’ناموعود‘ کی نظمیہ شاعری


 

’ناموعود‘ کی نظمیہ شاعری
٭امیر حمزہ ثاقب

کل اک درویش کہتا تھا
’حصارِ چشم سے باہر کے منظر دیکھ سکتے ہو‘
میں اس درویش سے بولا:
اے بابا!
’حصارِ چشم کے اندر کے منظر دیکھنے کی آرزو ہے‘
وہ فقیرِ محترم کچھ دیر تک کچھ بھی نہ بولے
پھر کہا: ’بیٹا تمھاری آنکھ میں تنکا گرا ہے
آئو میں اس کو نکالوں‘
شہرام سرمدی کی بیشتر نظموں کا بنیادی سروکار ،جسمانی وجود کی نارسائیوں کے نتیجے میں پیدا ہونے والی اس فکری صورتِ حال سے ہے جب ظاہر کا جبراپنی تمام ترشدت کے ساتھ باطن پر اثر انداز ہوتا ہے اور فرداپنے آپ کو کائنات کی ایک حقیر شے میں تبدیل ہوتے ہوئے دیکھتا ہے یا پھر اپنی خاکستر سے ایک بسیط جہان پیدا کرتا ہے۔ایسی صورت میں دو فکری انتہائیں جنم لیتی ہیںایک تو یہی کہ آدمی بے بساط ہے اور جو کچھ ہے وہ محض جبرِ کُل ہے دوم اس کے علی الرغم انسان ہی اس کائنات کی ترتیب و تزئین کا سبب ہے۔ دوسرے لفظوں میںکہا جاسکتا ہے کہ انسان ہی کارِ جہاں کا بنیاد گزار ہے اوراس کی عدم موجودگی سے کائنات اپنی بوقلمونی اور رنگارنگی سے ہاتھ دھو بیٹھے گی ۔ظاہر ہے حقیقت ان دو انتہاوں کے بین بین ہی کہیں موجود ہے ۔شہرام سرمدی کی نظموں سے جو بصیرت ظاہر ہوتی ہے وہ یہی ہے کہ انسان نہ تو مختارِ کل ہے اور نہ جبرِ کل کا شکار۔
شہرام کی نظموں کا سفر نفی کی حمایت سے شروع ہوکر اثبات پر ختم ہوتا ہے ۔نفی سے اثبات کے سفر کے دورانیے میں وہ شے کے ہونے کا انکار بھی کرتا ہے اور اس کی اصل اور ماہیئت پر غور بھی کرتاہے۔اس کی نظموںکے بطن میں ازل،ابد،وجود،عدم،شے،لاشے،جوہریت،لاجوہریت ،ہونا اورنہ ہونے کی فلسفیانہ رو اردو کی شعری جمالیات کے ساتھ بڑی خوب صورتی سے ہم آہنگ ہوتی ہوئی نظر آتی ہے۔شاعری میں جب کوئی مجرد یا محسوس خیال فلسفے کا گہرا رنگ لے لیتا ہے تو ایک سب سے بڑی قباحت یہ پیش آتی ہے کہ شاعر کی تمام تر توجہ خیال کی فلسفیانہ اور منطقی توجیہہ پر مرتکز ہوجاتی ہے جس کا براہِ راست اثر یہ ہوتا ہے کہ شعری جمالیات کا دامن ہاتھ سے چھوٹ چھوٹ جاتا ہے نتیجے میں ایک بے رنگ اور بے رس قسم کی تخلیق وجود پاتی ہے جو اپنی بقا کی جنگ ابتدا ہی میں ہار جاتی ہے ۔شہرام کے گہرے مطالعے اور اس کی شعری بصیرت نظموں کو ایک تخلیقی وجدان دینے میں کامیاب ہے ۔
پتنگ اُڑانے سے پہلے یہ جان لینا تھا
کہ اس کی اصل ہے کیا اور ماہئیت کیا ہے
بہت نحیف سی دو بانس کی کھپنچیں ہیں
اور ان سے لپٹا مربعے میں ناتواں کاغذ
یہ جس کے دم پہ ہوا میں کلیلیں بھرتی ہیں
ذراسی ضرب سے وہ ڈور ٹوٹ جاتی ہے
پتنگ کٹ گئی تو اس کا اتنا غم کیوں ہے
پتنگ اڑانے سے پہلے یہ جان لینا تھا
کہ اس کی اصل ہے کیا اور ماہئیت کیا ہے
اس نظم میں انسانی صورتِ حال کو پتنگ کے حوالے سے اس کامیابی اور ہنر مندی کے ساتھ برتا گیا ہے کہ وہ قاری کے ذہن کو بیک وقت معنی کی کئی سمتوں کی طرف منتقل کرتی ہے اور انسانی صورتِ حال اپنی صورتیں بدلتی ہوئی دکھائی دیتی ہے ۔کبھی یہ کسی ایسے نظریے کو نشان زد کرتی ہے جس کی اساس کم زور اور بے معنی ہوتو کبھی یہ ’ جبریہ قدر‘کی نمائندہ بنتی ہوئی نظر آتی ہے لیکن اس اعتماد کے ساتھ کہ آگہی بلکہ عرفان (یعنی اشیا کی اصل اور ماہیئت کا مکمل ادراک) جبر کے ذریعے پیدا ہونے والے کرب سے نجات کا اصل زینہ بنتا ہے اور انسان حقیقی مسرت کو جالیتا ہے ۔اس موقعے پر گوتم بدھ کے نروان کا فلسفہ یا د آجائے تو کوئی مضائقہ نہیں اس قسم کے موضوعات پر خطابیہ آہنگ کا حاوی ہوجانا لازمی ہے لیکن چوں کہ شہرام نے اپنے فکرو فن کے مابین ایک کلی وحدت قایم کر رکھی ہے اس لیے نظم میں کہیں بھی ’خطیبانہ شور‘ کا سراغ نہیں ملتا۔
’سفر‘کا ایک بنیاد ی لازمہ منزل ہے یا منزل کے لیے سفر لازم ہے ۔منزل کو پالینے کی تمنا نہ صرف روزِ ازل ہی سے انسان کا مقدر رہی ہے بلکہ اس کے عمل کی نوعیت اور اس کی جہت کو متعین کرنے میں ایک کلیدی رول بھی ادا کرتی رہی ہے۔قصۂ آدم کا آغاز بھی سفر ہی سے ہوتا ہے اوروجود،عدم ، ازل اور ابد کی ساری بحثیں انسانی سفر کے دوران ہی اپنی شناخت قایم کرتی ہیں۔منزل ِ مقصود جیسی کوئی بھی شے ان پر قدغن لگا دیتی ہے بلکہ حق تو یہ ہے کہ منزل ،انسانی وجود پر ایک بڑاسوالیہ نشان لگا کر اس کے معروض و موضوع کو ہی دھندلا کردیتی ہے۔شہرام نے نظم ’کتاب گمراہ کرہی ہے ‘ میں اس خیال کوخوبی کے ساتھ برتا ہے ۔جدید اور جدیدتر نظم میں ایک قدر یہ مشترک ہے کہ دونوں ہی میں مشاہدات و خیالات کو انفرادیت کا رنگ دیا جاتا ہے ۔یہاں اجتماعی شعور اور تجربہ بھی ذات کا مطیع اور تابع ہوتا ہے ۔
کتاب گمراہ کر رہی ہے
پہ اک یقیں ہے کہ
اتنی گمراہیوں کے پیچھے
کوئی تو اک راہ ہوگی
جو منزلوں سے نہیں ملے گی
سفر میں منزل؟
یہ شرکِ کہنہ
سفر کی وحدانیت کو مجروح کررہا ہے
کہاں کی منزل ؟
کہاں ہے منزل؟
یہ شرک کے ہیں سراب سارے
ہم آپ ہیں محوِ خواب سارے
یہ شرک افیون بن کے خوں میں گھلا ہوا ہے
ہجومِ منزل میں اب سفر کی شناخت
خود ایک مسئلہ ہے
سفر خلا ہے
سفر میں جو کچھ بھی ہو نتیجہ وہی خلا ہے
یہی خلا’ ہے‘
خلا کو منزل کے نقشِ پا سے کثیف کرنے کا
احمقانہ خیال چھوڑو
نظم کے ابتدائی پانچ مصرعوں میں بیانیے کی نوعیت بالکل ذاتی ہے ایسا لگتا ہے خارج کے موجودات ومظاہر اور ان کے جملہ خصائص راوی یا متکلم پر منعکس نہیں ہورہے بلکہ اس کے اندرون سے ایک روشنی پھوٹ رہی ہے اور خارجی مظاہر کو نمایاں کررہی ہے ۔ منزل کو شرکِ کہنہ ،خواب اور افیون کہہ کر منزل کو پالینے کا احمقانہ خیال چھوڑدینے کے مشورے تک لہجے اور خیال کی قطعیت شاعر کے اعتماد کو بھی ظاہر کرتی ہے اور نوعِ سفر کے خاکے میں حکمت ودانش کانور پرور رنگ بھی بھرتی ہے ۔
سفر پہ نکلو
پہ منزلوں کے مہیب سایوں کی زد سے
خود کو بچائے رکھو
سفر پہ پائوں جمائے رکھو
یہ سب وجود وعدم کے قصے
سفر میں تخلیق ہورہے ہیں
مسلسل ،تھکا دینے والے اور طویل سفر میں سایے کی تمنا ناگزیر ہے منزلوں کو مہیب سایہ کہہ کر شہرام نے سفر کے تسلسل کو استحکام بخشا ہے پھر سفر پہ پائوں جمائے رکھو میں ’محاوراتی تکنیک‘سے کام لیتے ہوئے سفر اور پائوں جمانا کے تضاد کو باہم متحد کردیا ہے اس سے شہرام کے لسانی رویے اور فن پر گرفت کا بھی اندازہ ہوتا ہے ۔
اردو شاعری پر اپنے آغاز ہی سے تصوف کا کافی گہرا اثر رہا ہے۔’شعر گفتن ‘ کے لیے تصوف کے بعض فکری عناصر نے شاعری میں ایک نوع کی گہرائی اور ہمہ گیری پیدا کی ۔ یہ بات بلاتردد کہی جاسکتی ہے کہ غزل کی زلف سنوارنے میں کنگھی ،چوٹی کے علاوہ تصوف کی چمک اور ملائمت نے بھی معاونت کی ہے لیکن نظموں میں اس سے خاطر خواہ فائدہ نہیں اُٹھایا گیا جب کہ نظم کی ہیئت اس کے لیے نہایت موزوں اور مناسب تھی۔یہ خوشی کا مقام ہے کہ شہرام نے اپنی نظموں میں تصوف سے بڑا تخلیقی فیض اُٹھایا ہے ہاں یہ ضرور ہے کہ اس نے روایتی تصوف سے گریز کیا ہے ۔ ذات وکائنات کے حقایق کی تلاش و جستجو اسے سرشار بھی کرتی ہے اور حاصل شدہ عرفان اس کے رگ و پے میں ’ شعورسے جنوں کرنے کی سلیقہ مندی ‘کا جوہربھی بھرتا چلا جاتا ہے ۔’ناموعود‘ کی شاعری پر ہندوستانی عرفان اور اسلامی تصوف کے اثرات عقیدتِ محض کی صورت میںموجود نہیں بلکہ ذات اور کائنات کے حقائق کی تاحدِ استدلال تفہیم کا ذریعہ ہیں۔نظم ’میں واپس آئوں گا‘ کا واحد متکلم غارِ حرائے شاعری میں حصارِ ذات کر کے معرفت کے مراحل طے کرتا ہے اور اپنے ہمراہ ایک ایسی ’کتابِ ذات ‘ لانے کا وعدہ کرتا ہے جس کی ہر آیت انسانی مسائل کے بیان کے بجائے رمزِ تلاشِ ’آں خدا ‘ کو منکشف کرتی ہے کیوں کہ مسائل جاوداں ہوتے ہیں اور ان کو حل کرنے میں ایک دشواری یہ ہوتی ہے کہ اطراف میں شہرت کی داشتہ شہرِ نو لگا بیٹھتی ہے۔یہ نظم شہرام کے فکری اور فنی رویے کا اشاریہ ہے لیکن نظم کی بُنت اور بافت میں جن علائم و استعاروں کو بروئے کار لایا گیا ہے وہ مذہب سے متعلق ہیںیہی وجہ ہے کہ اس نظم کے اردگرد تقدس کا ہالہ بنتا ہوا دکھائی دیتا ہے اور فنی ترفع فن کی تقدیس کے بغیر ممکن نہیں۔’نفی کی حمایت میں ‘’وہ بات‘’آیتِ عشق‘’وقت کو بھی سنوار آیا‘’ناگفتہ‘’ایسا ہو کہ ناموعود ہو‘’ھوالعشق‘’جس قدر ممکن ہو‘’منکرِ حق‘’کہے کبیرا‘’کچھ بولو بھی ٹھاکر‘وغیرہ اسی قبیل کی نظمیں ہیں۔ ان نظموں میں شہرام نے ہند اسلامی تصوف کے فکری حسن کو اردو کی جدید ترشعری جمالیات اور اپنے شخصی رویے سے یوں ہم آہنگ کردیا ہے کہ تینوں کے واضح امتیازات اپنی شناخت مٹاکر ایک وحدت قایم کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔
ایک اور اہم چیز جو شہرام کی نظموں میں نمایاں ہے وہ معاصر زندگی کی کشاکش کا شخصی اظہار ہے ۔’خلا سا کہیں ہے‘’بختِ برگشتہ‘’ابھی میں یہ سوچ ہی رہا تھا‘وغیرہ نظموں میں مدنی تہذیب کے پیدا کردہ مسائل سے نبردآزما فرد کی داخلی اور خارجی کیفیت کا بیان ضرور ہے لیکن مایوسی اور قنوطیت کا شائبہ نہیں ہے ،خدا سے شکایتیں بھی ایقان کی نہج پر ہیں اور خدا سے یہی ’غیر منفک دل بستگی‘ ضبطِ نفس کو استقلال و استحکام بخشتی ہے ۔اس مقام کی تحصیل کچھ آسان نہیں مگر شہرام کی مکمل سپردگی نے اس پر یہ راہ بالکل آسان کردی ہے چنانچہ اس کے نزدیک خیابانِ دانش گہہِ ممبئی سے راج پتھ کے طویل اور صبر آزما سفر میں زندگی سے شکایت سراسر غلط اور ناروا ٹھہرتی ہے ۔
وہ خوش بخت و خوش کام ہوں
زندگی سے شکایت
سراسر غلط ،ناروا ہے
وہ برحق ہے ،حق جانتا ہے
(خلا سا کہیں ہے )
یقین کی یہی وہ قوت ہے جس کی بنا پر شہرام نفیِ ذات سے اثبات کا ادراک کرتا ہے ۔اس کے یہاں نفیِ ذات کے عمل میں علّت ومعلول کے سلسلے شکست وریخت سے اس قدر دوچار ہوتے ہیں کہ ذات کے وجود کا اظہار بھی بے معنی ہو کر رہ جاتا ہے اور یہ بے معنویت ایک معنی کی زائیدہ ہو کر ہستیِ مطلق کا اثبات کرتی ہے کہ ہستیِ موجود واحد ہے ۔ہستیِ موجود مرگ وزندگی سے ماورا ہے اور اصلِ خدا ہے ۔
مگر وہ ہستیِ موجود
مرگ وزندگی سے ماورا ہے
ہستیِ موجود ہی اصل خدا ہے
اور خدا
ہر شے کی شہ رگ سے قریں
ہر شے کی شہ رگ میں کہیں
اور کوئی بھی شے ’ہے ‘ نہیں
شہرام نے مذہب کی روحانی روایت سے ایک مضبوط تخلیقی رشتہ قایم کیا ہے اس کے یہاں عشق ایک نامیاتی قوت کے طور پر ضرور سرگرم ہے ۔ہجر ووصال کے لمحات بھی میسر آتے ہیں لیکن ان کیفیات سے اس کا سلوک بالکل صوفیوں جیسا ہے ۔ وہ عشق کی موت پر ماتم نہیں کرتا ،بین نہیں کرتا۔موسمِ ہجر اس کے معمولات کو درہم برہم نہیں کرتا ۔عشق میں ناکامی پر وہ خدا سے ناراض بھی نہیں ہوتا تاہم ایسا بھی نہیں ہے کہ وہ جذبات کے اظہار کو مقدم نہیں جانتا ہاں یہ ہے کہ وہ جذبات کی رو میں بہنے کے بجائے ایک ضبط اور ٹھہرائو سے کام لیتا ہے ۔
تمھارے بعد بھی
میری خدا سے گفتگو ہوتی ہے لیکن
موسموں پر
(تمھارے بعد بھی)
بجا
نمازِ جنازہ ہم نے ادا تو کی تھی
پہ تجھ کو سجدہ نہیں کیا تھا
(پہلے عشق کی موت پر)
تمھاری آنکھ بھی ہرروز کاجل سے سنورتی ہے
مجھے بھی شیو کرنے میں کبھی ناغہ نہیں ہوتا
(موسمِ ہجر میں )
عشق کی ’بدنی جمالیات ‘سے وہ آگاہ ہے مگر برہنہ گفتاری اسے خوش نہیں آتی وہ تو بڑی معصومیت سے اپنے محبوب کے دودھیا گالوں میں پڑنے والے گڑھے کو چاند کہتا ہے اور اس سے آنکھوں میں کاجل لگاکر آنے کی درخواست کرتا ہے محبوب کی مایوسی کو دور کرنے کے جتن کرتا ہے اور بڑی متانت سے ’میرے ہونٹوںسے کیسے ہنستی ہو تم ہنس کے بتلائو‘ کہہ کر اس کو کھکھلانے پر اکساتا ہے ۔
شہرام کا ایک فنی امتیاز یہ بھی ہے کہ وہ خارجی دنیا کے وقوعوں اور مشاہدات کو مابعدالطبعیاتی تجربے میں بڑی آسانی کے ساتھ منقلب کر دیتا ہے بہ ظاہر یہ تقلیب بے حد سادہ اور عام سی نظر آتی ہے لیکن نظم کی ’مرتکز قرأت ‘ سے تہہ داری اور پیچیدگی کا اندازہ ہوتا ہے ایسی نظموں میں وہ روزمرہ زندگی کا کوئی عام سا واقعہ منتخب کرتا ہے اور اسے نظم میں ایک کہانی کی شکل میں بیان کرتا ہے ظاہر ہے نظم میں کسی واقعے کے بیان اور افسانوی بیان میں نمایاں فرق ہے شہرام کا بیانیہ بھی اس لحاظ سے مختلف ہے اور یہ فطری بھی ہے مگر ہوتا یہ ہے کہ وہ اپنے بیانیے میں ہلکی ہلکی سی چنگاریاں بھرتا چلا جاتا ہے جن کی لپک عجیب ،حیرت افزا اور متنوع کیفیات پیدا کرتی ہیں۔اس کی نظموں کے عنوانات معنی کی شاہ کلید ہیں نظم کے آخری مصرعے کے بعد قرأت کا سفر’ معکوسی جست ‘ کی شکل اختیار کرتا ہے یعنی نظم ختم کرچکنے کے بعدہم عنوان کی طرف مراجعت کرتے ہیں اور معنی کا سراغ پاتے ہیں ۔
آج اس کی ڈیوٹی کا یہ پہلا دن تھا
اور اس کے باس کے بنگلے پر
کوئی
پارٹی دیر رات تک گرم رہی
لیکن
اب بھی اس کے جوٗڑے کی وہ کلیاں
جوں کی توں ہیں
مہک رہی ہیں
جن کو صبح
امانت نے اپنے ہاتھوں سے ٹانکا تھا
(عشق چیزے دیگر است)
مجھے یقین ہے شہرام کے شعری مجموعے ’ناموعود ‘ کا سنجیدہ ادبی حلقوں میں استقبال کیا جائے گااور مکالمہ قایم ہوگا۔

٭٭٭

کوئی تبصرہ نہیں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے