شبیر احمد کے ناول بدروہی پر ڈاکٹر سفینہ بیگم کا تبصرہ


شبیر احمد کا پہلا ناول "ہجور آما”(2020) تھا جو موضوع اور تکنیک کے اعتبار سے قاری کو اپنی طرف متوجہ کرانے میں کامیاب رہا۔ اب یہ دوسرا ناول "بدروھی”(2023) جو اپنے طرز بیان میں، ان کے پہلے ناول سے آگے کی کڑی محسوس ہوتا ہے۔ زمانی اعتبار سے دیکھیں ، تو ناول (پہلا حصہ) بنگال کی تقسیم (1905) سے شروع ہوکر پہلی عالمی جنگ ، جلیاں والا باغ سانحہ اور خلافت تحریک کو سمیٹتے ہوئے 1921 تک چلا جاتا ہے اور یہ عرصہ بہت زیادہ نہیں ہے۔ لیکن اگر صورت حال کے تناظر میں غور کریں تو یہ کینوس بہت بڑا معلوم ہوگا۔ کیونکہ اُس دور کی صورت حال کو جن باریکیوں کے ساتھ ناول نگار نے بیانیہ میں پیوست کیا ہے۔اس میں ، اُس وقت کا ہندوستان اپنے تمام تر اتار چڑھاؤ کے ساتھ ہمارے سامنے آ کھڑا ہوتا ہے ۔
ناول نگار کے مطابق یہ ان کے ناول کا پہلا حصہ ہے۔۔ اس کا مطلب دوسرے حصے میں اظہار و بیان کی مزید رنگینیاں بھی دیکھنے کو مل سکتی ہیں۔۔ اور اس حصے میں اس کے امکانات بھی نظر آتے ہیں۔۔ ناول میں موضوعات کا تنوع ہے۔ جس میں بنیادی حوالہ مذہب اور سیاست ہے اور اسی بنیاد پر ہندوستان کے بدلتے ہوئے منظرنامے کو پیش کیا گیا ہے۔ لیکن یہ پیش کش کوئی سیدھی سادی اور خط مستقیم پر چلنے والی نہیں ہے بلکہ اس میں ماضی میں چھپی ایسی چنگاریوں کو کریدا گیا ہے جس سے گزرے ہوئے واقعات کے تمام نقوش تخلیقی طور پر ابھر کر ہمارے سامنے آ جاتے ہیں۔
مرکزی کردار سیاست، مذہب، تہذیب، سماج، ادب، رقص، موسیقی، آلات موسیقی، فلسفہ، مشترکہ تہذیب، یکجہتی وغیرہ جیسے امور کو عملی انداز سے ناول کے بیانیہ میں پروتا ہے۔ یہاں معلومات کو براہ راست قاری تک نہیں پہنچایا گیا ہے ، بلکہ ناول نگار نے اپنی تخلیقی قوت سے ،ان تمام معاملات کو بڑی ہنر مندی اور چابک دستی سے سمو کر ہمیں اس میں شامل کرلیا ہے ۔اور اتنی ضخا مت کے باوجود ، کسی بھی لمحہ اکتاہٹ کا احساس پیدا نہیں ہوتا۔ آج کے اس تیز رفتار تکنیکی دور میں، جب کہ ہر چیز ہماری آنکھوں کے سامنے تیزی سے آجاتی ہے اور دوسرے ہی لمحہ اپنی رعنائی کھو بھی دیتی ہے، اتنے ضخیم فن پارے کو ،ریڈیبل بنانا آسان کام نہیں۔ لیکن ناول نگار نے عباپوش اور ابن فقیر کے باہمی تعامل سے بیان کی جو فضا قائم کی ہے وہ قاری کو باندھے رکھتی ہے۔ اور بیان کے ارتقائی سفر میں دلچسپی برقرار رہتی ہے۔ عباپوش اور نقش ثانی کی گفتگو عالم برزخ سے نکل کر جب عالم بالا کو پہنچتی ہے تو ان کی یہ مابعد الطبیعیات ، بیان میں معنی کے بہت سے امکانات کے در وا کردیتی ہے۔ ناول کا مرکزی کردار تاراکھپا/ دکھو/نذرعلی/ قاضی اپنے الگ الگ نام سے موجود ہے اور ان ناموں کی تبدیلی کی ایک بڑی خاصیت یہ ہے کہ اس کا ہر نام منظرنامے کے مطابق ، صورت حال کو منعکس کرتا محسوس ہوتا ہے۔ عباپوش، ہر بار، مختلف رنگوں کی ترنگ سے ماضی کا ایک نیا منظر سامنے لاتا ہے جو مرکزی کردار، نذرعلی کی زندگی کے واقعات کو بلاواسطہ اور بلواسطہ دونوں طور پر دکھاتا ہے ۔ یہاں غور کرنے پر ان رنگوں اور مناظر کی بنیادی صفات میں تخلیقی طور پر ہم آہنگی بھی نظر آتی ہے، جس کو بڑی خوبصورتی سے خلق کیا گیا ہے۔ کہا جا سکتا ہے کہ ناول کا یہ مرکزی کردار، ہندوستان کی علامت ہے، جو ہندو، مسلم اور سکھ مذاہب کے لوگوں کو اپنی آغوش میں لیے یکجہتی کی طرف گامزن ہے۔ اس کا یکجہتی کی طرف گامزن ہونا روایتی نہیں بلکہ وہ سراپا پیغام ہے جو اپنے اعمال و افعال سے، تاریخ کے دھارے میں موجود اہم سازوں کو چھیڑ رہا ہے۔
ناول کا یہ بڑا کینوس جس کو ماضی کے احوال پر تشکیل دیا گیا ہے ، موجودہ دور کا انعکاس معلوم ہوتا ہے اور یہ محسوس ہی نہیں ہوتا ہے کہ ہم سو سال پہلے کی کہانی پڑھ رہے ہیں یا عصرِ حاضر کی۔ ناول کے ان متنوع اور فکرانگیز پہلؤوں تک رسائی، نیزعباپوش اور ابن فقیر کے تعلق کو سمجھنے کے لیے ،قارئین کا ناول کی وادیوں سے گزرنا ضروری ہے۔

کوئی تبصرہ نہیں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے