تیسرے آسمان پہ :زاہد امروز کے ساتھ


تیسرے آسمان پہ :زاہد امروز کے ساتھ

عدنان بشیر

ہم زاہد امروز کے ساتھ تیسرے آسمان پہ ہیں۔ آسمانِ دنیا میں ہر شخص اپنی موت کا خود ہی باعث بنتا ہے۔ اس کا ہر سانس جہاں ہزاروں ان دیکھی مخلوقات کے لیے موت کا سبب بنتا ہے وہیں بالآخر اس کے لیے بھی اس جسم کے اختتام کا باعث ٹھہرتا ہے۔ سو ہم جس دنیا میں سانس لے رہے ہیں یہاں ہمہ وقت ” خودکشی کے موسم میں” (2009ء)گزر اوقات کرنا ہماری مجبوری ہے۔ اس آسمان سے آگے "کائناتی گرد میں عریاں شام” (2012ء) بال کھولے ہماری منتظر ہے۔ ان دونوں آسمانو ں کا جو احوال زاہد امروز نے ہمارے لیے گزرے ہوئے کل یعنی دوش /دی میں بیان کیا تھا اسے ہم فردا یعنی آنے والے کل پہ اٹھا رکھتے ہیں اور امروز یعنی آج ہم سیر کرتے ہیں اس تیسرے آسمان کی جو جلا ہوا ہے اور جس کے سب سے بلند پرواز پرندے بھی وہی ہیں جنھوں نے آسمانِ دنیا کے سب پنکھ پکھیروؤں کو پیچھے چھوڑ دیا تھا۔ آسمانوں کی یہ سیر عالمی ادب کی بہترین تخلیقات میں شمار ہوتی ہے۔ عربی میں ابوالعلا معری (973-1057)کے ” رسالۂ غفران” سے اس کا آغاز ہوا اور اس کا یہ شعر کئی زبانوں میں عقل و شعور کی رو بیداری کا سرنامہ بن گیا۔

"لوگ امام برحق کا انتظار کر رہے ہیں جو ان کے لشکر کی قیادت کرے گا۔ یہ ان کی خام خیالی ہے۔ عقل کے سوا کوئی امام نہیں جو ہر لمحہ انسان کو صحیح مشورہ دے اور اس کو راہ دکھائے۔ ”

ایک ملحد قرار دے دیے جانے والے شاعر کے کلام سے شعور کی جو رو شروع ہوئی اور "رسالۂ غفران” میں زمین سے ماورا ہوکے افلاک اور کائنات سے آگے کے سفر کا جو آغاز ہوا اسی کو بعد میں صوفی قرار دے دیے جانے والے ابنِ عربی (1165-1240) کی "فتوحاتِ مکیہ ” سے باعث بنا اطالوی زبان میں جنم لینے والی دانتے الیگیری(1265-1321) کے قلم سے پھوٹنے والی عالمی ادب کی عظیم ترین نظموں میں سے ایک ” ڈیوائن کامیڈی” کا اور بعد ازاں جس کے تتبع میں اقبال(1877-1938) نے "جاوید نامہ” میں اسی ترتیب کو ملحوظ رکھا جسے دانتے نے ابنِ عربی نے سے مستعار لیا تھا۔ ابنِ عربی نے عارف اور فلسفی کو ایک ہی وقت میں منزلِ خبر سے آگے کی رسائی دی جہاں عارف کا استقبال ابنیا کی طرف سے اور فلسفی کا عقولِ عشرہ کی طرف سے استقبال کیا جاتا ہے۔ اقبال اور دانتے نے بھی شیخِ اکبر کی طرح تیسرے آسمان کو "فلکِ زہرہ” قرار دیا۔ یہ محبت یا حسنِ ترتیب کا جہان ہے ۔ ابنِ عربی کے دوسرے کردار فلسفی کو عقولِ عشرہ طبیعات اور ہئیتِ افلاک کی معلومات پہنچاتی ہیں اور ہمارے لیے یہ کام امروز میں ہمارے دوست زاہد امروز کر رہے ہیں۔ اصغر مال کالج راولپنڈی میں جہاں اردو کی تدریس جہاں میرے ذمے تھی وہیں فزکس کے استاد  زاہد امروز تھے اور پھر فزکس کی بہترین یونیورسٹیز کی طرف سے انھیں بلاوے آئے اور وہ مغرب میں جا بسے اور ہم مشرق میں عقل کے ساتھ دینیات کے رشتے کو بھی تھامے ہوئے بیٹھے ہیں کہ جس کیفیت کے بارے میں ہمارے دوست فیضان ہاشمی نے کہا تھا کہ :

ملا رہا ہوں ترا حسن کائنات کے ساتھ

فزکس کھول کے بیٹھا ہوں دینیات کے ساتھ

ابنِ عربی کے عارف کو تو تیسرے آسمان پہ جنابِ  یوسف علیہ السلام ملتے ہیں جو اسے حسنِ ترتیب،حسنِ تناسب، حسنِ کائنات اور ان کے باہمی ربط ضبط کے آہنگ کی خوب صورتی سے آگاہ کرتے ہیں جبکہ ہم نہ عارف ہیں نہ فلسفی/حکیم لیکن ہمارے لیے وہ آسمان جسے دانتے نے محبت کی دیوی اور محبت کے جذبےکے ساتھ اپنی محبوبہ بیٹرس کی ہمراہی میں سر کیا ۔ زاہد امروز بھی اپنی کتاب کو دانتے کی طرح تین حصوں میں تین حصوں میں تقسیم کرتے ہیں لیکن یہ جہنم ، اعراف یا جنت نہیں بلکہ ” سویا ہوا دن”(21 نظمیں)، ” سہما ہوا آدمی”(7 نظمیں) اور "عریاں بدن میں رات”(21 نظمیں) ہیں۔ سات آسمانوں کی طرح سات کے پہاڑے کے گرد گھومتی یہ نظمیں  اسی طرح گردش میں ہیں جیسے دانتے کے ہاں اپنا چکر مکمل کرتی ہیں:

But already my desire and my will
were being turned like a wheel, all at one speed,
by the Love which moves the sun and the other stars.

یا آتش نے ہمیں عقل کے ذریعے ان سات آسمان پر سیر کرنے کی دعوت دی تھی:

نہ کرتی عقل اگر ہفت آسمان کی سیر

کوئی یہ سات ورق کا رسالہ کیا کرتا

اور غالب نے اس سات ورق کے رسالے کے مطالعے سے بیزاری کی کیفیت میں کہا تھا:

رات دن گردش میں ہیں سات آسمان

ہو رہے گا کچھ نہ کچھ گھبرائیں کیا

سات کے پہاڑے کو سات بار پڑھیں تو سات ضرب سات انچاس ہوتے ہیں اور زاہد امروز کی ان انچاس نظموں میں ہمیں ان کے ہمراہ اسی طرح بہت سے کردار ملتے ہیں جس طرح مذکورہ بالا نظموں میں ہیں لیکن ان سب میں فرق یہ ہے کہ زاہد نے اس تمام کرداروں کو آفاقی نہیں بلکہ انسانی اور فرد کی سطح پر برت کے دکھایا ہے۔ یہ جزو سے کل کی طرف کا سفر جو اپنے آخر پہ حواس اور طبیعات سے ماورا ہو کے خواب اور مابعدالطبیعات تک آتا ہوا دکھائی دیتا ہے اس میں آنے والی محبوباؤں یا جسم کا ساتھ دینے والی شخصیات میں منشی محلے کے چکلے کی وہ شاطر عورت بھی ہے جو تیس روزے بھی رکھ رہی ہے، تیس راتیں بھی کما رہی ہے اور یہ گمان بھی نہیں ہونے دیتی کہ عورتوں کو کوئی ماہواری یا ایک ہفتے کی تعطیل کا موقع بھی فطرت کی طرف سے میسر آتا ہے۔(افففف!!!کتنے ہی کاروبار ہیں کہ جن میں تعطیل کا کوئی تصور نہیں۔ آج ہی ہماری گڑیا نے سوال کیا کہ یہ پنڈی کے لنگرخانوں والے دستر خوانوں پہ مزدور قسم کے لوگ ہی کیوں ہوتے ہیں فقیر کیوں نہیں ہوتے تو میں نے کہا کہ ان کے کاروبار کا ہرج ہوتا ہے ۔ اتنے وقت میں تو وہ کئی وقت کے کھانے کے پیسے کما لیتے ہیں۔)

زاہد امروز کی یہ نظمیں اسی دنیا کے جہنم سے گزرتی ہیں جو اس کے پہلے حصے کی اکیس نظمیں ہیں۔ جنس ان نظموں کا بنیادی موضوع ہے۔ ان میں بننے والی تصویریں اسی طرح مایوسی اور یاسیت کو طاری کر دیتی ہیں جس طرح دانتے کی ڈیوائن کامیڈی میں جہنم کے دروازے پہ درج ہوتا ہے :

"مجھ سے گزر کر تم آہوں کے شہر میں داخل ہوگے۔ مجھ سے گزر کر تم ابدی دکھوں کے قریے میں پہنچو گے ۔مجھ سے گزر کر لوگ ہمیشہ کے لئے اپنا آپ کھو بیٹھتے ہیں ۔۔۔

” اے یہاں سے گزرنے والوں ! اپنی تمام امیدیں ترک کر دو۔”

اقبال کی نظم کے تیسرے حصے میں فلکِ زہرہ پر قدیم اور متروک خداؤں کی مجلس میں انسان کے خدا کے انکار اور عقل کے پیچھے چلنے کی جو بحث چل رہی ہے زاہد امروز کے ہاں آ کے وہ اس کے ذاتی تجربے اور تفکر کی گود سے پھوٹتی ہے اور وہ پہلے حصے کا اختتام اکیسویں نظم کی ان لائنوں پر کرتا ہے:

تم وہی رہو

پوری اور ادھوری

جس کا دل ہے سیاروں کا سورج

جس کا جسم ہے ساری کائنات

 

تم وہی رہو

عیاری سے پاکیزہ

جس کو پوجنا چاہتا ہے

دنیا کا مکار خدا

دوسرے حصے سہما ہوا آدمی کی سات نظمیں آدمی کے ارتقا سے پھر ابتذال کی طرف رجوع کرنے کی وہ داستان بن رہی ہیں جن کی ہیبت سات آسمانوں کی طرح محیط ہو جاتی ہے اور آدمی پھر اپنی ریڑھ کی ہڈی پہ بندر اور خنزیر کی طرح جھک جاتا ہے اور اپنی دم اٹھا کے جنم دیتا ہے خوف کے چوہوں کو اور اپنے پاؤں تلے روندتا چلا جاتا ہے چیونٹیوں کی طرح رینگتے ہوئے انسانوں کے ہجوم کو۔ اس حصے کی اختتامی نظم کے ساتھ بنائی جانے والی یہ تصویر بھی شاید ہمارے شاعر ہی کے قلم سے پھوٹی ہے جو جدید فرد کے خوف، مغائرت اور شناخت کے انہدام کو ذہنوں میں برانگیخت کرتی ہے۔میں چاہتے ہوئے بھی اس کتاب کے تیسرے حصے کی نظموں کو مکمل ہی نہیں کر پا رہا۔ زاہد امروز نے دس سال  کے عرصے میں جس طرح سے ہجوم، تنہائی، علوم اور جہالت سے بھری اس دنیا کی سچائیوں اور جھوٹوں کو تعقل کی کسوٹی پر پرکھا ہے اس نے خدا(تخلیق کار)، انسان (اپنے تمام امکانات کے ساتھ) اور کائنات(خدا یا انسان کے امکانات تک پہنچنے کا ذریعہ) کے ساتھ شاعر کے تعلق کو ایک مبدل سچائی کے طور پر استوار کیا ہے جو زمان اور مکان کی تبدیلی سے جھوٹ میں بدل جاتی ہے۔یہ وہ تیسری جہت ہے جس کی گہرائی کو  ہم کسی بھی تصویر کے طول اور عرض میں ناپنے سے عاری ہیں۔

 

کوئی تبصرہ نہیں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے