آخری کنارے پر: ایک جائزہ


اردو شاعری اور خاص کر غزل کی شاعری کا ان دنوں وہی مزاج ہے جو برصغیر میں میڈیا کا ہے۔ یعنی شور شرابا اور ہیجان انگیز مواد۔ چونکانے کی غرض سے کچھ بھی کہا اور لکھا جا رہا ہے اور سوشل میڈیا پر تازہ واردان بساط شاعری اپنی مہر پسندیدگی ثبت کر کے ایسے اشعار کو بھی وائرل کر دیتے ہیں جن کی بصورت دیگر جگہ صرف ردی کی ٹوکری میں ہے۔ اپنی شعری کاوشوں کے ذریعہ قاری کو چونکانا کوئی بری بات نہیں ہے لیکن اس عمل میں شاعری کا شاعری رہنا شرط ہے۔ ایک قاری کی حیثیت سے پچھلے کچھ برسوں میں معاصر شعرا کے مطالعہ سے میرے ذہن پر کچھ خاص مثبت اثرات مرتب نہیں ہوئے ہیں، لیکن ان تلخ تجربات میں کچھ شیرینی چند ناموں نے بخشی ہے جو درج ذیل ہیں:
ابھیشیک شکلا
امیر امام
سالم سلیم
سفیر صدیقی
غالب ایاز
مہندر کمار ثانی
اور اب معید رشیدی کا مجموعہ بھی میرے سامنے ہے۔ مجموعہ کا وہ حصہ جو صریر خامہ کے عنوان سے لکھا گیا ہے واقعی پڑھنے کی جیز ہے۔ میں ہمیشہ اس فکر کا حامی رہا ہوں کہ ایک فنکار کو اپنے میڈیم پر قدرت حاصل ہونی چاہیے۔ شاعر و ادیب کی حیثیت سے فنکار میڈیم کے طور پر زبان کا استعمال کرتا ہے اور یہی استعمال اسے اسلوب عطا کرتا ہے۔ صریر خامہ کی قرات کے دوران قاری خود کو اس شاعری کے مطالعہ کے لیے تیار کر لیتا ہے جس سے اسے رو بہ رو ہونا ہے۔ اسے اندازہ ہو جاتا ہے کہ مجموعہ کے اشعار ممکن ہے فوری طور پر خود کو وا نہ کریں۔ میری نظر میں یہ مجموعہ کا ایک مثبت پہلو ہے۔
معید کے اشعار اپنے قاری کو فوراً حیرت میں مبتلا نہیں کرتے بلکہ غیر شعوری طور پر اسے ان احساسات میں شریک کرتے ہیں جن کا اظہار شعر میں کیا گیا ہے۔ کچھ احساسات درج ذیل ہیں:
فضا میں چپ کی سیاہی گھلی ہے آج کی رات
لہو سے حکم کی تعمیل ہونے والی ہے
فضا میں چپ کی سیاہی کا گھلنا اور لہو کی قیمت پر حکم کی تعمیل ہونا موجودہ دور کی کریہہ حقیقت ہے۔ غور کرنے پر معلوم ہوتا ہے کہ حالات حاضرہ پر اخباری تبصرہ سے گریز ہی اس خیال کو شعر کا قالب عطا کرتا ہے۔
ہیں کشتگان صدا آخری کنارے پر
اے خامشی تری ترسیل ہونے والی ہے
اس ہاؤہو کی دنیا میں خامشی بجائے خود ایک پیغام ہے اور اس پیغام کی ترسیل کا ایک نایاب طریقہ یہ شعر فراہم کرتا ہے۔
ریت سے دنیا بنانے میں بکھر کر رہ گیا
ہر گھڑی احساس ہوتا تھا کہ بس پوری ہوئی
یہ وہ آفاقی احساس ہے جس سے ہر کس و ناکس گزرتا ہے۔ انسان بہت سی چیزیں اپنے طریقے سے کرنا چاہتا ہے لیکن اسے ہر بار احساس ہوتا ہے کہ کچھ کسر رہ گئی ہے جس کی وجہ سے وہ نتیجہ حاصل نہ ہو سکا جس کی اسے توقع تھی۔
اے زمانے کی ہوا اب تو رہا کر مجھ کو
عشق کے بعد بھی کچھ کام سا رہ جاتا ہے
کاروبار جہان و جنون کی کشمکش کو اس شعر کے ذریعہ ایک خوبصورت پیرایہ عطا کیا گیا ہے۔
آنگن کا آہٹ سے رشتہ اور آہٹ کا بنجر پن
کتنے موسم بیت گئے ہیں اس دل کو سمجھانے میں
آہٹ کسی کے آنے کی امید ہے اور آہٹ کا بنجر پن اس امید کا ٹوٹنا ہے۔ بار بار ناامید ہونے کے باوجود خاطر انسانی کا اپنی امید سے منسلک رہنا ہی انسانی زندگی کی خوبصورتی ہے۔
زہر سی رات، لہو اور یہ گھمسان کا رن
دیدہ تر سے قیامت نہیں دیکھی جاتی
جنگ و جدل، فسادات اور بے یقینی کی ترجمانی کرنے والے اس طرح کے اشعار معید کی شاعری میں جا بجا نظر آتے ہیں۔
اک منظر تحلیل ہوا تھا جب سانسوں کے جنگل میں
کچی خواہش کے جگنو سے اک منظر تعمیر کیا
منظر کا تحلیل ہونا گویا ایک امید کا ختم ہونا ہے۔ کسی امید کے خاتمے کے بعد ضروری نہیں کہ کسی اور امید کے لیے کوئی پختہ وجہ موجود ہو، تاہم، اس اندھیرے سرنگ میں چھوٹی چھوٹی خواہشوں کے جگنو امکان و احتمال کے دروازے وا کرتے ہیں۔
جب ظلم حصار بناتا ہے تب خوف کی سرحد بنتی ہے
جب عشق حصار بناتا ہے زنجیر سے خوشبو آتی ہے
جبر و عشق کا یہ رومانوی فلسفہ بہت سے اکابرین کے یہاں مل جاتا ہے۔ معید اس شعر میں ظلم کی زنجیر سے نجات کی سعی نہیں کرتے بلکہ عشق کے احساس سے جبر کے اس دور کو حسین بنانا چاہتے ہیں۔
یہ چند مثالیں جن میں آپ خود کو شاعر کے احساسات میں غیر محسوس طریقے سے شریک ہوتا ہوا محسوس کریں گے۔ مجموعہ میں وہ اشعار بھی جا بہ جا ملتے ہیں جنھیں حالات حاضرہ کے تناظر میں دیکھا جا سکتا ہے اور ان میں ملک کے ان واقعات کی جھلک ملتی ہے جن کے ہم شاہد ہیں۔ دوسری جانب ایسے اشعار کی تعداد زیادہ ہے جو شاعر کے نجی جذبات و احساسات کی عکاسی کرتے ہیں۔ وہ لوگ جو معید کو قریب سے جانتے ہیں وہ مجموعہ میں معید کی شخصیت کے مختلف پہلوؤں کو محسوس کر سکتے ہیں۔ معید اپنی نجی زندگی میں بھی کسی بات کو براہ راست کہنے سے گریز کرتے ہیں اور یہی کیفیت ان کے اشعار میں بھی پائی جاتی ہے۔
مجموعہ میں کئی اشعار ایسے بھی ملیں گے جہاں آپ کو محسوس ہوگا کہ کوئی اچھا شعر بنتے بنتے رہ گیا ہے، لیکن غزل کی شاعری میں ایسا ہونا عام بات ہے۔ اس کے علاوہ یہ بات بھی ذہن میں ہونی چاہیے کہ یہ شاعر کے شعری سفر کی ابتدا ہے اور مستقبل میں ان کی شاعری میں مزید بہتری کا قوی امکان موجود ہے۔

کوئی تبصرہ نہیں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے