دستِ خِرد میں شمعِ جنوں


دستِ خِرد میں شمعِ جنوں
(سید شعیب رضا فاطمی کی نظموں پر ایک تاثراتی اظہاریہ)
انجم عثمانی

فنون لطیفہ میں شاعری کے امتیاز کی وجہ غالباً یہ ہے کہ اس میں زبان کے تخلیقی استعمال کی گنجائشیں لامحدود ہیں۔ زبان میں گرچہ لفظ اپنے محدود لغوی معنوں میں موجود ہوتے ہیں مگر اظہار کی وسعت ان حدوں سے پرے معانی کے ان گوہروں کو تلاش کر لیتی ہے جن کی چمک فن میں موجزن حرارتوں کے لمس سے لطف اندوز ہونے کی راہیں ہموار کرتی ہے اور لفظ لغوی، مستعمل متعینہ حدود سے آزاد ہو کر مختلف الجہات معانی کی سرحدوں کو چھونے لگتے ہیں۔ اس طرح بظاہر ایک عام سا لفظ شعر میں ڈھل کر ایک جہان معانی کو سمیٹ لیتا ہے اور فکر و نظر، جذبہ و خیال اور لفظ و معانی کے درمیا ن ایسا ربط پیدا ہوتا چلا جاتا ہے کہ احساس و آہنگ ایک لطیف تاثر میں ڈھل جاتے ہیں اور قاری و سامع فن پارے سے گزر کر بھی فن اور فن کے حوالے سے فنکار کے ساتھ ساتھ رہتے ہیں۔ پیش کش کے طریقے کی یہی کامیابی فن اور فنکار کی مقبولیت کا بنیادی سبب ہے۔ مگر ! اس تخلیقی سطح تک پہنچنے اور قائم رہنے کے لیے تخلیقی کار کو جن وہبی صلاحیتوں کے ساتھ کسبی صلابتوں کی ضرورت ہوتی ہے وہ کم یاب ہیں۔ اسی لیے کلام موزوں کی فراوانی، مشاعروں اور مجموعہ ہائے کلام کی طغیانی کے اس آشوب میں شاعری جس روپ اور جس مقدار میں بھی مل جائے غنیمت اور قدر کے لائق ہے۔
سید شعیب رضا فاطمی ان کم یاب و کامیاب شاعروں میں ہیں جن کی مقبولیت کا سبب فن کی سچائی اور تخلیقیت کی وہ سطح ہے جہاں تخلیق اور تخلیق کار اس طرح ہم آہنگ ہو جاتے ہیں کہ تخلیق اپنے خالق کا آئینہ اور تخلیق کار اپنی تخلیق کا عکس بن جاتا ہے:
یہ کیا ہے
میرے احساسِ انا کا
ایک ننھا سا
شرارہ ہے
خودی اقبال کی کہیے اسے
یا پھر انا الحق
کچھ بھی کہیے
یہ حقیقت ہے
حقیقت ہی رہے گا
ہاں
بظاہر استعارہ ہے
اسے خورشید بننے دو
جلو میں اس کی
تارے
اپنے محور سے نکل آئیں گے
تم بھی دیکھنا
میرے بدن کی دھوپ جب نکلے گی
پھر
قوس قزح بھی اس سے شرمائیں گے
لیکن
یاد رکھنا
میں تمازت اپنے لہجے کی
روایت پر نہ ڈالوں گا
(نظم:’انا‘ ،ص:27)
سید شعیب رضا فاطمی کے لفظوں کے دیگر اوصاف کے علاوہ ایک نمایاں وصف ان کی بہت سی نظموں کا بے حد ذاتی ہوتے ہوئے بھی ’غیر ذاتی‘ ہونا ہے۔ انھوں نے جو کچھ کہا وہ اکثر ان کے اپنے ذاتی در د و داغ کی داستان ہے، اس لیے اس میں تجربے کی سچائی اور جذبہ کی وہ گرمی موجود ہے جو فرد کے نجی اوصاف کی مرہون منت ہوتی ہے۔ فنکار ی یہ ہے کہ وہ اپنے ذاتی تجربے میں قاری و سامع کو اس طرح شریک رکھتے ہیں کہ وہ درد اس کو اپنا سا محسوس ہوتا ہے:
خدا کی خدائی میں
خود کو
خدا کی طرح
پیش کرنے کی خوبی
اگر تم میں ہے
پھر-!
نہ گھبراؤ
فرعون و شداد و ہامان کے واقعے سے
کہ وہ سارے کردار کمزور تھے
تم جری ہو
(نظم:’ تم جری ہو‘ ،ص:80)
سچا اور اچھا شاعر جس کھرے پن سے اپنے باطنی درد و داغ کو شعری پیکر عطا کرتا ہے اسی کھرے پن سے عہد، سماج، مسائل اور ظاہری حالات کو بھی اپنی ذات میں انگیز کرکے فن کا حصہ بنا دیتا ہے۔ سید شعیب رضا فاطمی نے بھی یہی کیا ہے اسی لیے ان کی نظموں میں انسانی ذہن کی کرنوں کی روشنی، دل کی دھڑکن ، جذبہ کی گرمی، محبت کاجنوں اور مقصد کی وہ خرد مندی شامل ہے جس سے اقبال نے ’ فکر‘ کا، درد نے ’فقر‘ کا میر نے’ سوز‘ کا غالب نے ’ جہان معانی‘ اور صوفیا نے ’ علم‘ کو عام کرنے کا کام لیا تھا۔ شاید یہی وہ مرحلہ ہے جہاں’ فن‘ اور ’ مقصد‘ مل کر ایک ایسے لفظ (وسیلہ) کی تلاش میں مضطرب ہونے لگتے ہیں جو جنوں اور خرد دنوں کی کیفیت کی کامیاب ترسیل کر سکے۔ (جنوں، عشق اور خرد کے بیک وقت برپا ہونے کا سب سے خوبصورت مظہر حج ہے جہاں خرد مندی(مناسک) کے ساتھ جنوں ، عشق(کیفیت) درکار ہے)
سید شعیب رضا فاطمی شاعری میں ’ مقصد‘ پر ایقان رکھتے ہیں۔ ان کا خیال ہے: ’ شاعری برائے شاعری کا میں کبھی قائل نہیں رہا۔ جس طرح میری زندگی کا ایک مقصد ہے اسی طرح میری شاعری کا بھی مقصد ہے اس پر میرا ایقان ہے ۔‘ ( ایک لفظ کی تلاش میں ، ص:14)
یوں بھی ’مقصد‘ کے بغیر شاعری کیا فن کی کوئی بھی شکل ممکن نہیں ہے ، جب خالق حقیقی نے اپنی ہر تخلیق کسی نہ کسی مقصد سے بنائی ہے تو اس خالق کی سب سے خوبصورت تخلیق انسان (فنکار) سے بے مقصد تخلیق کیسے ممکن ہے۔ ’ شاعری برائے شاعری‘ یا ’ فن برائے فن‘ ایک ناممکن العمل اصطلاح ہے۔ مسئلہ وہاں پیدا ہوتا ہے جہاں فن مقصد کے حصول کی طرف متوجہ کرنے میں ناکام رہتا ہے اور یہ بھی فن کی نہیں فنکار کی انفرادی ناکامی ہوتی ہے۔ اگر فنکار اپنی انفرادی حیثیت میں فنکارانہ طور پر مقصد کی ترسیل میں کامیاب ہے تو وہاں فن کا ’ لطف‘ اور مقصد کا ’ فائدہ‘ دونوں اس طرح یکجا ہوتے ہیں کہ نہ فن کے تقاضے مجروح ہوتے ہیں نہ ہی مقصدیت میں کمی آتی ہے لیکن اس کے لیے علم اور تربیت کے ساتھ اس توفیق کی بھی ضرورت پڑتی ہے جس کی سند بڑی سے بڑی درسگاہ میں بھی دستیاب نہیں ہے۔ سید شعیب رضا فاطمی ان خوش نصیب افراد میں سے ہیں جنھیں خالق حقیقی نے تخلیق کی ’ صلاحیت‘ اور ’ توفیق‘ سے نوازا ہے۔ اور یہ توفیق ہی ہے کہ جو زندگی کے مختلف کارہائے منصبی ادا کرنے کے ساتھ ساتھ فن کا حسن بھی ادا ہو رہا ہے:
جب کبھی ظلم کی آندھیوں نے اٹھائے ہیں سر
نخل انسانیت جب ہوا بے ثمر
چند کشکول آگے بڑھے
اور مانوس سی
’ ٹن‘ کی صدا
ایک کشکول میں
ایک سکّہ گرا
باقی ماندہ کا جو کشکول تھے
ہٹ گئے
ایک سکّے کی جادو گری دیکھیے
دیکھتے دیکھتے
دو گروہوں میں
ہم بٹ گئے
(نظم: ’ سکّے کا جدو‘ ،ص:98)
عام طور پر فن لطیف اور خاص طور پر شاعری ’سمجھنے اور سمجھانے‘ سے زیادہ ’ محسوس ‘ کرنے اور ’کیفیت‘ میں شامل ہونے کا نام ہے لیکن پھر بھی اگر’ایک لفظ کی تلاش میں‘ کے حوالے سے سید شعیب رضا فاطمی کی نظموں کو (نصابی و مدرسانہ ضرورتوں کے تحت) موضوعاتی طور پر درجہ بند کرنا ہو تو چند نظمیں ایک کیفیت کی ہیں جسے (سمجھنے سمجھانے کے لیے) رومانی کہہ لیجیے ان میں ’ بے وفا کوئی نہیں‘ ،’مجرم‘،’واہمہ‘،’اقرار‘،’تم نے چھوڑا تھا اس جگہ پر‘ اور ’ انجم کے نام‘ کو شامل کیا جا سکتا ہے۔ کتاب میں بھی انھیں ایک ساتھ رکھا گیا ہے( ص:36تا48)
اسی طرح ’ ابارشن‘ ،’گڑیا‘ ،’ الٹرا ساؤنڈ‘ ،’ کوکھ کی لاج‘ ،’ ڈائن‘اور ’ دہشت گرد‘ موضوع کے اعتبار سے قریب قریب ہیں۔ انھیں بھی کتاب میں ایک ساتھ رکھا گیا ہے (ص:60سے ص68)۔ لیکن یہ معاملہ بھی صرف چند نظموں کے ساتھ ہے ورنہ ہر نظم اپنے آپ میں ایک منفرد تاثر رکھتی ہے اور یہ انفرادی تاثر ہی موضوع کی قربت کے باوجود اس نظم کا جواز ہے۔
سید شعیب رضا فاطمی نے ’ ایک لفظ کی تلاش میں‘ شامل نظموں کو دو ابواب میں تقسیم کیا ہے:
’ میں نے نظموں کو’ باب ذات‘ اور ’ باب کائنات‘ میں قصداً تقسیم کیا ہے تاکہ قارئین میرے ذاتی کرب کو کائنات کا کرب نہ سمجھ لیں، حالانکہ ذات خود اپنے اندر کائنات ہے۔‘(ص:14)
جب ذات کے اند رکائنات ہے (جو ہے) اور کائنات بغیر ذات کے کچھ نہیں تو پھر تقسیم کیا معنی۔ یہ قطرے اور سمندر کے رشتہ کو چلّو میں پانی بھر کر سمجھنے کے مترادف ہے جو نہ سید شعیب رضا فاطمی کی ذہانت سے میل کھاتا ہے اور نہ ہی ان کے شعری رویے سے ہم آہنگ ہے( ہمیں تو یہ کسی ’پڑھے لکھے‘ کا مشورہ لگتا ہے جسے شعیب صاحب نے مروت کی وجہ سے کتاب میں شامل کر لیا ہے) سچ تو یہ ہے کہ ان کی شاعری شخصی بھی ہے۔ عصری بھی اور آفاقی بھی اس لیے کہ یہ شاعری نہ فقط داخلیت کے چیستانوں کی سیر ہے، نہ محض سماجی و معاشرتی مسائل کا معروضی اظہار ہے۔ ان نظموں میں خارجی محرکات(اس مجموعے میں شامل تمام نظمیں کسی نہ کسی واقعے، حادثے یا سانحے سے متاثر ہو کر لکھی گئی ہیں ص:14)شاعر کی داخلی شخصیت کی نمناک روشنی میں ضم ہو کر اظہار کی صورت اختیار کرتے ہیں:
نہ جانے کیوں
ہمیشہ
خواب بن کر
خواب کی تعبیر
سننے کے لیے بے چین رہتا ہے
زبانی دوستی
دل کے نہاں خانے میں
رکھتا ہے
سمجھتا ہے کہ
سادہ لوح ہے سارا زمانہ
اور پھر جب
خواب چکنا چور ہوتے ہیں
تو کر چیں ان کی چن کر
انگلیاں گل رنگ کرتا ہے
دوانہ ہے
حدود عہد سے آگے نکل کر
بے وجہ ہلکان ہوتا ہے
(نظم ’ سراب‘ ص:48)
شخصی’ انفرادی واقعات و سانحات شاعری میں ڈھل کر کس طرح عصری و آفاقی نوعیت اختیار کر لیتے ہیں سید شعیب رضا فاطمی کی دو نظمیں ’برگد‘ (پروفیسر امیر عارفی کی مورت پر،ص:14) اور ’ حکیم عبد الحمید کی وفات پر ‘ص:150 اس کی بہترین مثال ہیں:
اب کیوں چپ ہو
سکتہ کیوں ہے
جب تک اس برگد کو آنکھیں دیکھ رہی تھیں
بہت چہکتے تھے تم
لیکن جب
اس برگد کو
ایک حادثے نے جڑ سے نابود کیا
سب کچھ سونا سونا لگتا ہے‘
نظم شخصی تاثر سے شروع ہو کر صفات کے مختلف مراحل سے گزرتی ہوئی آخر آخر تک آفاقیت حاصل کر لیتی ہے، یوں لگتا ہے کہ ہم سب کا اپنا اپنا برگد ہے جو شاعر کے برگد جیسا ہی ہے۔ یہ برگد جب اکھڑتا ہے تو دل میں اپنی جڑیں چھوڑ جاتا ہے:
برگد نے چلنے سے پہلے مجھ سے کہا تھا
جاؤ لیکن جلدی آنا
آنکھ کھلی تو موبائل کا بزر مسلسل چیخ رہا تھا
بٹن دبا کر
نیند کا ماتم کرنے کو سوچا ہی تھا کہ
کوئی بولا
برگد جڑ سے اکھڑ گیا ہے
جلدی مت آنا
یہی صورت حال نظم’ حکیم عبد الحمید کی وفات پر‘ میں ہے:
ایک بے مثل بے بدل گوہر
اس صدی نے سنبھال رکھا تھا
تاکہ اگلی صدی کو پیش کرے
اور کہے کہ اسے مثال بناؤ
یہ ہے ہمدرد نسل انسانی
(حکیم صاحب کے حوالے سے ہمدرد کی رعایت شعری داد کے لائق ہے)
نظم حکیم صاحب مرحوم کی ذات، صفات اور کارناموں سے گزرتی ہوئی یوں ختم ہوئی ہے:
وائے افسوس ایسا سرمایہ
چھین کر موت لے گئی ہم سے
ورنہ اکیسویں صدی
تم کو
تحفہ بے بہا عطا کرتے
(ص:151)
عام طور پر شاعری میں اور خاص طور پرنظم میں فکر کی صلابت اور جذبے کی حلاوت کا متناسب امتزاج قائم رکھنا آسان کام نہیں ہے۔ سید شعیب رضا فاطمی نے یہ مراحل شخصی تہہ داریوں اور تخلیقی باریکیوں کے ساتھ کامیابی سے طے کیے ہیں، ورنہ نظم میں ’ دانشوری ‘ کے اتنے سراب زدہ مواقع آتے ہیں کہ اگر دل دردمند، ظرف تربیت یافتہ، جذبہ سچا، زبان، متعلقات زبان پر عبور اور آنکھوں میں خواب نہ ہوں تو نہ ’ شعر‘ کے ’ کلام موزوں‘ بننے میں دیر لگتی ہے اور نہ آدمی کے نام نہاد نقاد بننے میں۔ مسائل و مقاصد کو ذات میں جذب کرکے جس شعری سطح پر سید شعیب رضا فاطمی نے نظمو ں میں نبھایا ہے اس کی مثال شاعری کے موجودہ منظر نامے میں خال خال ہی مل سکتی ہے:
’پیروں کے نیچے کیا آیا
چونک پڑا میں
عظمیٰ دیکھو
ہار تمھارا ٹوٹ گیا پھر
سہمی سہمی عظمیٰ دوڑی
پکے فرش سے ان دانوں کو اٹھایا
چہرے پر پھر رونق لوٹی
اور غصے سے مجھ کو دیکھا
پاپا آپ بڑے گندے ہیں
دادی کی تسبیح کچل دی
شرمندہ شرمندہ سا میں
کھڑا ہوا یہ سوچ رہا ہوں
کیسی ہے تسبیح کی قسمت
یکجا کرکے ایک دھاگے میں
پرودیا تو
چو میں اور آنکھوں سے لگائیں
بکھرے تو پیروں میں آئیں
(نظم: ’تسبیح‘ ص:90-91)
واقعے کو مقصد ، مقصد کو شاعری اور شاعری کو دل کی دھڑکن بنا دینا آسان نہیں ہوتا اور نہ ہی یہ ہمیشہ ہوپاتا ہے۔ سید شعیب رضا فاطمی جذبے کی سچائی، مقصد کی پاکی، فطری درد مندی اور بیان پر قدرت کی وجہ سے اس مرحلے سے اکثر کامیاب گزرتے ہیں۔ معلوم سچائیاں اور واقعات نظم ہو کر کس طرح تاریخ کا حصہ بنتے ہیں اس کی بہترین مثال سید شعیب رضا فاطمی کی نظمیں’ ہولی‘ اور ’ دیوالی‘ ہیں۔ اڑیسہ میں گراہم اسٹینس اور ان کے دو بچوں کو زندہ جلا دیے جانے کے سانحے کو بچے کی جس معصومانہ زبان اور لہجے میں بیان کیا گیا ہے (صنعت تضاد) اس سے دلدوز واقعے کی سفاکی اور تاثر میں اضافہ ہو گیا:
’ اوں ، ہوں امی
سونے دونا
آج تو چھٹی ہے ہولی کی
سسٹر کہنا بھول گئی تھیں
لیکن رات گئے ٹی وی پر
میں ان آنکھوں سے؟
ہولی جلتی دیکھتی
لیکن امی
مجھے بتاؤ
جب ہولی جلنے والی تھی
انکل گراہم
اپنے دو بچوں کو لے کر
اس ہولی کی گاڑی میں
کیوں آ سوئے تھے؟
(نظم: ’ہولی‘، ص:84-85)
یہی صورت حال نظم ’ دیوالی‘ میں بھی ہے۔ ایٹمی دھماکے پر بچے کے معصوم سوال نے ساری ترقی( ایٹمی دھماکہ) کو ایک ایسے پٹاخے میں تبدیل کر دیا ہے جسے ہم بچہ(مستقبل) کے ہاتھ میں دیتے ہوئے ڈرتے ہیں۔ یہاں بچہ کا سوال بجائے خود ایک ایسا دھماکہ ہے جس کی دھمک پڑھنے والا اپنے اندر محسوس کرتا ہے۔
واقعاتی نظموں میں ایک بڑا اندیشہ اس بات کا ہوتا ہے کہ نظم میں صرف واقعہ منظوم ہو کر نہ رہ جائے، اکثر اس طرح سننے اور پڑھنے والوں کو ’کلام منظوم‘ یا ’ واقعہ منظوم‘ ملتا ہے، گویا ایک منظوم خبر ہے اور بس۔ لیکن سید شعیب رضا فاطمی جیسا نظم نگار جب واقعے کو منظوم کرتا ہے تو اپنے ساحرانہ اسلوب سے اسے شاعری بنا دیتا ہے اور واقعہ صرف واقعہ یا خبر نہ رہ کر انفرادی اور اجتماعی نفسیات اور حافظے کی امانت بن جاتا ہے۔ اس ’خلاقانہ صلاحیت‘ اور ’ ساحرانہ اسلوب‘ کی مثالیں ’ ایک لفظ کی تلاش میں‘ متعدد جگہ موجود ہیں۔
سید شعیب رضا فاطمی کا ایک بڑا شاعرانہ کمال یہ ہے کہ ایسے وموضوعات جو بظاہر بہت ’ جلی ‘ اور ایسے ’ مقاصد‘ جن کی ترسیل بظاہر بہت’بلند آہنگی‘ سے ممکن ہے ایسے موضوعات اور مقاصد کو بھی ’ شاعرانہ نرمی‘ اور ایک خاص طرح کی ’ دروں بینی‘ کے ساتھ پیش کیا ہے،جس سے موضوع و مقاصد کی قطعیت‘ نے بھی ’ تحکم‘ کے بجائے’ اثر پذیری‘ اختیار کر لی ہے۔ اس کامیابی کی اصل وجہ سید شعیب رضا فاطمی کا وہ درد مندانہ و ہمدردانہ رویہ ہے جو ان کے شخصی مزاج کا بنیادی جزو ہے اور جو دردمندی ان کی ذات سے ہو کر ان کی شعری کائنات میں جگہ جگہ مختلف صورتوں میں ظاہر ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی نظمو ںمیں طنز و انتباہ(نظمیں: ’سرحد‘ ،’پیوست‘،’ تم جھوٹے ہو‘،’جدید انسان‘ وغیرہ) کے باوجود وہ دردمندی موجود ہے جو انسان، انسانیت ، صالح اقدار، خوف خدا، خاندانی شرافت، ادبی نجابت اور خلق خدا سے محبت جیسی صفات کا مجموعہ ہے۔ دردمندی ہی ایک ایسی صفت ہے جو دلوں میں سوز اور ذہن میں ایسے ساز کو جنم دیتی ہے جس صدا کی روح، نا قوس و اذاں بن کر قلب کو قلب سلیم عطا کرتی ہے اور زخموں کے لیے مرہم بن جاتی ہے۔ یہ ’ درد مندی‘ سید شعیب رضا کی نظموں کی روح اور بنیادی صفت ہے۔’ ایک لفظ کی تلاش میں‘ لفظ کی ’ تلاش‘ سے زیادہ اس ’ درد مندی‘ کو برتا گیا ہے جو شاعر کے مزاج اور ان کی شاعری کا بنیادی عنصر ہے۔ گرچہ ’ لفظ‘ کے عنوان سے بھی ان کی ایک بہت اچھی نظم ہے جس میں ’ لفظ ‘ کے سارے امکانات کو بیان کرنے کی کوشش کی گئی ہے:
’ لفظ…!
ایک دنیا ہے
اندرون میں اس کے
ملک اور موسم ہیں
جذب کو کشف کا عالم
لفظ سے عبارت ہے
لفظ کے وسیلے سے
دائمی حقیقت ہے
طویل نظم میں لفظ کی مختلف علوم میں صورتیں، لفط کی ناگزیری اور لفظ کے فلسفہ کو بیان کرنے کی کوشش کی گئی ہے لیکن اس نظم کا اختتام ایسے تاثر اور سوال پر ہوتا ہے جس سے ’ لفظ‘ کی تلاش پھر سے شروع کرنا پڑ سکتی ہے:
’ فلسفے کی بنیادیں
لفظ ہی نشانے پر
لفظ کی حقیقت ہے
منکشف زمانے پر
لفظ ہی کے لشکر ہیں
یہ قرآن و گیتا بھی
لفظ کی خدائی میں
ان سے کوئی جیتا بھی…؟
(نظم : لفظ ، ص:55,56,57)
’ ایک لفظ کی تلاش میں‘ کی ہر نظم گرچہ مقصد، موضوع اور بیان کے اعتبار سے اپنے آپ میں مکمل اور ’ انفرادی تاثر‘ کی حامل ہے لیکن سب نظمیں ایک خاص مشیت فکر، ملی و وطنی مسائل و مستقبل کا خیال، صالح اقدار، ورثے کی حفاظت، لفظ کی حرمت اور معانی کی وسعت اور انسانی دردمندی کے باطنی احساس سے مربوط ہیں۔ ہر نظم ’ کچھ کہتی ہے‘ ، کوئی سوال‘ کرتی اور سننے پڑھنے والے کے دل میں گھر کر جاتی ہے مگر ! ایک نظم ایسی بھی ہے جس میں شاعر کی ساری فکر یکجا ہو کر ماضی(ورثہ) کا آئینہ، حال کا بیان اور مستقبل کی امید بن جاتی ہے۔ اس نظم کا عنوان ہے: ’ سچ کا سکّہ‘
آؤ تمھیں اک بات بتاؤں
یاد رکھو گے
اپنی بیتی تمھیں سناؤں
یاد رکھو گے
بچپن میں
میں نے پاپا سے سکہ مانگا
پاپا نے لوہے کا سکہ دیا نہیں
لیکن سچ کا ایک روشن سکہ
ڈال دیا میرے ہاتھوں میں
40سالوں سے میں
اس سچ کے سکے کو
بازاروں میں لیے پھرا ہوں
لیکن واپس ہو جاتا ہے
کوئی نہیں لیتا اس کو
میں…!
بدحال، پریشاں
وہ سکہ تم کو دینے آیا تھا
لیکن دینے سے پہلے یہ سوچ رہا ہوں
کیا تم سے وہ چل پائے گا
کیونکہ ساری دنیا
اب سچ کے سکے کو
کھوٹا سکہ مان رہی ہے
لیکن میری مجبوری ہے
سچ کا وہ سکہ تو ہے میراث تمھاری
شاید کل
جب تم اپنی دنیا
اپنے ہاتھوں سے بناؤ
اور اس دنیا میں
سچ کے سکے کا اک ٹکسال لگاؤ
دنیا کے بازاروں سے تم
کذب و ریا کے ڈالر اور نوٹوں کو نکالو
یہ ذمہ داری ہے تمھاری
کیوں کر
یہ سچ کا سکہ
ایمان بھی ہے
قرآن بھی ہے
بھگوان بھی ہے
ہم تو بابا شرمندہ ہیں
جھوٹ کی دنیا میں زندہ ہیں
(نظم: سچ کا سکہ، ص:121-123)
پوری نظم موضوع کی توانائی کے باوجود نہایت سادہ، سلیس اور عام لفظوں میں نرم گفتگو کے انداز میں سنائی گئی ہے اور کئی نسلوں ، عہد اور ازلی سچائیوں کے وسیع کینوس کے باوصف بظاہر بالکل آسان ہے مگر؛ عام سے لفظوں کو جس طرح چن چن کر صحیح جگہ اس طرح استعمال کیا گیا ہے کہ یہ عام سے لفظ مختلف ابعاد کے حامل ہو گئے ہیں۔ مثلاً: کذب و ریا کے ساتھ ’ ڈالر اور نوٹ‘ ۔ کرنسی کی یہ عام شکل مصرعہ میں اس طرح استعمال ہوئی ہے کہ بغیر کچھ اور کہے وہ سب کچھ کہہ دیا گیا ہے جو کہا جانا چاہیے تھا۔ ایسے ہی لفظ ’ٹکسال‘ سے وہ سب کچھ کہہ دیا گیا ہے جو ’ ورثہ‘ سونپتے ہوئے کہا جانا چاہیے تھا۔ نظم اس طرح فرد سے ملت کی طرف سفر کرتی ہے کہ اس میں شاعر کی ملی درد مند ی، احساس ذمہ داری، امانت کی حفاظت اور منتقلی نہایت آسان لیکن بہت ہی موثر طریقے سے سامنے آتی ہے۔ شاید ایسے ہی موقعوں کے لیے ’ کوزے میں سمندر‘ کا محاورہ ایجاد ہوا ہے۔ نظم جس طرح گفتگو کے انداز میں شروع ہوئی تھی اس کا بھی تقاضا تھا کہ بات عام لفظوں میں ہو تاکہ سچ کا وہ قیمتی ورثہ جن تک پہنچنا ہے وہ اسے ’ بوجھ‘ نہیں ’خزانہ‘ سمجھیں۔ بے انتہا قیمتی اور ضروری چیز کو پہنچانے کے لیے جتنی احتیاطوں اور اہتمام کے ساتھ جرأت کی ضرورت تھی شاعر نے اس کا حق کر دیا ہے۔ یہ نظم اس لحاظ سے مشکل ترین تخلیق ہے کہ اس میں سچ مچ تخلیق کار کو خون جگر صرف کرنا پڑا ہوگا اس لیے کہ ورثہ’ جگر گوشوں‘ کے سپرد کرنا تھا۔ اس نظم میں شاعر وہ سب کچھ کر گزرا ہے جس کے لیے وہ ’لفظ کی تلاش میں‘ ہے۔ جو غالباً اس کی شاعری کا ’ مقصد ‘ ہے اور شاید اس جیسے لاتعداد دلوں کا ارمان اور آنکھوں کا خواب بھی۔
میں سید شعیب رضا فاطمی کی نظموں کے ایک قاری کی حیثیت سے اپنے اس تاثرمیں آپ کو شریک کرنا چاہتا ہوں کہ :’ ان کی نظموں کے مطالعے نے خود مجھ میں اپنی بازیافت کا لطف بخشا‘۔ جسے میں شاعر کا احسان اور ان کی شاعری کا ثمر سمجھتا ہوں۔ خدا کرے وہ دست خرد میں شمع جنوں اٹھائے بساط فن پر اسی طرح رواں دواں رہیں۔اس لیے کہ ان کی طرح ہر درد مند کو اس کا یقین ہے کہ:
ہاں……
مگر یقین راسخ ہے اس عمل پر
عمل کا ردِّ عمل
یقینا عظیم ہوگا
خدا ادب پر رحیم ہوگا
(نظم: ’ رد عمل‘ ،ص:117)
انجم عثمانی
ستمبر2018

کوئی تبصرہ نہیں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے