ندیم فاضلی: سیاہ لمحوں کا تابندہ شاعر


ہم ایک زوال پذیر معاشرے میں سانس لے رہے ہیں یا انتہائی ترقی یافتہ معاشرے میں ؟اس سوال کا جواب آسان نہیں ہے ۔یہ اپنے اپنے ظرف اور اپنی نگاہ پر منحصر ہے کہ آپ گلاس آدھا بھرا یا آدھا خالی دیکھتے ہیں لیکن اس بات سے انکار کرنا مشکل ہے کہ ہم جس ادبی دنیا کا حصہ ہیں، وہاں جوڑ توڑ ،سازش اور ریشہ دوانی کے بغیر اپنی جگہ بنانا آسان نہیں ہے .مزید برآں اگر شاعر یا ادیب فطرتاً نیک ہو ،دنیاوی پینتروں سے نا واقف ہو ،دولت کی دیوی بھی اس پر کچھ خاص مہربان نہ ہو اور اس کے گلے میں دنیا کو مرعوب کرنے والی ڈگریاں بھی نہ لٹکی ہوں ،تو گوشہ گمنامی کے علاوہ اس کا مقدر کچھ اور نہیں ۔برہان پور کی مٹی سے اٹھنے والے اور بھیونڈی میں اپنی جوانی کا سونا لٹانے والے ندیم فاضلی بھی ان بد قسمت شاعروں میں سے ہیں جن کا جوہر ایک قدر ناشناس معاشرہ پہچان نہ سکا ۔ان کے پاس شاعری تو اچھی ہے لیکن نہ تو کوئی سوشل اسٹیس ہے اور نہ کسی کالج کی پروفیسری ۔محنت مشقت سے اپنا پیٹ پالنے والا ،چوتھی جماعت پاس یہ شاعر جب اس طرح کے اشعار کہتا ہے
اک تیرگی دیتی ہے بصارت کے قرینے
اک روشنی وہ جس میں سجھائی نہیں دیتا
تو نہ صرف یہ کہ وہ اپنے کرب کا اظہار کر رہا ہوتا ہے بلکہ معاشرے کو آئینہ بھی دکھا رہا ہوتا ہے

دو چار اچھے شعر تو خراب سے خراب شاعر بھی نکال لیتا ہے ۔کمال تو یہ ہے کہ جب مجموعے کے بعد بھی نہ صرف یہ کہ شاعری کا تاثر برقرار رہے بلکہ قدر و منزلت میں اور اضافہ ہوجائے ۔ہم نے کتنے شاعروں کو مجموعے کی اشاعت کے بعد لٹتے دیکھا ہے ۔ندیم فاضلی کے مجموعے “سیاہ لمحوں کی روشنی “ کے بعد انکا قد اور بلند ہوگیا ہے۔انکی شاعری کے دو پہلو جو مجموعہ کی قرات کے بعد بہت نمایاں ہو کر ابھرتے ہیں ،ان میں سے ایک تو یہ ہے کہ وہ کائنات کو اپنی ذات کے حوالے سے دیکھتے اور دکھاتے ہیں ۔یہ ہمارے شعراء کا بڑا محبوب موضوع رہا ہے اور گو کہ مرورِ زمانہ سے اس میں نئے ابعاد شامل ہوگئے ہیں ،بنیادی تصور آج بھی وہی ہے ۔دیکھئے ندیم کیسے اس میں اپنے رنگ بھرتے ہیں
اب اپنی ذات کا عرفان ہونے والا ہے
خدا سے رابطہ آسان ہونے والا ہے

دنیا جس کی کھوج میں پاگل پھرتی ہے
ہم تو اس کے درشن کرتے رہتے ہیں

اک ذرا ہونے کا ہم کو واہمہ کیا ہوگیا
تھا بہت خود پر یقیں ،سب ریزہ ریزہ ہوگیا

موند لوں آنکھ تو بے کار ہے سب رنگِ جہاں
کیا مری چشمِ عنایت کے سوا بھی کچھ ہے
دوسری جہت عشقیہ مضامین کی ہے ۔شروعاتی دور سے ہی یہ مضامین غزل کے لئے لازم وملزوم رہے ہیں ۔ندیم کے یہاں جذبے کی شدت تو ہے لیکن اظہار میں ایک دھیما پن ہے ۔دریا کے شور کے بجائے ،انکے یہاں سمندر کا سکوت ہے ۔وہ بات بہت آہستگی سے کہنے کے قائل ہیں ۔ترکیب سازی کا عمل انکے یہاں شاذ ونادر ہی دکھائی دیتا ہے ۔مفرد الفاظ سے بھی وہ بڑے بڑے خیال کو متشکل کرنے میں مہارت رکھتے ہیں
تو اپنا ہاتھ میرے ہاتھ میں اگر دیدے
تو یہ فقیر بھی سلطان ہونے والا ہے

میں ان کو سوچتا رہا ،نہ جانے کب
ہر ایک شے نگاہ سے اتر گئی

تم اک بار تغافل کی شکایت کی تھی
پھر کبھی اپنی طرف مڑ کے نہ دیکھا ہم نے

میں تھا جو حدِ جسم سے آگے نہ بڑھ سکا
وہ لے گیا بدن سے مرے چھین کر مجھے

انکے شعری قد کا صحیح اندازہ لگانے کے لیے انکے مجموعے “سیاہ لمحوں کی روشنی “ سے ایک غزل پیش ِ خدمت ہے ۔

غزل

وہ یک بہ یک اسے دل میں اتارنے کا عمل
وہ اپنی ذات پر شب خون مارنے کا عمل

ہزار وسوسے دل میں اور اک دہکتا الاؤ
حیاتِ دشت میں راتیں گزارنے کا عمل

بس ایک خوشہ ِ گندم اور ایسی دربدری
وہ آسماں کو زمیں پر اتارنے کا عمل

یہ عمر میز ہے گویا قمار خانے کی
بس ایک جیت کی خواہش میں ہارنے کا عمل

وہ بند خوشبو کا ،بادِ صبا کے وہ ناخن
کلی کے جسم سے کپڑے اتارنے کا عمل

غضب کے شور مچاتے ہوئے یہ سناٹے
وہ بے صدا بھی کسی کو پکارنے کا عمل

ہوئی ہے شام پھر اشکوں سے اک وضو ہو ندیم
پھر ایک رات ستارے شمار نے کا عمل

اگر ایسا شاعر گوشہِ گمنامی میں پڑا ہے تو معاشرے کی بے حسی اور ناقدری کا رونا رونے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہے

کوئی تبصرہ نہیں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے