جمیل جالبی
تنقید کے ڈھکوسلے
احساس کمتری کی ماری تیسری دنیا کی ایک مشترک خصوصیت یہ ہے کہ وہ مغربی اقوام کا ردی حاصل کرکے خوش ہوتی ہے۔ نقد یا ادھار ہتھیار خرید کر میدان جنگ میں کود پڑتی ہے اور پرانے کپڑے یا اترن پہن کر احساس افتخار سے مسرور ہوتی ہے۔ یہ کام وہ صرف مادی سطح پر ہی نہیں کرتی بلکہ فکر و خیال اور ادب و فن کی سطح پر بھی یہی طرز عمل اختیار کرتی ہے۔ اردو ادب میں ویسے تو یہ کام گزشتہ ڈیڑھ سو سال سے ہورہا ہے۔ لیکن پچھلے چند سالوں سے تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے ذہن نے اپنی پسپائی قبول کر کے پوری طرح ہتھیار ڈال دیے ہیں۔ مولانا الطاف حسین حالی نے : حالی آئو پیروی مغربی کریں، کی جب ہمیں تلقین کی اورخود بھی اس پر عمل پیرا ہوئے تو اس وقت ہم مغرب کے خیالات کو اپنی تہذیب اور اپنی فکر کے حوالے سے دیکھتے اور جذب کرنے کی کوشش کرتے تھے اور اپنے ذہنی و فکری رشتے اسی تعلق سے جوڑتے تھے، لیکن آج یہ عمل صرف اندھی پیروی کی صورت اختیار کر گیا ہے بالخصوص تنقید، فکر اور کلچر کی سطح پر ادبی رسالے دیکھئے تو ان میں آپ کو مغرب کے ادیبوںاور دانشوروں کے بارے میں الم غلم سب کچھ ملے گا۔ اودھ کچرے خیالات، انگریزی زبان میں لکھی ہوئی عبارتوں کے طویل اقتباسات یا ایک اردو جملے میں کئی کئی ایسے انگریزی الفاظ کا بے وجہ استعمال جن کے لیے الفاظ پہلے سے موجود ہیں یا آسانی سے وضع کیے جاسکتے ہیں۔ ان مضامین اور عبارتوں کو پڑھ کر یوں محسوس ہوتا ہے کہ لکھنے والا ذہنی ہیضے کی مہلک بیماری میں مبتلا ہے اور ذہنی قے سے اس نے صفحہ قرطاس کو گندا اور بدبو دار کردیا ہے۔ ان خیالات کا ہماری تہذیب اور ہماری اقدار سے کیا رشتہ؟ یہ باتیں ہمارے لیے کیا معنی رکھتی ہیں اور ہم ان سے کیا اور کیسے سیکھ سکتے ہیں؟ اس کا اظہار عام طور پر کسی تحریر میں نہیں ملتا۔ ہر شخص بلا تخصیص مغرب کے ہر درجے کے ادیبوں اور دانشوروں کے نام اپنی تحریروں میں ڈال کر اپنے علم کا علم بلند کرتا ہے۔ اللہ بخشے عسکری مرحوم نے بھی اسی قسم کا کام کیاتھا لیکن انھوں نے یہ کام شعور کی سطح پر سوچ سمجھ کر اور پڑھ کر کیا تھا اور اپنے ادب و تہذیب کے حوالے سے اسے ایک نئی زندگی دینے کی کوشش کی تھی۔ ان کی سوچ اور انداز فکر کی جڑیں اپنی تہذیب میں گہری اور پیوست تھیں۔ اس وقت صورت حال یہ ہے کہ ہمارے آج کے لکھنے والوں تک مغرب کے یہ خیالات، تحریکیں اور نظریات اس وقت پہنچتے ہیں جب یہ خود مغرب میں مسترد ہوچکے ہیں۔ دس بارہ سال پہلے ’’اسلوبیات‘‘ کا غلغہ بلند ہوا تھا لیکن وہ کوئلہ بھری تو مڑی کی طرح پھسپھسا کر رہ گیا تھا۔ چند سال پہلے ’’ساختیات‘‘ کا زور شور ہوا۔ نقاد لوگ قلم کان میں لگائے اس کے پیچھے دوڑ پڑے لیکن اس عرصے سے معلوم ہو اکہ اس نظریے کی عمر توپوری ہوچکی ہے اور آج کل ’’پس ساختیات‘‘ کا زور زورہ ہے۔ نقادان ادب اس کی طرف لپکے لیکن جلد یہ بات سامنے آئی کہ یہ نظریہ بھی اب دم توڑ چکا ہے اوراب رد تعمیر جسے ڈی کنسٹرکشن کہاجاتا ہے کا عروج ہے۔ یہ دیکھ کر ادبی رسالوں کے مدیرانِ کرام اور ان میں لکھنے والے نقاد اس طرف دو ڑ پڑے۔ معلوم ہوتا ہے کہ یہ خبر ان تک نہیں پہنچی کہ ’رد تعمیر‘ کا زور ٹوٹے ہوئے بھی کئی سال کا عرصہ گزر چکا ہے۔ یہ سب نظریات جامعات امریکہ کے شعبہ ادبی تنقید کے پیشہ ور پروفیسروں کا کاروبار تدریس کی پیشہ ورانہ ضرورت ہے۔ یہ نظریات امریکہ کے سرمایہ دارانہ نظام پرقائم معاشرے میں، نئے فیشن کی طرحِ مال کی مانگ بڑھاتے ہیں۔ مختلف یونیورسٹیاں نظریہ پسند پروفیسر کی خدمات حاصل کرنے کے لیے بڑی بڑی تنخواہیں پیش کرتی ہیں، طلبہ ان یونیورسٹیوں میں داخلے کے لیے دوڑ پڑتے ہیں جہاں نظریہ ساز پروفیسر کاروبار تدریس انجام دے رہا ہے۔ عام طور پر ان پروفیسروں کو جامعات کم سے کم ڈیڑھ لاکھ ڈالر تنخواہ دیتی ہے۔ پھر بھی یہ تنخواہ امریکہ کے کامیاب تاجروں، ڈاکٹروں اور وکیلوں کے مقابلے میں بہت کم ہوتی ہے، لیکن یورپ کی یونیورسٹیوں کے پروفیسروں کے مقابلے میں یقینا چار پانچ گنا زیادہ ہوتی ہے۔ امریکہ کے ایک ایسے ہی نظریہ ساز پروفیسر جناب جے بلس ملر ہیں، جنھوں نے حال ہی میں ’’ماڈرن لینگویج ایسوسی ایشن‘‘کے اجلاس میں خطبہ صدارت پیش کرتے ہوئے افتخار کے ساتھ فرمایا کہ ’’کسی نظریے کامخرج ومنبع خواہ یورپ ہی کیوں نہ ہو، ہم اسے وہاں سے لیتے ہیں اور ایک نئی صورت دے کر ساری دنیا کو برآمد کردیتے ہیں‘‘ اس جملے کا لہجہ دیکھئے۔ یہ خالص تاجرانہ ذہن کا ترجمان ہے۔ امریکہ میں ہر چیز مال تجارت ہے اور جو چیز مالِ تجارت نہیں ہے وہ ردی ہے، بے وقعت ہے، کوڑا ہے۔
قارئین کے لیے یہ بات شاید دلچسپی کا باعث ہو کہ خود امریکی جامعات میں تدریس کا یہ رجحان بذات خود بہت پرانا نہیں ہے۔ 1970 کی دہائی میں یہ تبدیلی اس وقت آئی جب امریکہ میں ادبی تنقید نے برطانوی روایت کو ترک کردیا اور فرانسیسی ادبی فیشن کی روایت کو اختیار کرلیا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ اسی کے ساتھ وہاں ادبی مطالعات کی نوعیت بھی بدل گئی ہے۔ اب تک جہاں عملی تنقید کا راج تھا وہاں نظریات (تھیوری) کی تنقید نے لے لی… لیکن اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ جب شعبہ انگریزی ادب میں جہاں پہلے لسانیات، ادبی تاریخ اور متنی مطالعوں کی تدریس ہوتی تھی، وہاں ’ادبی تنقید‘ کی تدریس ہونے لگی اور ادبی تنقید امریکی جامعات میں خود شعبہ انگریزی میں ایک مرکزی شعبہ بن گئی۔ یہی وہ شعبہ ہے جہاں تنقید پڑھائی جاتی ہے، جہاں کاروبار تدریس کے لیے نظریات وضع کیے جاتے ہیں جو نئے تیار مال کی طرح کچھ دن چلتے ہیں، نظریہ ساز پروفیسر کی مانگ بڑھتی ہے، کھلاڑیوں اور فلم ایکٹروں کی طرح شہرت پھیلتی ہے اور کچھ دن بعد یہ نظریہ اپنی موت آپ مرجاتا ہے اور کوئی نیا نظریہ یا اس نظریے کا کوئی نیا رخ اس کی جگہ لے لیتا ہے۔ یہ عمل بالکل اسی طرح ہوتا ہے جیسے کپڑوں کے نئے نئے فیشن یا کاروں کے ہر سال ماڈل بدلتے ہیں۔ اس ادبی تنقید کا نمایاں پہلو یہ ہے کہ یہ زندگی اور اس کے مسائل سے بے تعلق رہتی ہے اور جامعات سے باہر کی دنیا سے بھی اس کاکوئی تعلق نہیں ہوتا۔ عام تعلیم یافتہ ادبی ذوق رکھنے والے انسان کے لیے بھی یہ بے معنی بے وقعت اور غیردلچسپ گورکھ دھندا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عام قاری کی دلچسپی ادب سے کم ہوگئی ہے اور یہ رجحان مسلسل بڑھ اورپھیل رہا ہے۔ یہ تنقید عام طور پر بال کی کھال نکالنے اور دوسرے جدید علوم و فنون سے خیالات لے کر ان کو دہلیز تنقید پر رگڑنے اورگھسنے کا اسی طرح کام کرتی ہے جس طرح قسطنطنیہ کے عیسائی علما برسوں اس بات پر بحث کرتے رہے کہ حضرت عیسیٰؑ پر جو خوان، من وسلویٰ کی صورت میں اترا تھا اس میں روٹی خمیری تھی یا فطری تھی؟ تنقید کے ان سب تنقیدی نظریات میں آپ کو محسوس ہوگا کہ ضابطہ کار (میتھڈ) نے ادراک کی جگہ لے لی اور پروفیسر موصوف ضابطہ کار کے ذریعے اپنے ذاتی تاثرات کو آفاقی قوانین بنانے کی کوشش میں مبتلا ہے۔
اگر غور سے دیکھا جائے تو اس بات کا سرا 1970سے بھی پیچھے جاتا ہے۔ 1970 میں تو امریکی جامعات میں یہ تبدیلی آئی کہ خود ابی تنقید نے مطالعہ ٔ ادب کی جگہ لے لی لیکن دراصل خود انگلستان میں ’نئی تنقید‘ (نیو کریٹی سزم) جسے پہلا علمی وتدریسی دبستان کہا جاسکتا ہے، کی بنیاد بھی چالیس کی دہائی میں اسی قسم کے نظریے پر اٹھائی گئی تھی جو ہمیں رینے ویلک (Rene Wellek) اور آسٹن وارن (Austin Warren) کی کتاب ’ادب کا نظریہ‘(تھیوری آف لٹریچر 1949) اور کلیتھ بروکس (Cleanth Brooks) اور ولیم ومزٹ (William Wimsatt) کی کتاب ’ادبی تنقید: ایک مختصر تاریخ‘ (لٹریری کریٹی سزم: اے شارٹ ہسٹری، 1957) میں ملتے ہیں۔ یہ دونوں کتابیں خاص طور پر ادب میں نظریے کی اہمیت اجاگر کرنے اور آگے بڑھانے کے لیے لکھی گئی تھیں۔ نور تھروپ فرائی نے جب ’ایناٹومی آف کریٹی سزم‘ (1957) لکھی تو اس نے کہا کہ ’نئی تنقید‘ بھی حقیقت میں پوری طرح نظریہ پر مبنی نہیں ہے بلکہ یہ اپنی پسند اور اپنے مذاق کی ترجیحات کو دوسروں کے سرتھوپنے کا ایک خفیہ راستہ ہے اور اس نے تنقید کے لیے ساختیاتی نظریہ تجویز کیا جسے وہ صحیح معنی میں سائنٹفک نظریہ کہتا ہے۔ 1957سے 1966 تک مختلف علوم و فنون کے تعلق سے ساختیات کا یہ نظریہ ادبی تنقید میں استعمال ہوتا رہا۔ ’نئی تنقید‘ اگر اسے تاریخی پس منظر میں دیکھا جائے تو وہ تاثراتی اور سوانحی انداز تنقید اور ادب کی یک رخی سماجی وتاریخی توجیہات بالخصوص مارکسی انداز نظر کے رد عمل کے طور پر پروان چڑھی تھی۔ نئی تنقید کا زور اس بات پر تھا کہ ادب کو ان جھمیلوں سے آزاد کرایا جائے اور اسے اخلاقیات وسیاسیات کی شاخ نہ بننے دیا جائے۔ نئی تنقید میں مطالعہ متن پر یقینا زور دیا گیا تھا لیکن اس کا تعلق ’رد تعمیر‘ (ڈی کنسٹرکشن) یا تعمیر نو ( ری کنسٹرکشن) کے تصورات سے نہیں تھا۔ نئی تنقید کے علمبردار اس بات کو بھی صحیح نہیں مانتے تھے کہ قاری بھی مطالعہ متن میں شریک مصنف بن جاتا ہے۔ ساختیات بھی متن پر زور دیتی ہے اور تاریخ کو جو انسانی تجربے کا خزانہ ہے، ادب کے لکھنے، پڑھنے اور مطالعہ کرنے کے عمل سے خارج کردیتی ہے لیکن نئی تنقید اور ساختیات میں فرق یہ ہے کہ نئی تنقید کے علمبردار تاریخ کو مانتے تو ہیں لیکن اسے تنقید میں کوئی اہمیت نہیں دیتے اور ساری توجہ شاعری کے اجزائے ترکیبی کے مطالعے پر صرف کرتے ہیں جنہیں اب تک تنقید میں نظر انداز کیا جاتارہا تھا۔ ساختیات کے علمبردار تاریخ کو عمل تنقید سے بالکل خارج کردیتے ہیں اور دوسری طرف لسانیات کو مطالعہ ’متن کی کنجی سمجھتے ہیں۔ زبان ہی ان کے نزدیک ادب کا عطر ہے اور اس طرح نظریہ ساختیات ادب کے روایتی انداز فکر سے قطع تعلق کرلیتا ہے۔
1966 تک ساختیات کا زور باقی تھا کہ اسی زمانے میں ساختیات کو امریکی جامعات کے دانشوروں سے متعارف کرانے کے لیے جون ہو پکٹر یونیورسٹی، بالٹی مور میں ایک کانفرنس منعقد ہوئی جس میں ژاک دریدا کو فرانس سے مدعو کیاگیا۔ ژاک دریدا نے یہاں مطالعہ متن کے سلسلے میں رد تعمیر (ڈی کنسٹرکشن) کا طریقہ کار پیش کیا۔ اپنے مقالے میں دریدا نے کلوڈلیوی اسسٹراس کے ساختیاتی بشریات کے تصور ساخت کی تنقید پیش کی جس پر خوب گرماگم بحث ہوئی اور یہ کانفرنس جو ساختیات کو متعارف کرانے کے لیے منعقد کی گئی تھی ساختیات کی نماز جنازہ پڑھنے پر ختم ہوئی۔ دریدا نے اپنے مقالے کی مقبولیت کے بعد ساختیات پر کھل کر تنقید کی، نہ صرف اسے رد کیا بلکہ ان نقادوں کے ساختیاتی علم علامات کو بھی نشانہ بنایا جو 1960سے 1970 کے درمیان مقبول رہا تھا۔ ان ساختیاتی نقادوں میں رولاں بارتھ، زوٹین ٹوڈوروف اور ژیراژینت شامل تھے۔
ساختیات اور رد تعمیر کے تنقیدی نظریات کے فرق کو واضح کرنے کے لیے مناسب ہوگا کہ اس بات کا بھی یہاں ذکر کردیا جائے کہ 1950تک اس تنقید میں جسے پروفیسر نقادوں نے تحریر کیا اور اس تنقید میں جسے غیر پروفیسر نقادوں نے لکھا، بہت کم فرق تھا، اس تنقید میں بحیثیت مجموعی علم، ادب، نظریہ سب کچھ شامل تھا مثلاً رابرٹ پین وارن، رچرڈ بلیک مور اور ایلن ٹیٹ نئی تنقید کے علمبردار تھے اور لیونیل ٹریلنگ، ارونگ ہو، ایف ڈبلو ڈوپی تہذیبی نقاد تھے۔ یہ وہ لوگ تھے جن کا ذہنی تناظر وسیع تھا اور جن کی تحریریں صرف ادبی تجزیوں تک محدود نہیں تھیں۔ ان کی تحریروں سے ادب سے دلچسپی رکھنے والے عام قاری بھی لطف اندوز ہوتے تھے۔ اس زمانے میں علمی تنقید جامعات سے باہر بھی لکھی جاتی تھی، مثلاً ممتاز نقادوں میں ٹی ایس ایلیٹ کسی یونیورسٹی سے وابستہ نہیں تھے لیکن بڑی اہمیت رکھتے تھے۔ اسی طرح تہذیبی نقادوں میں ٹریلنگ کا نام لیا جاسکتا ہے۔ جامعاتی تنقید کاایک منفی اثر یہ ہوا کہ 1970سے جامعات سے باہر کلچر اور ادب سے دلچسپی اور احساس شرکت کم ہونے لگا اور آج صورت حال یہ ہے کہ اب جامعات کی علمی تنقید اور معاشرے کے کلچر کے درمیان کوئی واضح تعلق باقی نہیں رہا ہے۔ ادبی تنقید جامعات کی چار دیواری میں محصور ہے اور صرف ایک تدریسی عمل بن کر رہ گئی ہے۔ یہ اب خالصاً پیشہ ورانہ تنقید بن گئی ہے جسے ادب کے ذیل میں نہیں لایا جاسکتا۔ اب جامعات کے پروفیسر ادب کے ساتھ جو کچھ کرتے یا کررہے ہیں وہی ادبی تنقید کا موضوع مطالعہ بن گیا ہے۔ بعض جامعات میں شاعروں اور فکشن نگاروں کو بھی تدریس کے مواقع فراہم کیے جاتے ہیں، لیکن انہیں ادبی تنقید کے شعبے سے الگ دوسرے پروگراموں میں جگہ دی جاتی ہے جہاں وہ ایک مضمون پڑھاتے ہیں جسے ’’تخلیقی تحریروں‘‘ کے شعبے کا نام دیا جاتا ہے۔
اس تفصیل سے جو میں نے ان سطور میں درج کی ہے، یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ اب ادبی تنقید تکمیل ذات کرنے والی ایک پیشین گوئی بن گئی ہے اور تنقیدی نظریہ (تھیوری) ایک قسم کا جادوئی تیر ہے جو اہم مسائل کو نشانہ بناتا ہے اور طلبہ و ہم پیشہ پروفیسر نقادوں کے لیے توجیہ و تاویل کی خدمات انجام دیتا ہے۔ اب ادبی تنقید میں آزادی ذہن کی بہت کم گنجائش رہ گئی ہے۔ ادبی تنقید سے احساسِ شخصیت اور احساسِ روح کے عناصر خارج ہوگئے ہیں۔ یہ بات کہ ہر زیر مطالعہ چیز دوسری چیز سے مختلف ہوتی ہے اب بے معنی ہوگئی ہے۔ یہ بات بھی اب بے معنی ہوگئی ہے کہ تنقید کا مقصد ادب کے بارے میں ایسی باتیں بتانا ہے کہ جو نہ صرف ماہرین ادب کے لیے نئی اور دلچسپ ہوں بلکہ ذوق ادب رکھنے والے دوسرے قارئین کے لیے بھی صحیح اور بامعنی ہوں۔ ساختیات اور رد تعمیر (ڈی کنسٹرکشن) کی بحثوں کو دیکھ کر یوں محسوس ہوتا ہے کہ تنقید تنگ پیشہ وری بن گئی ہے اور ادبی مطالعہ راستہ بھول گیا ہے۔
اس صورتِ حال میں میں ان نقادوں اور مدیران کرام جو ساختیات، پس ساختیات اور رد تعمیر کی تحریروں اور نظریوں کو سمجھے اور بغیر سمجھے، انگریزی اقتباسات اور الفاظ سے لبریز، گنجلک اور الجھی تحریروں کے ڈھیر لگا رہے ہیں صرف یہ کہنا چاہتا ہوں کہ ان نظریوں سے نہ امریکی ادب کا بھلا ہوگا اور نہ اردو ادب کا بھلا ہوگا۔ ہمارے لیے تو یہ مباحث اور تحریریں کچھ بھی معنویت نہیں رکھتیں۔ اگر رکھتی ہیں تو براہ ِ کرم بتایا جائے کہ ہماری تہذیب اور ہمارے ادب کے لیے ان کے کیا معنی ہیں؟ یہ بات یاد رکھئے کہ جب تک قوت تخلیقی باقی ہے تنقید کا عمل باقی رہے گا اور جب تک تنقید زندہ ہے تخلیق کا عمل جاری رہے گا۔ باقی رہیں ساختیات، پس ساختیات اور رد تعمیر وغیرہ تو صاحبو! یہ امریکی پروفیسروں کے ڈھکوسلے ہیں جن کا تعلق ہمارے ادب اور ہماری تہذیب سے کم و بیش نہیں ہے۔
کوئی تبصرہ نہیں