے یلغار ہو
مسمار ہو
اس خوف اور خطرے سے خالی
زائچے میں دن نہیں
________

لفظ ممنوعہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ لفظ ممنوعہ
ابھی موجود ہے
ہر چند سطح لب پر
آنکھوں سے نظر آتا نہیں
لیکن

میان لب
سخن جو کر رہا ہے
وہ ‘سخن’ ہونے نہیں دیتا

حکایت سے سماعت تک
سخن کے بین حائل لفظ ممنوعہ
وہ رخنہ ہے
سخن ہونے نہیں دیتا
کوئی ‘میں’ ہے
جو ‘من’ ہونے نہیں دیتا

(ماخوذ : دی بک آف میر داد از میخائیل نعیمہ)
__________

یہاں اور نظمیں بھی پیش کی جاسکتی ہیں لیکن تحریر کی طوالت کو مدنظر رکھتے ہوئے فی الحال انہیں پر اکتفا کرتے ہیں ۔ اس کتاب کو نہایت دیدہ زیب سرورق کے ساتھ بازگشت بکس نے شائع کیا ہے۔ اسے ایمازون (Amazon.in) سے آرڈر کیا جاسکتا ہے ۔

کوئی تبصرہ نہیں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے