احمد جہانگیر کی دس غزلیں
احمد جہانگیر کی دس غزلیں
غزل
میں دراوڑ سندھ کا، تو آریائی دیوتا
کیا کرے انسان کی حاجت روائی دیوتا
بادلوں کی گھن گرج کے خوف نے بنوادئیے
مشتری، مریخ، سورج ابتدائی دیوتا
پسلیوں سے کھینچ کے دست ازل نے ایک شب
خلدخانے میں تری دیوی بنائی دیوتا
سیڑھیاں چڑھتے ہوئے تو اور بھی آئے مگر
کون ہے مجھ سا خدایا ارتقائی دیوتا
شیرہء انگور، گندم، سیب، چاول، جو، کجھور
کھا گئے افسوس میری سب کمائی دیوتا
اب بھی یونان قدیم و گمشدہ کی خاک پہ
لڑ رہے ہوں گے کہیں اپنی لڑائی دیوتا
—————————-
غزل
گاتھا پڑھ کر آتش دھونکی، گنگا سے اشنان
میں نے ہر یُگ نذر گُزاری، ہر پیڑھی میں دان
دھیان لگا کر آنکھیں موندیں، بیٹھا گھٹنے ٹیک
میٹھا لفظ بھجن بن اترا، سچّا شعر گنان
ماں دھرتی کو پیش سخن کے رنگ برنگے پھول
بھاگ بھری کو بھینٹ سنہرے مصرعے کا لوبان
سایہ سچّل شاہ کی اجرک، روشن میر چراغ
امروہے سے اٹھ کر آئے ہم باغِ ملتان
سیّارے پر زردی اتری دریا مٹی خشک
ہاتھی پر ہودج کسواو، ناقے پر پالان
اے دھرتی کے تیاگی اٹھ کر گھور خلا میں بیٹھ
اگلی گاڑی کی گھنٹی تک، تو ہے اور رحمان
فرش لپیٹے، تارے جھاڑے، نرسنگے کی پھونک
پالن ہارا، تو داتا ہے، کر جو چاہے ٹھان
—————————-
غزل
یکتائی میں خواہش ابھری، جب پہچانے جانے کی
اس نے مٹّی چاک پہ رکھّی، ہستی کے ویرانے کی
صبح گلابِ ذکر کی خوش بو اک ہیکل کے چار طرف
رات زبورِ حمد سے روشن ایک تلاوت خانے کی
غائب کا فانوس فروزاں، ایک مبارک روغن سے
مشعل جو محتاج نہیں بتّی کو آگ دکھانے کی
اپنے سچّے رنگ میں تازہ، ہر فرقے کا پھول رہے
دنیا کی تصویر میں ابھرے، شکل جماعت خانے کی
سانس کا آتا جاتا مصرع، صرف شہادت پڑھتا ہو
نعمت کی تحدیث کا دن ہو، رات رہے شکرانے کی
پھلواری کے گھاٹ پہ اتروں، اور سچّوں کے ساتھ رہوں
سر پر اس کے ذکر کا نشّہ، مستی ہو دو گانے کی
نعمت کی تقطیع نہ کرنا، رحمت کی تشریح نہیں
خاموشی سے صرف زیارت، سارے تانے بانے کی
قالینوں کی راکھ اٹھا لے، میناروں کی خاک لپیٹ
حیرت کا ناقوس پکارا، ساعت ہے اٹھ جانے کی
—————————-
غزل
پُشت پہ نیلی آگ اٹھائے، ہاتھ شہابی پھول دھرے
باغیچے کا شاہ اتر کر ‘ خاکستر کی فصل چرے
کاندھے پر امّید کی بوری، خواب کا کوزہ، غم کا تھان
آدم کا فرزند خدا کو، بھوگ چڑھائے، نذر کرے
سیّارے کے گھاٹ پہ روشن رکّھی جائے ایک مچان
کون خلا میں کشتی کھیتا ‘کیا جانے کب آن مرے
چوکھٹ کے تاریک خلا میں صورت ابھری چاند سمان
سانسوں سے سارنگی پھوٹی، پھولوں سے دالان بھرے
خسرو اور خوش حال کا لہجہ، سَـچّل اور وارث کی تان
تیرے صادق پھول سلامت، تیرے سچّے پیڑ ہرے
ساقی بادہ خوار کھڑے ہیں، تشنہ، خواہاں اور ہلکان
خواجہ تیرا کوزہ رکّھے، صاحب تجھ فِنجان بھرے
—————————-
غزل
جوگی جب پالان سے اترا، تازہ سرخ گلابوں میں
ریگستان میں معمورہ تھا، یا پھر باغ خرابوں میں
آنکھ کھلی تو چاند سے روشن کمرے کی دیواریں تھیں
میں بستر سے نیند میں اترا، اور سِدھارا خوابوں میں
آوازوں نے شعر پڑھا تو پھلورای میں عطر بٙٹا
اور آنکھوں کا مصرع سن کر رنگ پڑا تالابوں میں
چانن تیرا سچّا بوسہ تاریکی میں ایک چراغ
لالے تیری پھول ہتھیلی یکتا ڈھیر گلابوں میں
جھل مل تیرا دشت کلاچی جل تھل میرا باغ وسیب
رنگ منوّر، نور معطّر، مستی کی محرابوں میں
ایک بِرنجی دروازے پر یاد ابھی تک بیٹھی ہے
اشلوکوں کا تھال اٹھائے، پھول پرو کر خوابوں میں
—————————-
غزل
سنا ہے، کیچڑ کے سوکھنے پر ، حیات چولا بدل رہی تھی
شجر سے نیچے اتر کے خلقت، نحیف قدموں پہ چل رہی تھی
وسیع رقبے کا بے نہایت، خطیر ملبہ سمٹ رہا تھا
ضعیف تارے کی دھونکنی سے، مہیب ظلمت ابل رہی تھی
طواف کرتی ہوا کا رونا، مٙطاف میں غُل مچا رہا تھا
حرم کے پھاٹک سے بین کرتی، کوئی سواری نکل رہی تھی
وبا کی آفت کا تازیانہ، سیاہ پشتوں پہ پڑ چکا تھا
نگار خانے کے طاقچے میں، خبر کی ہانڈی ابل رہی تھی
فلک کے کوٹھے پہ دیکھتا ہوں، نیا ستارہ چمک رہا ہے
زمین پہ گرنے سے قبل شاید، شعاع قرنوں سے چل رہی تھی
سلام کرتی ہوئی سحر کا، کِواڑ چوپٹ کھلا ہوا تھا
فلک کا نیلم چمک رہا تھا، ندی میں چاندی پگھل رہی تھی
سفر کا صفحہ کھلا تو اس پر، فنا کا نقشہ بنا ہوا تھا
ہمارا نشّہ اتر چکا تھا، ہماری مستی سنبھل رہی تھی
—————————-
غزل
تار کس کر کوئی راگنی چھیڑ دے، اے طوائف، اذّیت بھری رات ہے
جانتی ہے سرائے کی ہر اونٹنی، اس مسافر کی یہ آخری رات ہے
۔
دس محرّم کی فاقہ شکن عصر کا، سر جھکائے ہوئے بیٹھ کر سوچنا
کن اجالوں میں لپٹی ہوئی فجر تھی، کن اندھیروں کی نوحہ گری رات ہے
آسمانی بشارت سے دہکا ہوا، خوان اترے تو ماحول تبدیل ہو
خاک روبوں کی بستی میں گریہ کناں، کچھ دنوں سے نحوست بھری رات ہے
ہم فقیروں میں راجہ کی چوکی چڑھے، کاہنوں میں پیمبر پکارے گئے
وہم خانہ سجا ہے حکایات کا، آسماں سے زمیں تک دھری رات ہے
کیفیت کے اشارے پہ تصویر میں، چند رنگوں کی ترتیب بدلی گئی
آسماں زرد ہے اور زمیں نیل گوں، چند کالے شجر، اک ہری رات ہے
۔
آفرینش کے ہفتے میں چھ روز تک، ایک تصویر پیہم بنائی گئی
دن ضیاء ساز ہاتھوں سے ظاہر ہوا، اور مصوّر کی کاری گری رات ہے
۔
چند گھنٹوں میں سورج نکل آئے گا، تب یہ زینہ اتر کر چلی جائیو
زندگی، دیکھ، آگے بیابان ہے، شمع گل ہو گئ، رک، اری، رات ہے
—————————-
غزل
کام آئیں تعلّق کی بیساکھیاں، چند ماتھوں پہ مہتاب ٹانکے گئے
آخری صف میں بیٹھے ہووں کی کہو، کب اٹھایا گیا، اور ہانکے گئے
۔
شمع دانِ غزل سے بھڑکتی ہوئی، بٙلّی ماراں میں کوئی حویلی نہیں
گومتی کے کنارے اندھیرا ہوا، مرثیہ سن کے مجلس سے بانکے گئے
چِق اٹھائی تو دنیا کے بازار میں، خواہشوں کی نجاست کا انبار تھا
ہم نے بجتا ہوا ہر کٹورہ سنا، اور کھڑکی سے چپ چاپ جھانکے گئے
زرد سکّوں کا صندوق کھلتا رہا، باٹ چڑھتے رہے، مال تلتا رہا
چار جانب سے بولی بڑھائی گئی، شعر بیچے گئے، لفظ آنکے گئے
شاہ شانوں پہ رکّھے ہوئے تخت پر، دیوتا کی سماجت میں مصروف تھا
بد دعائیں اگلتے ہوئے بد زباں، آہ بھرتے رہے، دھول پھانکے گئے
آخری بستیوں کی کہانی سنو، سرخ اینٹوں کی بھٹّی بجھائی گی
پھول ریتی کے نیچے دبائے گئے، چاہ مٹّی کے ٹیلوں سے ڈھانکے گئے
جاں کنی کی اذیت میں غم خوار کیا، ایک مرتے ہوئے کو عزادار کیا
کب لحد میں کہیں شمع رکّھی گئی، کیا کفن میں کبھی پھول ٹانکے گئے
احمد جہاں گیر
—————————-
کوئی تبصرہ نہیں