جیلانی کامران
تنقید کی بدلی ہوئی توقعات
(1)
عہدِحاضر کے کسی بھی نقاد کے لیے ضروری ہے کہ اس کے پاس ایسے ذرائع ہو ںجن سے وہ اپنے زمانے کی پہچان کرسکے۔ یہ اس لیے بھی مناسب دکھائی دیتا ہے کہ نہ تو زمانہ نظر آنے والی شئے ہے اور نہ معاشرہ ہی نظر آنے والی شئے ہے جس میں زمانہ آشکار ہوتا ہے۔ جو شئے نظر آتی ہے وہ ہجوم ہے، افراد ہیں، کاروبارِ مملکت اور کاروبارِ زیست ہے اور ولادت و سوگ کا سلسلہ ہے اور شور ہے جو ان عناصر سے پیدا ہوتا ہے۔ ایسا منظر ایک اعتبار سے زمانے اور معاشرے کا معروضی چہرا بن کر اس غلط انداز ے کو سامنے لاتا ہے کہ جو کچھ نظر کے سامنے ہے اسے ہی زمانہ کہا جاتا ہے، وہی معاشرہ ہے اور وہی زندگی ہے جس میں لوگ جیتے ہیں، ہم جیتے ہیں، میں جیتا ہوں۔ یہ سب کچھ سطح پر ہونے والے ارتعاش کا مشاہدہ ہے۔ زمانے کی پہچان کے لیے شاید ان نقوش پر سطحِ آب کی حیثیت بنیادی نہیں ہوتی کیونکہ یہ نقوش ہر لمحہ تبدیل ہوتے ہیں اور تیز رفتار اور متحرک ہوتے ہیں اور ہر نقش میں کئی نقش ٹوٹتے، بنتے، بگڑتے، نابود ہوتے دکھائی دیتے ہیں اور جو آنکھ ایسے منظر کا مشاہدہ کرتی ہے وہ کچھ دیر کے بعد چکرا جاتی ہے اور ذہن ایسے مشاہدے کے دباؤ کا شکار بنتا ہے۔ یہ اس اعتبار سے معاشرے کے ان نقوشِ بر سطحِ آب کو زمانے کی پہچان کے لیے قبول نہیں کیا جاسکتا۔ ان کو علامات کی نسبت دی جاسکتی ہے۔ تاہم علامات کے ذریعے جن حقائق تک پہنچا جاسکتا ہے ان کی شناخت بھی غلط ہوسکتی ہے۔
معاشرے کی عام فہم آب و ہوا، جسے میں نے نقوش بر سطحِ آب کے استعارے میں بیان کیا ہے، از خود برپا نہیں ہوتی۔ بعض حقیقتوں کی خارجی شکل و صورت سے ظاہر ہوتی ہے۔ ساٹھ ستر برس قبل اسے معاشرے کی طبقاتی تقسیم سے نسبت دی گئی تھی اور تنقید کا جو اسلوب تیار کیا گیا تھا اسے ترقی پسند تنقید کہا گیا تھا۔ اس تنقید کا ہدف طبقاتی معاشرہ، پامال انسان اور غربت تھی۔ ترقی پسند تنقید کی ساٹھ ستر برس کی کارگزاری کے بعد معاشرہ بدستور طبقاتی ہے۔ تاہم پامال انسان اور غربت محض استعارہ بن گئے ہیں اور اگر کسی کے کہنے پر پائمال افراد اور غربت کو ڈھونڈنا بھی چاہیں تو عین ممکن ہے کہ وہ معاشرے میں کہیں بھی دکھائی نہ دیں گے۔ روزگار کے مواقع وسیع تر ہونے کے باوجود بے روزگاری کا مسئلہ رونما ہوا ہے لیکن یہ کہنا غلط ہوگا کے بے روزگاری نے افراد کو پائمال کررکھا ہے اور غربت نے فاقہ کشی کو گھرانے کی صعوبت بنا دیا ہے۔ معاشرے کی طبقاتی نوعیت نے جاگیردار کو قائم رکھتے ہوئے کوئی ایسا ظلم جائز قرار نہیں دیا جسے ترقی پسند تنقید اپنا کوئی مزید ہدف بنا سکے… ستر برس کا طویل عرصہ گزرنے کے بعد ترقی پسند تنقید کے آلاتِ فکر اور معاشرتی ہدف اور موضوع اپنا اثر و رسوخ زائل کرتے دکھائی دیتے ہیں اور ترقی پسند ادب کی اپنے عہد کے ساتھ ہمکلامی بھی موثر ثابت نہیں ہوئی۔ لوگ ایسے ادب کی باتیں اور ایسی تنقید کے اسلوب کو تکرار زدہ شئے گردانتے ہوئے قابلِ اعتناء نہیں سمجھتے اور ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے ترقی پسند تحریک اور ادب کازمانہ ختم ہوچکا ہے۔
(2)
گزشتہ ساٹھ ستر برسوں کے دوران دو ایسے استعارے بھی نمایاں ہوئے تھے جن کا تعلق مغربی تہذیب کے اس رابطے کے ساتھ تھا جو اس تہذیب نے یورپ کے باہر دوسرے ملکوں کے ساتھ قائم کیا تھا اور جہاں ان ممالک کی تاریخ اور تہذیب، مغربی تہذیب کے رویوں سے متاثر ہوئی تھیں۔ ایک استعارہ جدید دنیاکا تھا اور دوسرا استعارہ سیکولرازم کا تھا۔ جدید دنیا کے نام پر ادب میں نئے تجربے وارد ہوئے۔ نظم اور فکشن کی نئی صورتیں قبول کی گئیں اور سیکولرازم کے نام پر موضوعات کی ایک خاص حد مقرر کی گئی جس کا مرکزی کردار انسان قرار پایا، خطہ ارض کو گلوبل ویلج کہا گیا اور ممالک کی تہذیبوں کو غیرجدید گردانا گیا۔ سیکولرا زم نے مذہب کے حوالے کو ناقابل فہم قرار دیا اور اس امرکی طرف اشارہ کیا کہ مغرب کی اعلیٰ تعلیم، یورپ اور امریکہ میں سیر و سیاحت، اور مغربی کلچر کے تقلید میں جدید دنیاکا جو تاثر دستیاب ہوتا ہے اس میں مذہب کا حوالہ کسی طرح شامل نہیں ہوسکتا۔ مغربی کلچر نے مشرق کے ملکوں میں جس تنقید، ادبی فکر اور فلسفے کو روا رکھا وہ سیکولر تھا اور جس میں مذہب کا کوئی ریفرنس دکھائی نہیں دیتا تھا۔ روشن خیالی کے نام پر عیسائیت کو بھی حوالے کی فہرست سے بے دخل کردیا گیا تھا۔ تاہم دوسری جنگ کے خاتمے کے بعد عیسائی مذہبی حوالے،تہذیبی استعاروں کے طور پر ادبی تنقید میں شامل ہوتے گئے۔ درس و تدریس کے مقاصد کی خاطر مغربی یونیورسٹیوں نے عیسائیت کے تہذیبی استعاروں کو اپنے اندازِ فکر کا جزو بنایا۔ لیکن ایسا بدلا ہوا اندازِ فکر ان ملکوں میں کسی طرح رواج نہ پاسکا جن کو جدید دنیا اور سیکولرازم کے سلوگن متاثر کرچکے تھے۔ ان حالات میں یہ سوال سامنے آتا ہے کہ کیا وہ جدید دنیا اور سیکولر ازم برابر موجود ہیں جن کی ولادت بیسویں صدی کے آغاز میں اور بیسویں صدی کے فکر و فلسفے کے نتیجے میں ہوئی تھی؟
(3)
اس امر میں کوئی مغالطہ نہیں ہے کہ جدید دنیا جو پروگریس اور سائنس اور ٹیکنالوجی سے پیدا ہوئی تھی، اب ایک مانوس دنیا بن چکی ہے اور پروگریس کے تصور نے انسان کے تصور کی شکل بدل دی ہے۔ انسان اخلاقی طور پر بہتر نہیں ہوا اور کمپنیوں اور کارپوریشنو ںکو جدید انسان کا مصداق گردانا گیا ہے جن کو نیوپرسن (Neo-Person) کہا گیا ہے۔ یہ نیوپرسن اخلاقیات کا پابند نہیں ہے اور مفادات کے حوالے سے اپنا لائحہ عمل بناتا ہے۔ جدید دنیا ٹیکنالوجی کی فروخت کی سپرمارکیٹ ہے جس میں خریداری کرنے سے پسماندہ ممالک جدید دنیا میں وارد ہوسکتے ہیں۔ خریداری کے اس رویے نے بین الاقوامی قرضوں کی ترغیب دی ہے اور جدید بنتے ہوئے پسماندہ ممالک مقروض قوموں کی فہرست میں شمار ہوتے گئے ہیں۔ جدید دنیا کا وہ فخر جو علم و حکمت اور روشن مستقبل پر قائم تھا، خریداری اور قرض کی وبا بن کر زائل ہورہا ہے۔ اب انسانیت کا مستقبل شاید روشن نظر نہیں آتا۔ مقروض قوموں کا مستقبل البتہ تاریک دکھائی دیتا ہے۔ مغربی دنیاکا بھی مستقبل کے بارے میں رجائی رویہ اب برقرار نظرنہیں آتا اور جب سے مغربی دنیا کی سفید اقوام کی قوتِ تولید کمزور پڑی ہے اور ان کی عددی تعدا دکم سے کم تر ہوئی ہے، مغربی دنیا کے احوال بھی کوئی بہتر دکھائی نہیں دیتے۔ امریکہ میں ان احوال سے بچنے کے لیے کاسموپولیٹن قوم کا تصور ظاہر ہوا ہے۔ ایسی صورت جدیدنیا کے بارے میں بخوبی جانچی جاسکتی ہے۔
(4)
سیکولرازم جس نے ہمارے ماحول میں تعلیم یافتہ افراد کو متاثر کررکھا تھا اب اس انداز میں موثر دکھائی نہیں دیتا جس انداز میں اس کی گرفت انقلاب روس کے زمانے میں تھی یا مغربی لبرلزم کے زیراثرتھی۔ امریکہ کے مشہور میگزین ’دی نیشنل انٹرسٹ‘ کے شمارہ نمبر46 (موسم سرما 1996-97) میں سیکولرازم کے بارے میں پروفیسر پیٹربرگر (Peter Berger) کا کہنا ہے:
’’یہ مفروضہ کہ ہم ایک سیکولر دنیا میں جی رہے ہیں، غلط ثابت ہوا ہے۔ دنیا اپنے عہدِ حاضر میں بڑی شدت کے ساتھ مذہب پسند ثابت ہوئی اور جو ادب گزشتہ ساٹھ ستر برسو ں کے دوران سیکولر نظریے کی تقلید میں لکھا گیا تھا، اب سچائیوں پر مبنی ادب دکھائی نہیں دیتا۔ جس زمانے میں سیکولر ماحول اور سیکولر ازم کا چرچا خلوص اور شدت کے ساتھ ہوا تھا اس وقت یہ باور کیا گیا تھا کہ جدید بننے کے شوق میں تعلیم یافتہ افراد مذہب سے دور ہوتے جائیں گے اور مذہب کا عمل دخل ان کی زندگیو ںمیں کم ہوتا جائے گا۔ لیکن یہ خیال بھی درست ثابت نہیں ہوا۔ جدیدیت اور مذہب کا رشتہ اتنا آسان دکھائی نہیں دیتا۔ یہ رشتہ بے حد پیچیدہ ہے۔‘‘
پروفیسر برگر نے مذہب کے احیاء کا ذکر کرتے ہوئے رومن کیتھولک احیائے عیسائیت کی جانب بھی اشارہ کیا ہے اور اسلامی ممالک میں بھی احیاء کے منظر کا جائزہ لیا ہے۔ وہ اسلامی ممالک کا ذکر کرتے ہوئے لکھتا ہے:
’’یہ خیال کرنا اسلامی احیاء صرف ان معاشرتی طبقوں میں نفوذ کررہاہے جو جدیدیت سے دور ہیں یا پسماندہ اور غریب ہیں بہت حد تک درست نہیں ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اسلامی احیاء کے رویے ان شہروں میں بہت نمایاں ہیں جو جدیدیت کے بے حد قریب ہیں اور ایسا احیاء ان گھرانوں میں بڑی شدت کے ساتھ ظاہر ہوا ہے جن کے افراد مغرب کی یونیورسٹیوں کے فارغ التحصیل ہیں۔ مصر اور ترکی میں جدید گھرانوں کی لڑکیاں نقاب اوڑھ کرباہر جانے کو ترجیح دیتی ہیں۔‘‘
اپنے دلائل اور جائزے کی تفصیلی بحث کے بعد وہ لکھتا ہے کہ:
’’عصرحاضر کے جائزے میں سیکولر اندازِ فکر کی پیروی ادھوری اور نامکمل ہے۔ مذہب کو نظرانداز کرنا کئی اعتبار سے خطرناک دکھائی دیتا ہے۔‘‘
(5)
ترقی پسند تنقید نے سب سے زیادہ نقصان شاعری کو پہنچایا تھا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ ترقی پسند انداز فکر جن حقیقتوں کا ذکر کرتا تھا ان کا تعلق معلومات سے تھا۔ تاکہ قاری معلومات وصول کرکے اپنے رویو ںکو ترقی پسند مقاصد کے لیے قابل قبول بنا سکے۔ ایسے طریق کار نے کہانی کو تخلیق کا ذریعہ بنایا اور نثر کی معلومات کے اظہار کے لے مناسبت تربیت کی اور چونکہ ترقی پسند تنقید نثری ذہن کی پیداوار تھی اس لیے شاعری نہ نثر بن سکی نہ شعر کہہ سکی۔ شاعری خطابت بن گئی اور اس زمانے میں بھی ترقی پسند شاعروں کی شاعری زبان کی شاعری ہے۔ پیرافریس (لفظی ترجمے) کے قریب تر ہے اور جہاں نظم کی بجائے غزل میں اظہار ہواہے وہاں تغزل گم ہوتے دکھائی دیتا ہے۔ گزشتہ کئی برسوں کے ادبی سفر نے ہمارے موجودہ دور میں اس بات کی خبر دی ہے کہ شاعری کا زمانہ ختم ہوچکا ہے، نثر کا زمانہ آگیا ہے۔ اس بات کی وضاحت کی شاید ضرورت نہیں ہے۔ کہانیاں اور سفرنامے زیادہ تر لوگ پسند کرتے ہیں۔ شاعری، جو روایتی نوعیت کی ہے اسے مشاعرہ پسندی کے باعث روا گردانا گیا ہے اور وہ شاعری جو مرکزی رجحانات کی نشاندہی کا دعویٰ کرتی ہے، ایک اقلیت کے ذوق کا حصہ بن گئی ہے۔ نثر کے زمانے میں شاعری کا کیا جواز ہے؟ ایک کڑا سوال بن کر ظاہر ہوا ہے اور کیا ہمارا عہدِ حاضر شاعری چاہتا ہے؟ ایک دوسرا اور سنجیدہ سوال ہے اور اگر شاعری اسے درکار ہے تو کیا وہ مانوس طرزِ اظہار کی شعرگوئی ہے، یا نثری نظم ہے۔ یا کسی اور اندازِ بیان کی شئے ہے لیکن سب سے بڑا سوال غالباً یہ ہے کہ کیا ہمارا اجتماعی ذہن شاعری کی دنیا میں ہے یا شاعری کی دنیا سے باہر کسی بدلے ہوئے زمانے میں وارد ہوچکا ہے جہاں شاعری کی شاید ضرورت نہیں ہے کیونکہ ہمارا انسان بدل چکا ہے اور کیاواقعی ہمارا انسان بدل چکا ہے؟
(6)
مغربی نظام فکر میں دو نمایاں رویے آشکار ہوئے ہیں۔ ایک کا تعلق تاریخ کے اختتام (The End of History) سے ہے جس کا محرک فرانسیس فوکویامہ (Fransis Fukuyama) ہے اور دوسرے رویے کا تعلق ادبی تھیوری کے مستقبل (The Future of Literary Theory by Ralph Cohen) سے ہے کہ کیا ادب کے نظریات کی کوئی افادیت ہے؟ اور کیا ادب کے نظریات اپنے افادی جوازکو زائل کرچکے ہیں اور ادب کا زمانہ بھی تاریخ کے اختتام کے ساتھ اپنے اختتام کو پہنچ چکا ہے۔ تاریخ کے اختتام کا تصور اس مفروضے پر قائم ہے کہ بنیادی حقوق کی ضمانت اور جمہوری نظام حکومت کے استحکام کے بعد تاریخ کے کسی بنیادی مخرج کا جواز باقی نہیں رہا اور فرد کو ریاستی تصور زیست میں آزادی حاصل ہوگئی ہے۔ ادبی تھیوری کا مستقبل اس لیے خطرے میں آگیا ہے کہ معاشرے کا ظلم اب فرد کی زندگی کو پریشان نہیں کرتا کیونکہ معاشرہ انسانی فلاح کے اداروں کا معاشرہ بن گیا ہے اور مغربی انسان کا ذہن فلاح و بہبود کی تدبیروں اور تحریروں کو تحریک دینے کے عمل میں شریک ہے۔ معاشرہ اب انسان کا دشمن نہیں رہا۔ حکومتی ادارے اس کی رضا سے چلتے ہیں انسان کو بنیادی تحفظات حاصل ہیں۔ بے روزگاری الاؤنس ہے۔ بیماری کے لیے سوشل سیکوریٹی کا دستور ہے۔ ہر کام خوش اسلوبی سے ہوتاہے۔ انسان کی عزت نفس کو کوئی گزند نہیں پہنچتا۔ عشق کسی بھولے ہوئے ماضی کا حصہ بن چکا ہے اور عشق کی زبان اور محاورے انسان کو بھول گئے ہیں اور عشق کی جگہ جنس کے نسوانی قالب نے لے لی ہے جسے کسی طویل کورٹ شپ کے بغیر حاصل کیا جاسکتا ہے…ان بے شمار تبدیلیوں کے بعد جو انسان ظاہر ہوا ہے اس کے لیے ادب بے کار شئے ہے اور تاریخ کا اختتام آسائش کی چیزوں کی خرید اور ان کے استعمال کے ساتھ منسوب ہوگیا ہے۔ جدید عہد میں انسان نے کم ازکم مغربی دنیا میں اس بہشت کو پالیا ہے جس کا اچھے لوگوں سے اقتصادیات کے نظریہ سازوں نے وعدہ کا تھا۔ تاریخ کے اختتام کے ساتھ ان افراد کی پیراڈائیز ظاہر ہوئی ہے جو کام کرتے ہیں، روزی کماتے ہیں۔ ویک اینڈ پر تفریح اور سیر کو جاتے ہیں جن کی زندگی وافر پنشن کے ساتھ آرام سے گزرتی ہے اور جن کی تہذیب عہدِ حاضر میں بلند ترین مقام پر بھی دکھائی دیتی ہے۔
ایسے انسان کے لیے ادبی نظریات نے ایک عجیب و غریب رویہ ظاہر کیا ہے۔ اس کے لیے ادب محض ایک متن بن کر سامنے آیا ہے۔
(7)
ادب کو متن کے طور پر زیرغور لانا اس عقیدے کی بنا پر درست دکھائی دیتا ہے کہ شاعر (یاادیب) تخلیق کرتا ہے اور تخلیق کی واردات کے دوران جو زبان استعمال کرتا ہے اس کا مطالعہ کرنا ضروری ہے اور یہ مطالعہ مصنف کو بھی غیرضروری گردانتا ہے اور اس کے عہد کو بھی نظرانداز کرتا ہے کیونکہ اصل شئے متن ہے جو قاری تک پہنچتاہے اور متن ہی کا مطالعہ ادب ہے اور حقیقت بھی یہی ہے کہ ان تمام کتابوں میں جو ادبیات کے مطالعاتی کورس میں شامل ہوتی ہیں متن ہی کو فوقیت دی جاتی ہے۔ شاعر کی زندگی، اس کا عہد، اور اس کی زمانے کی تحریکیں ان کو درخورِ اعتنا نہیں سمجھا جاتا۔ اصل شئے،لفظ ہے اور لفظ زندہ رہتا ہے۔ مصنف اور اس کا عہد گزر جاتے ہیں اس لیے جب لفظ زمانے پر حاوی اور زمانے سے ماورا ہے تو متن ہی کو ضروری گرداننے کی روش کو کوئی الزام نہیں دیا جاسکتا… تاہم اس ضمن میں ایک الجھن ضرور سامنے آتی ہے اور اس کا تعلق کلاس روم کے ساتھ ہے۔
کسی بھی ادب پارے کا متن دو طرح پڑھا جاتاہے۔ ایک طریقہ سرسری انداز میں پڑھنے کا ہے جس سے آدمی محظوظ بھی ہوتا ہے۔ اس کا کتھارسس بھی ہوتاہے اور اسے متن سے کچھ دستیاب بھی ہوتاہے۔ دوسرا طریقہ کلاس روم اور سیمینار میں گہرا مطالعہ کرنے سے تعلق رکھتا ہے۔ یہ طریق کار ادب کی زبان کے عمیق معانی تلاش کرتا ہے اور غالباًمتن کو ایسے انداز میں قبول کرتا ہے جیسے پرانے زمانے کے مقبروں سے قدیم رسم الخط میں لکھی ہوئی تختیوں کی عبارت ہوتی ہے۔ اس روش کی موجودگی میں اگر ادبی تاریخ فراموش ہوجائے، مصنف کا عہد قابل توجہ نہ رہے اور قوموں کی اجتماعی زندگی کے ساتھ متن کا رشتہ باقی نہ رہے تو ادب آثارِ قدیمہ کی سرگرمی بن سکتا ہے۔ شاید اسی لیے عہدِ حاضر میں تشکیلات اور ردِّتشکیلات اور ساختیات کی آمد تخلیقی ذہن کے لیے ایک صبرآزما دوراہا بن کر ظاہر ہوئی ہے۔
(8)
اگر متن کو غیرمعمولی اہمیت دی جائے اور مصنف اوراس کا عہد کسی حوالہ جاتی رشتے کی نشاندہی نہ کریں تو متن کس حد تک قاری کی رہنمائی کرسکتا ہے، متن کی اہمیت قاری سے غیرمعمولی توقعات کا مطالبہ بھی کرتی ہے کہ قاری کا مطالعہ وسیع ہو، اس کی الفاظ کے ساتھ تربیت بھی قابل اعتماد ہو اور اس کی افتادِ طبع بھی کسی طویل ادبی ذوق سے آشنا ہو۔ اگر قاری کے پاس ایسی خصوصیات موجود بھی ہوں اور وہ مصنف اور اس کے عہد سے ناآشنا ہو تو بھی وہ متن کے مطالعے میں بہت دور تک رسائی نہیں پاسکتا… یہ باتیں اس لیے قابل غور ہیں کہ تنقید کے بارے میں توقعات قائم کرتے ہوئے نہ تو عہد کو نظرانداز کیاجاسکتا ہے اور نہ مصنف ہی کو حذف کیا جاسکتاہے۔ یہ مطالبہ ہمارے لیے جن توقعات کو ضروری ٹھہراتا ہے ان کو جاننا بھی نقاد کی کارگزاری کا لازمی جزو بنتا ہے۔
(9)
تنقیدسے ایک اہم توقع یہ ہے کہ اس کی رہنمائی میں ہم یہ جان سکیں کہ عہد حاضر میں ہم کہاں مقیم ہیں۔ کیا ہم زمانے کے اعتبار سے اسی عصر سے تعلق رکھتے ہیں جو مغربی تہذیب کے انسان کا ہے؟ اور کیا ہماری اجتماعی سرشت اس نوع کی ہے جس نوع سے اہل مغرب کی اجتماعی سرشت گزری ہے کیااس سائنس کی ایجاد میں ہمارا کوئی حصہ ہے جس نے مغربی ذہن کو سائنس کی ایجاد کے مواقع دیئے ہیں اور کیا ہماری توانائی اسی درجے اور اہلیت کی ہے جو مغربی تہذیب کی کارگزاری میں دکھائی دیتی ہے ان سوالوں اور اسی نوع کے دوسرے سوالوں کے جوابات سے اس سوال کا جواب برآمد ہوتا ہے کہ ہم کہاں مقیم ہیں؟
اور اگر کسی طرح اس امر کا علم ہوجائے کہ ہم کہاں مقیم ہیں اور ہمارا زمانہ اور عصر کون سا ہے اور ہمارے ذہن کی نوعیت کیا ہے اور ہم کس زمانے سے گزرے ہیں؟ تو یہ اندازہ بھی ممکن ہوسکے گا کہ ہمارا ادب ہم سے کیا توقع کرتا ہے اور ہماری تنقید اس توقع کو کس طرح اور کہاں تک پوری کرتی ہے؟ لیکن یہ ساری کارگزاری اس وقت تک سودمند نہیں ہوگی جب تک ہم اس حقیقت کو نہیں جان سکتے کہ ہمارا انسان کیسا ہے؟ گزشتہ ساٹھ ستر برس کے دوران جو انسان ہمارے ادب میں ظاہر ہوا ہے اس کی پہچان تنقید کا پہلا فرض ہے اور یہ سوال بھی تنقید کی توقعات میں شامل ہے کہ معاشرے اور گھرانے میں بسنے والا انسان اس انسان سے کہاں تک مشابہ یا مختلف ہے جو ادب میں نظر آتا ہے۔ معاشرے میں انسان کا جو چہرہ دکھائی دیتا ہے وہ گھرانے میں دکھائی نہیں دیتا اور انسان کا جو چہرا گھرانے کی بنیاد ی رشتے داریو ںمیں نظر آتا ہے وہ ادب میں دکھائی نہیں دیتا۔ تنقید کی توقعات میںان مختلف صورتوں کا ادرک بھی شامل ہے کہ انسان رشتے بندیوں کی دنیا سے باہر نکل کر جب معاشرے میں وارد ہوتا ہے تو اس کا چہرہ کیسے بدل جاتا ہے ا ور کیوں بدل جاتا ہے اور وہ عناصر کون سے ہیں جو انسان کی سرشت کو پائمال کرتے ہیں۔
(10)
ہمارا انسان کیسا ہے، اور اس کی بنیادی سرشت کیا ہے… ان سوالوں کے جوابات سے ہم اپنے انسان کی شناخت کرسکتے ہیں۔ تنقید کا اس شناخت کے عمل میں اعانت کرنا ضروری ہے۔ اس ضمن میں یہ امر بھی قابل غور ہے کہ ہم اپنے انسان کو سمندر پار کے علاقوں میں پہچاننے کی کامیاب کوشش کرسکتے ہیں کیونکہ سمندر پار کے تمدن میں ہمارا انسان اپنے لیے جو حوالے قائم کرتا ہے ان سے اس کے عزائم اور کردار کی شناخت ممکن ہوسکتی ہے اور گھرانے کے ساتھ آبائی تعلق سے اس کے کردار کی خوبیاں بھی آشکار ہوتی ہیں اور اس سچائی کا علم ہوتا ہے کہ ہمارا انسان اپنے باطن میں کیا ہے؟ اور کیسا ہے؟
اس بات سے اختلاف نہیں کیا جاسکتا کہ ہمارا عہد دو مختلف کہانیاں قلمبند کررہا ہے۔ ایک کہانی ملک کے اندر لکھی جارہی ہے جس کا انسان شکستہ پاہے اور دوسری کہانی سمندر پار کے ملکوں میں ہمارے ملک کے باشندے لکھ رہے ہیں جو محنت اور لگن کی کہانی ہے۔ یہ دوسری نوع کی کہانی لکھی بھی جارہی ہے اور اس میں جیا بھی جارہا ہے۔ اس اعتبار سے سمندر پار کے پاکستانیوں کی کہانی ایک سچی کہانی ہے کیونکہ یہ کہانی ہمارے اصل انسان کا چہرہ دکھاتی ہے۔ انسان کا یہ چہرہ ہمارے تمدن اور معاشرے میں درمیانی طبقے کی تشکیل کررہا ہے۔ اس طبقے کے ساتھ ذہن کی زرخیزی کو منسوب کیا جاسکتا ہے۔ اس ضمن میں تنقید کے لیے اس سوال کا جواب دینا بھی ضروری ہے کہ سمندر پار کی لکھی جانے والی کہانی کو ادب میں کیا مقام ملتا ہے اور اس کہانی کے کرداروں کو ادب میں کیسے شامل کیا جاسکتا ہے؟
انسان کے جس وجود کو سمندر پار پاکستانیوں کی کہانیاں اور نظمیں آشکار کرتی ہیں۔ اس انسان کے ساتھ ہمارے مستقبل کا رشتہ نمایاں ہوتا ہے۔ ایسے زائچے سے احساس ہوتاہے کہ اس انسان کی ہمراہی میں ہمارے مستقبل کا سفر طے ہوگا۔ اور یہی انسان ان وعدوں کو پورا کرے گا جو ہم نے آزادی کے نام پر اپنے مقدر سے کیے تھے۔ تنقید سے ایک توقع یہ بھی کی جاسکتی ہے کہ وہ ان دو مختلف کہانیوں اور ان دو مختلف وارداتوں کو باہم مربوط کرنے کے لیے طریق کار اور انداز فکر تلاش کرے جنھیں سمندر پار کے ملکوں میں اہل پاکستان اور ملک کے اندر ادیب اور شاعر اپنے طور پر بیان کرتے ہیں۔ محنت اور لگن کی خوبیوں پر مقاصد کی تعمیر مستقبل کی ضمانت دے سکتی ہے۔
(11)
انسان کی جس کیفیت اور عہدِ حاضر کے جس مقام کا ذکر کیا گیا ہے ان سے تنقید کی صورت بدل گئی ہے اور اس کے ساتھ وابستہ توقعات ظاہر ہوئی ہیں۔ تنقید موجودہ دور میں ان مضامین کو متروک قرار دے چکی ہے جو کلاس روم کے لیے ضروری ہوتے ہیں۔ یا جن کے حوالے سے ادب کی معلومات میسر آتی ہیں۔ ان موضوعات اور معلومات کے ساتھ تنقید کی اوائل عمری وابستہ ہے۔ ادیب اور شاعر اس تنقید سے کوئی رہنمائی حاصل نہیں کرسکتے۔ اگر ایسی تنقید کو تخلیقی عمل کے ساتھ منسلک کیا جائے تو ادب کی نشو و نما رک سکتی ہے۔ ادب تقلید کا شکار ہوسکتا ہے اور ادب کی زبان کسی بدلے ہوئے اندازِ بیان کی تلاش بھی نہیں کرسکتی۔ ان حالات میں تنقید ہمارے مقاصد کا فکری وسیلہ ہے۔ اسے کسی ایسے نظام فکر کے سپرد نہیں کیا جاسکتا جو تاریخی اعتبار سے زوال آمادہ ہو۔
(12)
تنقید کا دائرہ عمل خیالات اور افکار ہیں اور وہ فکری آب و ہوا ہے جو کسی فرد اور عہد کی ذہنی سرشت کو مرتب کرتی ہے۔ اس لیے تنقید کی سرحدوں کو محدود نہیں کیا جاسکتا اور نہ تنقید کو صرف ادب اور شاعری ہی کے ساتھ منسوب کیا جاسکتا ہے۔ تنقید کا کام افکار کی تلاش کا ہے اور تلاش کے عمل کے دوران فکر کی دریافت کا ہے۔ تلاش اور دریافت کا عمل ایجاد کا سبب بنتا ہے۔ اس اعتبار سے تنقید کا سارا کام ذہن کی سرحدوں کو وسیع تر کرنے کا ہے۔ ایسی عمل آوری جملہ علوم کا احاطہ بھی کرتی ہے۔ ادب اور تنقید مل کر علوم کو ادب کی سرحدوں میں شامل کرسکتے ہیں۔ تنقید ادب کے حدود اربعہ کو علوم کی شرکت سے مزید وسیع کرسکتی ہے اور اس طرح ذہن کو متحرک، فعال اور تخیل آفریں بنا سکتی ہے۔ ایسی توقعات میں تنقید کی بالغ نظری کی نشانیاں ہیں اور کوئی بھی ادبی کلچر تنقید کی بالغ نظری کے بغیر اپنے پختہ کار ہونے کی نشاندہی نہیں کرسکتا۔ تنقید کو الفاظ کی گرامر کا قصہ بنانا عہد حاضر کی توقعات کو غلط سمجھنے کے مترادف ہے اور ایک ایسے معاشرے میں جہاں قاری کی ذہنی قامت مشکوک ہو، اسے لفظوں کی گرامر میں الجھانے سے صرف منفی نتائج ہی حاصل ہوسکتے ہیں۔
(13)
موجودہ زمانے میں تنقید کو بڑے اور عظیم مقاصد کے لیے آزمایا جاسکتا ہے اور ان مقاصد کی مدد سے ادب کی آبیاری کا مناسب انتظام بھی کیا جاسکتا ہے۔ تنقید کی کارفرمائی کے ذریعے ذہن اور لفظ کا رابطہ پیدا ہوتا ہے۔ اور ادب کی بجائے افکار رونما ہوتے ہیں۔ اس اعتبار سے تنقید انسانی ذہن کو سوچنا سکھاتی ہے۔ اسے غور و فکر کا اندازبتاتی ہے اور افکار کے ظہور اور مشاہدے کو انسانی مسرت کا سرچشمہ بنا سکتی ہے۔ ادب کی بصیرت کسی اور نوعیت کی ہے۔ تنقید کی بصیرت ذہن کی بصیر ت ہے۔ تنقید، فلسفے اور ادب کے درمیان ایک مختلف دنیا کی نشاندہی کرتی ہے جہاں افکار پیدا ہوتے ہیں اور اپنے عہداور زمانے میں نئے موسموں کے آنے کی خبر دیتے ہیں۔ تنقید کے ساتھ نئے موسموں کی توقع بھی وابستہ ہے۔
m
(ماہنامہ آئندہ: مدیر: محمود واجد، جلد:2، شمارہ6، (جون، جولائی 1997)، ناشر: بی140/11، ایف بی ایریا،کراچی،پاکستان)
کوئی تبصرہ نہیں