‘کہانی سفر میں ہے’


‘کہانی سفر میں ہے’
 انتخاب و ترجمہ: احسن ایوبی – چند تاثرات
                                       (شہرام سرمدی)
‘کہانی سفر میں ہے’ کا سید محمد اشرف، ذکیہ مشہدی، سراج اجملی اور خورشید اکرم وغیرہ نے صرف استقبال کیا ہے بلکہ خوش آئند کام کے طور پر بھی دیکھا ہے۔ ان تراجم کو پڑھتے ہوۓ ایک واقعہ یاد آیا۔ ہوا یوں کہ بائیسویں پشت میں مولانا روم کی پوتی اسین چلپی تہران آئی ہوئی تھیں۔ وہ ترکی زبان میں بات کررہی تھیں اور فارسی نہیں جانتی تھیں۔ ایک ادبی محفل میں، میری ایک ایرانی دوست نے بصورتِ طنز ان کے بارے میں مجھ سے کہا کہ یہ کیسی مولانا کی پوتی ہیں کہ فارسی تک نہیں آتی۔ میں اپنی اس ایرانی دوست سے کہا کہ خانم مولانا محض زبان نہیں بلکہ بیان ہیں۔
اس خیال کو مزید تقویت ان تراجم کے مطالعے کے توسط سے ملی کہ تخلیقی ادب میں ‘بات’ اور اس کے طرزِ اظہار کی اہمیت بنیادی ہوا کرتی ہے۔ زبان کا معاملہ یہ ہے کہ اگر بات معقول ہوئی تو لوگ ترجمہ کرلیتے ہیں۔ معلوم ہوا کہ دو زبانہ اور سہ زبانہ ادیب ہونے سے زیادہ ضروری ‘بات’ کا ہونا ہے۔
آج اردو فکشن نگاروں کے ہندی و انگریزی تراجم کی دھوم مچ رہی ہے۔ اس کے پسِ پشت دیگر عوامل کے ساتھ آنکھوں دیکھی سچائی یہ بھی ہے کہ یہ ان کے اردو میں لکھے گئے فکشن کے تراجم ہیں۔ یہ بات  سنجیدہ غور و فکر سےتعلق رکھتی ہے اور غیر سنجیدگی کے نتائج کا غیر متوقع ہونا بعید نہیں ہے۔
اکیسویں صدی کی ہندی کہانیوں کا انتخاب و ترجمہ ‘کہانی سفر میں ہے’ احسن ایوبی کا تازہ کام تقریبا سواچارسو صفحات پر  مشتمل ہے۔ جسے دیکھنے پر معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے اس کتاب میں سب سے زیادہ توجہ کہانیوں کو دی ہے۔ اس بات کی تصدیق یوں بھی ہوتی ہے کہ حتٰی انہوں نے ‘فرضِ عرض’  کے تحت اپنی بات کو بھی دیڑھ صفحے سے آگے نہیں بڑھنے دیا حالانکہ سواچارسو صفحات پڑھنے والا قاری اگر احسن ایوبی سے ان کے انتخاب اور ترجمے کی بابت  مزید  ‘عرض’ کی طلب کرے تو  اس کا تقاضا نامناسب نہیں لگتا۔
‘کہانی سفر میں ہے’ میں احسن ایوبی نے ہر کہانی کے اختتام پر چارپانچ سطر میں اس کہانی کار کے  کوائف بھی تحریر کیے ہیں۔ ان مختصر تحریروں کی قرات بڑی عجلت میں ختم ہوجاتی ہے اور یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے کسی نے زبانی کوئی بات کہہ دی ہو اور اسے تحریر کرنا رہ گیا ہو۔ مثال کے طور پر:
"منوج روپڑا ہندی فکشن میں معتبر شناخت کے حامل رائٹر ہیں”;
 یا "ناصرہ شرما نے شاہنامہ فردوسی، گلستانِ سعدی، فارسی کی دلچسپ کہانیوں کے علاوہ بے شمار ترجمے بھی کیے ہیں”۔
زبان اور بیان کے نکتہء نظر سے درج بالا باتیں غور کرنے سے تعلق رکھتی ہیں۔ علاوہ از ایں "ٹاور آف سائلنس” پڑھنے کے دوران نہ جانے کیوں قرۃالعین حیدر کا خیال کئی مرتبہ آیا ممکن ہے کہ ایسا اس لیے بھی ہوا ہو کہ انہوں نے اسی معنویت کو "برجِ خموشاں” کہہ کر نہ صرف عمدگی سے یاد کیا ہے بلکہ متعلقہ معانی کا تخلیقی سطح پر بھرپور احاطہ بھی کیا ہے۔
احسن ایوبی سے میرا رابطہ ادبی کاموں اور ٹیلیفون پر سنی دو تین مرتبہ آواز بھر ہے۔ دونوں حوالوں سے میں نے ان کو سنجیدہ اوور ایماندار پایا ہے۔ خاص طور پر طارق چھتاری کی منتخب تحیریروں پر مشتمل ان کی انتخاب و ترتیب کردہ کتاب ‘باغ کا دوسرا دروازہ’ جس ادبی دیانت داری کا ثبوت دیا ہے وہ قابلِ قدر ہے۔
تشنگی کو سیرابی کے مد و جزر سے ہم کار  کرتی ہوئی کتاب کی جس طرح پذیرائی ہو رہی ہے اس کے لیے احسن ایوبی اور ان کی اہلیہ صاحبہ شہناز رحمٰن دونوں کو پرخلوص دلی مبارکباد۔

******************

کوئی تبصرہ نہیں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے