قصہء سہ اہلِ دل


قصہء سہ اہلِ دل
(شہرام سرمدی)

(‘۔۔۔ اور کہا گیا کہ اہلِ دل کے درمیان نسبتیں ہوا کرتی ہیں۔ ان نسبتوں پر غور و فکر کرنا چاہیے اور یہ بھی نصیحت کی گئی کہ اہلِ دل کے مابین تقابل و تجزیے سے پرہیز اختیار کرنا چاہیے۔ مجمع میں بیٹھے نوجوانوں کے گروہ میں سے ایک نوجوان نے کہا: ‘یہ تو اہلِ سخن ہیں’۔ ایک اور نوجوان نے دریافت کیا: پھر تصوف براۓ شعر گفتن خوب است کیا ہے؟ نگاہ اٹھی، نوجوانوں کے قیافے پر توقف کیا اور محبوبِ الٰہی ؒ کے ایک واقعہ کی طرف اشارہ کرتے ہوۓ گویا ہوۓ: ‘سورۃ فاتحہ تو وہی ہے۔ بس گُلو گُلو کا فرق ہے۔ اس رمز کو اہلِ دل جانتے ہیں اور اہلِ نگاہ پہچانتے ہیں۔ بعدازاں آہستہ سے اندر کی جانب ایک دم لیتے ہوۓ فرمایا: منظر جاۓ نظر کو کہا جاتا ہے اور نظر کی بینائی اصل میں توفیقِ حق ہے۔ پھر دعاء ہوئی توفیقِ حق کے لیے )

وہ مدرسہ جس میں آواز کے لیے جگہ نہیں ہے اور آج بھی اسی مستعدی سے اپنی حمکتِ ‘سینہ بہ سینہ’ کو ملحوظ رکھ کر سرگرمِ عمل ہے۔ یہ قصہ اس مدرسے سے فیض پانے والے تین اہلِ دل کا ہے جن کی بہ ظاہر انفرادیت اور بہ باطن مماثلت کی جانب نگاہ جاتے ہی دیکھنے والا خود کو ‘مقامِ حیرت’ کے مرحلے میں پاتا ہے۔

عجب تقسیمِ صحرا و دشت و کنارِ دریا ہے۔ ارشد عبدالحمید – صحرا میں، سراج اجملی – دشتِ دوآبہ میں اور امیر حمزہ ثاقب – کنارِ دریا، مضافاتِ ممبئی میں۔ تاریخِ پیدائش کے اعتبار سے ترتیب وار 50، 60 اور 70 کی دہائیوں میں اس دارِ عمل میں آۓ۔ ہرچند مذکورہ تینوں اخلاقِ سینہ بہ سینہ کے پاسداروں کا ڈی۔این۔اے۔ ایک دوسرے سے مختلف ہے لیکن مماثلتیں چشم و ذہن کو حیران کردینے والی ہیں۔ ایک نظر ڈالتے ہیں:
_ تینوں کی تعلیمی زبان اردو ہے۔
_ تینوں کی طبیعت فارسی زبان و ادب کی طرف خصوصی طور پر مائل ہے۔
_ تینوں اردو درس و تدریس کے شعبے سے وابستہ ہیں۔
_ تینوں کے قلب پر اہلِ دل کی محبت ثبت ہے۔
_ تینوں اہلِ سخن ہیں اور کم سخن بھی۔
_ تینوں کا زبان و بیان سے ادب و احترام کا رشتہ ہے۔
_ تینوں کے یہاں لہجے میں خشوع و خضوع ہے۔
_ تینوں کا سخن تہذیب و اخلاق کا پاسدار ہے
_ تینوں کے ‘خود بازاری’ اور شہرتوں سے کوسوں دور حجرہ نشیں ہیں۔
_ تینوں ‘از دل خیزد، بردل ریزد’ کی دولت سے مالامال ہیں۔
_ تینوں راضی بہ رضاۓ یار ہیں۔

لطف کی بات یہ ہے کہ تینوں اسی دنیا میں موجود ہیں۔ فرق صرف اتنا ہے کہ حضرتِ دل کو ‘جا بہ جا’ کردیا ہے۔ وہ کیسے؟ آپ خود ملاحظہ فرمائیں:

میرے ساتھ اتنا برا تو نہیں ہونے والا
یہ بھلی دنیا مری ذات تو ہونے کی نہیں (ارشد عبدالحمید)

ایک دنیا ہے غلط بینی پہ آمادہ یگوں سے
اک قلندر ہے مسلسل دیکھتا سچ دیکھتا ہے (سراج اجملی)

میری دنیا اسی دنیا میں کہیں رہتی ہے
ورنہ یہ دنیا کہاں حسنِ طلب تھی میرا (امیر حمزہ ثاقب)

میرے اطراف اہلِ دنیا کا ایک بڑا حلقہ ہے۔ اب تو میں ویسے بھی عالمی دیہاتی ہوں۔ اس لیے اس حلقے کی وسعت کی پیمائش مشکل ہے۔ ذکر کردہ حلقہ، لحظہ بہ لحظہ دریافت کرتا ہے کہ ان تینوں کو ایسا کیا مل گیا ہے کہ کبھی کسی طرح کی شکایت ہی نہیں کرتے بلکہ ہر دم ‘درد و غم کی دولت’ کا ذکر کرتے ہیں اور اسی کے طلب گار نظر آتے ہیں:

چراغِ درد کی شمعِ طرب پکارتی ہے
اک آگ سی لبِ دریاۓ شب پکارتی ہے (ارشد عبدالحمید)

دل اگر ہے تو نہ ہو درد سے خالی کسی طور
آنکھ اگر ہے تو کسی بات پہ بھر بھی آۓ (سراج اجملی)

وہی بیعتِ غمِ ہجر تھی وہی کشفِ حجرہ ء وصل تھا
میں مریدِ حلقہ ئ خواب تھا سو قرینِ مرشدِ لب رہا (امیر حمزہ ثاقب)

ان اہلِ دل پر یہ بات کسی نہ کسی طور منکشف ہو چکی ہے کہ ان کو یہ ‘نسبت’ ودیعت ہوئی ہے۔ اپنے تئیں اس انکساری کا اظہار بھی ہے کہ وہ اس بارِ ثروت کے لائق نہیں۔ اسے وہ عطا کی شکل میں قبول کرتے ہیں:

میری مٹی مرے اسلاف کی زائیدہ ہے
اور مجھے اپنی طرف میرے خلف کھینچتے ہیں (ارشد عبدالحمید)

تہذیبِ مصلٰی سے واقف ہی نہ تھا کچھ بھی
اور بیٹھ گیا دیکھو سجادے پہ آ کر کے (سراج اجملی)

مری رفتار سے دشت و بیاباں کانپ اٹھتے ہیں
اس اک آہو کی نسبت سے مجھے کیسا کمال آیا (امیر حمزہ ثاقب)

ان حضرات کو نسبتیں ضرور ملیں لیکن نہ انہوں نے اپنی ظاہری قیافے سے اس کو ظاہر ہونے دیا اور نہ اس وراثت پر غرور و برتری کے زعم کو اپنی شخصیت کا حصہ بنایا بلکہ ہمیشہ ایک طرح کی بے نیازی اور بے تعلقی کو روا رکھا۔ معلوم ہوتا ہے کہ اس ‘بازیچہ ء اطفال کے طور طریقے کا ان کو بخوبی علم تھا:

یہ عشرتوں کی فراوانی، زر کی ارزانی
بنے ہیں سب مجھے کم یاب دیکھنے کے لیے (ارشد عبدالحمید)

دنیا کہ داشتہ سے زیادہ نہ تھی مجھے
یوں ساری عمر فکر زیاں ہی نہیں ہوئی (سراج اجملی)

تہہ کرچکے بساطِ غم و فکرِ روزگار
تب خانقاہِ عشق و محبت میں آۓ ہیں (امیر حمزہ ثاقب)

یہاں یہ بات واضح کرنا لازم ہے کہ یہ اہلِ دل اپنے فرائضِ دنیاوی کی اداۓ میں بھی کسی طرح عقب افتادہ نہیں ہیں بلکہ ہمیشہ پیش پیش رہتے ہیں۔ یہ صاحبِ علم و فن بھی ہیں۔ اس لیے ان کے سخن میں درون بینی کے ساتھ ساتھ معاملاتِ بیرون سے بھی باخبری نظر آتی ہے۔ بطور شاعر یا اہلِ سخن اپنے اپنے طریق پر گامزن ہیں۔ رہی بات تعینِ مقام کی تو وہ ‘صاحبِ مقام’ خود طے کرے گا۔ ہاں اس قدر جانتا ہوں کہ یہ ‘دروازہء علم’ پر دستکیں دینے والے ہیں۔ اور اس ‘دروازہء علم’ کی بابت’ شہرِ علم’ کے فرمان سے ہم سب باخبر ہیں۔

ارشد عبدالحمید نے اسی دنیا میں رہ کر ریاضت اور جہدِ مسلسل کو اپنا وطیرہ بنایا اور بہ طرزِ احسن اپنے دامن کو داغِ سفلی سے بچایا۔ سراج اجملی نے گوشہء خانقاہ میں اپنے دل کو بٹھایا اور خشوع و خضوع اور پاسِ ادب اور پاسداری کو مستحکم تر کیا۔ امیر حمزہ ثاقب مکتبِ اہلِ دل میں ‘ سپردم بہ تو مایہ ء خویش را’ کے مسلک کے تحت وارد ہوا اور ‘حسابِ کم و بیش’ کو اس کے سپرد کرکے مشغولِ ذکر ہے۔ ان رعنا قدوں کا ذکر خود ختم کرنا ہوگا ورنہ احباب اساطیر میں مذکور ‘اُس داڑھی’ کی بابت سوچنے لگیں گے۔ چند اشعار طبیعت کے سیرابی کے لیے حاضر کررہا ہوں:
ارشد عبدالحمید:
سکہء صبر ہی کاسے سے برآمد ہوجاۓ
ہم فقیروں سے کرامات تو ہونے کی نہیں

تم نہ کوفہ کی طرف پلٹو نہ دیکھو کربلا
مصلحت سے آگے پیچھے مت ہٹو، سب ٹھیک ہے

ناقہ ء عزم کے دست و پا ریگِ گماں میں دھنس گۓ
دشت عبور تو ہوگیا جان خراب بہت ہوئی

سراج اجملی:
بظاہر جو نظر آتے ہو تم مسرور ایسا کیسے کرتے ہو
بتانا تو سہی ویرانئ دل کا نظارہ کیسے کرتے ہو

تمتماتا چہرہ ہاتھوں میں لیے سوچا کرے گا دیر تک کیا کیا
پھر وضو کر کے حضورِ قلب سے سجدے میں جاۓ گا کہ خوش ہے وہ

داستانِ غم مری سننے کو اک سامع ملا جب
قہقہے پہلے لگاۓ اور پھر چپ ہوگیا میں

امیرحمزہ ثاقب:
سید الطائفہ تھا ترا عشق، میرا جنوں فقر تھا
نعمت درد سے میرے سینے کا کشکول بھرتا رہا

بصارتیں مری جشن چراغاں کرتی ہیں
تجھے ہی دیکھوں یہی طرز اہتمام مرا

کیوں رس بھرے میووں سے ہیں.محروم یہ شاخیں
کیا رزق مرا خطہ جاناں سےبندھا تھا

صاحبو! اجازت دو کہ یہیں قصہ کو روکا جاۓ وگرنہ حق تو یہ ہے کہ:
ز فرق تا بقدم ہر کجا می نگرم
کرشمہ دامنِ دل می کشد کہ جا اینجا ست
/

کوئی تبصرہ نہیں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے