موسم کشف: نئے امکانات کی تلاش


موسم کشف: نئے امکانات کی تلاش

صابرؔ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بقول شخصے ’’ہر لفظ استعارہ ہے اور ہر استعارہ شاعری ہے‘‘ لیکن ہم جانتے ہیں کہ ہر لفظ استعارہ نہیں ہے تاہم جب بات کسی جذباتی بیان ہی سے شروع ہوئی ہے تو سنیے ایک اور جذباتی بیان:

  Every word was once a poem.
ہر لفظ شاعری ہے۔ ہر لفظ، چاہے وہ استعارہ ہو یا نہ ہو مثلاً ’’مگر‘‘۔ ہم دیکھ رہے ہیں کہ ہر شاعر اور ہر شعر فہم قاری اس نظم سے لطف اندوز ہورہاہے اور ہم یہ بھی دیکھ رہے ہیں کہ ہمارے درمیاں کئی ایسے شعر فہم حضرات بھی موجود ہیں جو اس ایک لفظ ’’مگر‘‘ میں ایک نہیںبلکہ کئی نظمیں یکے بعد دیگرے پڑھتے چلے جارہے ہیں۔ لیکن اس جوش بھرے ماحول میں ہم نظر انداز کررہے ہیں اُس فلسفی کو جس کا کہنا ہے کہ ’’مگر‘‘ نظم نہیں ہے ، ایک فلسفہ ہے بلکہ سارے فلسفوں کا منبع ہے۔ یہاں ایک شخص اور بھی ہے جو کہہ رہا ہے کہ ’’مگر‘‘ ایمانیات ہے اور ایک شخص وہ بھی ہے جس کے لیے ’’مگر‘‘ سراسر کفر ہے۔ کیا یہ ہنگامہ ہمارے اس عقیدے کوچکنا چور نہیں کررہا کہ ہر لفظ شاعری ہے؟ ہم سب یکایک خاموش ہوگئے ہیں اور ہماری خاموشی ہمارے ذہنوں میں مچی اُتھل پتھل کو ظاہر کررہی ہے۔ ہمارے عقیدے کچی کانچ کے آبگینوں کی طرح کمزور ہیں۔ ہر لفظ شاعری ہے تو لفظوں کا یہ مجموعہ کیا ہے؟ پڑھیے:

ہر عمل کا رد عمل مساوی اور مخالف سمت میں ہوتا ہے۔

یہ نیوٹن کا تیسرا قانونِ حرکت ہے۔ یہ شاعری کیوں نہیں ہے؟ یہ سب لفظ ہی تو ہیں پھر بھی شاعری نہیں۔ چلیے اس قطعہ پر نظر ڈالیے:
اک جسم جب لگائے دوجے پہ کوئی قوت

دوجا بھی پھر لگائے پہلے پہ وہ ہی قوت
مقدار میں مساوی اور سمت میں مخالف
اک ہے عمل کی ، دوجی رد عمل کی قوت

جی ہاں! یہ بھی شاعری نہیں ہے۔ لفظ یہاں بھی ہیں اور ان کی ترتیب بھی نہایت متوازن و منظم ہے پھر بھی یہ شاعری نہیں۔ اس طرح ایک عجیب بات نکل کر سامنے آتی ہے کہ نہ تو کوئی مجرد لفظ شاعری ہوسکتا ہے اور نہ ہی متوازن و منظم ترتیب میں جمے ہوئے الفاظ نظم ہوسکتے ہیں پھر بھی ہم شاعری کو کیسے پہچان لیتے ہیں؟ دراصل ہم شاعری کو الفاظ سے کم اور معانی سے زیادہ پہچانتے ہیں۔ ہم لفظوں کے مجموعے کو شاعری اُسی وقت کہتے ہیں جب ہمیں اس میں معانی کا ایک خاص طرز کا کولاژ دکھائی دے جاتا ہے۔ ’’خاص طرز کا‘‘ یہ فقرہ یقینا ایک سرسری سا اشارہ ہے لیکن جو لوگ تخلیقی زبان کی بنیادی خصوصیات اور امتیازات سے واقف ہیں، ان کے لیے یہ روزِروشن کی طرح واضح اور عیاں ہے۔ سیدھے سادے لفظوں میں کہا جائے تو مضمون کی تازگی اور خیال کی ندرت کے بعد تخلیقی زبان کے استعمال کا سلیقہ ہی شاعر سے وہ ادب پارہ تخلیق کرواتا ہے جسے صحیح معنوں میں شعر کہتے ہیں۔ اسی لیے جب شعر کے حوالے سے ہم بظاہر لفظوں کی نشست اور ان کے در وبست کی بات کررہے ہوتے ہیں تو پس پردہ ہماری نگاہیں معنی کی لطافتوں اور رعنائیوں پر کھیل رہی ہوتی ہیں۔ ایک اچھا شاعر اپنے فن کے تئیں دیانت دار ہوتا ہے۔
’’موسمِ کشف‘‘ کا شاعر خیال اور لفظ و معنی کے باہمی رشتوں سے نہ صرف واقف ہے بلکہ ان سے استفادہ کرنے کی قدرت بھی رکھتا ہے۔ امیر حمزہ ثاقبؔ کے یہاں الفاظ اور ترکیبیں محض چونکانے کے لیے استعمال نہیں ہوتیں بلکہ ان سے معنی کی نئی نئی جہتوں کی دریافت کا کام لیا جاتا ہے۔ خیال کی ترسیل کے لیے زبان کا فنکارانہ استعمال ثاقبؔ کی بنیادی ترجیحات میں سے ہے لیکن تمام تر صناعی کے باوجود شعر سیدھے قاری کے دل میں جاگزیں ہوتا ہے اور اس کی شاعری ہے ہی قاری کے لیے، سامع گڑبڑاجائے یہ غیر ممکن نہیں۔ دوربین سے دیکھنے والوں، سادہ آنکھ سے دیکھنے والوں اور خوردبین سے دیکھنے والوں کے اپنے اپنے معیارات ہوتے ہیں۔ دادِ ثلاثہ ایک خیالی چڑیا کا نام ہے۔ ثاقبؔ کے اولین شعری مجموعے ’’موسمِ کشف‘‘ سے دوربین والے دور ہی رہیں تو بہتر البتہ ماباقی دونوں قسم کے حضرات کے ذوق کی تسکین کا کثیر و خطیر سامان موجود ہے۔ ثاقبؔ کہتا ہے:

میں اپنی ذات کا جاروب کش ہوں
مرے آگے مگر گردِ جہاں ہے

’’مگر‘‘ کو حذف کر دیجیے۔ شاعری بھی دم توڑ دے گی کیونکہ جتنے لطیف معنی اس شعر سے نکلتے ہیں ، اسی ایک لفظ ’’مگر‘‘ کے مرہون منت ہیں۔ شخصیت کی تعمیر میں تزکیہ نفس کو مرکزی اہمیت حاصل ہے لیکن شاعر نے کیا خوب بہانہ تراشا ہے کہ اس کا حقیقی حصول تو تبھی ممکن ہے جب گرد و نواح میں سارے نفوس پاک ہوں یا کم از کم مائل بہ تزکیہ ہوں۔ ورنہ اصولاً ایک جاروب کش کو اپنی ستھرائی کا دھیان تو اُسی وقت آئے گا جب وہ اپنے اطراف کے گرد وغبار اور کوڑا کرکٹ کی صفائی سے فارغ ہوچکا ہوگا۔
الفاظ کا خلاقانہ برتائوایک عمومی مضمون والے شعر کو اچھے اور نادر شعر میں تبدیل کردیتا ہے۔ اسے شعر کے خارجی محاسن میں شمار کیا جاتا ہے جو میرے خیال میںکچھ ایسے خارجی بھی نہیں ہوتے کیونکہ علم بدیع، علم معانی اور علم بیان کے سارے وسائل تو یہیں سے فراہم ہوتے ہیں۔ ’’موسمِ کشف‘‘ میں ہمیں اس کی مثالیں جا بجا دیکھنے کو ملتی ہیں:
کہاں کہاں نئی تعمیر کی ضرورت ہے

سو تیری آنکھوں سے اپنا جہان دیکھتا ہوں

پہلا مصرع اس طرح بھی کہا جاسکتا تھا۔

1۔ کہیں کہیں نئی تعمیر کی ضرورت ہے
2۔ یہیں کہیں (یا یہاں وہاں) نئی تعمیر کی ضرورت ہے

لیکن ان صورتوں میں معمار بذات خود ایک ناقد ثابت ہوجاتا ہے جو یہ جانتا ہے کہ ’’کہاں کہاں نئی تعمیر کی ضرورت ہے ‘‘ لہٰذا اُس کا ’’تیری آنکھوں‘‘ پر انحصار کرنا بے معنی ہوجاتا ہے۔ لفظ ’’اپنا‘‘ کی ضمیر کو متکلم کی طرف پھیرنے کے بجائے ’’ہماری‘‘ طرف پھیر دیجیے اور شعر کی فضا بلا کی رومانوی ہوجائے گی۔
عشق کے باب میں در آیا بہت شورِ انا

اب تو دروازہ بھی دیوار کیا جائے گا

باب ، در ، دروازہ ۔ تینوں الفاظ مترادف بھی ہیں مگر شعر میں متغائر معانی سے استفادہ کیا گیا ہے۔ وہیں اس پر بھی نظر کیجیے کہ شور سے بچنے کے لیے دروازے کا دیوار کیا جانا سامنے کا واقعہ ہے لیکن شعر میں شور کے نتیجے میں رونما ہونے والی کیفیت ہے:
بدن میں بائولی وحشت کہاں سے آتی ہے

عجیب طرح کی لذت کہاں سے آتی ہے
تم اپنا دامنِ شفاف مت دکھائو ہمیں
بتائو گردِ ملامت کہاں سے آتی ہے

ثاقبؔ سے پہلے شاید وحشت کو ایسی لگاوٹ کے ساتھ بائولی کسی اور نے نہ کہا ہوگا۔ وحشت نہ ہوئی، ثاقبؔ کی محبوبہ ہوگئی۔ دوسرے شعر کے واقعے کو تصورمیں لائیے تو متکلم اپنا دامنِ گرد آلود پھیلائے کھڑا دکھائی دے گا لیکن اُس کا یہ حلیہ شعر میں کہیں بیان نہیں ہوا ہے۔ اظہار اور اخفا کے فن پر ثاقبؔ کی یکساں دسترس کی داد دیتے ہی بنتی ہے۔

ان دنوں کلاسیکی شعریات میں نئی نسل کے شعرا کی بڑھتی دلچسپی کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے۔ عشق ومحبت کے روایتی مضامین میں امکانات کی تلاش کا ایک سلسلہ ساچل پڑا ہے لہٰذا ’’موسمِ کشف‘‘ میں بھی ایسے اشعار کی قابلِ لحاظ تعداد کا پایا جانا حیرت کی بات نہیں:

رایگانی کا عجب رنگ کھلا ہے مجھ پر

ریگِ مقتل بھی مرے خون سے عاری نکلی

قتل، قاتل ، مقتل، مقتول اور ان کے پامال تلازمات میں بھلا کیا امکانات تلاشے جاسکتے ہیں۔ ثاقبؔ کا یہ شعر بھی کیفیت کا ایک عام سا شعر ہے جس میں سوائے نازک خیالی کے اور کچھ نہیں۔ میرے خیال میں ایسی عجلت پسندی ہمیں ولیؔ دکنی کی حدیثِ سخن کا انکاری ثابت کردے گی اور شریعتِ ادب کی رو سے ہم کافر ٹھہرائے جائیں گے۔ یہ مقام تیزی سے گزرجانے کا نہیں ہے بلکہ اطمینان بھر قیام کا متقاضی ہے۔ مقتول کی جان کا رایگاں ہونا یا ریگِ مقتل پرمقتول کے خون کے نشان کا نہ پایا جانا بلاشبہ ’’مضامینِ تازہ‘‘ نہیں کہلائے جاسکتے لیکن ثاقبؔ کے اس شعر کو پڑھ کر ان مضامین کا ہمارے ذہن میں سرعت کے ساتھ درآنا دراصل کلاسیکی شعریات سے ہمارے مرعوب ہونے کی علامت ہے۔ کیوں نہ تقلید کے بجائے اجتہاد کو اپنایا جائے۔ ثاقبؔ کے شعر میں قتل کے واقعے کا کوئی ذکر نہیں ہے اور جان کی رایگانی کا عجب رنگ قتل ہونے کی سعادت سے محرومی بھی ہو سکتا ہے۔ اسی کو ہم کلاسیکی لفظیات میں نئے امکانات  کی تلاش سے تعبیر کرتے ہیں۔ ’’نئے امکانات کی تلاش‘‘ کو ’’نئی معنویت کی تلاش‘‘ کا متبادل مت جانیے۔ نئی معنویت کی تلاش شاعری کے مجموعی رجحان کے ساتھ معاملہ کرتی ہے اور ہمارے یہاں اس کا اکھوا شدت پسندانہ انحراف کی زمین سے پھوٹتا ہے لیکن نئے امکانات کی تلاش میں حد درجہ احترام اور توسیع پسندی کا جذبہ کام کرتا ہے۔
ثاقبؔ کے پسندیدہ موضوعات کیا ہیں؟ ثاقبؔ کی شاعری میں ذات و کائنات کی گتھیوں کو سلجھانے کی سعی، عصری حسیت، خارجی شعور یا داخلی انتشار کے مضامین کا تناسب کیا ہے؟ تخلیقی زبان کے عناصر یعنی تشبیہ ، استعارہ، ابہام، علامت ، پیکر وغیرہ کے استعمال کی کیا صورت حال ہے؟ ان معروف و مانوس زاویوں سے ثاقبؔ کی شاعری کا جائزہ لینے کے لیے ایک طویل مضمون درکار ہو گا۔ اس مختصر سی تحریر میں مَیں نے ثاقبؔ کی شاعری میں لفظوں کے ماہرانہ انتخاب کی چند مثالیں پیش کی ہیں۔ صحیح قدر و قیمت کے تعین کاکام خوردبینوں کرتی رہیں گی۔

۔•••••••✦★✿★✦•••••••۔

کوئی تبصرہ نہیں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے