سراب کی گرفت میں


سراب کی گرفت میں
از عبداللہ ندیم
Some books are read and some are
lived
سہیل آزاد کی نئی کتاب “سراب کی گرفت میں “ کا شمار دوسری طرح کی کتابوں میں ہوتا ہے ۔وہ حال میں ہی رضاکارانہ طور پر محکمہ پولیس سے سبک دوش ہوئے ہیں اور میرے علم کی حد تک وہ شجاع خاور اور قیصر خالد کے بعد تیسرے پولیس والے ہیں جنھوں نے محکمے میں رہتے ہوئے اپنی جمالیاتی حس اور ذوقِ سخن آرائی کو مرنے نہیں دیا ۔ویسے توبشیر بدر نے بھی تھوڑے دنوں تک اس محکمے میں نوکری کی ہے ۔خیریت گزری کہ جلد ہی انھوں نے اسے خیر باد کہہ دیا ورنہ وہ مجرمین کو اپنی غزلوں سے ہی ڈھیر کر دیتے ۔یہ سہیل کا تیسرا مجموعہ ہے۔”ایک آواز شناسا سی “ اور “یادوں کے کچھ خالی پیکٹ “نے پہلے ہی علمی اور ادبی حلقوں میں انکی شناخت قائم کردی تھی ۔اب اس تیسری کتاب نے اسے مزید جلا بخشی ہے ۔
ذاتی اور اجتماعی بحران ایک فنکار کے لئے نعمت غیر مترقبہ ہوتا ہے ۔شہ پارے عموماً انھیں اوقات میں تخلیق پاتے ہیں ۔”سراب کی گرفت میں “ کی زیادہ تر غزلیں لاک ڈاؤن کے دوران کہی گئی ہیں ۔سہیل کے یہاں پہلے بھی رائیگانی اور محزونی کا رنگ تھا لیکن دھیما دھیما ، پہلے عشق جیسا ،خفتہ خفتہ ۔یہاں یہ رنگ پوری طرح نمایاں ہوگیا ہے ۔کربِ تنہائی ،مہجوری اور اپنوں سے دوری نے کلام میں وہ گداختگی پیدا کردی کہ جو ہر اہل دل کا خاصہ ہوتا ہے ۔آنکھ جب وصل میں فراق دیکھنے کے قابل ہو جائے تب عرفان ذات کا مرحلہ شروع ہوتا ہے اور کائنات کے راز ہائے سر بستہ بھی وا ہونے لگتے ہیں ۔
چلے ہیں رختِ سفر اٹھائے
کہاں ہے منزل کوئی بتائے
ذرا سی دنیا ذرا سی ہستی
بھلا یہاں کون دل لگائے
مٹی نے آج پوچھا تھا مجھ سے کہ میرے یار
کیسا غرور !اب تو سفر واپسی کا ہے
اے آزاد یہ سونی شامیں
بھول گیا دن تار پہ رکھ کر
کوئی نہیں جو دیا جلائے،شعر سنائے ،بات کرے
ان دیواروں پہ برسوں سے شامیں مرتی رہتی ہیں
بستر پہ کوئی خواب بچھاتا ہی نہیں اب
آنکھوں کو کسی خواب کی عادت ہے ،نہ منظر
میرے مرنے بھی شک ہے تو بھلا ہو تیرا
زندگی!اور کرامات نہیں کر سکتا
چلو تمام ہوئی جنگ آج ہستی کی
اب اس کے بعد نہ لانا یہاں دوبارہ مجھے
ہر فنکار کے لئے انفس و آفاق میں دلیلیں ہیں اور وہ انکی طرف مراجعت بھی کرتا ہے ،لیکن وہ اس کے ساتھ اپنے لیے ایک متوازی دنیا بھی تخلیق کرتا ہے ۔وہ خدائی کا دعوی تو نہیں کرتا ہے لیکن ان معنوں میں اپنے کو خدا سمجھتا ہے کہ وہ بھی تخلیق پر قادر ہے اور کئی بار تو محض اپنے تخیل کے سہارے موجود کو اتنا مبہم کر دیتا ہے کہ وہ ایک نئی شکل میں مرتسم ہوجاتا ہے ۔ہر بڑے شاعر کایہی کمال ہے ۔سہیل نے بھی استعارات کے ذریعہ اپنی الگ دنیا تخلیق کی ہے
کشید کرتا رہوں گا خلا سے عرقِ صبا
کسی کسی کو ملا ہے مگر ہوا کا پتہ
کیوں گل کو لمسِ آتش ِگیسو کی ہے ہوس
تھا شاخ پر تو دھوپ کا سایہ یہاں بھی تھا
بے بصر چشمِ امکاں کے سب برگ تھے
گل پہ جس آن واری گئی چشمِ گل
کوئی ستارہ کسی خواب کی ہتھیلی پر
جو ٹمٹمائے تو سورج کو بے بصر رکھنا
ذرا بارش کے پانی میں نہا کر
روپہلی دھوپ نے خود کو سنوارا
سو ہم بھی اشک سنبھالے ہوئے ہیں آنکھوں میں
خبر ملی ہے یہاں ایک بحرِ آتش کی
آنکھ میں اک شور تھا رخصت کا شور
شام اک میلہ سا تھا اس جھیل پر
صندوق کھول کر کوئی جاڑوں کی دھوپ میں
گزرے ہوئے دنوں کو سکھاتا ہے شام تک
سہیل کا شعری سفر تین دہائیوں کو محیط ہے لیکن ہمارا شاعر شاید آج بھی اپنی تلاش میں سرگرداں ہے ۔انکے پاس کہنے کے لئے ابھی بہت کچھ ہے ۔خدا انکے اس سفر کو اور طویل کرے
سفر بہت طویل تھا
مگر تری تلاش میں
کہاں کہاں سے ہوکے ہم
اسی جگہ پے آگئے
جہاں سے کھو گئے تھے ہم
عذاب کی گرفت میں
عتاب کی گرفت میں
سراب ہے کہ دور تک
سراب کی گرفت میں
(سہیل آزاد)
‎ عبداللہ ندیم
پوسٹ اسکرپٹ :”نایاب بکس “پبلیکشن کی دنیا میں ایک قابل بھروسہ نام ہے ۔کتابیں دیدہ زیب ہوتی ہیں ۔یہ کتاب بھی انھوں نے ہی چھاپی ہے ۔

کوئی تبصرہ نہیں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے