سوال شاشوت ہوتے ہیں۔ جو بدلتا ہے وہ ہے جواب۔ ایسا ہی ایک سوال کہ "انسان شاعری کیوں کرتا ہے؟” شاید ہمیشہ سے پوچھا جاتا رہا ہے۔ جانے کتنے ہی لوگوں نے اپنے اپنے طور پر اس کا جواب پانے کی کوشش کی اور آج بھی کر رہے ہیں، مگر کسی بھی جواب کو حتمی نہیں کہا جا سکتا کیوں کہ کوئی بھی جواب آخری نہیں۔
اپنے طور پر جب جب میں نے اس طرف غور کیا تو پایا کہ ہر انسان میں ایک خلا ہوتا ہے جسے وہ اپنے ہی طور پر بھرنے کی کوشش کرتا ہے۔ جہاں ایک عام تخلیق کار محض جانے ہوئے الفاظ اور ان کے معنی سے اس خلا کو بھرنے کی کوشش کرتا ہے وہیں ایک بہتر شاعر جانے ہوئے کے ذریعے اَن جانے کا سفر کرتا ہے اور یہی ان جانا احساس اس کے خلا کو پُر کرتا ہے۔ یعنی اس کے لیے جانے سے زیادہ ان جانے کی اہمیت ہے ۔ وہ کوئی جانا ہوا منظر ، کوئی سنی ہوئی آواز خلق نہیں کرتا۔ اس لیے دنیا کو اس کے یہاں وہ سب کم کم ہی میسرآتا ہے جو عموماً ایک بھیڑکے پاس ایک دوسری بھیڑ کے لیے موجود ہوتا ہے اور یہی اس کا امتیاز ہے۔
مگر اس امتیاز کی نشان دہی،قدر، تعریف وتحسین کے راستے میں کچھ دشواریوں کا سامنا ہے کیوں کہ ایسا ہر شاعر ایک کام سب سے پہلے کرتا ہے وہ یہ ہے کہ وہ اپنے قاری سے اس کی مانوسیت چھین لیتا ہے۔ یعنی جو الفاظ( جانی ہوئی شے) کاغذ پر ہیں وہ خواہ کتنے ہی مانوس ہوں مگر ان سے جو تصویر بن رہی ہے وہ اَن جانی سی ، اَن دیکھی سی ہے ، جو سُر ابھر رہے ہیں وہ اَن سنے سے ۔ وہ اپنے قاری سے ایک ایسی قرات کا متلاشی ہے جو صرف اس کے کلام کے لیے ہی ہو ،یعنی یہاں وہ پگ ڈنڈی موجود ہی نہیں جس پر زمانہ چل چکا ہو ۔
شہرام سرمدی ایک ایسے ہی شاعر کا نام ہے جو اپنے پڑھنے والوں سے ایک نئی قرات کا متلاشی ہے۔وہ اپنے پڑھنے والوں کے سامنے جو منظر رکھتا ہے اس کا مرم سامنے ہے ہی نہیں۔ اسے پانے کے لیے قاری کو لفظ کے راستے اندر اترنا ہوتا ہے۔
شہرام کی نظمیں حال اور ماضی کے بیچ ایک پُل کی طرح ہیں، جس کی تعمیر اس نے احساس کے گول پتھروں سے کی ہے، مگر یہ پتھر موتیوں کی مالا کی طرح بیچ سےپروئےگئے ہیں اگر چلنےوالے کا توازن ذرا لرزش بھرا ہوا تو اس کی آنکھوں کے سامنے دائیں یا بائیں کی دھند بھری تصویر ہوگی ،یہ تصویر پر کیف ، با معنی ہو سکتی ہے، یا یہ کہنا زیادہ مناسب ہوگا کہ ہوتی بھی ہے ، مگر یہ وہ تصویر نہیں جس کی تلاش اس سفر کا مقصد تھا ۔
ماضی کی طرف دیکھنے ، اس کی طرف مراجعت کا عمل کچھ نیا نہیں ہے ایسا تو ہم نے بارہا دیکھا ہے ۔ شہرام ماضی کی طرف محض پلٹ نہیں رہا ، جیسا عموماً ہوتا ہے، وہ تو ایک ایسے رشتے کو ری اون کر رہا ہے جسے ہم بھول چکے ہیں ۔وہ ماضی میں جا کر ماضی کا نہیں ہوتا ، اس کا تو سارا سروکار ہی آج سے ہے مگر اسے یہ خبر ہے کہ "آج” کی بنیاد میں "کل” کی کتنی اہمیت ہے ، اس کے لیے ماضی کسی غم ، کھو دینے کے احساس ، کرب،یاس ، اداسی یا نوسٹالجیا کا سبب نہیں، اس کے لیے تو وہ ایک سنہرا باب ہے ، وہاں سے وہ تازہ دم ہو کر آتا ہے، وہاں سے لاکر یاد کا کوئی حصہ وہ آج میں شامل کر دیتا ہے ۔ اسی لیے اسے ان علامتوں کی ضرورت نہیں پڑتی جھیں ہم ماضی سے جوڑ کر دیکھنے کے عادی ہیں ۔ اس کا حساس شعور و لا شعور ماضی کی ہر اس چیز کو اپنا بنا لیتا ہے ، جو اس کے نزدیک اہم ہے، جس میں زندگی سانس لیتی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ ہمیں اس کے یہاں ماضی کا کورا بیان نہیں ملتا ، وہ اسے اپنے آج سے ایسے ملا دیتا ہے کہ آنکھوں کے سامنے ایک کولاژ سا ابھر آتا ہے ۔ آپ اس میں یہ طے نہیں کر پاتے کہ اس میں سے کون کا رنگ اہم ہے اور ان سامنے کے رنگوں کے پیچھے انسانی سوچ اور فکر کے وہ رنگ ہوتے ہیں جو سامنے کے رنگوں کو اور چمک دار اور دیر پا بنا دیتے ہیں ۔
شہرام کے لیے زبان کی بہت اہمیت ہے ، اسے لفظ کی عظمت کا اندازہ ہے ، اسی لیے اس کے نزدیک نظم میں بات کہنے پر تو زور ہے مگر کہا کیسے جائے اس کا خیال زیادہ اہم ہے ۔ نظم کے ڈرافٹ پر وہ بہت کام کرتا ہے، اسے ڈرافٹ کے وقفوں سے خوب کام لینا آتا ہے۔ اسے شعور ہے کیا نہیں کہنا ہے اور کتنا کہنا ہے۔
حواشی شہرام کی دوسری کتاب ہے ، جو حال ہی میں آئی ہے اور جس میں اس کی پہلی کتاب ” ناموعود” کے بعد کی نظمیں شامل ہیں ۔ میں ان لوگوں میں شامل رہا ہوں جنھوں نے ان نظموں کا سفر دیکھا ہے ، ان میں سے بعض کے ایک سے زیادہ ڈرافٹ پڑھے ہیں ، لیکن کیا شہرام نے ان ساری نظموں کو یک جا کر دیا ہے جو اس نے پہلی کتاب کے بعد کہی ہیں ، تو جواب ہوگا نہیں ۔ کیوں کہ اس کے نزدیک بھی کتاب کسی بھی شاعر کے کلام کو یکجا کردینے یا اس کے بہترین کلام کا انتخاب نہیں ، بلکہ کتاب کا کام تو ایک ایسی تصویر باننے کا ہے جو شاعرکی تخلیقی فکر کو سامنے لا سکے ۔ پھر دوسری کتاب کے ساتھ تو یہ بھی ہے کہ اس میں یہ دیکھا جا سکے کہ شاعر اپنے پہلے کے سفر سے کچھ الگ ہوا یا نہیں ۔ خاص طور پر ایک سوچتے ہوئے ذہن سے تو توقع ہوتی ہی ہے کہ اس نے کچھ نیا ، کچھ الگ کیا ہوگا ۔ ناموعود اور حواشی کو اگر پڑھا جائے تو یہ بات آئینہ ہو جاتی ہے کہ یہ دونوں ہی کتابیں اپنے شاعر کا پتا دیتی ہیں ، گو دونوں ہی کتابیں ایک ہی شاعر کی ہیں ، مگر یہ شاعر الگ الگ ہے اور حواشی کا شاعر اپنی فکر میں ناموعود کے شاعر سے الگ اور آگے کھڑا نظر آتا ہے ۔
رگھو ویر سہائے شاعر میں جس اضافی شعور کی نشان دہی کرتے ہیں ، شہرام کو پڑھ کر وہ بات واضح ہو جاتی ہے ۔
حال اگر مرکز ہے تو ماضی کیا کہلائے گا اس طرف بھی غور کیا جا سکتا ہے ۔
ایک بیحد پر فکر اور پر معنی کتاب کے لیے مبارک ۔۔۔
عادل رضا منصوری
کوئی تبصرہ نہیں