ندی کا کنارہ تھا اور ایک پیاسا تھا، پیاسے اور ندی کے درمیان ایک اونچی دیوار حائل تھی مرضِ استسقا سے پیاسے کا برا حال تھا اس نے ایک اینٹ اکھیڑی اور اسے پانی میں پھینکا، پانی کی آواز اس کے کانوں میں پہنچی، آواز کیا تھی؟ جیسے معشوق کی خوش گلوئی، جیسے قلقلِ مے جیسے رباب سے اٹھنے والا نغمہ اور جیسے فقیر کے لیے زکوٰة دینے والے کی آواز ، وہ اینٹ اکھیڑتا گیا اور پانی میں پھینکتا گیا، دیوار رفتہ رفتہ پست ہوتی چلی گئی اور ندی کا پانی قریب اور قریب تر ہوتا گیا. مولانا رومی فرماتے ہیں:
پستیِ دیوار قربے می شود
فصلِ او درمان وصلے می شود
(دیوار کی پستی قرب بن جاتی ہے اس میں فصل کا مٹ جانا وصل کا سبب ہو جاتا ہے )
احمد مشتاق کا شعر ہے
موت خاموشی ہے چپ رہنے سے چپ لگ جائے گی
زندگی آواز ہے باتیں کرو باتیں کرو
آواز اور باتوں کے درمیان مضبوط و مستحکم رشتہ قایم کرنا اور ان میں زندگی کے ایسے معنی بھرنا جو ذات و کائنات میں گہرا ربط پیدا کریں، یہ امکان اس وقت روشن ہوتا ہے جب لفظ اور معنی کے درمیان حائل اونچی دیوار کی اینٹوں کو اکھیڑا جائے اور اپنی ذات کے اخروٹ کو دریائے فنا میں متواتر پھینکا جائے.
خورشید اکرم گزشتہ پینتیس برسوں سے افسانے کی چشمِ نرگس کے تاج دار غلام ہیں ان کا پہلا افسانوی مجموعہ "ایک غیر مشروط معافی نامہ ” 1997 میں شایع ہوا جسے قدر کی نگاہ سے دیکھا گیا. خورشید اکرم فکشن کے ایسے ابن السبیل (مسافر) ہیں جو کہانی کے مقاماتِ ظاہر وباطن کا گہرا ادراک رکھتے ہیں. ظاہر کے ضبط اور باطن کے حالات و واردات پر دستِ قابو رکھتے ہیں یہی وجہ ہے کہ وہ فکشن کے سلسبیل سے گھونٹ در گھونٹ سیراب بھی ہوتے ہیں اور مخمور بھی سو قاری بھی ان کی سیرابی اور مخموری سے فیض یاب ہوتا رہتا ہے. جس طرح ایک جرعہ تالاب یا جوہڑ کا حال بتا دیتا ہے اسی طرح کسی کتاب کا نام اس کے معنوی وجود پر دلالت کرتا ہے. "رات کی بات ” نام میں مخفی پر اسراریت اور قصہ گوئی کی طویل روایت خورشید اکرم کے ذہنی و فکری پس منظر کا استعارہ ہے. اطراف میں موجود دنیائے بسیط پر گزرنے والا ہر لمحہ، ہر واقعہ اپنے بطون میں کئی کہانیوں کو سمیٹے ہوئے ہوتا ہے، خورشید اکرم کی تیز آنکھیں انھیں دائرۂ بینائی میں لے آتی ہیں، ان کے خوب و زشت کے ساتھ معاملہ کرتی ہیں ان کے ساتھ جیتی ہیں ان کے ساتھ مرتی ہیں. خورشید اکرم اس بات کا ادراک رکھتے ہیں کہ کہانی کے تشکیلی عناصر کیا ہیں، کہانی کیسے واقعات کے ذریعے اپنا اثبات کرتی ہے اور کس طور واقعہ طرزِ بیان کے ملبوس میں بہ ذاتِ خود ایک کردار میں ڈھل جاتا ہے.
"ہر کہانی اپنے انجام کو پہنچتی ہے ایک نئے آغاز کے لیے جس کے سرے اس سے بہت دور کسی اور کسی انجانے شخص کے شعور میں لہراتے ہیں. ” ( صورت گرہن )
خورشید اکرم جس دنیائے دوں کے باشندے ہیں وہاں شخصِ فرزانہ کے لیے لازم ہے کہ وہ گردشِ ایام کے دائرے میں پرکار کی طرح زمانے کے اردگرد چلے پھر یہ بھی تو ہے کہ ایک کہانی صانع ازل تحریر کرتا ہے بعد ازیں افسانہ نگار اسے الگ ترتیب و تنظیم عطا کرتا ہے اپنی قوتِ مشاہدہ سے ان میں رنگ آمیزی کرتا ہے یہ رنگ کبھی ہلکے ہوتے ہیں کبھی شوخ اور کبھی بالکل سیاہ، رنگوں کی یہ کہکشائیں تضادات و اختلافات اور ان کے باہمی ارتباط سے پیدا ہوتی ہیں اہم اور غیر اہم کی بحث سے قطع نظر ان ربط و اختلاف میں موجود معنی کی گرہ کشائی ہر لکھنے والا اپنے طور کرتا ہے. لکھنے والے کا سخن اس کی ذہنی نقدی ہے جسے وہ اپنے جذباتی و فکری لہو کی قیمت پر خرچ کرتا رہتا ہے. خورشید اکرم بھی اپنا رزقِ سخن معاشرے کی ناہمواری سے حاصل کرتے ہیں.
” تمھارا لباس رنگین ہے، میرا کفن سفید. تمھارا ایک گھر ہے، میں ایک قبر میں ہوں. ” ( آپ مجھے تم کہیے)
کرداروں اور اشیا کے باطن میں جھانکتی خورشید اکرم کی آنکھیں ان میں موجود رنگوں اور آوازوں کی تشکیلِ نو کرتی ہیں انھیں اپنی ترتیب دیتی ہیں ان میں اپنے معنی بھرتی ہیں. ان کے افسانوں کی قرأت ذہن کے گوشوں کو ہی منور نہیں کرتیں بلکہ سماعتوں کا بابِ صدر بھی کھولتی ہیں ان کے افسانوں میں آوازوں کا ریلا ہے طرح طرح کی آوازیں ہیں یہ آوازیں سکوت کو برہم کرتی ہیں اور جمود کی برف پگھلاتی ہوئی تیز تیز قدموں سے آگے بڑھتی ہیں اورکہانی کے اختتام کے بعد بھی بڑھتی ہی چلی جاتی ہیں. بیان کنندہ کے تکلم سے لے کر کرداروں کی داخلی خودکلامی تک ایک حرکی صورت و ہیئت بنتی بگڑتی دکھائی دیتی ہے. چھوٹے چھوٹے جملے اور جملوں میں افعال کا استعمال بیانیے میں شدت و قوت بھرتا چلا جاتا ہے.
خورشید اکرم اپنے افسانوں میں بیانیے کی متعدد صورتوں کو روبہ عمل لے آتے ہیں، ان کے یہاں واقعات منطقی سطح پر چلتے ہوئے پیچ درپیچ کاٹتے رہتے ہیں سو بیانیے کی صورت بھی ہر آن تبدیل ہوتی رہتی ہے. کرداروں کی داخلی کش مکش اور پیش آمدہ واقعے کے اثرات و نفوذ کی صورت گری میں ان کا بیانیہ پیچیدہ اور گہرا ہوتا چلا جاتا ہے یہ پیچیدگی اور گہرائی کبھی کرداروں کی ذہنی و فکری ساخت کی زائیدہ ہوتی ہے اور کبھی راوی کے بیان سے نمو پاتی ہے یہی وجہ ہے کہ خورشید اکرم کے افسانوں کی فضا ڈرامائیت سے مملو دکھائی دیتی ہے ان کے یہاں خاموشی بھی تیز لہجے میں کلام کرتی ہے. بیانِ واقعہ میں ان کے یہاں زبان کا تفاعل کرداروں کے داخلی ہیجانات، ان کی خود کلامی اور مکالموں کے متوازی راوی کا سخن باہم آمیز ہوکر الگ نوع کا اظہاری ساخت تشکیل دیتا ہے.
” کمرے میں اندھیرا اتر رہا تھا وہ اٹھی بتی جلانے کے لیے سوئچ دبا دیا. بتی نہیں جلی پنکھا بند ہوگیا. انگلی غلط جگہ رکھ دی تھی، بٹن پھر دبادیا، بتی بھی جلائی، گردن موڑ کر ہنکھے کو دیکھا، کچھ پل خالی خالی نظروں سے دیکھتی رہی. پنکھا گھوم رہا تھا، گھومے جارہا تھا. ( بھول بھلیاں )
پنکھے کی طرح گردش کرتے ہوئے شب وروز کے درمیان، خورشید اکرم کی انگلیاں معاشرے میں موجود ان آوازوں اور رنگوں کی بٹن کو دباتی ہیں اور ان کے گوش و نگاہ زندگی کے ان گوشوں پر جا ٹکتے ہیں جو ہمارے روز مرہ کا حصہ ہیں ایسا حصہ جسے ہم دیکھتےہیں محسوس بھی کرتے ہیں لیکن ایک فاصلے سے، خورشید اکرم فاصلے کی دیوار کی اینٹوں کو ایک ایک کرکے اکھیڑتے چلے جاتے ہیں. تخلیق کی پیاس انھیں دریا تک جلد پہنچنے کی تمنا میں مبتلا کرتی ہے. تمنا انھیں عاشق بناتی ہے ایسا عاشق جس کے کان معشوق کی آواز کی نے پر اور اس کی آنکھ معشوق کے لبِ لعلیں ہر مرکوز ہوتی ہے.
گوشم ہمہ بر قولِ نے و نغمۂ چنگ است
چشمم ہمہ بر لعلِ لب و گردشِ جام است
وصل تو ایک اضافی شے ہے وصل انجام ہے اصل لطف تو تمنائے حصولِ وصل ہے.
"رات کی بات ” تمنا کا ایک قدم ہے. مبارک قدم
کوئی تبصرہ نہیں