ظہیر احمد صدیقی
تحقیق و تنقید
تحقیق کے اصطلاحی معنی کسی موضوع کے سائنٹیفک مطالعہ کے ذریعہ حقایق کو دریافت کرنا ہے جہاں تک سائنس کا تعلق ہے وہاں تحقیق کا مقصد صرف یہ ہے کہ کسی خارجی حقیقت کے بارے میں کوئی نئی بات دریافت کی جائے جس سے علم انسانی میں اضافہ ہو۔ ادب میں تحقیق کسی ادب پارے کی جانچ پڑتال کانام ہے۔ اس جانچ پڑتال میں یہ بھی ہوتاہے کہ ہم زیر نظر ادب پارے کی تاریخی حیثیت پر بحث کرتے ہیں اور یہ بھی ہوتاہے کہ اس کے حسن و قبح کو پرکھتے ہیں۔ اس طرح کبھی تو لفظ تحقیق جنرل ریسرچ کے معنی میں آتا ہے اور ریسرچ کے دونوں پہلوئوں کی جانب رہنمائی کرتاہے۔ جیسا کہ ہمارے اس مضمون کے عنوان سے ظاہر ہے۔ یہ امر خاص طور پر قابلِ لحاظ ہے کہ ریسرچ کا اصل تعلق ذہنی عمل (mental process)سے ہے اور یہ ذہنی عمل جب اپنا اظہار کرتاہے تو اس سے تخلیق (creative work)تحقیق (research)اور تنقید (criticism)وجود میں آتی ہے۔
تخلیق (ہماری مراد ادبی تخلیق سے ہے) زندگی کی ترجمان اور تحقیق و تنقید ادب کی ترجمان ہوتی ہے۔ تحقیق و تنقید میں ایک دوسرے سے قریب ہوتے ہوئے بھی یہ فرق ہے کہ اوّل الذکر میں کسی ادبی شاہکار کی تاریخی حیثیت نمایاں رہتی ہے اور مؤخر الذکر میں جمالیاتی (aesthetic)۔دوسرے الفاظ میں یہ بھی کہا جاسکتاہے کہ تخلیق ایک پیکر تراشی ہے اور تحقیق اس کے مواد (meterial)سے بحث کرتی ہے اور تنقید اس پیکر کی اچھائی برائی کا اظہار کرتی ہے۔ مثال کے طور پر دیوانِ غالب ایک بڑے شاعر کی تخلیق ہے۔ اب اس سلسلہ میں اس بات کا کھوج لگانا کہ دیوانِ غالب پہلی بار کب اور کہاں شائع ہوا، کون سی غزلیں واقعی طور پر شاعر کی ہیں؟ اور کون سی غزلیں الحاقی ہیں، کس شعر کی صحیح قرأ ت (reading)کیاہے؟ دوسرے نسخوں کا اختلاف کس حد تک ہے؟ اور ان میں کس کو اور کیوں ترجیح دی جائے؟ یہ تحقیق کا فرض ہے۔ اس کے برخلاف تنقید کا کام یہ ہے کہ اس بات کا پتا لگائے…..کہ شاعر نے کون سا خیال کس دوسرے شاعر سے متاثر ہو کر یا کس جذبہ سے مغلوب ہو کر ادا کیا ہے او رایسا کرنے میں وہ کس حد تک کامیاب ہوا ہے اس کو یو ںبھی کہا جاسکتا ہے کہ تنقید یہ دیکھتی ہے کہ فلاں شاعر کے خیالات کی محرک کون سی نفسیاتی یا ذہنی کیفیت ہے اور نیز ان خیالات یا ان کے اظہارمیں کس حد تک حسن کاری پائی جاتی ہے۔ اس کے کلام کا جائزہ لینے کے بعدیہ بات طے کی جاسکتی ہے کہ وہ کون سی فضا ہوسکتی ہے جس کے تحت ہم اس کی تخلیقات کا مطالعہ کریں اور کن صفات کو اس کے کلام کی خصوصیت قرار دیں۔
یہاں ایک بات صاف کرنا ضروری ہے کہ اب سے چند سال پہلے ہمارے مشرقی ادب میں فنی صحت اور زبان و بیان کی درستگی پر بہت زور دیا جاتا تھا۔ اگر کسی شاعر نے کوئی لفظ یا ترکیب خلاف محاورہ استعمال کی یا اس سے بحر و قافیہ کی چھوٹی سی بھول ہوئی تواس کی شاعری کو ادبی حلقوںمیں پسند نہیں کیا جاتا تھا اور لوگ اس کو ٹکسال باہر سمجھتے تھے۔ اس سلسلے میں بدقسمتی سے ہمارے ملک میں متوازن راستہ اختیار نہیں کیا گیا۔ یہ لوگ صرف اس قدر ضروری خیال کرتے تھے کہ الفاظ میں فصاحت ہے، محاورہ درست ہے، بندش چست ہے، معنی وبیان کی رعایت اور مناسبت ہے، ہم یہاں صرف ایک رسالہ ’’طومار اغلاط‘ مصنفہ انسخ شاگرد نساخ سے، جس میں مشہور اساتذۂ لکھنؤ ناسخ، آتش، وزیر، منیر وغیرہ کی اغلاط جمع کی گئی ہیں، چند مثالیں پیش کرتے ہیں:
عشق کا صدمہ نہیں اٹھ سکنے کا معشوق سے
پہلے مجنوں سے کرے گی لیلیٰ محمل قضا
(آتش)
خط پہ خط لائے جو مرغ نامہ بر
بولے ان مرغوں کا ڈربہ کھل گیا
(وزیر)
عشق یوسف نے یہ کی خانہ خرابی برپا
ٹھوکریں کھاتی زلیخا سرِ بازار پھری
(صبا)
اعتراضات
.1 لیلیٰ محمل کی ترکیب مہمل ہے۔ سند چاہیے۔ لیلیٰ محمل نشیں کہتے ہیں۔
.2 اس محاورے کو اگر مرغ نامہ میں کہتے تو مضائقہ نہ تھا۔
.3 خانہ خرابی برپا کرنا نہیں بولتے۔
قطع نظر اس کے کہ اشعار پست ہیں، ان کی تنقید بھی سطحی ہے جس میں شعر کے اصل مفہوم سے قطعاً بحث نہیں کی گئی ہے۔ محض الفاظ اور تراکیب پر زور دیاگیا ہے۔ قدیم نقاد اس کی پروا نہ کرتے تھے کہ ادیب یا شاعر نے جو کچھ لکھاہے وہ کس ماحول میں لکھا اور کن داخلی یا خارجی محرکات (Internal and External Motives)کے زیر اثر تھا اور اس کے ذہنی انداز کا تدریجی ارتقا کس طریقہ پر ہوا، وہ دوسروں سے کس حد تک متاثر ہوا اور اس نے دوسروں کو کس درجہ متاثر کیا۔
جب سے ہمارے ملک میں مغربی علوم کا رواج ہوا اور جدید تنقید مقبول ہوئی، اس وقت سے ہمارے تنقید نگار فن کے تقاضے سے بے پروا ہو کر ادب کے نفسیاتی پہلو پر زیادہ زور دینے لگے اور زبان و بیان کی طرف سے عام طور پر بے پروائی برتی جانے لگی۔ چناں چہ پروفیسر احتشام حسین ترقی پسند ادب کی نسبت لکھتے ہیں:
’’ترقی پسند ادب کا زاویۂ نظر مواد اور ہیئت کے تعلق کے بارے میں بہت واضح ہے۔ وہ تمام شعرا اور نقاد جو زندگی کو نامیاتی مانتے ہیں، جو مقدار سے خصوصیتوں کو بدلنے کے قائل ہیں، جو شاعری کو زندگی کا مظہر مانتے ہیں، جو ادب کو سماجی ترقی کا ایک آلہ سمجھتے ہیں اور جو تمدن کو عام کرنا اور فنون لطیفہ کو عوام کی چیز بنانا چاہتے ہیں وہ کسی حالت میں بھی ہیئت اور اسلوب کو مواد پر اہمیت دینے کے لیے آمادہ نہیں ہوسکتے۔‘‘
یہ بالکل صحیح ہے کہ ہیئت کو مواد پر ترجیح نہیں دی جاسکتی مگر ہیئت کو سرے سے نظر انداز کرنا بھی جائز نہیں۔
ہمارے خیال میں دونوں گروہ افراط و تفریط کا شکار ہیں۔یہ درست ہے کہ ہم کسی ادیب یا شاعر کو پورے طور پر اسی وقت سمجھ سکتے ہیں جب اس کے ماحول اور ذہنی افتاد سے واقف ہوں اور اسی وقت اس کے شاہ کار کے اچھے یا برے ہونے کافیصلہ کرسکتے ہیں مگر فن، اس کے قواعد اور زبان و بیان کے اصول کا بھی ایک مقام ہے جس سے صرف نظر صحیح نہیں۔ علامہ شبلی نے ایک جگہ لکھا ہے کہ عمدہ معانی جو مناسب الفاظ میں ادا کیے جائیں ان کی مثال خالص میٹھے پانی کی ہے جو ایک صاف شیشے کے گلاس میں پیش کیا جائے۔ اس کے برخلاف ایک عمدہ مضمون جو بھونڈے الفاظ میں ادا کیا جائے ایسا ہے جیسے صاف پانی ایک گندیبرتن میں ہو، اور ایک بُرا مضمون جو عمدہ طریقہ سے بیان کیا جائے ایساہے جیسے میلا اور گندا پانی ایک خوبصورت گلاس میں ہو۔ تنقید ایک ہمہ گیر موضوع ہے۔ اس کو محض چند مثالوں سے نہیں سمجھایا جاسکتا۔ یہ تفصیلی بحث چاہتا ہے تاہم ہم کوشش کریں گے کہ مختصراً تنقید کا جائزہ لیں او ران شرائط کی نشان دہی کریں جو ناقد کے لیے ناگزیر ہیں۔
.1 تنقید کی پہلی ضرورت یہ ہے کہ ہمارا مطالعہ وسیع ہو۔ اس لیے کہ اگر اس ادب کے سرمایہ پر جو زیر بحث ہے ہماری پوری نظر نہیں تو ہمارا فیصلہ بھی محدود اور تنگ نظرانہ ہوگا۔ جس مطالعہ کی وسعت کی طرف اشارا کیا گیا ہے اس سے ہماری مراد صرف کتابی مطالعہ نہیں ہے بلکہ کائنات کا مطالعہ اور مشاہدہ بھی اس میں شامل ہے۔ محض تخیل پر بھروسہ ناقد کو حقیقت سے دور کرسکتاہے۔ خود تخیل میں وسعت مطالعہ ہی سے پیدا ہوتی ہے۔ اگر کسی کا مطالعہ محدود ہے تو اس کی نظر بھی محدود ہوگی۔ جو شخص محض تخیل کا سہارا لے کر مطالعۂ کائنات سے نظریں چرائے گا اس کا ذہن صرف چند تشبیہات اور استعارات کی رنگینیوں میں پھنس کر رہ جائے گا اور اس روح تک نہ پہنچ سکے گا جو کائنات کے اندر پوشیدہ ہے۔ علامہ شبلی نے شعر العجم میں ایک واقعہ نقل کیاہے۔
’’ابن الرومی عرب کا مشہور شاعر تھا، ایک دفعہ اس کو کسی نے طعنہ دیا کہ تم ابن المعتز سے بڑھ کر ہو پھر ابن المعتز کی سی تشبہیں کیو ںنہیں پیدا کرسکتے۔ ابن الرومی نے کہا کہ کوئی تشبیہ سنائو جس کا جواب مجھ سے نہ ہو سکا ہو۔ اس نے یہ شعر پڑھا۔
ترجمہ: پہلی رات کا چاند ایساہے جس طرح ایک چاند سی کشتی جس پر اس قدر لاد دیا گیا ہے کہ وہ دب گئی ہے۔‘‘
ابن الرومی یہ سن کر چیخ اٹھا کہ خدا کسی کو اس کی طاقت سے زیادہ تکلیف نہیں دیتا، ابن المعتز بادشاہ اور بادشاہ زادہ ہے۔ گھر میں جو کچھ دیکھا وہی کہہ دیتا ہے، میں یہ خیالات کہاں سے لائوں۔‘‘
.2 دوسری شرط تخیل کی فراوانی ہے۔ اگر ایسا نہیں ہے تو ناقد زیر بحث ادب پارے کے ساتھ انصاف نہیں کرسکتا۔ اس کے لیے لازم ہے کہ اس ذہنی ماحول میں داخل ہونے کی کوشش کرے اور اپنے آپ کو اس پوزیشن میں رکھے جس میں شاعر یا نثار نے اپنے فن کی تخلیق کی تھی۔ اس کے بغیر اس کی رائے کج اور اس کا فیصلہ غیر ہمدردانہ ہو سکتاہے بلکہ ممکن ہے کہ تنقید کے ساتھ انصاف کرنا تو درکنار وہ اس تخلیق کو سمجھ بھی نہ سکے۔ اس موقع پر اس حقیقت کا اظہاری ضروری ہے کہ تخیل محض رسمی خیالی تصورات کا نام نہیں ہے بلکہ یہ وہ قوت ہے جو پوشیدہ رازوں کو ظاہر کرتی ہے۔ اس کا علم اشیا کا اظہار ہی نہیں ہے بلکہ ان پر ناقدانہ نظر ڈالنا بھی ہے۔ تخیئل کے استعمال میں ایک احتیاط کا خاص طور پر خیال رکھنا ضروری ہے اور وہ یہ کہ جہاں اس کے بغیر ہمارا علم نامکمل ہے وہاں اس کی بے اعتدالی ہمارے ادب پارے کو تباہ کردیتی ہے۔
.3 تنقید کے لیے موضوع زیر بحث میں ناقد کا ماہر ہونا لازم ہے۔ ورنہ اس کی تنقید ایک عام تنقید سے زیادہ وقیع نہ ہوگی۔ شعر العجم میں ایک واقعہ نقل ہے کہ یونان میں ایک مصور نے ایک آدمی کی جس کے ہاتھ میں انگور کاخوشہ ہے تصویر بنا کر منظر عام پر آویزاں کردی۔ تصویر اس قدر اصل کے مطابق تھی کہ پرندے انگور کو اصلی سمجھ کر اس پر گرتے تھے اور چونچ مارتے تھے۔ تمام نمائش گاہ میں غل پڑ گیا اور لوگ ہر طرف سے آ آکر مصور کو مبارک باد دینے لگے لیکن مصور روتا تھاکہ تصویر میں نقص رہ گیا۔ لوگو ںنے حیرت سے پوچھا کہ اس سے بڑھ کر او رکیا کمال ہو سکتا تھا۔ مصور نے کہا کہ بے شبہ انگور کی تصویر اچھی بنی ہے لیکن جس آدمی کے ہاتھ میں انگور ہے اس کی تصویر میں نقص ہے ورنہ پرند انگور پر ٹوٹنے کی جرأت نہ کرتے۔
کبھی کبھی یہ سوال اٹھایا جاتاہے کہ کیا کسی مجموعۂ شعر پر تنقید کرنے کے لیے یہ ضروری ہے کہ ناقد خود شاعر بھی ہو۔ اس بارے میں کافی اختلاف آرہا ہے مگر ہماری رائے میں یہ ضروری نہیںکہ اس مقصد کے لیے ناقصد خود شاعر ہو۔ البتہ یہ ضروری ہے کہ وہ ادبِ زیرِبحث کے تمام سرمائے سے واقف اور شعر کے حسن و قبح سے باخبر ہو۔
.4 ناقد کو غیر جانب دار ہوناچاہیے اس کی تنقید نہ تقریظ ہو او رنہ تنقیص۔
.5 بعض لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ تنقید کا مقصد رفتار ادب کی ترقی میں رکاوٹ ڈالنا ہے۔ ایک شخص خون جگر کی آمیزش سے ایک فن پارہ وجود میں لاتا ہے اور کمال بے تعلقی سے اس کو مسترد کردیتا ہے، اس لیے تنقید ادب کے لیے۔ ایک مضرت رساں چیز ہے لیکن صحیح یہ ہے کہ جو تنقید مناسب اصول کے ساتھ کی جائے وہ ادب کے دھارے میں رکاوٹ نہیں ڈالتی بلکہ اس کی موزوں سمت کی طرف رہنمائی کرتی ہے۔ اگر تنقید نہ ہوتی تو ہر کس و ناکس جو چاہتا لکھ مارتا اور اس کی ادنیٰ سی ادنیٰ تحریر کو ملک کی ادبیات میں سکہ رائج الوقت کی حیثیت حاصل ہوتی اور دنیا سے کھوٹے کھرے کا فرق اٹھ جاتا۔
ہم نے تحقیق اور تنقید کے بارے میں جو کچھ کہا اس سے شبہہ ہوتاہے کہ یہ دونوں دو مختلف چیزیں ہیں جن کے حدود الگ الگ ہیں مگر ایسا نہیں ہے۔ دراصل تحقیق بغیر تنقید کے ناقص ہے، کیوں کہ جب تک ایک شخص میں خوب وزشت کا مادہ نہیں وہ محقق نہیں ہو سکتا۔ اسی طرح جب تک کسی ادب پارے کے وجود میں آنے کے خارجی عوامل سے وہ بے خبر ہے اس وقت تک ناقد ہونے کا دعویٰ غلط ہے۔ یہاںپر تحقیق کے بارے میں کچھ اشارے ضروری ہیں جس طرح تنقید کے لیے کچھ شرائط ہیں، اسی طرح تحقیق کے لیے چند امور کا ہونا لازمی ہے۔
.1 تحقیق کے لیے یہ لازم ہے کہ ہم روایت اور درایت کے اصول کو سمجھیں۔ روایت سے ادب کو جدا کرنا ممکن نہیں، کسی زبان کا بھی ادب ہو اس نے یقینا روایت کے سائے میں ترقی کی ہے لیکن روایت ہی کا ہو رہنا اور درایت سے کام نہ لینا جمود کا دوسرا نام ہے۔ علم ہمیشہ شک سے شروع ہوتاہے اور اسی شک کی راہ سے انسان یقین تک پہنچتاہے۔ اس لیے ایک طرف ہمارا فرض ہے کہ ادبی شاہ کار کے بارے میں روایتی سرمایہ ہمارے علم میں ہو مگر جیسا کہ ابھی عرض کیا گیا کہ روایت کا پرکھنا اور اس کے ماخذ کا پتا لگانا ضروری ہے۔ مراد یہ ہے کہ ہم روایت سے بھی استفادہ کریں اور کورانہ تقلید سے بھی بچیں۔ 1؎
.2 محقق کے لیے دوسری شرط ادب پارے کے تاریخ اور زمانے سے واقفیت ہے۔ فرض ہے کہ مصنف کے ماحول اور ماخذ سے پوری طرح واقف ہوں۔
.3 تیسری شرط واقعات کی فراہمی کا مسئلہ ہے اور یہ وہ (Date)ہے جس سے وہ کسی نتیجہ پر پہنچ سکتا ہے۔ گویا یہ واقعات ایک طرح کا (Raw Meterial)ہیں جن سے وہ اپنی ضرورت کے مطابق عمارت تیار کرے گا یا واقعات کی فراہمی میں تجسس اور لگن کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا اور واقعات کا بطور خود مشاہدہ از بس ضروری ہے۔
.4 چوتھی شرط یہ ہے کہ ہمارا کوئی دعویٰ محض قیاس پرمبنی نہ ہو اور ہر دعوے کے ساتھ مضبوط دلیل ہو۔ اس سلسلہ میں یہ ضروری ہے کہ محقق منطقی طرز استدلال سے بیگانہ نہ ہو۔ ہمارا مطلب یہ نہیں کہ اس نے کالج یا یونیورسٹی میں رہ کر باقاعدہ لاجک کی کوئی ڈگری حاصل کی ہو بلکہ مطلب یہ ہے کہ وہ مختلف واقعات سے صحیح نتیجہ نکالنے والے ذہن کا مالک ہو۔
.5 ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ تحقیق کا مقصد تلاشِ حق (search of truth)ہے جس سے محقق کو ایک لمحہ بھی غافل نہیں رہنا چاہیے۔ بات کو مبالغہ سے بیان کرنا، تعصب اور ہٹ دھرمی سے کام لینا اور اپنے قول کی پچ کرنا حد سے زیادہ مضر ہے۔ ہم کو چاہیے کہ دل و دماغ کو خالی اور صاف رکھیں اور واقعات جس امر خاص کی طرف رہنمائی کریں اس کو قبول کرنے میں پس و پیش سے کام نہ لیں۔
.6 ہمیں یہ حقیقت بھی نہ بھولنا چاہیے کہ تحقیق معمولی کاوش کا نام نہیں ہے۔ اس کے لیے ہم کو اپنے تئیں پورے طور پر وقف کردینا ہوگااوریہ یاد رکھنا ہوگاکہ تحقیق تقلید کی ضد ہے اس لیے کہ تقلید ذہن کی وسعت اور نظر کی آزادی پر ایک پردہ ہے۔ جب تک اس پردہ کو چاک نہیں کیا جائے گا اس وقت تک تحقیق کی روح تک پہنچنا ممکن نہیں۔ بعض لوگوں نے غلط فہمی کی بنا پر یہ سمجھ لیاہے کہ اگر محض چھان بین سے چند واقعات یکجا کردیں تو تحقیق کا فرض انجام پا جائے گا، لیکن ہم کو یہ نہ بھولنا چاہیے کہ ایک اچھے محقق کے لیے ناقدانہ نظر کی بے حد ضرورت ہے۔
(سہ ماہی ادیب خصوصی شمارہ، مدیر :مرزا خلیل احمد بیگ، ناشر :جامعہ اردو علی گڑھ)
کوئی تبصرہ نہیں