ادب اور ہائپر رئلٹی (Hyper Reality)


ادب اور ہائپر رئلٹی (Hyper Reality)

شاعری کے حوالے سے یہ مفروضہ عام ہے کہ شاعری انسانی جذبات خواہ اجتماعی ہوں یا ذاتی، ان کے مبسوط اور با معنی اظہار کی ایک موثر شکل ہے۔  اکثر ادب کے سنجیدہ قارئین اور ناقدین کو یہ کہتے سنا ہے کہ فلاں شخص کی شاعری نے مجھے بہت متاثر کیا۔ چونکہ یہ جملہ یا اس سے ملتے جلتے جملے اور ان کی بازگشت کا اکثر میری سماعت سے واسطہ پڑتا ہے اس لیے یہ بات کہہ سکتا ہوں کہ شاعری کے بنیادی اوصاف میں اس کی اثر آفرینی شامل ہے۔ نظم کی شاعری چونکہ کسی خاص موضوع سے متعلق ہوتی ہے لہذٰ  اس میں شاعر اکثر اثر آفرینی کے ایک تمثیلی فضا قائم کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ تمثیلی فضا قایم کرنا گویا اپنے خیالات کو اس کے قالب میں ڈھالنے کے مترادف ہے۔   یہ تمثیلی فضا یا ڈرامائیت عموماً قاری کو اپنے مشاہدے میں شامل تو کرتی ہے لیکن اس کے دل و دماغ  کو اپنے حقیقت ہونے کا یقین نہیں دلا پاتی۔ ایسا بہت کم ہوتا ہے کہ کسی واقعہ یا سانحہ سے متعلق کسی  نظم  کو اصل واقعہ سے بڑی حقیقت مان لیا جائے۔  اگر کوئی فن پارہ یا شہہ پارہ ایسا کرنے میں کامیاب ہوتا ہے تو ہم کہہ سکتے ہیں کہ وہ تمثیلی حدوں کو پار کر تے ہوئے سیمولیکرم کے حدود میں داخل ہو گیا ہے۔  اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر سیمولیکرم کیا ہے؟

سیمولیکرم لاطینی زبان کا ایک لفظ ہے جس کا مطلب  مشابہت یا مماثلت ہے۔  انگریزی زبان میں اس لفظ کو کسی تصویر یا مجسمے کے ذریعہ خدا کی نمائندگی کے معانی میں سولہویں صدی عیسوی میں استعمال کیا گیا۔   اس وقت سے یہ لفظ اپنے ان ہی معانوں  میں استعمال ہوتا رہا تاوقتیکہ بودریلار نے اسے  ۱۹۸۱میں اسے استعمال نہیں کیا۔ بودریلار نے بھی اسے ایک نقل کے طور پر ہی استعمال کیا لیکن ایک ایسی نقل جو خیالی ہو  اور خود حقیقت خلق کرتی ہو۔  بودریلار کے مطابق سیمولیکرم کسی اصل شے کی نمائندگی نہیں کرتا بلکہ یہ بذات خود اصل ہے ۔  یہاں اس بات کی وضاحت بھی ضروری ہے کہ علامتوں یا سمبلز کی اہمیت کو جس طرح سوسیور نے اپنے لسانی نظریے کے تحت بیان کیا ہے بودریلا کے سیمولیکرم کی تہہ میں بھی وہی علامتیں ہیں لیکن یہاں تناظر لسانی نہیں سماجی ہے اور علامتیں کسی چیز کے سگنیفائر کے طور پر سامنے نہیں آتیں بلکہ بذات خود سگنیفائڈ کی حیثیت بھی رکھتی ہیں۔

ژاں بودریلا ر نے جو تصور سیمولیکرم کا دیا ہے اس کے مطابق  سیمولیکرم کی تکمیل کے لیے سیمولیشن ناگزیر ہے۔ اور سیمولیشن کی شرط یہ ہے کہ اس سے گزرنے والا شخص سیمولیکرم کو نقل نہیں بلکہ ٹھوس حقیقت تسلیم کرے اور سیمولیشن اس کے لیے ڈرامہ میں نبھائے جانے والے کردار جیسا نہ ہو بلکہ وہ اسے زندگی کا ایک حقیقی واقعہ سمجھے۔  اس حوالے سے یہ بات بھی  اہم ہے کہ سیمولیشن یا سیمولیکرم کے تصور  کو حقیقی ماننے کا عمل لاشعوری ہو۔  اس حوالے سے بودریلار کے سیمولیشن کو تین سطحوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ پہلی سطح پر  کسی حقیقی شے کی مصنوعی نمائندگی ہمارے سامنے ہو جیسے نقشہ، تصاویر  وغیرہ۔ دوسری سطح پر  حقیقت اور اس کے نمائندے کے درمیان کا فرق مٹنے لگے  اور  نمائندگی کرنے والی شے حقیقت کی شکل اختیار کر لے۔ تیسر سطح پر  ہائپر رئلٹی سامنے آتی ہے اور  نمائندگی کرنے والی شے خود حقائق  خلق کرتی ہے ، یہی ہائپر رئلٹی ہے اور اس عمل کا نقطۂ عروج بھی۔  سیمولیکرم کی یہ تینوں سطحیں مجموعی طور پر  کسی مصنوعی سیارے  کی مانند ہیں جو پہلی سطح سیارہ لانچ اسٹیشن پر اپنے مکمل تناظر میں ہمارے سامنے ہوتا ہے۔ دوسری سطح پر  ہم اسے لانچنگ وھیکل یا اسے خلا میں لے جانے والے راکٹ کے ساتھ دیکھتے ہیں جہاں ہمارے لیے سیارے اور راکٹ کو الگ الگ دیکھنا ممکن نہیں ہوتا۔ تیسری سطح پر جب راکٹ اس سے الگ ہو جاتا ہے تو ہمارے لیے سیارہ ہی حقیقت ہوتا ہے اور وہی حقائق تخلیق کرتا ہے۔ جس طرح کوئی سٹیلائٹ خلا میں پیدا نہیں ہوتا اسی طرح سیمولیکرم بھی کسی تناظر کے بغیر وجود میں نہیں آتا کیونکہ اگر اسے انسانی ذہن کی خیالی تخلیق کا بھی درجہ دیا جائے تو اس کے لوازمات معاشرے سے ہی حاصل کیے جائیں گے۔ عین ممکن ہے کہ معاشرے میں اس طرح کی کسی شے کا وجود نہ ہو لیکن اس کی تخلیق کے لیے خیال سے مادے تک ، ہر شے کا تعلق معاشرے ہی سے ہے۔ جس طرح سیٹلائٹ کے لانچ کے بعد  سیٹلائٹ اور راکٹ کے درمیان حد فاصل قائم کرنا تقریباً ناممکن ہے اسی طرح سیمولیشن میں  رئل اور ہائپر رئل  کے درمیان فرق ناممکنات میں سے ہے۔  یہ سطح حد فاصل کی معدومیت کی سطح ہے جہاں اصل اور نقل کا احساس تو موجود ہوتا ہے لیکن ذہن اس کی نشاندہی کرنے سے قاصر ہوتا ہے۔ تیسری سطح پر حقیقت صرف سیٹلائٹ ہوتا ہے اور اس کے وہ حصے جو اس سے الگ ہو گئے ہم اسے کے متعلق کچھ نہیں جان پاتے۔ مثال کے طور پر مریخ پر جانے والے ہندوستانی سٹلائٹ پر تو ہم سب کی نظر تھی کیا کسی کو یہ معلوم ہے کہ اس  کے لانچنگ وھیکل کا کیا حشم ہوا؟ یا یہ کہ جس لانچنگ اسٹیشن سے اس نے خلا کے لیے پرواز کی اس کا کیا حشر ہوا؟  اسی طرح سیمولیکرم اپنی آخری سطح پر  صرف ہائپر رئل کی شکل میں ہوتا ہے اور وہاں نہ تو کوئی اصل ہوتا ہے اور نہ ہی نقل کا احساس۔

سیمولیکرم پر بات کرتے ہوئے خود بودریلار نے ڈزنی لینڈ کی مثال دی ہے۔

ژاں بودریلار کے مطابق:

Disneyland is a perfect model of all the entangled orders of simulacra. It is first of all a play of illusions and phantasms: the Pirates, the Frontier, the Future World, etc. This imaginary world is supposed to ensure the success of the operation. But what attracts the crowds the most is without a doubt the social microcosm, the religious, iniaturized pleasure of real America, of its constraints and joys.[i]

 لیکن اس کے نزدیک ڈزنی لینڈ سیمولیکرم کی آخری سطح یعنی ہائپر رئلٹی نہیں ہے بلکہ اس کی آخری سطح تو لاس اینجلس ہے۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ ڈزنی لینڈ کے مصنوعی ہونے کا احساس ہر کسی کو ہے لیکن لاس اینجلس کے مصنوعی ہونے کا احساس کسی کے لاشعور میں بھی نہیں ہے۔

غور سے دیکھا جائے تو بودریلار کے سیمو لیکرم اور افلاطون کے مائمیسس میں بھی کافی حد تک مشابہت نظر آتی ہے۔ بلکہ افلاطون کے مائمیسس  (تصاویر کے حوالے سے) [ii]، اور ڈائجیسس (بیانیہ کے حوالے سے)  کے تصور میں میں ایک اور بھی لئیر یا پرت ہے جسے وہ نقل در نقل کا  نام دیتا ہے۔  اگر اس دنیا کو اور اس  میں پائی جانے والی ہر شے کو سیمولیکرم کے زمرے میں رکھا جائے تو اس دنیا میں رہنے والے کتنے لوگوں کو اس بات کا احساس ہے کہ یہ دنیا ایک نقل ہے اور اس کی اصلی شکل کہیں اور ہے۔ اس طرح تو افلاطون کے نظریے میں زیادہ وزن ہے اور   بودریلار سے تقریباًدو ہزار سال قبل کا تصور ہے۔  پھر آخر ہم بودریلار ہی کے نظریے پر کیوں ایمان لائیں ۔ آخر بودریلار کے تصور کو افلاطونی تصور سے کیونکر ممیز کیا جا سکتا ہے؟ مائمیسس کے حوالے سے  میتھیو پوٹولسکی رقمطراز ہیں:

Mimesis describes things, such as artworks, as well as actions, such as imitating another person. Mimesis can be said to imitate a dizzying array of originals: nature, truth, beauty, mannerisms, actions, situations, examples, ideas.[iii]

افلاطون کے نظریے پر ایک بار پھر غور کریں تو بنیادی فرق تو یہ ہے کہ افلاطون کا نظریہ ما بعدالطبیعاتی اصل کی جانب اشارہ کرتا ہے جبکہ بودریلار کا نظریہ مادی اصل سے علاقہ رکھتا ہے۔ دوسرا نقطہ جو سب سے اہم ہے وہ یہ ہے کہ افلاطون کے نظریے میں ہر چند کہ نقل کا لفظ استعمال کیا گیا ہے لیکن اس سے مراد Re-presentation   یا نمائندگی ہے۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہنا زیادہ بہتر ہوگا کہ جس طرح تصوف میں ہر شے کو خدا کی ذات کا مظہر تصور کیا جاتا ہے افلاطون کا نظریہ بھی اسی جانب اشارہ کرتا ہے کیونکہ خدا نہ تو درو دیوار  ہے نہ شجر وحجر اور نہ ہی  ازہار و اثمار تو پھر یہ دنیا اس کی نقل تو ہرگز نہیں ہو سکتی ہاں اسے  اس کی ذات کا مظہر یا اس کے مختلف صفات کی نمائندہ تصور ضرور کیا جا سکتا ہے۔ دوسری جانب بودریلار کا سیمولیکرم ایک ایسے عہد سے متعلق ہے جس میں میڈیا کا کردار بے حد اہم ہے اور اگر بودریلار کی بات مانیں تو  میڈیا معاشرے میں ہائپر رئلٹی کا خالق ہے۔

یہ حقیقت ہے کہ بودریلار نے سیمولیکرم کا جو فلسفہ دیا ہے وہ منفی معنوں میں خود بودریلار اور اس کے بعد کے فلسفیوں مثلاً فریڈرک جیمسن وغیرہ کے یہاں استعمال ہوا ہے۔  ایسے میں یہ سوال  ذہن کے دروازے پر دستک دیتا ہے کہ اسی اصطلاح کو ہم ادبی تناظر میں مثبت کیسے مان لیں۔ میرا استدلال اس حوالے سے یہ ہے کہ سماجی پس منظر میں وضع کی گئی کسی اصطلاح کو ضروری نہیں کہ ادب میں بھی اسی طرح استعمال کیا جائے اور اسی طرح ادبی اصطلاحات کا اطلاق بھی من و عن معاشرے پر کیا جائے یہ بھی ضروری نہیں ہے۔ مثال کے طور پر امرألقیس کی شاعری کی تعریف کرتے ہوئے قدامہ بن جعفر اگر ’’ احسن الشعر اکذبہٗ ‘‘ کی اصطلاح کا استعمال کرتا ہے تو کیا ہم کسی انسان کی تعریف کرتے ہوئے ’’احسن الناس اکذبہم‘‘ کی اصطلاح کا استعمال کر سکتے ہیں۔  شاید نہیں۔ کیونکہ غلو شاعری کا حسن ہو سکتا ہے انسان کا نہیں۔ بالکل اسی طرح اگر سیمولیکرم بودریلار کے نزدیک حقائق کا قاتل ہے تو ضروری نہیں کہ ادب میں بھی اس کا وہی کردار ہو بلکہ ادب جو خود ایک استعارے کی حیثیت رکھتا ہے ممکن ہے ایک اور استعارے سے اس کی تخلیقی اور تفہیمی فضا میں وسعت پیدا ہو اور نئے ادبی افق وا ہوں۔

بودریلار کے اس فلسفے کا اردو ادب پر اطلاق کریں تو اردو شاعری کے دو  اہم نام ذہن میں آتے ہیں اور وہ ہیں انیس اور اقبال ۔ میر انیس کے مراثی جہاں اپنے قاری کے لیے کربلا کا سیمولیکرم تخلیق کرتے ہیں وہیں اقبال اپنی نظموں کے ذریعے مختلف قرآنی سیمولیکرم خلق کرتے نظر آتے ہیں۔  میر انیس کے قاری کے سامنے جب بھی کربلا کا ذکر ہوگا اس کے ذہن میں اصل کربلا نہیں میر انیس کا کربلا ابھرے گا  جو اودھ یا لکھنؤ کی جزئیات کے بغیر مکمل نہیں ہو سکتا۔  اس ضمن میں سب سے اہم عنصر جس کی طرف میرا ذہن جاتا ہے وہ ہے زبان۔ نہ تو کربلا میں شہید ہونے والے شہدا کی زبان اردو تھی اور نہ ہی یزید اور اس کی فوج کی ، پھر بھی جب شہدائے کربلا کا ذکر ہوتا ہے  تو ہمارے ذہن میں ہر کردار اردو میں بات کرتا ہے اور فوج یزید کو اسی زبان میں للکارتا بھی ہے۔

حضرت قاسم کی شہادت پر ان کی بیوہ کا بین  نہ صرف یہ کہ لفظیات بلکہ ثقافتی سطح پر بھی خالص ہندوستانی ہے جسے عرب کی ثقافت سے کوئی علاقہ نہیں ۔

کہہ کے یہ کھول دیے گوندھے ہوئے سر کے بال

خاک پر ماتھے سے سہرے کو دیا توڑ کے ڈال

کہتی تھی روکے یہ اے سید مسموم کے لال

تم ہوئے قتل ملا خاک میں میرا اقبال

بدتر از موت ہے مجھ رانڈ کا جینا صاحب

کس طرح کاٹوں گی بچپن کا رنڈاپا صاحب

آپ نے دیکھا یہ خالص اودھ کی لفظیات ہے جس کا استعمال میر انیس نے واقعہ ٔ کربلا کا نقشہ کھینچنے کے لیے کیا ہے۔  اور شاید شاعری کے ہائپر رئلٹی کی حد میں داخل ہونے کی سب سے اہم وجہ بھی یہی ہے۔  ہائپر رئلٹی جسے ہم حقیقت سے الگ ایک حقیقت کے طور پر دیکھتے ہیں اس کی سب سے اہم صفت یہ ہے کہ اس کا مجازی محل کچھ ٹھوس حقیقی بنیادوں پر بنتا ہے۔ خواہ ہم لاس اینجلس کی بات کریں یا میر انیس کے کربلاکی، دونوں ہی کی بنیاد کچھ ٹھوس حقائق ہیں۔  میر انیس کے کربلا میں سب سے پہلی حقیقت تاریخ فراہم کرتی ہے جس کی بنیاد پر میر انیس  ایک تصوراتی کربلا تخلیق کرتے ہیں۔ تاریخ کے کردار و واقعات میں انیس کی تصوراتی جزئیات کی کارفرمائی ان کے مرثیوں کو فوق حقیقی حدود میں داخلے کی راہ دیتی ہے اور ان کا قاری ایک متنی سیمولیکرم  میں سیمولیشن کے تجربے سے گذرتا ہے جس کا اسے کبھی احساس بھی نہیں ہوتا۔ ہائپر رئلٹی کی تخلیق میں دوسری اہم شے اس کی مصنوعیت ہے۔ جو دراصل حقیقی نہیں ہوتی لیکن ایک بڑی حقیقت کے طور پر تسلیم کی جاتی ہے۔ اس حوالے سے جیسا کہ میں نے پہلے عرض کیا ہے زبان سر فہرست ہے ۔  میر انیس جو زبان استعمال کرتے ہیں وہ اس قدر اصل معلوم ہوتی ہے کہ ان کے قاری کے ذہن میں اس زبان سے زیادہ اصل کوئی اور شے نہیں ہوتی۔ رنڈاپا  اور رانڈ جیسے الفاظ تو اردو شاعری  کے مزاج  سے میل ہی نہیں کھاتے پھر میر انیس نے ان الفاظ کا استعمال کیوں کیا؟ دراصل یہیں میر انیس اپنے معاصر شعرا سے بازی لے جاتے ہیں کیونکہ ان کا ذہن اس بات کا فیصلہ کرنے میں دیر نہیں کرتا کہ کہانی اور اس کے کردار زبان کا انتخاب کرتے ہیں نہ کہ مصنف۔  میر انیس کا کردار جب پر تکلف انداز میں بات کرتا ہے تو وہاں اس کی زبان خالص ادبی ہوتی ہے لیکن جب کوئی کردار بے تکلف انداز میں بات کرتا ہے تو اس میں گھریلو پن  غیر محسوس طریقے سے شامل ہو جاتا ہے جس سے اثر آفرین میں کئی گنا اضافہ ہوجاتا ہے۔ میر انیس جیسا جوہری کبھی کسی غلط پتھر کا انتخاب نہیں کرتا اور ایسے ایسے الفاظ کو اپنے مرثیے میں جڑتا ہے کہ قاری واقعہ ٔ کربلا کو کسی قریبی میدان میں ہوتا ہوا تصور کرتا ہے۔  حضرت حسین کے خاندان کے مرد اسے اپنے گھر مرد وں جیسے لگتے ہیں اور عورتیں بھی اپنے ہی خاندان کی لگنے لگتی ہیں۔

ایک جگہ اور اسی واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے انیس  نے جس طرح کا نقشہ کھینچا ہے وہ صرف ہندوستان میں ہے۔  رنڈسالہ کا لفظ غالباً اودھ کے کچھ علاقوں کے علاوہ کہیں استعمال نہیں ہوتا۔لیکن محل استعمال نے اس کا مفہوم اس شخص پر بھی ظاہر کر دیا ہے جس نے کبھی یہ لفظ نہ سنا ہو۔

یہ داغ تھا نصیب میں تجھ سوگوار کے

رنڈسالہ پہنو بیاہ کا جوڑا اتار کے

اسی ضمن میں ہم اقبال کا نام بھی لے سکتے ہیں کہ ان کی شاعری بھی کئی جگہ ہائپر رئلٹی کی حدوں میں داخل ہوتی ہوئی نظر آتی ہے جس کے لیے ہم اقبال کی نظم ابلیس کی  مجلس شوری کا حوالہ پیش کر سکتے ہیں۔  اقبال کا قاری بھی اقبال کی قرأت کے دوران اسی کیفیت سے گزرتا ہے جس سے انیس کا قاری گزرتا ہے۔ حد تو یہ ہے کہ اقبال کا قاری تلاوت قرآن کے دوران  بھی جس ابلیس کا تصور کرتا ہے وہ اردو بولنے والا اور اپنے مشیروں کے درمیان گھرا ہوا’ اقبالی‘ ابلیس ہوتا ہے۔  اس کی تمام تر خصوصیات بشمول اس کے فعال کردار کے وہی ہوتی ہیں جس کا ذکر اقبال جگہ جگہ کرتے ہیں۔

بات نثر کی کریں تو ہمارے سامنے سب سے عمدہ مثال انار کلی کا وہ کردار ہے جسے امتیاز علی تاج کے ڈرامے نے دوام بخشا ہے۔ انار کلی کا کردار حقیقت نہ ہوتے ہوئے بھی آج لوگوں کے لیے ایک اٹل حقیقت ہے اور بعض لوگ تو جلال الدین محمد اکبر سے نفرت ہی اس بنیاد پر کرتے ہیں کہ اس نے انار کلی اور سلیم کو ایک دوسرے سے جدا کر دیا۔ اسی طرح مرزا ہادی رسوا کی امراؤ جان  کا کردار ہے جس نے کئی لوگوں کو لکھنؤ کے قحبہ خانوں میں اس کی تلاش پر مجبور کر دیا۔

اردو ادب میں ہائپر رئلٹی کی ایسی کئی مثالیں موجود ہیں جنھیں  لوگوں کے ذہن میں تاریخ جیسی اہمیت حاصل ہے۔

اب اگر آپ یہ کہیں کہ اگر یہ ہائپر رئلٹی ہے تو مصنف کو اس کا ادراک کیونکر ہے۔ اور اگر مصنف کو اس کا ادراک ہے تو یہ ہائپر رئلٹی کیونکر ہے؟ تو جناب عرض ہے کہ بودریلارد نے جس عراق کی جنگ کو ہائپر رئلٹی قرار دیا ہے اس جنگ کے منصوبہ بنانے والوں کو تو حقیقت کا ادراک ہوگا ہی۔ میری ناقص رائے میں ہائپر رئلٹی عوام کے بڑے طبقے کے نقطۂ نظر سے تعلق رکھتی ہے اور یہ آفاقی نہیں ہوتی۔ کچھ لوگ ہمیشہ اس  کی حقیقت سے آشنا ہوتے ہیں تاہم وہ اسے تبدیل کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے اور اسے تبدیل کرنے کے لیے انھیں ایک دوسری ہائپر رئلٹی کا سہارا لینا ہوتا ہے اور اس طرح  اس کی مختلف سطحیں تیار ہوتی ہیں جو قاری کو  کنفیوزن کی صورت حال سے دو چار کرتی ہے  اور یہ صورت حال ایک مابعد جدید صورت حال کے معیار پر پوری اترتی ہے۔

 

[i] Baudrillard Jean, Simulacrum and Simulation, (Michigan: University of Michigan Press, 2011) 10

[ii] ہم نے اس مقالے میں ڈائجیسس کو بھی مائمیسس ہی کے دائرے میں رکھا ہے۔

[iii] Potolsky Matthew, Mimesis: The New Critical Idiom, (New York: Routledge, 2006) 1

کوئی تبصرہ نہیں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے