احمد جہانگیر کی دس غزلیں
غزل
میں دراوڑ سندھ کا، تو آریائی دیوتا
کیا کرے انسان کی حاجت روائی دیوتا
بادلوں کی گھن گرج کے خوف نے بنوادئیے
مشتری، مریخ، سورج ابتدائی دیوتا
پسلیوں سے کھینچ کے دست ازل نے ایک شب
خلدخانے میں تری دیوی بنائی دیوتا
سیڑھیاں چڑھتے ہوئے تو اور بھی آئے مگر
کون ہے مجھ سا خدایا ارتقائی دیوتا
شیرہء انگور، گندم، سیب، چاول، جو، کجھور
کھا گئے افسوس میری سب کمائی دیوتا
اب بھی یونان قدیم و گمشدہ کی خاک پہ
لڑ رہے ہوں گے کہیں اپنی لڑائی دیوتا
—————————-
then 'Add to home screen'
then 'Add to home screen'




کوئی تبصرہ نہیں