آخری کنارے پر: تبصرہ
صابرؔ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
گزشتہ سال 2021ء میں ریختہ فاونڈیشن کے زیر اہتمام شائع ہونے والی قابلِ ذکر کتابوں میں شامل جواں سال نقاد اور شاعر معید رشیدی کا پہلا شعری مجموعہ "آخری کنارے پر” اس وقت میرے ہاتھ میں ہے۔ ریختہ فاونڈیشن نے غزلوں پر مشتمل اس مجموعے کو ہندی رسم الخط میں "عشق” نام سے بھی شائع کیا ہے۔ اردو ادب میں معید رشیدی کی حیثیت نووارد کی نہیں ہے کیونکہ اس سے قبل معید رشیدی کی کئی تحقیقی و تنقیدی کتابیں منظر عام پر آ کر اہل علم و ادب سے بے پناہ داد و تحسین وصول کر چکی ہیں۔ ادب کی مبادیات و شعریات کا احاطہ کرنے والے ان کے سیر حاصل تنقیدی مضامین کے مجموعے "تخلیق، تخئیل اور استعارہ” کو 2013ء میں ساہتیہ اکادمی کے "یوا پرسکار” سے بھی نوازا گیا تھا۔ مشمولات کی افادیت کے پیش نظر افغانستان کے ادیب و شاعر عبد الجمیل ممتاز نے اس کتاب کا پشتو ترجمہ 2014ء میں نَنگَرہار سے شائع کیا تھا۔ 2000ء کے بعد ہندوستان کے شعری منظرنامے پر نمودار ہونے والے شعرا میں معید رشیدی اپنے پر اعتماد لہجے، اندازِ فکر کی جدّت اور رنگ و آہنگ کی تازگی کے باعث اپنی منفرد پہچان بنانے میں کامیاب رہے ہیں۔ "آخری کنارے پر” میں شامل 105 غزلیں اور متفرق اشعار معید رشیدی کے فن کے رخ اور مجموعی قدر کے تعین میں معاون ثابت ہوں گے۔ کتاب کے آغاز ہی میں شعری زبان کے لوازم سے آراستہ انتسابی نوٹ نثری نظم کا تاثر پیش کرتے ہوئے قاری کو ایک نئے شعری ذائقے کے مقابل آنے کے لیے تیار کر دیتا ہے:
اس خلا کے نام
جولفظوں سے نہیں بھرا جاسکتا!
اس خلش کے نام
جو کمرے کی خاموشی
اور دھویں کی بے چہرگی میں
ہر سانس کے ساتھ
کہیں تحلیل ہو جاتی ہے!!
انتساب کے بعد کتاب کا مقدمہ بعنوان "صریر خامہ” قاری کو ایک دوسری معنی آفریں فضا سے ہمکنار کرتا ہے۔ معید رشیدی نے نہایت پر اثر تخلیقی نثر میں اپنی شاعری کے محرکات، وسائل اور ترجیحات سے بحث کرتے ہوئے اپنے شعری نظریے سے قاری کو روشناس کرانے کی سعی کی ہے:
"….. خلوص کی ٹھنڈک، باطن کی مسکراہٹ، احساس کی آنچ اور جذبے کی صداقت تخیل میں ڈوبنے اور قلم اٹھانے پر آمادہ کر دیتی ہے۔ خواب دستک دیتے ہیں تو لکھتا ہوں۔ رات جب میرے ساتھ چلتی ہے تو شعر ہوتے ہیں۔ میں رات کا استعارہ ہوں۔ جب بھی کوئی شے اپنی مٹی کی طرف لوٹتی ہے تو شاعری ہر شے کو شکست دے کر آگے بڑھ جاتی ہے۔ مٹی کی طرف جانے والا ہر راستہ میری ذات سے ہوکر گزرتا ہے ۔ گہری رات اتھاہ ذات میں ضم ہو کر کہیں دور نکل جاتی ہے۔ میں اجنبی راہوں میں کھو سا جاتا ہوں۔ لامحدود فضاؤں میں بکھر سا جاتا ہوں۔ اپنا آپ مٹانے میں جانے کیا کیا مٹادیتا ہوں لیکن یہ سوچ کر خوش بھی ہوتا ہوں کہ سب کچھ مٹا کر ہی صریر خامہ نوائے سروش بننے کی اہل ہوتی ہے۔”
عشق معید رشیدی کی غزل کا بنیادی حوالہ ہے لیکن ان کا نظریۂ عشق کلاسیکی شعراء سے قدرے مختلف ہے۔ یہ نہ تو انا کی شکست یا پسپائی سے عبارت ہے اور نہ ہی ناقابلِ تسخیر قوّت کا مظہر۔ البتہ بے خودی اور تنہائی سے ہم کناری قدرِ مشترک ہے اور یہاں بھی معید رشیدی نے اپنی الگ راہ نکالنے کی کوشش کی ہے:
نکل آؤں تری سرحد سے باہر
میں خود سے ماورا ہونے سے پہلے
عشق کی سحر زدگی میں بھی خود رفتگی سے بچے رہنے یا بے خودی کی کیفیت طاری ہونے سے قبل حسن کی تاثیر سے چھٹکارا پا لینے کی خواہش جذبۂ عشق کو ایک نیا مفہوم عطا کرتی ہے۔ معید رشیدی بخوبی جانتے ہیں کہ بے خودی بہ معنیٰ خود فراموشی کلاسیکی شاعری میں اتنی کثرت سے برتی گئی ہے کہ کلیشے بن گئی ہے۔ اسے کوئی نیا زاویہ عطا کرنا آسان نہیں لہٰذا جب اس موضوع پر کوئی تازہ شعر نکل آتا ہے تو چونکاتا ضرور ہے۔ عاشق کا ضبط و اختیار کا حامل ہونا اور جذباتی رومانیت سے یکسر عاری ہونا اردو شاعری کے عام شیدائی کو شاید مشکل سے ہضم ہو کیونکہ اس انحراف میں عشق کی وہ عرفِ عام تعریف کہیں مجروح ہوتی دکھائی دیتی ہے کہ عشق ایک ایسا قلبی لگاؤ ہے جس میں یار کی محبت، ذات کی فکر پر غالب آجائے۔ لیکن معید رشیدی نے الفاظ کے انتخاب میں وہ خلّاقانہ مہارت دکھائی ہے کہ معمولی تاویل پر ایسی تمام شکایتیں زائل ہو جاتی ہیں۔ ہر باکمال شاعر لفظوں کا پارکھی اور مزاج شناس ہوتا ہے۔ لفظ و معنی کے باہمی ربط اور خیال کی لچک سے استفادہ کرنے پر قادر بھی۔ اگر پہلا مصرع "نکل آیا تری سرحد سے باہر” ہوتا تو یہ معروضہ "خواہش” نہ رہ کر "واقعہ” بن جاتا۔ لفظ "آؤں” نے اسے "خواہش” اور "استفسار” تک محدود کر دیا ہے اور عشق کی تہذیب میں دونوں صورتوں کا جواب نفی میں ہے۔ یہیں فنا فی العشق کی راہ کھل جاتی ہے اور عاشق بے اختیارانہ پکار اُٹھتا ہے:
اس اہتمام سے تجھ کو کبھی پکاروں گا
میں اپنے نام سے تجھ کو کبھی پکاروں گا
اہتمام معرکے کا لفظ ہے۔ اہتمام؛ کسی امر کی انجام دہی میں اس کی اہمیت کے پیش نظر غیر معمولی توجہ صرف کرنا۔ اہتمام یقیناً ایک شعوری کارستانی ہوتی ہے لہٰذا معشوق کے ساتھ یہ چھیڑ خانی ایک طرح کا دعویٰ ہے کہ دُنیا تجھے میرے نام سے پہچانتی ہے۔ شعورِ ذات کا یہ مقام اُس ساعتِ اضطرار میں آتا ہے جب "انا” اپنی خود بینی اور خود نمائی دونوں جبلتوں کو ظاہر کرنے لگتی ہے۔ کسی کے لیے اہم بن جانا ایک اعزاز ہے لیکن محض اپنے تئیں تصور کر لینا آزار ہے اور عشق اس آزار کی حدود میں بار بار اندر باہر ہوتا رہتا ہے۔ آزار نہ سہی نشہ کہہ لیجیے:
اے سمندر کی طرف دیکھنے والے تو نے
اپنے طوفاں کا نظارہ تو کیا ہوتا کبھی
اپنی نظروں میں سبک سار ہوئی ہے مری ذات
ایسی آزادی سے زنجیرِ انا بہتر تھی
محولہ بالا اشعار میں "اندر باہر” کی ہر دو کیفیات ملاحظہ کی جا سکتی ہیں۔ دوسرے شعر کی تہہ داری دیکھتے بنتی ہے۔ سبک ساری بہ معنیٰ "بے وقعتی” اپنی جگہ لیکن سبک سار ہونے کے لغوی معنیٰ (بوجھ اترنے کے بعد ہلکا پھلکا ہونا) کا زنجیر (کی گراں باری) کے ساتھ ضلع جگت بھی ہے۔ دورِ جدید میں عشق کا کاروباری زیاں برداشت کرنے کے لیے آمادہ نہیں ہے اور جو زیاں دیدہ ہے، اب اپنے آپ پر فخر نہیں کرتا بلکہ ملامت کرتا ہے۔ ایک بے نام سی کمی کا ادراک عاشق میں حسرت زدگی تو پیدا کرتا ہے لیکن وہ ناگزیریت کا بہانہ تراش کر مطمئن بھی ہو جاتا ہے:
دل کی تعمیر میں ممکن نہیں ہر شے کی شناخت
کچھ نہ کچھ تو کہیں بے نام سا رہ جاتا ہے
معید رشیدی کی شاعری داخلیت کے رنگا رنگ نگار خانے سے ہوتی ہوئی جب کبھی خارجیت کے یک رنگ صحرا میں قدم رنجا ہوتی ہے، تب بھی اپنی پر کیف فضا سے ناتا جوڑے رکھتی ہے لہٰذا بالکل سپاٹ اظہاریے کے دام میں نہیں پھنستی۔ طنز، تیکھا پن، شکوہ اور نکتہ چینی یہ ایسے تیر ہیں جن سے دورِ جدید کا قاری گھائل نہیں ہوتا۔ صنعتی ترقی کے نتیجے میں سماج کی بےحسی یا فرد کی بے چارگی جیسے موضوعات اب اپیل نہیں کرتے۔ کچھ نئے (بہت حد تک ہنگامی) موضوعات کو معید رشیدی نے خالص شاعرانہ سطح پر نہایت عمدگی سے برتا ہے۔ یہ شعر دیکھیے:
اب کے ہر خواب ہوا ہے خنجر
پچھلے منظر کی طرف لوٹتے ہیں
یہ عشق کے جھل مل کرتے پردوں کے پیچھے سہمی ہوئی کرب زدہ روح کی مراجعت ہے یا وہی مراجعت کی خواہش کیونکہ اس تغیر پذیر دنیا میں اب بہت کچھ irreversible ہونے لگا ہے۔ مراجعت کی یہ خواہش بظاہر بزدلانہ ہے۔ حالات کی سنگینی سے مقابل ہونے کے بجائے عافیت تلاش کرنا یا راہِ فرار اختیار کرنا کیونکہ پچھلے منظر کے بارے میں کوئی وضاحت نہیں لیکن اتنا طے ہے کہ وہ خنجر کے خوف سے عاری ضرور ہے اور غالباً پرسکون اور آسودہ حال بھی۔ خواب اور منظر ایک دوسرے کے متبادل کے طور پر مستعمل ہیں۔ یہ شعر اُس شاعر کے دل کی آواز ہے جو حالیہ سیاسی تسلط کے بعد ہندوستان میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا عینی شاہد ہے۔ یہاں مجھے معید رشیدی کا وہ شعر بھی یاد آجاتا ہے جو انھوں نے بابری مسجد کی شہادت کے تناظر میں کہا تھا:
اک عمارت مرے باہر ابھی توڑی گئی تھی
ایک ملبہ مرے اندر کہیں بکھرا ہوا ہے
اور ایسے سوچتے ذہن کے مقدر میں تنہائی کا پایا جانا ایک فطری امر ہے۔ یوں بھی عشق کی شاعری میں تنہائی، خاموشی اور اشکباری جیسے موضوعات اپنی جگہ آپ بنا لیتے ہیں۔ یہ موضوعات معید رشیدی کے ذاتی تجربات بھی ہیں جن سے انھوں نے اپنی تخلیقی قوّتوں کو مہمیز بھی کیا ہے اور پوری کامیابی سے جذبہ و احساس کی سطحوں پر برتا بھی ہے۔ یہ مضامین معید رشیدی کی یہاں جدید تر حسیت کے ساتھ اس خوش اسلوبی سے چھیڑے گئے ہیں کہ مایوسی یا ناامیدی کا ذرا سا بھی رنگ نہیں جھلکتا۔ برخلاف اس کے سرگوشی کی سی کیفیت پیدا ہوتی ہے جیسے قاری کو ہم راز بنانے کی کوشش کی جا رہی ہو۔ اس قبیل کے کچھ شعر دیکھیے:
ایسی تاریکی مُیسّر تھی کہ دل روشن ہوا
ایسی خاموشی کہ تہذیبِ قفس پوری ہوئی
کیسے کوئی بستی میرے اندر اتر آئے
اس بار تو تنہائی مری جاگ رہی ہے
سنا ہے پیاس کی تکمیل ہونے والی ہے
یہ رات ریت میں تبدیل ہونے والی ہے
میں اپنی ذات میں تحلیل ہونے والا ہوں
دھویں سے جسم کی تشکیل ہونے والی ہے
ہیں کشتگانِ صدا آخری کنارے پر
اے خامشی تری ترسیل ہونے والی ہے
بھی تو ریت سی بکھری ہوئی تھی حدِّ نگاہ
ذرا سی آنکھ لگی نخل شب نکل آۓ
وہ تیری نیند تھی جو بے خبر رہی شب بھر
وہ میرے خواب تھے جو با ادب نکل آۓ
نکالنا تھا غبارِ سفر مگر یہ قدم
ہواۓ شوق میں صحرا طلب نکل آۓ
بچھڑ گئی تھی وہی شے جو میری تھی ہی نہیں
جو میرے تھے ہی نہیں وہ جدا ہوئے بھی تو کیا
نگار خانۂ آتش ہوا ہے سارا بدن
سلگتے رہنا بھی کارِ ثواب ہو گیا ہے
فراقؔ گورکھپوری لکھتے ہیں کہ
"عشق کی آزمائشوں سے گزرنے کے بعد وسیع البسط کائنات و حیات، مناظر و حقائق و فرائض اور بھری دنیا سے، کچھ دنوں کے لیے ناتا ٹوٹ جانے کے بعد، جو ہم آہنگی پیدا ہوتی ہے وہ زیادہ سچی، بامعنیٰ اور بھرپور ہوتی ہے۔” (مضمون؛ اردو کی عشقیہ شاعری)
معید رشیدی کا سفر جاری ہے اور آگے وہ جن مقامات سے گزریں گے، یقیناً زیادہ دیدنی رہیں گے، سو ہمیں بھی زیادہ دلچسپ روداد پڑھنے کو ملے گی۔ انتظار کرتے ہیں۔ فی الحال دیکھیے دورانِ سفر معید رشیدی کیا کہتے ہیں:
بوجھ سارا سفر میں چلنے کا
اپنے سائے پہ رکھ دیا میں نے
"آخری کنارے پر” ریختہ فاونڈیشن نے ویسی ہی چھاپی ہے جیسے معید رشیدی ہیں یا اُن کی شاعری یعنی بہت خوبصورت۔ سرورق دیدہ زیب اور طباعت اعلیٰ معیار کی ہے۔ 149 صفحات پر مشتمل یہ کتاب آن لائن خریداری کے لیے ایمزون پر 149 روپے میں دستیاب ہے۔
۔•••••••✦★✿★✦•••••••۔
کوئی تبصرہ نہیں