سفیر صدیقی کی دس غزلیں


سفیر صدیقی کی غزلیں

غزل

یاد تڑپانے لگے تو سر جھٹک کر رقص کر

آنسوؤں کو مثلِ مے پی جا، بہک کر رقص کر

گر شبِ فرقت کا سناٹا چرا لے سارے ساز

لے مدد دیوار کی اور خود کھنک کر رقص کر

غم بھی حیرانی میں بے خود ہو کے کھو دے اپنی ذات

آہ کی مایوس لے پر یوں چہک کر رقص کر

دن کے ہر لمحہ بدلتے رنگ کو آنکھوں میں بھر

اور پھر راتوں کو ہر ڈھب سے بِلک کر رقص کر

وحشیوں سا ناچتا رہ زخم کے کھلنے تلک

زخم کھل جائے تو مستی میں کتھک کر، رقص کر

زندگی حرکت ہے سو پیہم قدم تھرکائے جا

گر قدم تھک جائیں، پنکھے پر لٹک کر رقص کر

ہجر کی تاریکیوں کو سر نہ چڑھنے دے سفیر

چوں تنِ شمعِ شبِ ہجراں چمک کر رقص کر

——————————————————

غزل

خواب جب نیند نوچ کھاتے ہیں

اٹھ کے ہم ڈگڈگی بجاتے ہیں

کھینچتی ہے زمین اپنی طرف

پنکھے اپنی طرف بلاتے ہیں

خاموشی گنگناتی ہے اور ہم

رقص میں ہاتھ آزماتے ہیں

کچھ خبر ہے کہ زندگی بھر ہم

کس کا دروازہ کھٹکھٹاتے ہیں

——————————————————

غزل

کسی دن ختم ہو جائیں گے غم بھی

کسی دن سو رہیں گے سُکھ سے ہم بھی

کسی دن ضبط، ہو جائے گا پاگل

کسی دن پھٹ پڑے گی چشمِ نم بھی

کسی دن ختم ہو جائے گا قصہ

کسی دن ٹوٹ جائے گا بھرم بھی

کسی دن ٹھہر ہی جائے گا پنکھا

کسی دن جھول ہی لیں گے الم بھی

کسی دن دل دھڑکنا چھوڑ دے گا

کسی دن ٹھہر ہی جائے گا دم بھی

کسی دن موت سے بھی لڑ پڑیں گے

کسی دن خودکشی کر لیں گے ہم بھی

کسی دن آتشِ دل سے سفیرم

بھری جائے گی دنیا بھی چلم بھی

——————————————————

غزل

دھیرے دھیرے بڑھ رہی ہے میری جھلاہٹ سفیر

بیٹھتا ہے دیکھو اب یہ اونٹ کس کروٹ سفیر

دیکھتا رہتا ہوں پیہم چلتے پنکھوں کے قدم

سنتا رہتا ہوں مسلسل موت کی آہٹ سفیر

مسکراتا رہتا ہوں اشکوں کی قلت کے سبب

پوتتا رہتا ہوں رخ پر آنکھ کی تلچھٹ سفیر

چھیڑتا رہتا ہے ہر دم یوں ہی اپنی موت کو

دیکھو کیسے جی رہا ہے آج بھی نٹ کھٹ سفیر

——————————————————

غزل

اب مجھے کوئی انتظار نہیں

دل پریشاں ہے،بے قرار نہیں

اف یہ بااختیار لوگ جنھیں

سر پٹکنے کا اختیار نہیں

ہائے وہ بدنصیب جن کا نصیب

غم گساری ہے، غم گسار نہیں

کیا خبر کب مجھے بھی کر دیں ہوا

چھت کے پنکھوں کا اعتبار نہیں

یار سو بار روز مار مگر

ایک ہی موت بار بار نہیں

آہ یہ تیر جس کی نوک سفیر

دل میں ہے، دل کے آر پار نہیں

——————————————————

غزل

ہم جب بھی کچھ پاتے ہیں کچھ کھوتے ہیں

یعنی ہم جب بھی ہنستے ہیں روتے ہیں

ہم اشکوں سے دل کے دھبے دھوتے ہیں

پر اشکوں کے اپنے دھبے ہوتے ہیں

تنہائی سے روٹھے تنہائی زادے

اک تکیہ بانہوں میں لے کر سوتے ہیں

راتوں کو آ شفتہ سر دل کے دہقاں

کیا جانے دیواروں میں کیا بوتے ہیں

——————————————————

غزل

وہ جو تصویر ہے اس دیدۂ پرآب سے دور

اک پہیلی ہے حقیقت سے پرے خواب سے دور

وقت کی چھیڑ سے بھر لیتی ہے آہیں کچھ کچھ

زندگی تار ہے لیکن مری مضراب سے دور

ہائے کیا غم ہے کہ تم سے کوئی شکوہ بھی نہیں

رنجشیں رہتی ہیں لیکن دلِ بیتاب سے دور

چھت پہ ٹھہری ہوئی آنکھوں میں اترتے دل کو

کھینچتا رہتا ہے کچھ وادیِ خوناب سے دور

عشق کس موڑ پہ لے آیا ہے یہ مجھ کو سفیر

شوقِ قربت سے پرے، ہجر کے گرداب سے دور

——————————————————

غزل

خواب بہتے ہوئی رستوں سے کنارا کر لیں

رونے والوں سے کہو یوں ہی گزارا کر لیں

دل مچلتا ہو تو کر لیں کسی انسان سے عشق

پھر بھی مچلے تو وہی عشق دوبارہ کر لیں

آپ کو چاند بنا لینے پہ کیا ہے موقوف

ہم تو جگنو کو بھی جب چاہیں ستارہ کر لیں

ناز برداروں سے ان کا یہ تقاضا ہے کہ وہ

خود ہی دیکھیں انھیں اور خود ہی اشارہ کر لیں

تھک چکا ہوں میں بدن ڈھوتے ہوئی حضرتِ دار!

آپ کچھ دیر مِرا بوجھ گوارا کر لیں

ہجر میں جان گنوا دینے کی کیا تُک ہے سفیر

عشق سودا تو نہیں ہے کہ خسارہ کر لیں

——————————————————

غزل

بے قراری سی بے قراری ہو تو کہیں ہم کہ بے قرار ہیں ہم

ہم کو تو ایسی بے کلی ہے مخل، جس کے ہونے سے استوار ہیں ہم

کیا سنائیں کسی کو قصۂ دل، کیا بتائیں کسی کو خواہشِ جاں

وقت افسانوں کی کتاب ہے اور ہر فسانے کے پود و تار ہیں ہم

زندگی بھی زمین ہی کی طرح ایک ہی دائرے میں گھومتی ہے

عشق کی مد میں بار بار ہیں وہ، ہجر کی زد پہ بار بار ہیں ہم

ان کے کوچے کو جانے والو! انھیں، بے نیازی سے یہ بتا دینا

واں کوئی غم گسار ہو کہ نہ ہو، یاں بہرحال جاں نثار ہیں ہم

کیا کریں اس مکینِ گلشن سے اپنی صحرا نوردی کا شکوہ

جس قدر نرم پھول پھول ہے وہ، اس قدر ترش خار خار ہیں ہم

بس اسی کشکمش کی حرکت پر زندگی کاٹی جا رہی ہے سفیر

بے حساب ان کو بخت پر ہے یقیں، بے طرح محوِ انتظار ہیں ہم

——————————————————

غزل

خواب مر جائیں گے خود بخود ایک دن، خواب کی چاہ بھی مار دی جائے گی

آتشِ دل بھی پڑ جائے گی سرد اور ایک دن قوتِ آہ بھی جائے گی

رفتہ رفتہ کٹے گی شبِ زندگی، دھیمے دھیمے جلے گا چراغِ بقا

صبح لائے گی دستِ صبا میں فنا، اور پھر دور تک روشنی جائے گی

ایک دن میرے کمرے کی ٹھنڈی ہوا، سرد کر دے گی میرا بدن اور پھر

اک لٹکتی ہوئی مردہ رسی کے گرد ایک زندہ کہانی بُنی جائے گی

میرے کمرے کی تنہائیاں مستقل دیتی رہتی ہیں مجھ کو دلاسہ یہی

ایک دن آپ سے ملنے آئیں گے لوگ، ایک دن آپ پر بات کی جائے گی

موت کی راہ پر زندگی سے پرے، بھیڑ کے ساتھ خاموشیوں کی طرف

جسم بھی گنگناتا ہوا جائے گا، روح بھی مسکراتی ہوئی جائے گی

سوچتا ہوں کہ یہ خندہ لب، شوخ جاں، ایک دن ناگہاں مر گیا جو سفیر

پھر کہاں سر چھپائے گا شوقِ جنوں، کس کے گھر خوئے آوارگی جائے گی

——————————————————

غزل

جی میں آتا ہے بدن نوچ لیں پاگل ہو جائیں

یا تو جنگل میں بسیں یا ہمیں جنگل ہو جائیں

ریشہ ریشہ مرے ناخن مجھے کر دیں تقسیم

ریزہ ریزہ مرے اعضا کہیں مختل ہو جائیں

جرعہ جرعہ مجھے پی جائیں مرے دیدۂ نم

رفتہ رفتہ مرے سب زاویے مہمل ہو جائیں

تلخ لمحات کا یہ بوجھ دبا ڈالے ہمیں

یوں کہ کچھ لمحے زمانے پہ بھی بوجھل ہو جائیں

سر پٹکتے ہیں کہ قائم رہے حرکت کا بھرم

ورنہ ہم وحشی صفت واقعی پاگل ہو جائیں

ہائے یادوں نے یہ کیا کردیا انجانے میں

ہم نے کب چاہا تھا سب جگہیں ہی مقتل ہو جائیں

دفعتاً آنکھوں میں بھر جائے اجالا ایسا

سارے منظر مری گم نظروں سے اوجھل ہو جائیں

بے کلی میں جنھیں میں چھیڑتا رہتا ہوں سفیر

کیا مزہ ہو جو وہ دیواریں بھی بیکل ہو جائیں

——————————————————

غزل

موت لازم ہے زندگانی میں

یعنی اک ناؤ بھی ہے پانی میں

میں بھی ہوں تم بھی ہو ہوا بھی ہے

اور کیا ہوتا ہے کہانی میں

ہم وہ محرومِ سنگ ہیں جن کا

سر بھی شامل ہے رائیگانی میں

مرثیہ خواں سفیر صدیقی

فرد ہے اپنی خوش بیانی میں

——————————————————

غزل

دل سے اٹھ کے چہرے پر اس قدر ہرا ہوگا

چارہ ساز سمجھیں گے زخم بھر گیا ہوگا

گھپ اندھیری راتوں میں یادیں سر اٹھائیں گی

اور ان کی خاطر میں سر کا بند وا ہوگا

خون پی رہی ہوں گی میرے گھر کی دیواریں

سائیں سائیں کی دھن پر رقص ہو رہا ہوگا

کھال نوچنے والے نام لکھنے بیٹھیں گے

نام وہ کہ لکھنے میں ہاتھ کانپتا ہوگا

اک کہانی لکھیں گے اپنی کامیابی پر

اور اس کہانی میں حرف حرف لا ہوگا

اپنے رنگ کی خاطر لڑتی ہوں گی دیواریں

اور سر بھی بڑھ چڑھ کر وار کر رہا ہوگا

غم کے حد سے بڑھنے پر قہقہے ہی نکلیں گے

خون رونے والوں میں اور بچا بھی کیا ہوگا

سوتا پایا جاؤں گا میں اک اندھے کمرے میں

اور اس کا ہر کونا گھُٹ کے مر چکا ہوگا

یہ سفیر تو اب بھی جی رہا ہے، حیرت ہے!

یعنی باؤلا لڑکا اور باؤلا ہوگا

——————————————————

غزل

میں نے کاڑھے ہیں کئی نقش مگر دیواریں

دیکھتی رہتی ہیں پیہم مرا سر دیواریں

نوچتا رہتا ہوں میں اپنے بدن ریزے اِدھر

پیتی رہتی ہیں مرا خون اُدھر دیواریں

خشک آنکھیں لیے جم جاتا ہے اک سرد بدن

اور پگھل جاتی ہیں بادیدۂ تر دیواریں

دن میں دیوانوں سا ہنستا ہوں شبِ ہجر پہ میں

رات میں لیتی ہیں دن بھر کی خبر دیواریں

میرے کمرے میں برستی ہے مسلسل وحشت

ایسی وحشت کہ ہوئی جاتی ہیں سر دیواریں

بس خدا خیر کرے، وجد میں ہیں آج سفیر

وحشتِ ضبط کی منظورِ نظر دیواریں

سفیر صدیقی

کوئی تبصرہ نہیں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے