سرفراز خالد کی دس غزلیں


سرفراز خالد کی دس غزلیں

—————-

غزل

سونے آیا تھا خود ہی یا مجھے جگانے آیا تھا
‏پچھلی رات میرے کمرے میں کون نہ جانے آیا تھا
روشنی سورج کی کتنی مدھم ہے دیکھو آج کے دن
لگتا ہے پھر صحرا میں وہ خاک اڑانے آیا تھا
کمرے میں جب دیکھے میں نے تازہ لہو کے داغ کئی
تب مجھکو معلوم ہوا وہ زخم دکھا نے آیا تھا
‏دور سے اب پہچانتا ہوں میں ان قدموں کی آہٹ کو
‏پھر کوئی دروازے کی زنجیر ہلانے آیا تھا
‏دیکھ کے میرے ساتھ مجھے جو لوٹ گیا خاموشی سے
‏لگتا ہے وہ مجھکو کوئی راز بتانے آیا تھا
‏اسکو سوچنے والا تھا میں کیسے اس نے جان لیا
ساری ‏دنیا لیکر میرا دھیان بٹانے آیا تھا
‏وہ تو اچھا ہوا جھپک لی میں نے پلک اپنی خالد
‏میری آنکھوں سے پھر کوئی خواب چرانے آیا تھا

—————-

غزل

ہمارا ذکر تمہارےبیان سے نکلا
ستارہ ٹوٹ گیا آسمان سے نکلا
تمام رات کسی جسم میں رہا محبوس
سحر ہوئ کوئی سایہ مکان سے نکلا
وہ ایک شخص حوالہ تھا میرے ماضی کا
وہ ایک شخص بھی آخر دھیان سے نکلا
سنا ہے اِسکی بھی اک داستان ہے کوئی
میں جسطرح سے تری داستان سے نکلا
بگڑ گیا ہے توازن میرے ترازو کا
ضرور وزن کوئی درمیان سے نکلا

—————-

غزل

وہ مشکل تھا بہت،کچھ ہم نے آساں کر دیا ہے
اور ایسا کرکے دنیا بھر پہ احساں کر دیا ہے
کچھ ایسے سر کیا ہے معرکہ ہم نے وفا کا
پریشاں کرنے والے کو پریشاں کر دیا ہے
بتا کیا اور کچھ کرنا ہے تیرے عاشقوں کو
کہا تھا چاک کرنے کو گریباں کر دیا ہے
اکیلے ہم نہیں مصروف اسکو بھولنے میں
کچھ اس نے بھی ہمارا کام آساں کر دیا ہے
مرے جیسا نیا اک آدمی تخلیق کرکے
محبت نے مجھے بے جسم و بے جاں کر دیا ہے
نہ تھا آساں مری جاں اس بیاباں کا بسانا
مگر وہ شہر جسکو تم نے ویراں کر دیا ہے

—————-

غزل

پہلے صحرا سے مجھے کھینچ کے لایا گیا ہے
اور پھر شہر میں لے جا کے بسایا گیا ہے
یعنی ہر وقت ہی موجود وہ رہتا ہے یہاں
یعنی وہ لوٹ کے آیا ہے تو سایا گیا ہے
بے سبب رہتا نہیں ہے وہ ہمیشہ بے چین
اسکی مرضی کے بغیر اسکو بنایاگیا ہے
حسن خودارا کی تصویر بنانے کیلئے
رنگ کچھ میری نظر سے بھی چرایا گیا ہے
کھو گیا ہوں میں کیہں شہر کے شوروغل میں
ڈھونڈنے کیلئے صحرا کو بلایا گیا ہے
انہیں اطراف میں سنتے ہیں ہوا تھا وہ گم
انہیں اطراف میں سنتے ہیں وہ پایا گیا ہے
کس نے سورج کا سفر روک کے رکھا ہوا تھا
میرے آنگن سے بہت دیر میں سایا گیا ہے

—————-

غزل

زمین پہ ٹھہرا ہوا ہوں نہ آسمان میں ہوں
خلا۔میں ہوں میں کہیں اور ابھی اڑان میں ہوں
نظر یہ بجھنے لگی ہے مجھے ہوا کیا ہے
بدن یہ ٹوٹ رہا ہے میں کس تھکان میں ہوں
یہاں سے کتنی مسافت پہ ہے زمین مری
کوئ بتائے کہ ٹھہرا میں کس جہان میں ہوں
مجھے چلا کے دکھا زور اپنے بازو کا
اگرچہ تیر ہوں لیکن تری کمان میں ہوں
مجھے اچھال دیا اسطرح محبت نے
لگا کہ آڑنے ہی والا میں آسمان میں یوں
بنا ہوا ہوں میں فولاد کا مگر خالد
رکھا ہوا کسی شیشے کے مرتبان میں ہوں

—————-

غزل

چاہے پھر لوٹ کے آجائے وہ کارندۂ خواب
خود کو کرنا ہی نہیں اب مجھے شرمندۂ خواب
چل رہی ہے مرے احوال پہ کچھ گفت و شنید
آجکل آیا ہوا ہے وہ نمائندۂ خواب
‏خود کو رکھتا ہے ضرورت سے زیادہ مصروف
‏کبھی فرصت نہیں لیتا مرا کارندۂ خواب
تیری آنکھوں میں چلی آئی ہے یہ کیسی چمک
تجھ کو ہوتے نہیں دیکھا کبھی شرمندۂ خواب
ساتھ کچھ سخت ہدایات کے بھیجا گیا ہوں
آخری ہوں میں زمانے میں نمایندۂ خواب

—————-

غزل

آنکھوں سے اسکی اپنے لئے خواب دیکھتے
یہ واقعہ بھی اے دل بیتاب دیکھتے
اے دشت دیکھتے تجھے اک دن حریف شہر
اے شہر ایک دن تجھے غرقاب دیکھتے
تم آ تو جاتے دیکھنے حالت مری کبھی
ہم دیکھتے نہ دیکھتے احباب دیکھتے
وقت نماز پھر نہ نکل جائے اے خدا
ہم رہ نہ جائیں منبر و محراب دیکھتے
دنیا کوئی بناتے پرے اس جہان سے
"آنکھیں اگر ملی تھیں کوئی خواب دیکھتے”

—————-

غزل

میں اسکی جانب بڑھوں تو میرا وہ حال کر دے
کچھ ایسے دیکھے کہ سانس لینا محال کر دے
تمام خلق خدا اسی انتظار میں ہے
مری طرف دیکھ لے مجھے بے مثال کر دے
میں عرصہ ہجر میں پڑا زرد ہو گیا ہوں
تو آتش وصل پر مجھے رکھ کے لال کر دے
جو چاہے تو بند کر دے کار وفا کی اجرت
مجھے مری نوکری پہ لیکن بحال کر دے
سزا کی میعاد کم نہیں کر سکے اگر تو
تو کم سے کم مختصر مرے ماہ و سال کر دے
ملا ہے معشوق مجھکو ایسا دماغ والا
جواب مانگوں تو الٹا مجھ سے سوال کر دے

—————-

غزل

جو کچھ اب ہونے والا ہےجان نہیں سکتا کوئی
جاننے سے بھی کیا حاصل جب مان نہیں سکتا کوئی
سنتے ہیں عیار ہے کوئی بھیس بدل کر رہتا ہے
سامنے آ بھی جائے تو پہچان نہیں سکتا کوئی
کہتے ہیں انعام بڑا ہے کام تو ہے یہ کرنے کا
کام مگر ایسا کرنے کی ٹھان نہیں سکتا کوئی
اب چا ہے جس کو مل جائے مرضی ہے اسکی لیکن
جیسے ہم نے خاک ہے چھانی چھان نہیں سکتا کوئ
کھیل چھوڑ کر جانے کا کچھ اور سبب ہوگا خالد
اتنی جلدی ہار یہ سچ ہے مان نہیں سکتا کوئ

—————-

غزل

نواح سنگ میں شیشے کا گھر بناتا ہوں
کدھر بنانا تھا مجھکو کدھر بناتا ہوں
لہولہان مرے ہاتھ ہو گئے ہیں دیکھ
تو مجھ سے بنتا نہیں ہے مگر بناتا ہوں
بس اک شکار سہی میں تمہاری نظروں کا
تمہارا تیر مگر کارگر بناتا ہوں
تمام روز کھڑی کرتا ہوں میں اک دیوار
تمام رات میں پھر اسمیں در بناتا ہوں
سحر کے ایک ہی جھٹکے سے ٹوٹ جاتا ہے
جو گھر میں اپنے لئے رات بھر بناتا ہوں
مرے لیے وہ بناتا ہے ایک کشتی ادھر
ادھر میں اپنے لئے اک بھنور بناتا ہوں
زمیں پہ بکھرے ہوے خاروخس ہیں میری متاع
اسی متاع سے میں بال و پر بناتا ہوں

کوئی تبصرہ نہیں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے