عزیز نبیل کی دس غزلیں


عزیز نبیل کی دس غزلیں

غزل

پیاس کی سوندھی مہک صحرا کی ویرانی میں رکھ

اور سیرابی کا دکھ بہتے ہوئے پانی میں رکھ

ایک جیسے روزو شب کی دھول ہے اعصاب پر

کوئی بے ترتیب لمحہ میری یکسانی میں رکھ

دیکھ کیسے سلطنت کی رونقیں بڑھ جائیں گی

مجھ سا اک خود سر بھی یعنی اپنی سلطانی میں رکھ

قید کر مجھ کو کسی اندھے کنوئیں میں اور پھر

روشنی کی جستجو میری تن آسانی میں رکھ

پھیڑ میں کھونے کا خدشہ بڑھ رہا ہے مستقل

میری حیرت کو بہت ہی سخت نگرانی میں رکھ

اک نئی تصویر ہو بالکل تصوّر سے الگ

رنگ سب قوسِ قزح کے شب کی پیشانی میں رکھ

کیا خبر کب دشت کی وحشت پکارے پھر نبیل

چاک دامانی کی مہلت خوش گریبانی میں رکھ

۔۔۔۔

غزل

بَندِشیں توڑ کے صَد رَنگ دَھنَک آئی ہے

آپ آئے ہیں تو آنکھوں میں چَمَک آئی ہے

روشنی میرے تعَاقُب میں سَفر کرتی ہوئی

غیر محفُوظ عِلاقُوں میں بھَٹک آئی ہے

اپنے سب خواب لُٹاکر میں کہیں جا چکا تھا

آمَدِ صُبح کی جب پہلی دھمَک آئی ہے

میرے سردار خبر ہو کہ تری سرداری

اپنے مَنصَب سے بہت نیچے سرک آئی ہے

مُختَصر یہ کہ مِری خُوئے تماشَہ بِینی

اِک نئی آگ بُجھی راکھ میں رَکھ آئی ہے

ہم زمانے سے ہیں گمنام مَحاذوں پہ نبیل

نہ رَسَد پہنچی کہیں سے، نہ کُمَک آئی ہے

۔۔۔۔

غزل

عجب کشش ہے پسِ اسمِ ذات چلتی ہوئی

طویل سجدے میں ہے کائنات چلتی ہوئی

ملی تھی راہ میں اک بے قرار پرچھائیں

گھر آگئی ہے مرے ساتھ ساتھ چلتی ہوئی

طلوعِ صبج سے پہلے غروبِ شام کے بعد

ٹھہرگئی مرے سینے میں رات چلتی ہوئی

سو میں نے بحث نہ کی، گفتگوکو ختم کیا

نکل گئی تھی بہت دور بات چلتی ہوئی

بچھڑ گیا تھا وہیں وقت ساتھ چلتا ہوا

بھٹک گئی تھی جہاں کائنات چلتی ہوئی

کچھ اس طرح سے صدادی ہے اک نظر نے نبیلؔ

ٹھٹھک کے رک گئی جیسے حیات چلتی ہوئی

————

غزل

سلسلے نور کے ’ مَیں خاک نشیں’ جانتا ہوں

کتنے سورج ہیں یہاں زیرِ زمیں جانتا ہوں

جان لیتا ہوں ہر اک چہرے کے پوشیدہ نقوش

تم سمجھتے ہوکہ میں کچھ بھی نہیں جانتا ہوں

بے صدا لمحوں میں، موہوم خیالوں سے پرے

دل کی آوازکو میں عین یقیں جانتا ہوں

کِن علاقوں سے گزرنا ہے اٹھائے ہوئے سر

اور کہاں مجھ کو جھکانی ہے جبیں جانتا ہوں

اُس کے ہی حسن کی تمہیدہیں سارے موسم

میں اُسے آج بھی اُتنا ہی حسیں جانتا ہوں

لاکھ جا بیٹھے کوئی اونچی فصیلوں پہ نبیلؔ

جس کی اوقات جہاں کی ہو، وہیں جانتا ہوں

_________

غزل

شام کی راکھ بدن پر مل کر قشقہ کھینچ ستاروں سے

رات سنگھاسن اپنا ہی ہے کہہ دے ہجر کے ماروں سے

کچھ بے ہنگم آوازیں تھیں، کچھ سائے سے پھرتے تھے

آنکھیں موند کے گزرے تھے ہم، دنیا کے بازاروں سے

اور اچانک جی اٹھتے ہیں، بند کِواڑوں والے لوگ

چھن چھن کر آواز سی کوئی آتی ہے دیواروں سے

روح کے ویراں تہہ خانے تک روز کوئی آجاتا ہے

تنہائی کے موسم والی خالی راہ گزاروں سے

کشتی کب کی ڈوب چکی ہے لیکن اب تک اُس کا پتہ

دریا دریا پوچھ رہا ہے جانے کون کناروں سے

دیے کی آخری سانس بجھی اور آنکھ اٹھی آکاش کی سمت

کتنے ہی سر جھانک رہے تھے رات کی نم دیواروں سے

۔۔۔۔۔

غزل

خامشی ٹوٹے گی، آواز کا پتّھر بھی تو ہو

جس قدر شور ہے اندر، کبھی باہر بھی تو ہو

بجھ چکے راستے، سنّاٹا ہوا، رات ڈھلی

لوٹ کر ہم بھی چلے جائیں مگر گھر بھی تو ہو

بزدلوں سے مَیں کوئی معرکہ جیتوں بھی تو کیا

کوئی لشکر مری جراء ت کے برابر بھی تو ہو

مسکرانا کسے اچھّا نہیں لگتا اے دوست

مسکرانے کا کوئی لمحہ میسّر بھی تو ہو

رات آئے گی، نئے خواب بھی اتریں گے ، مگر

نیند اور آنکھ کا رشتہ کبھی بہتر بھی تو ہو

چھوڑکر خواب کا سیّارہ کہاں جاؤں نبیلؔ

کرّہ ء شب پہ کوئی جاگتا منظر بھی تو ہو

۔۔۔۔

غزل

دل پہ کچھ ایسے کسی یاد کے در کھلتے ہیں

جیسے صحراؤں کی وسعت میں سفر کھلتے ہیں

ہم سے ملتے ہیں سرِ دشت بگولے جھک کر

پاؤں دریاؤں میں رکھّیں تو بھنور کھلتے ہیں

راہ گم کردہ ستاروں کے لیے آخرِ شب

ہم فقیرانِ درِ عشق کے گھر کھلتے ہیں

کون سے لوگ ہیں جو پھرتے ہیں تعبیر لیے

کن دعاؤں کے لیے بابِ اثر کھلتے ہیں

آگ تخلیق کی جب روح کو لاوا کردے

تب کہیں جاکے مری جان، ہنر کھلتے ہیں

روز دستک سی کوئی دیتا ہے سینے پہ نبیلؔ

روز مجھ میں کسی آواز کے پر کھلتے ہیں

___________

مسافتیں کسی ہجرت کے انتظار میں ہیں

عقیدتیں ابھی بیعت کے انتظار میں ہیں

سرائے عشق میں بیٹھے ہوئے ہیں دل والے

اور ایک آخری تہمت کے انتظار میں ہیں

یہ کون لوگ ہیں جو لے کے نامہء اعمال

نہ جانے کب سے قیامت کے انتظار میں ہیں

یہاں کی خاک میں سورج دبے ہوئے ہیں کئی

اور آسماں کی رفاقت کے انتظار میں ہیں

نبیلؔ کھول دو شہرِ سخن کے دروازے

بہت سی غزلیں اجازت کے انتظار میں ہیں

۔۔۔۔۔۔۔۔۔

غزل

آئیں گے نظر صبح کے آثار میں ہم لوگ

بیٹھے ہیں ابھی پردۂ اسرار میں ہم لوگ

لائے گئے پہلے تو سرِ دشتِ اجازت

مارے گئے پھروادیِ انکار میں ہم لوگ

اک منظرِ حیرت میں فنا ہوگئیں آنکھیں

آئے تھے کسی موسمِ دیدار میں ہم لوگ

ہر رنگ ہمارا ہے، ہر اک رنگ میں ہم ہیں

تصویر ہوئے وقت کی رفتار میں ہم لوگ

یہ خاک نشینی ہے بہت، ظلِّ الہی!

جچتے ہی نہیں جبّہ و دستار میں ہم لوگ

اب یوں ہے کہ اک وصل کا ماتم ہے شب و روز

چنوائے گئے ہجر کی دیوار میں ہم لوگ

سنتے تھے کہ بکتے ہیں یہاں خواب سنہرے

پھرتے ہیں ترے شہر کے بازار میں ہم لوگ

____________

غزل

بھید بھری آوازوں کا اک شور بھرا ہے سینے میں

کھل کر سانس نہیں لینے کی شرط ہے گویا جینے میں

اب دریا ہی شاید آکر جان بچائے لوگوں کی

بیٹھے بیٹھے ڈوب رہا ہے ہر اک فرد سفینے میں

پتّے شاخ سے گرتے دیکھے تو اک دم  یاد آیا ہے

مجھ سے ہوکر گزرے تھے تم اک دن اسی مہینے میں

شب بیداری، خواب شماری، خود اپنی مسماری بھی

ہجر کی پہلی رات کا آہنگ مرے سازینے میں

پانی والے کیا جانیں، کیا قیمت ہے سیرابی کی

ریت زباں پر جم جاتی ہے پیاس کی بوندیں پینے میں

قطرہ قطرہ کم ہوتا ہوں، کس موسم سے یاری کی

جسم پگھل کر بہہ جاتا ہے کچھ کچھ روز پسینے میں

جب تک تم سب منظر اور پس منظر باندھ کے ساتھ رکھو

مجھ کو تھوڑا وقت لگے گا اُدھڑی آنکھیں سینے میں

ساکت چہرے، جامد آنکھیں اور احساس سے عاری لوگ

ایک ہجومِ بے شکلاں ہے شہر کے ہر آئینے میں

چاند کا ہالہ، رنگ دھنک کے اور کرنوں کا اک گچھّا

اور بھی جانے کیا کیا نکلا زیرِ آب خزینے میں

میری ذات کی گرہیں گنتے سانسیں پھول نہ جائیں نبیل

ایسے میں آتا بھی نہیں ہوں دوست کسی تخمینے میں

۔۔۔

کوئی تبصرہ نہیں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے