بے خواب راتوں میں ریاض لطیف کا جنونِ عدم تراشی
(شہرام سرمدی)
تقریبا دس برس قبل، تہران میں قیام کے دوران ہندوستانی سرود نواز پنڈت راکیش پراسننا کنسرٹ کے لیے جب وہاں آئے تو ان سے کئی روز ملاقات رہی۔ پنڈت جی کے ساتھ ساتھ سرود کو بھی نزدیک سے دیکھنے کا موقع ملا۔ ایک دن گفتگو کے دوران پنڈت جی نے بتایا کہ ‘سرود’ میں ‘سِتار’ کی مانند پردے نہیں ہوتے۔ اسی لیے جب ‘ریاض’ ہو تو ‘لطف’ آتا ہے۔ پنڈت جی نے یہ بھی بتایا کہ ‘سرود’ کی آواز میں ایک گہری، وزنی، خود شناسی کی کیفیت ہوتی ہے۔
جب کبھی ریاض لطیف کا خیال آتا ہے تو سرود نواز کی انگلیاں سی ذہن میں ابھرتی ہیں جو ‘پردہ’ نہ ہونے کے سبب غیر واضح سمتوں میں تاروں کو ڈھونڈتی اور چھوتی ہوئی محسوس ہوتی ہیں۔ وہی انگلیاں جب کسی کاغذ پر چلتی دکھائی دیتی ہیں تو ریاض لطیف کی شبیہ نمودار ہوتی ہے۔ ریاض لطیف کے شعری عمل میں ان کا بنیادی سروکار ‘شعر بنانے’ سے زیادہ ‘بات’ کے بتانے سے تعلق رکھتا ہے۔ "بات” جو سوچتے ہوئے ذہن میں ‘ہرچند کہیں کہ ہے نہیں ہے’ کی مانند وقوع پذیر ہوتی ہے۔ یہ "بات” خبر کے بجائے فکر پر مبنی ہوتی ہے۔ مذکورہ ‘بات’ یا ‘فکر’ بیشتر اوقات استفہامیہ لہجے کی شکل میں سامنے آتی ہے۔ یہ "استفہام” مطلق نہیں بلکہ "استفہام” کے ارتعاش کی طرف لے جاتا ہے۔ یہ ارتعاش دھند بھری روشنی کا ماحول پیدا کرتا ہے۔ اس میں نامعلوم عمق تو ہے لیکن درکار وسعت ناپیدا ہے۔
‘ہندسہ بے خواب راتوں کا’ (۲۰۰۶)، ‘عدم تراش’ (۲۰۱۶) اور حال ہی میں دیوناگری میں شائع شدہ ‘جنم جنم جنوں میں ہم’ (۲۰۲۲)، ریاض لطیف کا شعری سرمایہ بھی ہے اور شعری سفر بھی۔ یہ سفرنشیب و فراز سے عاری ایک ‘دائروی سفر’ ہے۔ اس سفر کا تمام راستہ تقریبا ہموار ہے۔ اس میں پڑاؤ جیسا کہیں کچھ بھی واضح نہیں ہے۔آغازِ سفر کے ہم سفر تا آخر پہلو بہ پہلو ہمراہ موجود رہتے ہیں۔ ان کے یہاں "عدم” کی موجودگی کا ذکر ہے۔ جس کا ساٹھ کی دہائی والی "وجودیت” وغیرہ سے براہِ راست تعلق نہیں ہے۔ ان کا "عدم”، متحرک، رواں اور سیال ہے۔ اس نکتہء نگاہ سے دیکھا جائے تو ریاض لطیف کی شاعری متوجہ کرتی ہے کہ انہوں نے ایک مخصوص طرزِ فکر کو شعر کے قالب میں ڈھالنے کی کامیاب کوشش کی ہے۔ یہ بات صحیح معلوم ہوتی ہے کہ ان کے یہاں ‘سوچ’ کے لحاظ سے ‘خود کفالتی’ کا رجحان ہے اور ‘زبان’ کے اعتبار سے ان کے یہاں ‘توکل’ کی صفت پائی جاتی ہے۔ البتہ مجھے یہ کہنے میں پس و پیش نہیں کہ کہ ریاض لطیف اپنے پورے ادبی سفر میں ذہنی سطح پر جدیدیت کے قدآوروں کے زیرِ سایہ رہنے میں ہی اپنی شناخت کو مضبوط کرنے کی کوشش میں لگے رہنے ہی میں عافیت میں پاتے ہیں۔ فکری نگاہ سے دیکھیں تو ان کے یہاں "عدم” کو تراشنے کا عمل ہے:
اک نقش تو ٹھہرا تھا روانی کے بدن پر
جب بن کے بھنور ہم ترے گرداب میں آئے
میری آواز میں جو
زمانوں کا پھیلاؤ
بہتا ہے غیبی کناروں کی انگڑائیوں تک
جہانوں کی ناپیدا پر چھائیوں تک
(عدم رنگ ہونٹوں کی تاویل)
لفظیاتی اصطبل کی رُو سے ریاض لطیف کی شعری عمارت اپنے قریبی پیشرؤں سے مختلف نہیں ہے اور نہ ہی انہوں نے اس طرف توجہ دینے کو اولیت دی ہے البتہ اس اصطبل میں لائے گئے ‘اسبِ فکر’ کی راہ پیمائی اپنے محدود دشت کے سبب ذرا الگ سی معلوم ہوتی ہے۔ یہاں یہ بات بھی ملحوظ رکھنی ہوگی کہ ‘فکر’ کی سرشت میں ایک طرح کی خشکی ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس ‘دشتِ خشک’ میں قدم زنی کی وجہ سے ریاض لطیف کے اسبِ فکر کے پاؤں زخم خوردہ بھی ہوئے ہیں۔ناخن کھُرکھُرے ہوئے ہیں اور ان میں ایک ناہمواری درآئی ہے۔ اپنے شعری سفر میں، اسی ‘اسبِ فکر’ کی از صج تا شام سواری، ریاض لطیف کا اصل وظیفہ ہے اور شعری وتیرہ بھی ۔
ریاض لطیف کے یہاں ایک طرح کی ‘فکر بالجہر’ Loud Thinking ہے۔ دیکھا گیا ہے کہ سوچتے ہوئے ذہن کو ایک بات میں در آتی ہے اور وہ اُس میں محو ہوجاتا ہے۔ سوچتے ہوئے ذہن کو کچھ کہنے یا بہت کچھ کہنے میں، زیادہ دلچسپی نہیں ہوتی البتہ وہ کچھ کہتا ہے۔ سوچنے والا سوچنے کے عمل میں مرکز پر مرکوز ہوتا ہے۔ وہ جو کہتا ہے اگر اس کی وضاحت نہ کی جائے تو سننے والے بطورِ مجموع سمجھ لیتے ہیں۔
جب ریاض لطیف فکری کے شگافوں میں اندر اترتے ہیں تو گاہ "خلا” میں "رگ” دیکھتے ہیں اور گاہ وہ "ابد” کی "حد” پھلانگنے کی کوشش کرتے نظر آتے ہیں:
خلا کی رگ میں ہیں آثار میرے
نہیں ہوتے ہوئے بھی ہو گیا ہوں
پھلانگوں کون سی اب حد ابد کی
تری سانسوں تلک تو آگیا ہوں
تعلیم اور پیشے کے اعتبار سے ریاض لطیف ‘تاریخِ معماری’ کے شعبے سے وابستہ ہیں۔ ان کی شاعری پڑھتے ہوئے بعض اوقات ایسا لگتا ہے کہ ایک ‘مورخِ معماری’ کسی عمارت کو اپنے مخصوص زاویے سے بیان کر رہا ہوں۔ اس بیان کرنے کے عمل میں وہ اس قدر محو ہوجاتا ہے کہ اس کو مذکورہ عمارت کی بابت سوچنا اور سوچتے رہنا بھی ایک "حاصلِ کار” بھی لگتا ہے اور اس کے مزید اندرون میں جھانکنا اضافی۔ اب درج ذیل شعر ملاحظہ فرمائیں جس میں لطفِ شعر بھی عمدگی سے درآیا ہے۔ یاد رہے کہ’لطفِ شعر’ جیسی شے ان کے یہاں خال خال ہی دیکھنے کو ملتی ہے اس لیے :
کم تو نہیں ہے ریاض اس کے فسوں کا سفر
اور اترنا بھی کیا خاک کی تفصیل میں
وہ بے زمان تمدن کے بے زماں سائے
ہماری خاک میں بیدار ہونے آئے ہیں
ریاض لطیف کو شعور کی کسی نہ کسی سطح پر اس کا احساس ہے کہ ان کے یہاں ایک طرح کی "نَفَس تنگی” Suffocation ہے۔ ممکن ہے نفسیاتی رویے کے تحت یہ بھی ایک سبب رہا ہو کہ وہ کبھی نئے جہانوں میں خود کو بونے کی بات کرتے ہیں،کبھی وقت سے پرے زماں میں بکھرنے وغیرہ کی تمنا کرتے ہیں:
پھر اپنے بین السطور میں کچھ
نئے جہانوں کو بو کے دیکھوں
بکھروں ترے زماں میں سانسوں کے لامکاں میں
ہو وقت سے پرے وہ لمحہ پہن کے آؤں
آئے صدا صدا وہ اپنی صدا پہن کر
میں بھی کسی خلاء کا لہجہ پہن کے آؤں
"لمحہ پہن کے آؤں” یا "خلاء کا لہجہ پہن کے آؤں” جو پیکر خلق کیے گئے ہیں ان کی مخصوص حسیات سے اہلِ ذوق بخوبی محظوظ ہوسکتے ہیں۔
ریاض لطیف کے عمومی رویے میں فرد کی حیثیت سے احتجاج کم ہی دکھائی دیتا ہے لیکن کہیں کہیں ایک قسم کی جھنجھلاہٹ محسوس ہوتی ہے البتہ یہ ایک بالغ اور تربیت و تعلیم یافتہ فرد کی جھنجھلاہٹ ہے جس کے لہجےمیں "تلخی” کے بجائے "اصرار” ملتا ہے۔ مثلا جیسے کوئی کہے:، "ایسا ہے تو ایسا کرنا چاہیے تھا”۔ شعر ملاحظہ فرمائیں:
یہیں پر ختم ہونی چاہیے تھی ایک دنیا
یہیں سے بات کا آغاز ہونا چاہیے تھا
ریاض لطیف یعنی یہ مورخِ معماری کبھی کبھی عمارتوں کے ظاہر و باطن کو دیکھتے دیکھتے فلسفے کے سَبُک دوش پر سوار ہوجاتا ہے اور "سوال و تجسس” کے تانے بانوں میں محو ہوجاتا ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ اس دوران اس کے یہاں یہ سب اوڑھا ہوا نہیں ہوتا ہے بلکہ مطالعہ و فکر سے جو کچھ اس کے اندر جگہ پاتا ہے وہ اس کو بتاتا نظر آتا ہے:
ہمارے درمیاں کھوئے جہاں کا
یہ کیسا سلسلہ زندہ ہوا ہے
ایسا بھی ہو کہ ساری صدائیں سمیٹ کر
مجھ کو کہیں سکوت میں جانا ہی اور ہو
۔۔۔ ابد کے سلاسل میں جکڑی ہوئی ساری چیزو
کہ میں وقت کی بوندیں
پیاس کی طرح بویا گیا ہوں
زمانوں کی آنکھوں سے رویا گیا ہوں
میں منظر کسی لمحہء ماوراء کا
میں ہم عصر ہوں تتلیوں کے پروں کا، ہوا، خدا
(معذرت)
جیسا کہ عرض کیا کہ لفظیاتی نکتہءنظر سے ریاض لطیف کے یہاں کسی طرح کی دوڑ دھوپ نظر نہیں آتی اور وہ "ماحضر” پر اکتفا کرتے ہیں لیکن گاہے گاہے سامنے کے عام سے لفظ کو کچھ اس طرح استعمال کرتے ہیں کہ معنوی اور لغوی سطح پر فضا ایک دم بدل جاتی ہے:
پار جا کر جہانوں کی تکمیل ‘کے’
خود تلک آگئے، مختصر ہوگئے
۔۔۔ وقت ناپید سے آتے جاتے
اس کی تاریخ میں سوجاؤں گا
میں اگر تھا تو میں ہوجاؤں گا
(مستقبل کی یاد میں)
یہاں یہ کہنا بیجا نہیں ہوگا کہ اسی (۸۰) کی دہائی میں ادبی منظرنامے پر رونما ہونے والے نوجوانوں میں سے بیشتر نے یا تو جدیدیت کے علمبرداروں کی خدمت گزاری کو ترجیح دی یا ان سے وابستہ کرنے ہی میں خود کو محفوظ محسوس کیا۔ یہ بھی ایک وجہ ہے کہ باوجود قابلیت رکھنے کے مذکورہ نوجوان ایسا قابلِ ذکر کام انجام نہ دے سکے جس کی اہلیت کے ساتھ ان کو زمین پر اتارا گیا تھا بلکہ اس کے برعکس اپنے چھوٹے چھوٹے ذاتی مقاصد کے حصول کے لیے خود کو ضائع کر دیا. اس کے مد مقابل ریاض لطیف کو مطالعہ و تجربہ کی رُو سے سوچنے, ایک وسیع تر دنیا کو دیکھنے اور اس میں زندگی کرنے کا موقع میسر آیا. یہی وجہ ہے کہ بڑی حد تک وہ مذکورہ نوجوانوں کے قبیلے سے خود کو ذرا الگ رکھ سکے. یہ بھی سچ ہے کہ ان کا ‘نال’ جہاں گڑا تھا، وہی ان کا کُل جہاں تھا۔
ریاض لطیف کی غزل اور نظم ایک دوسرے مختلف نہیں ہیں بلکہ ایک دوسرے کےلیے فکری سطح پر بتدریج "اشارہ و تفصیل’ اور ‘خیال و بیان’ کی نگاہ سے دیکھیں تو ‘تکمیل’ ہیں۔ اگر وہ اپنی دنیائے ادب کے گزشتہء قریب سے ‘احساس’ و ‘زبان’ کے نکتہء نگاہ سے شعوری طور پر فاصلہ اختیار کرتے تو مجھے یہ کہنے میں شبہ نہیں کہ ان کے یہاں لطفِ سخن ‘دوبالا’ ہوجاتا البتہ یہ بات بھی پیشِ نظر رکھنا ہوگی کہ معاصر شعری منظر نامے پر، ممبئیہ زبان میں بولیں تو ایسا ‘ایک مالا’ (ایک منزلہ) بھی اب کم ہی دکھائی پڑتا ہے۔
اب جب میں یہ تاثرات تحریر میں لا چکا ہوں تو ریاض لطیف کہہ رہے ہیں:
سارے مفہوم کھل اٹھیں گے پھر
مجھ کو معنی سے ہٹ کے دیکھ ذرا
قبول، اگلی مرتبہ معنی سے ہٹ کر دیکھنے کی بھی کوشش کی جائے گیا!
/
کوئی تبصرہ نہیں