ایک روز حاشیے کی اہمیت و افادیت اور اس کے سیاقی معنی پر تبادلہ خیال ہوا اور آج اسی کی جمع کی صورت میں "حواشی” کے عنوان سے شہرام سرمدی کاشعری مجموعہ منظر عام پر آگیا ۔ اتنی بات تو سبھی جانتے ہیں کہ سیاست میں "حاشیہ” کنارہ لگا دینے والے فرد یا کم اہمیت رکھنے والے شخص کے لیے استعمال ہوتا ہے لیکن علوم وفنون میں اس کی حیثیت واہمیت بنیادی متن کی گرہ کشائی کرنے والے آلہ یا کلید کی ہوتی ہے۔ حاشیہ کی نظمیں پڑھتے وقت ایسا محسوس ہوتا ہے کہ گویا دنیا بھر میں بکھرے پڑے مخفی و عیاں معاملات کو ترتیب یافتہ صورت میں پیش کرنا تخلیق کی ایک نوع ہو سکتی ہے تو ان معاملات یا یوں کہہ لیجئے کہ مضامین کی ثقالت و دقاقت اور گہرائی و تہداری کی تعبیر و تشریح تخلیقی تصور جمال کے ساتھ ظاہر کر دینا اس کی دوسری صورت ہو سکتی ہے۔ شہرام مذکورہ دونوں صورتوں کو پیش کرنے میں دلچسپی لیتے ہیں۔ ذاتی طور پر وہ مجھے تب زیادہ پرکشش و تہدار اور زیادہ معنی خیز معلوم ہوتے ہیں جب ان کی نظمیں پڑھتے وقت صرف انہی کی یاد آتی ہے۔ غالبأ وہاں پر وہ اپنے اصل ڈکشن اور اسلوب کے حصار کے پابند ہوا کرتے ہیں۔
بستی کے مضافات میں, میں سمجھ نہیں سکا, کنج روح میں, فرق خط, مرزا اچھن, حربہ فرسودہ اور آخری آدمی کا بیان جیسی نظمیں مجھے بے حد پسند ہیں. اس کے بہت سے اسباب ہو سکتے ہیں لیکن بس اتنا عرض کرنا ہے کہ ان نظموں کو پڑھنے کے بعد یا تو شہرام سے یا ان کی نظموں کے کرداروں سے یا پھرخود سے ملاقات ہو جاتی ہے.
اس مجموعے کے آخر میں "یہ دشت جنوں دیوانوں کا” کے عنوان سے مجاز, مسعود ٹامی, مجاہد بھائی, عبدالرحمن بجنوری, شہریار، ہوٹل حیات کے ٹی وی لاؤنج میں, باز آمد، علی گڑھ سے تعلق رکھنے والی شخصیات کے ایک طرح سے منظوم خاکے ہیں. ان نظموں میں دشت جنوں بھی ہے اور بزم طرب بھی۔ یہ نظمیں ماضی کے اس علی گڑھ کی تعبیر ہیں کہ جہاں رات کا بوسہ لینے کو سو سو بار آکاش جھکا کرتا تھا۔ ان نظموں کے ذریعے علی گڑھ کا معاصر منظر نامہ بھی پیش کیا جا سکتا تھا لیکن غالبا شہرام نے اپنی انکھیں بند کر کے اس علی گڑھ کو دیکھنے کی کوشش بلکہ جراءت نہیں کی جس میں اس نے ہوش سنبھالا اور شعور و اگہی حاصل کی۔ بہرحال تکمیل کےملال اور تشنگی کے مسرت آگیں تصور سے شہرام اچھی طرح واقف ہیں لہذا ان سےکوئی شکایت نہیں ہے۔
حواشی کی نظمیں مشہور بھلے نہ ہوں لیکن سنجیدہ حلقے میں مقبول یقیناً ہوں گی۔
بے پناہ تہدار اور بے حد بامعنی نظموں کے اس مجموعے کی اشاعت کے لیے شہرام کی "سرمدیت” کو مبارکباد۔
کوئی تبصرہ نہیں