مرزا اطہر ضیا کی غزلیں


مرزا اطہر ضیا کی غزلیں

غزل

بڑے یقین سے اپنے گماں پہ چلتا ہوا

زمیں پہ اترا ہوں میں آسماں پہ چلتا ہوا

یہ کیسے خوف کے سائے میں لوگ جیتے ہیں

ہر ایک شخص ہے نوک_ سناں پہ چلتا ہوا

تمهاری راہ میں تارے تهے ہمسفر میرے

یہاں تک آیا ہوں میں کہکشاں پہ چلتا ہوا

یہ میں جو خون اگلتا ہوں بات کرتے ہوئے

کوئی بلیڈ ہے میری زباں پہ چلتا ہوا

وہ شخص آج مجهے راستہ بتاتا ہے

یہاں جو پہونچا ہے میرے نشاں پہ چلتا ہوا

لرز کے رہ گیا شیرازہء وجود اطہر

یہ کون گزرا مرے جسم وجاں پہ چلتا ہوا

————————————-

غزل

ہاتهہ سے چهوٹے ہوئے پل کی طرف

مجهہ کو لوٹا دے مرے کل کی طرف

سرخ برسات کا امکان ہے آج

بجلیاں چمکی ہیں مقتل کی طرف

قافلے والے اندهیری شب میں

بڑهہ رہے ہیں کسی دلدل کی طرف

مسئلے الجهے ہیں اک دوجے میں

کوئی جاتا ہی نہیں حل کی طرف

کب سے نگراں ہیں سبهی کی آنکهیں

ایک بجهتی ہوئی مشعل کی طرف

اپنی مرضی سے برسنا ہے اسے

کیا کریں دیکهہ کے بادل کی طرف

جو بهی اس شہر میں رہ لے اطہر

وہ نہ جائے کبهی جنگل کی طرف

————————————-

غزل

تیرگی زیست کی اس طرح اجالے ہوئے ہیں

اپنی آنکهوں میں ترے خواب کو پالے ہوئے ہیں

ایک محشر ہے جسے تهام رکها ہے دل میں

اک قیامت ہے کہ جس کو ابهی ٹالے ہوئے ہیں

تہ بہ تہ ریت کی پرتوں کو بهی چهانا ہوا ہے

موج در موج سمندر بهی کهنگالے ہوئے ہیں

سستی شہرت کی تمنا میں مرے لوگ اطہر

اپنی عزت سر بازار اچهالے ہوئے ہیں

————————————-

غزل

ابهی ہیں لوح میں محفوظ سب صحیفے مرے

کهلےہیں مجهہ پہ بهی اب تک کہاں دریچے مرے

ابهی تو روح کو سیراب کرنا باقی تها

ابهی تو ٹهیک سے لب بهی نہیں تهے بهیگے مرے

ضرور مجهہ سےکوئی کام پڑ گیا اس کو

وہ پڑهہ رہا ہے بہت آج کل قصیدے مرے

میں اپنے گاؤں لیے بهاگتا پهروں کب تک

کہ شہر بڑهتے چلے آرہے ہیں پیچهے مرے

میں لکهہ رہا ہوں بہت ان دنوں الائے بلائے

کوئی تو نقد کرے کوئی کان کهینچے مرے

بہت قریب سے آؤں گا میں نظر اطہر

گهرے ہوئے ہیں بہت دهند میں جزیرے مرے

————————————-

غزل

ہمارا سایہ ہمارے ہی قد میں رہتا ہے

وگرنہ کون یہاں اپنی حد میں رہتا ہے

یہ کس کا عکس چمکتا ہے میرے دریا میں

یہ کون ہے جو مرے جزرومد میں رہتا ہے

نہ جانے کتنے پرندوں کے سر کی چهتری ہے

وہ بوڑها پیڑ جو بارش کی زد میں رہتا ہے

یہ کس کی خوشبو سے مہکا ہوا ہے میرا وجود

یہ کون ہے جو مرے خال و خد میں رہتا ہے

میں اپنی باتوں سے قائل تجهے کروں کیسے

کہ لفظ لفظ ترا میری رد میں رہتا ہے

————————————-

غزل

ہر گهڑی برسے ہے بادل مجهہ میں

کون ہے پیاس سے پاگل مجهہ میں

تو نے رو دهو کے تسلی کرلی

پهیلتا ہے ابهی کاجل مجهہ میں

میں ادهورا سا ہوں اس کے اندر

اور وہ شخص مکمل مجهہ میں

چپ کی دیوار سے ٹکراتی ہے سر

ہے اک آواز جو پاگل مجهہ میں

تجهہ کو میں سہل بہت لگتا ہوں

تو کبهی چار قدم چل مجهہ میں

مژدہ آنکهوں کو کہ پهر سے پهوٹی

اک نئے خواب کی کونپل مجهہ میں

میں تو بیتا ہوا اک لمحہ تها

بو گیا ہے وہ نئے پل مجهہ میں

کاٹنے ہیں کئی بن باس یہیں

اگ رہا ہے جو یہ جنگل مجهہ میں

آگ میں جلتا ہوں جب جب اطہر

اور آجاتا ہے کچهہ بل مجهہ میں

————————————-

غزل

حریم دل میں ٹهہر یا سرائے جان میں رک

یہ سب مکان ہیں تیرے کسی مکان میں رک

ابهی میں جوڑ رہا ہوں یقین کا پیالہ

تو ایسا کر کہ ابهی کاسہء گمان میں رک

میں تجهکو باندهلوں اپنی غزل کےشعروں میں

خیال یار ذرا دیر میرے دهیان میں رک

بہت سی قوس قزح بن رہی ہیںآنکهوں میں

اے ہفت رنگ پری میری داستان میں رک

میں اپنے شعروں کا معیار کچه بلند کروں

مرے حروف میں ضم ہو مری زبان میں رک

————————————-

غزل

کیا کسی اور کی زمیں کے رہیں

جس جگہ کے ہیں ہم وہیں کے رہیں

اے خیالو ذرا ٹهہرنے دو

یوں نہ ہو پهر نہ ہم کہیں کے رہیں

حشر برپا ہے ہر طرف مولا

کیسے بندے تری زمیں کے رہیں

ان کی فطرت ہے سو بغیر ڈسے

کیسے یہ سانپ آستیں کے رہیں

————————————-

غزل

میں نے اس کی آنکھیں دیکھیں گہرے کاجل میں

جیسے دو دو چاند کھلے ہوں کالے بادل میں

وہ کہتی ہے ٹوٹا پھوٹا گھر اور تیرا ساتھ

میں کہتا ہوں چاند ستارے بھر دوں آنچل میں

ہاتھ نہیں آنے والا کچھ جز مٹھی بھر ریت

آنے والے کل کو مت ڈھونڈھو گزرے کل میں

لہرا اٹھی ہے ہر سو کیوں فصل خموشی کی

میں نے تو آوازیں بوئی تھیں اس جنگل میں

ارمانوں کی پریوں کے پیچھے مت بھگ اے دل

صحراؤں کی پیاس بھری ہے ان کی چھاگل میں

میں بھی سچ کی کھوج میں نکلا تھا اپنے گھر سے

لیکن ساری عمر گزاری جھوٹ کی دلدل میں

————————————-

غزل

جب ساحل پر دن تھک کر ڈھل جاتا ہے

پلکوں پر یادوں کے منظر بھیگتے ہیں

بالکنی سے کیا نظارہ بارش کا

آؤ دونوں چھت پر چل کر بھیگتے ہیں

ہر سو بھینی بھینی خوشبو پھیلی ہے

برساتوں میں مٹی کے گھر بھیگتے ہیں

بارش کے کب آنکھیں ہوتی ہیں "اطہر”

مٹی ہے پیاسی اور پتھر بھیگتے ہیں

————————————-

غزل

تمام مصلحتیں تھیں میری انا کے خلاف

نہ ہار مانی مگر وقت کی ہوا کے خلاف

مگر زباں سے کوئی سچ ضرور نکلا ہے

ہزاروں سنگ اٹھے ہیں میری صدا کے خلاف

سنا ہے میں نے اندھیروں میں وہ بھی ڈوب گیا

وہ اک چراغ جو جلتا رہا ہوا کے خلاف

————————————-

کوئی تبصرہ نہیں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے