صابر : معبد تخلیق کا اعتکاف گزار


: معبد تخلیق کا اعتکاف گزار

ارشد جمال صارم
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
                فنِ شاعری کو رکھ رکھائو، وضع داری، خوش خلقی، محاکات نگاری اور منظر آفرینی سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ اعلیٰ شاعری خوبصورت قرینے، دلکش اُسلوب اور کیفیاتی آمیزش سے جذب و کشش کا ایسا آئینہ پیش کرتی ہے جو عکس در عکس خوشگوار حیرت میں مبتلا کرتی رہتی ہے۔ یوں کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ شریعت اور شعریت دونوں اپنا جواز آپ فراہم کرتے ہیں اور ذہنی و روحانی سطح پر ربط و انسلاک کے ایک سلسلے کودراز کرتے چلے جاتے ہیں۔ فی الوقت میں بھی ایسے ہی ایک سلسلے سے مرید ہوں اور صابر کے شعری صحیفے ’’قسط‘‘ کے طفیل احساسِ جمال کی سیرابی کا سامان کر رہا ہوں۔
                 صابر حقیقی معنوں میں اپنے نام کی مکمل اور سچی تصویر نظر آتے ہیں۔ ہم جیسے لوگ جن کو شاعری کم اور خود فریبی زیادہ عزیز ہے، جو خود ستائی کے ہاتھوں مجبور ہوکر کچے پکے اشعار کی نمائش کا بازار لگائے پھرتے ہیں اُن کی درویشانہ روش اور تخلیقی ریاضت کے قریب بھی نہیں ٹھہرتے ہیں۔ معاملہ یوں ہے کہ تقریباً پندرہ برسوں سے میرا اُن سے سماجی ارتباط قائم ہے اور اِس پورے عرصے میں شاید ہی مَیں نے اُن کی دس سے زائد غزلوں کی قرأت کی ہو۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ کبھی کبھار دور دراز علاقوں سے ’’دال دلیا‘‘ کے توسط سے اُن کی خوش ذائقہ تخلیقات کی اشتہا انگیز خوشبوئیں ہم تک پہونچتی رہی ہیں جو عروقِ شامہ کو بر انگیختہ کر کے یہ جا وہ جا ہو جاتی ہیں۔ خدا جانے وہ کب سے معبدِ شعر میں دھونی رمائے بیٹھے ہیں۔ سچائی یہی ہے کہ ’’قسط‘‘ کی اشاعت سے قبل ادبی دنیا صابر کو شاعر سے زیادہ ایک ناقد کے طور پر جانتی اور مانتی رہی ہے۔ ایسی صورت میں اُن کی یک مشت شعری تخلیقات کی قرأت ہمارے لیے کسی نعمتِ غیر مترقبہ سے کم نہیں ہے۔
                شاعر فطرتاً ماورائے حسیات پیکر اور اشیا کو ردائے اظہار پر منقش کرنے کا تمنائی ہوتا ہے جس کے لیے وہ ظاہری حواس کے ساتھ ساتھ متخیلہ کو بھی حد درجہ فعال کر لیتا ہے۔ یہ عمل اسے اطراف و اکناف کے مشاہدے، کائنات کے منطقوں کی سیر اور ورائی و ماورائی کیفیات کے جذب و انجذاب پر مامور کردیتا ہے۔ پھر وہ اپنے داخلی وجدان کی انگلی تھام کر حرف و لفظ کو تمام تر فنی مہارت سے یوں پروتا چلاجاتا ہے کہ سطر در سطر معنوی تکثیریت کا ایک جہان آباد ہو جاتا ہے۔ گویا کہ شاعری محض لفظیاتی کاریگری نہیں ہے بلکہ یہ جذبے کی شدت، احساس کی صداقت، فکرکی رفعت، تہذیبی پرداخت، ادبی توارث اور جملہ جمالیاتی اقدار کی ترسیل کو اپنی بساط کا حصہ بناتی ہے۔ یہ تمام چیزیں جتنی توانائی کے ساتھ شعر کا جز بنتی ہیں شاعری بھی اعتبار کے ویسے ہی مدارج طے کرتی ہے۔ چنانچہ ’’قسط‘‘ کا بالاستیعاب مطالعہ ہم پر یہ منکشف کرتا ہے کہ صابر کی شعری عبادت گزاریاں بھی انھیں مراحل سے اپنی منزل کو پہنچ کر اتمامِ حجت کرتی ہیں۔ چند اشعار ملاحظہ کیجیے:
کچھ ذرا اور بڑھے شور کا بے معنی پن
میری خاموشی بہت صاف سنائی دے گی
کتنی تصویروں کو رکھتی ہے اُجالے ہر دم
دل کی قندیل جو لٹکی ہے دیارِ جاں میں
پھر خاک میری بیٹھ گئی ہے زمین پر
اندیشے سارے دور ہوئے آسمان کے
صحنِ جاں میں تھی شے کوئی خوش ذائقہ
اک گلہری دبے پائوں آ لے گئی
ٹھنڈ بہت ہے، برف صفت کا قصہ چھیڑو
آتشداں میں اک انگارہ خوش ہوتا ہے
وہ خالی ہاتھ پلٹ جائے اس لیے خود کو
خزاں سے پہلے ہی بے برگ و بار کر لیا ہے
ہم پر نہیں پڑے گی نظر خاکروب کی
ہم اک عجیب قسم کی بے رنگ خاک ہیں
سیاہی ختم ہوئی، خشک ہو گئے اوراق
دعا کے چاک پہ پھرتی ہے آس کی مٹی
ہوا سے ہار جاتی ہیں طنابیں
بدن میں خیمہ زن ہونا برا ہے
ہوئے پشیماں اگر عاصیانِ شہر تو کیا
اذاں سے پہلے بھی مسجد کہاں کشادہ تھی
ہم اس کی خاطر بچا نہ پائیں گے عمر اپنی
فضول خرچی کی ہم کو عادت سی ہو گئی ہے
                مذکورہ اشعار میں دمِ تخلیق صابر کے متخیلہ پر جو پُربہار فضا طاری ہے اسے بس محسوس کیا جا سکتا ہے۔
                صابر کے اولین مجموعہ کلام ’’قسط‘‘ کی سطربینی ہمیں قدم قدم ایسے اجالوں سے روشناس کراتی ہے جن کی تجلی میں ان کا پورا کلام جگمگ کرتا نظر آتا ہے۔ تازہ کار اسلوب، دلکش استعارے، نپے تلے مصرِع اور خیالات کی مکمل ترسیل کرتا ہوا شعری بیانیہ اُن کی غزلوں کے وہ اہم عناصر ہیں جن کو اُنھوں نے بصد اہتمام برتا ہے۔ اُن کے یہاں خیال، لفظیات اور تراکیب آپس میں اس قدر مربوط ہوتے ہیں اور ایسے بے پناہ تخلیقی وفور کے ساتھ تشکیل پاتے ہیں کہ وہ ورق سے سیدھے دل کی طرف مرتکز ہو جاتے ہیں۔ ان کے لہجے کی سبک روی مدھم سروں والے نغموں کا ایسا آبشار ٹھہرتی ہے جو پتھریلی وادیوں سے گزر کر بھی صرف محبت کے سرگم چھیڑتی رہتی ہے:
میری نظروں کے داغ ہیں تجھ پر
لمس کے پانیوں سے دھونے دے
ترے تصور کی دھوپ اوڑھے کھڑا ہوں چھت پر
مرے لیے سردیوں کا موسم ذرا الگ ہے
اب بھی پیمانِ وفا دونوں نبھاتے خوب ہیں
بس ذرا اک حیلۂ کم فرصتی ہے درمیاں
مجھ سے مل کر وہ ہوگیا مجھ سا
میں نے پایا کہ کھو دیا ہے اسے
کنارہ چھوڑ کے موجوں کے ساتھ بہہ نکلا
عجیب پیڑ تھا، کیا سوچتا رہا برسوں
جیسے کچے گھر پہ برسے قہر بارش کا
سچ بتائو ٹوٹ کر ہم سے ملے کیوں ہو
اسی اک پل میں ساری عمر جی لوں
وہ دستک دیتے دیتے رک گیا ہے
                شاعری دراصل وہ تخلیقی اظہاریہ ہے جو موجود و ناموجود کے درمیان ربط کی ایک ایسی خوبصورت توضیح پیش کرتا ہے جس سے حسیات عالم سرشاری سے دوچار ہو جاتی ہیں۔ شاعری میں وہ بات کم اہم ہوتی ہے جو کہہ دی گئی ہو بلکہ زیادہ اہم وہ دوسری بات ہوتی ہے جسے چھپا لیا گیا ہو۔ صابر گفتنی کو جس قدر سلیقے سے لفظوں کا پیراہن عطا کرتے ہیں اسی قدر اہتمام کے ساتھ ناگفتنی کو بھی درونِ متن پرو دیتے ہیں۔ ان کی غزلوں کے بیشتر اشعار ایسے چلتے پھرتے واقعاتی اُسلوب کے حامل ہوتے ہیں جو پس واقعہ بھی اور بہت کچھ کہتے ہیں:
جانے پھر کس موڑ پر مل جائے کوئی آشنا
گھر سے ہم نکلے تو ہیں لیکن بہت سہمے ہوئے
یہی نا! تالیاں پیٹے گی دنیا
مجھے پتھرا کے تجھ کو کیا ملے گا
تمہارے خواب کی قسطیں ہیں باقی
ابھی ہم جاگنے والے نہیں ہیں
اس کی آنکھوں کی چمک کہتی ہے
وہ مجھے دھونڈ رہا تھا اب تک
                عام حالات میں کسی مانوس چہرے سے ملاقات مسرت کا باعث ہوتی ہے لیکن ایسی حالت جب آدمی کسی آشنا سے ملنے کے خوف سے ہی لرز اٹھے، جس آزار اور دکھ کی غمازی کرتی ہے، اُس کے پیچھے انسانیت سوزی کی ایک اذیت ناک داستان چھپی ہوئی معلوم ہوتی ہے۔ اب دوسرے شعر کو ہی لے لیں اس میں بھی تالیاں پیٹنے اور پتھرانے سے شعبدہ گری کا منظر سامنے آتا ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ شعر میں پتھرا جانے کی اذیت کا جس پُرسوز انداز میں اظہار کیا گیا ہے، اُسے مشکل سے بیان کیا جا سکتا ہے۔ باقی کے دونوں اشعار بھی کہی اور اَن کہی کی ایسی ہی کیفیات کا اظہار کرتے ہیں۔
                صابر نے اپنی شاعری میں لفظوں کو ان کی پوری حرمت کے ساتھ برتنے کا جو قرینہ پیش کیا ہے، اُس کی مثالیں نایاب نہیں تو کمیاب ضرور ہیں۔ انھوں نے جہاں بعض نو تراشیدہ تراکیب کو پوری معنوی وسعت کے ساتھ استعمال کیا ہے وہیں وہ متروک ہوتے الفاظ (نگوڑی، سانکل، مُلّانی، بسترے، کاگے، لوٹن کبوتر وغیرہ) کو تمام تر زرخیزی کے ساتھ استعمال کر کے احساسات کے گم شدہ سانچوں کی بازیافت میں بھی منہمک نظر آئے ہیں۔ کہیں کہیں انھوں نے زبان کو برتنے میں تجرباتی اسلوب بھی اختیار کیا ہے لیکن پھر اُن سے یہ کہہ کر تائب ہوگئے ہیں کہ :
حرف و صدا کے ذائقے بدلیں کہاں تلک
بڑھتے ہی جارہے ہیں تقاضے زبان کے
                صابر کے شعری رویوں اور فنی انفراد پر روشنی ڈالنا نسبتاً مشکل امر ہے۔ وجہ یہ ہے کہ غزل کے دامن کی طرح اُن کے فکر و خیال کی پہنائیاں بھی کسی خاص علاقے تک محدود نہیں ہیں۔ اپنی تخلیقات میں وہ طرح طرح کے رنگوں کے اظہار پر قادر نظر آتے ہیں۔ وہ ہر طرح کے مضمون کو برتائو کی حسن کاری سے دل آویز بنانے کا ہنر جانتے ہیں۔ اُن کا شعری گلستان نیرنگیوں سے عبارت ہے جس میں گلہائے فکر پر منڈرانے والی تتلیاں کسی خاص رنگ کی نمائندگی نہیں کرتی ہیں۔ وہ جہاں ایک طرف نئے آفاق کے متلاشی دکھائی دیتے ہیں وہیں ان کے بعض اشعار میں غزل کی تہذیب قدیم کی طرف مراجعت بھی نظر آتی ہے۔ لیکن ان سب کے باوجود وہ غیر معمولی عصری حسیت، شاعرانہ وجدان، تخلیقی تنائو، اظہار کی جولانی، اسلوب کی لالہ کاری، الفاظ کے ماہرانہ استعمال اور فکر و تخیل کے ارتفاع کے سبب ممتاز نظر آتے ہیں۔ وہ علامات اور استعاروں کو بروئے کار لاکر لایعنی کو بامعنی بنانے پر بخوبی قادر ہیں۔ وہ اجنبی لفظیات کو بھی ایسے قرینے سے استعمال کرتے ہیں کہ اس میں مانوسیت کی فضا در آتی ہے اور قاری ایک فکر انگیز انبساط سے دوچار ہو جاتا ہے۔ اُن کی غزلوں میں مخصوص الفاط کے تنگنائے سے نکلنے اورد یگر زبانوں کی لفظیات کو شاعری میں پرونے کی جد و جہد کو واضح طور پر محسوس کیا جا سکتا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ اس شعوری کوشش میں کہیں کہیں ان کا لہجہ ایک طرح کے کھردرے پن کا بھی شکار ہوگیا ہے ۔
اردو شاعری کے عصری تناظر میں جبکہ غزل کے میدان میں ہر چہار جانب بے ہنگم و بے معنی آوازوں کا اک شور سنائی دیتا ہے، قسط کی شعری جمالیات اور لسانی اقدار سے سے مملو شاعری یقینا ہمارے لیے ایک بیش بہا تحفہ ہے۔ قوی امید ہے کہ اردو دنیا شاعری کے اس نئے مصحف کو ہاتھوں ہاتھ لے گی۔ ان شا اللہ۔ ’’قسط‘‘ آنلائن خریداری کے لیے ایمزون پر دستیاب ہے۔صفحات: 196، قیمت: 300روپے۔
 ۔•••••••✦★✿★✦•••••••۔

کوئی تبصرہ نہیں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے