صابر کی "قسط” اور اس کی ادائیگی


صابر کی "قسط” اور اس کی ادائیگی
(شہرام سرمدی)
صابر، لہروں والا دریا ہے۔ یہی سبب ہے کہ بقول اس کے اسے "قرار” بھنور میں میسر آتا ہے۔ میرے نزدیک یہ "بھنور” اس کی تخلیقی توانائی ہے۔ ریختہ ویب سائٹ کے مطابق اس کا سالِ پیدائش 1975 ہے یعنی اس وقت وہ اپنی عمر کے تقریبا 47 ویں برس میں ہے۔عمر کے اس مرحلے میں بھی اس کے یہاں کہیں ٹھہراؤ نہیں ہے اور وہ مسلسل خود کو دریافت کرنے میں منہمک ہے۔

اس کی قوتِ نمو نے ابھی تک اسے کوئی رنگ اپنانے نہیں دیا ہے یعنی اس نے اپنے آپ کو ہمارے یہاں رائج طرز پر دہرانا شروع نہیں کیا ہے۔ اس کے الرغم حتٰی اس سے نسبتا کم عمر شعر کہنے والے، کسی کی یا کسی ایک رنگ کی مسلسل تکرار سے اپنا تشخص درج کر رہے ہیں اور بہ زعمِ خود اس کو اپنے رنگ کا نام دے چکے ہیں۔ اس تناظر میں صابر، اپنے تخلیقی سفر میں "نِرا بے صبرا” قرار پاتا ہے۔

کتاب کا نام بھی قابلِ توجہ ہے۔ دراصل "قسط” کی ادائگی کا معاملہ اس وقت درپیش ہوتا ہے جب کسی طرح کا قرض لے لیا گیا ہو۔ قرضدار خود کو تقسیم کر کر کے قسط کی پونجی جمع کرتا ہے تاکہ قرض کا بوجھ کم کیا جا سکے۔ صابر کا نثری اور شعری سفر نشاندہی کرتا ہے کہ اس پر قرض زیادہ ہے۔ یہی سبب ہے کہ اس کے رویے میں یہ امر مضمر محسوس ہوتا ہے کہ اگر وہ عمر بھر قسطیں چکاتا بھی رہے تو بھی خود کو اس قرض سے یکسر باہر نہیں نکال سکے گا۔ "قسط” کی پونجی جمع کرنے میں وہ بکھر بکھر جاتا ہے لیکن پھر بھی تن دہی سے جمع ضرور کرتا رہتا ہے کہ اسے قرض کا احساس ہے۔ اس قرض نے اس کو پریشان کیا ہوا ہے جس سے ذہنی و پریشاں خاطر کا در آنا بعید نہیں ہے۔

صاپر اور اس کے بیشتر ہم عمر گوشہ نشیں ہی ہیں۔ شاید ہی ان کو کسی نے کسی محفل حتٰی نجی حلقے میں بھی جلوہ فرماتے دیکھا ہو۔ خواہ وہ ارشد جمال صارم ہو، امیر حمزہ ثاقب ہو یا عادل رضا منصوری یا سید راغب اختر۔ البتہ یہ لوگ اس معاملے میں ذرا نصیب والے رہے کہ اپنے مجموعوں / اپنی کتابوں کی اشاعت کے وقت اپنے وطن میں موجود تھے ورنہ ایک تو ایسا ہے کہ وطن میں اس کی کتابیں شائع ہوئیں اور وہ پردیس میں کہیں تھا اور آج بھی وثوق سےیہ کہنا مشکل ہے کہ وہ کہاں ہے۔

ارشد جمال صارم کا یہ کہنا کہ "قسط” کی شعری جمالیات اور لسانی اقدار سے مملو شاعری یقینا ہمارے لیے ایک بیش بہا تحفہ ہے۔ قوی امید ہے کہ اردو دنیا شاعرے کے لیے اس نئے مصحف کو ہاتھوں ہاتھ لے گی”۔ اس ضمن میں اتنا ہی عرض کروں گا کہ "تحفہ” کا دوسرا نام ہی ” بیش بہا” ہونا ہے۔ رہی بات "مصحف” کی۔ جس قدر میں صابر کے تخلیقی رویے کو سمجھ سکا ہوں وہ اپنی رسالت کی خود نفی کرنے والا تخلیق کار ہے اور اپنی امت کے قیام کی اگر اُسے بھنک بھی لگ گئی تو سب سے پہلے خود منسوخ کر دے گا۔ وہ کسی "عدم تحفظیت” کا شکار نہیں ہے کہ اپنے لیے ایک گوشہء عافیت کو قبول کر لے۔

مجھے یہ کہنے میں تامل نہیں کہ صابر اپنی غزل میں موجود ہے اور اس کی غزل میں اس کے دستخط کی نشانیاں داد و ستائش کی حد تک موجود ہیں۔ یہ کم اہم بات نہیں ہے کیونکہ کئی شہرت زدہ سہل پسند اور کاہلوں کے یہاں بہت کچھ موجود ہے لیکن وہ نہیں۔ "قسط” جیسا مجموعہ، اس بات کی ضمانت ہے کہ اِس نسل سے ناامید ہونے والے اگر انہیں پڑھیں تو ناامید نہیں ہوں گے۔ ایک درخواست ہے کہ ان کو پڑھا جائے: ‘نہ ستائش کہ تمنا نہ صلے کی پروا’ دیانت دارانہ حرفِ حق کا اظہار کریں۔

صابر آپ کو اس کی غزلوں میں جدوجہد کرتا نظر آئے گا، آنا چاہیے۔ زبان، بیان، موضوع اور بات; ہر چیز کے لیے محنت کرتا اور سعی کرتا ایک تخلیق کار نظر آئے گا۔یہ جدوجہد، شاہد ہے کہ صابر ہے۔ اس پورے عمل میں وہ اکثر زبان کے سوکھے پن کے ساتھ دکھائی دیتا ہے لیکن اس گنے (شوگر کین) میں شیرینی "نخالص” ہے گویا صابر ہے۔ وہ جو کہتے ہیں کہ فلاں کے یہاں روایت کا شعور ہے۔صابر نے اس شعور کو مناسب تناسب میں سمجھداری سے اپنے شعور کا حصہ بنایا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس کے یہاں روایت اپنی موجودگی الگ سے درج کرواتی نظر نہیں آئے گی بلکہ وہ صابر کے تخلیقی عمل کے جزو کی طرح اپنے کُل میں شامل محسوس ہوگی۔

یہ روح کا گنبف تو نہ اترائے کم از کم
مبہم ہی سہی کوئی جواب آئے کم از کم

ممکن ہے کہ اس پار قیامت کی گھڑی ہو
یہ ساعتِ انکار ٹھہرجائے کم از کم

مجھ سے مل کر وہ ہوگا مجھ سا
میں نے پایا کہ کھودیا ہے اسے

اسی اک پل میں باقی عمر جی لوں
وہ دستک دیتے دیتے رک گیا ہے

ہنستا ہوں کہ جہل اپنا ہوا مجھ پہ عیاں آج
واللی مجھے راز تمھارے نہیں معلوم

اتنا ہے مجھے یاد وہ دن رات عجب تھے
ہاں کون سے عالم میں گزارے نہیں معلوم

ہمیں کیا زندگی کا تجربہ کم ہے
نہ ہوتی ہو بری اچھی نہیں ہوتی

تری آنکھیں بہت کچھ بول دیتی ہیں
ادھوری خامشی اچھی نہیں ہوتی

یہاں مجھے یہ کہنے میں تامل نہیں کہ صابر اپنی غزل میں موجود ہے اور اس کی غزل میں اس کے دستخط کی نشانیاں داد و ستائش کی حد تک موجود ہیں۔ صابر جیسا دریا اپنی روانی میں اپنی کہانی بیان کرے گا۔ مثال کے طور پر دہلی میں جمنا ہمایوں کے مقبرے کے نزدیک دکھائی دیتی ہے اور آگرہ میں تاج محل کے دامن میں۔ وہی ہمایوں کا مقبرہ جہاں ہمایوں دفن ہے اور وہی آگرہ جہاں ممتاز محل، عشق اور اس سے منسلک آگرہ قلعہ جس میں شاہجہاں اپنے ہی بیٹے کے حکم کے تحت نو برس زندانی رہا اور آخری سانسیں لیں۔ صابر کے اندر وہ جو میں نے کہا کہ "نِرا بے صبرا” ہے یعنی تخلیق کار، وہ اسے کسی گھاٹ کو اپنانے نہیں دے گا کیونکہ گھاٹ صابر کا خاتمہ ہے اور صابر ابھی زندہ ہے۔
/

کوئی تبصرہ نہیں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے