‘ادب اور سائبر اسپیس’ از سید راغب اختر: مختصر جائزہ
(شہرام سرمدی)
‘ادب اور سائبر اسپیس’ سن 2022 میں شائع شدہ ایک کارآمد کتاب ہے۔ بنیادی طور پر یہ سید راغب اختر کے ایم فل کا مقالہ ہے لیکن اس میں بنیاد کے بعد دیواروں کی تعمیر کا کام بھی انجام دیا گیا ہے۔ چھت کس طرح پٹی ہے وہ طے کرنا قاری کا ذمہ ہے۔ اس کتاب کی خوبی یہ ہے کہ اس کا مواد زبانی ‘قال’ پر نہیں بلکہ صاحبِ کتاب کے بیانِ ‘حال’ پر مبنی ہے۔ گواہی کے لیے سید راغب اختر کی ادارت میں سرگرم ان کا ادبی چینل ‘بازگشت’ موجود ہے۔ راغب کے توسط سے اس موضوع پر اپنی زبان میں پڑھنے کو ملا جس کی ضرورت سے انکار مشکل ہے۔
کتاب کا عنوان دیکھ کر اور موضوع کے سبب ذہن میں ایک مصرع گھومنے لگا :
این ہا ہمہ راز است کہ معلوم عوام است
اس کی وجہ یہ ہے کہ اس قدر سامنے بلکہ روزمرہ میں استعمال والی شے اور اس قدر تہہ دار اور پر از رمز اور لطف یہ کہ ان رموز و نکات سے ہماری اس درجہ ناواقفیت۔
راغب کا کمپیوٹر سے تعارف 1999 میں ہوا اور میرا تعارف منٹو سرکل میں 1988 میں ہوا۔ ہرچند سال کے اعتبار سے میرے مقابلے راغب کا تعارف کمپیوٹر سے دیر سے ہوا ہو لیکن اس کے کمال نے اس ‘دشتِ امکاں’ کو ایک نقشِ پا سے زیادہ نہیں پایا اور تمنا کے دوسرے قدم کی طلب نے اس کی قابلیت کو ایک ایسی خوش آئند پروان بخشی کہ بہت سی منزلیں عبور کر چکا ہے۔
تحقیق کے اصل ہدف کا صحیح بیان گر اس کا لفظی مخرج یعنی ‘حق’ ہے۔ راغب کی ذات میں مذکورہ مخرج اپنی توانائی کے ساتھ موجود ہے۔ یہ راغب کی حق گوئی ہی ہے کہ اس نے کتاب کے ‘پیش لفظ’ میں اعتراف کیا:
"احمد سہیل کا ایک مضمون ‘اردو کا سائبر اسپیس’ میرے لیے وہ ایک مضمون نہیں بلکہ انٹرنیٹ پر اردو کا دروازہ کھولنے کی چابی تھی”۔
وگرنہ مکتبی تحقیق میں اقتباسات کا قوسین میں نہ لکھنا ضرورت سی زیادہ مستعمل ہے۔ اسی پیش لفظ میں وہ اپنی تصحیح اور خود احتسابی کرتے ہوۓ وہ لکھتا ہے:
"جب مجھے سائبر اسپیس کی تاریخ اور اس کی موجودہ صورتِ حال کے مطالعے کا موقع ملا تو میرا ایک مفروضہ بالکل غلط ثابت ہوا۔ وہ یہ کہ سائبر اسپیس انٹرنیٹ کا متبادل ہے۔”
اسی کی وضاحت بیان کرتے ہوۓ کہتا ہے:
"مختلف ذرائع سے حاصل کی گئی معلومات نے یہ ثابت کردیا کہ سائبر اسپیس برقیاتی ترسیل کے تمام ذرائع کا احاطہ کرتا ہے”۔
درج بالا اقتباس میں یہ بات قابلِ توجہ ہے کہ راغب نے "مختلف ذرائع سے حاصل کی گئی معلومات” کو اس کا سبب قرار دیا ہے وگرنہ ہمارے یہاں عمومی طور پر لکھنے والا اپنی علمیت کو اس کا سبب گردانتا ہے۔
اس کتاب کی ایک اور خوبی یہ ہے کہ موضوع کو سمجھنے میں راغب کا سلجھا پن قابلِ ذکر ہے۔ کہیں بھی زبان و بیان کے درمیان ترسیل کی مشکل یا اجنیت کا احساس نہیں ہوتا۔ ہمارے یہاں اس طرح پردیس سے استفادہ کم ہی دیکھنے کو ملتا ہے اس لیے اس کام کو اگر اضافے کے ذیل میں رکھا جاۓ تو بھی قباحت نہیں ہے۔
اس کتاب کے پسِ پشت صاحبِ کتاب کے علمی و ادبی کاموں کی طرف اشارہ کرنا دلچسپی سے خالی نہ ہو گا۔
‘بازگشت’ اور سید راغب اختر ایک دوسرے کے مترادف ہیں۔ وہ احباب جو ‘بازگشت’ کو ایک ادارہ سمجھتے ہیں دراصل وہ راغب ہے اور جو حضرات راغب کو ایک فرد سمجھتے ہیں حقیقتاً وہ ‘بازگشت’ بھی ہے۔ برس ہا برس سے ‘بازگشت’ پر کام کر رہا ہے اور اس کا کام بھی مسلسل آگے بڑھ رہا ہے لیکن راغب اس کے ذریعے خود کو آگے بڑھانے سے گریز کا رخ اختیار کیا ہوا ہے۔ اکثر اشراف اپنے مقاصد کے حصول کے لیے اپنے کام اور مقام کو ایک اوزار کی طرح استعمال کرتے ہیں۔ راغب اس اعتبار سے اقلیتی افراد سے تعلق رکھتا ہے۔ راغب کا سفر دیکھ کر لگتا ہے کہ وہ پیش پا افتادہ منازل کی طرف نظر ہی نہیں کر رہا ہے اور نہ اسے اس کی پرواہ۔ اس کا اندازِ سفر دیکھ کر شہریار کا کہا یاد آتاہے : یہ آنکھ کسی دور کے منظر کے لیے ہے۔
راغب اپنے حجرے میں بیٹھا شعر بھی کہتا ہے ۔ راغب اختر نے اپنی زندگی کے تلخ حقائق کو نہ صرف شاعری بلکہ اپنے ادبی کاموں کے پردے میں پنہاں کرنے کی کامیاب کوششیں کی ہیں۔ جس طرح زخم کے سوکھنے پر اس کی کھال سوکھ کر چٹخنے لگتی ہے اسی طرح راغب کے یہاں زندگی کو جس زاویے سے دیکھا گیا ہے اس کے نتیجے میں اس کے لہجے میں تلخی در آئی ہے۔ جس کی کڑواہٹ بعض وقت اس کے الفاظ واضح کرتے ہیں۔ ممکن ہے بعض پڑھنے والوں کو اس کی ذات میں خود اعتمادی کے سبب غیر منظقی انا اور خود شناسی بھی کہیں کہیں نظر آۓ۔ بقول شیخ شیراز بارش تو اپنی طبیعت کی لطافت میں مختلف نہیں ہوا کرتی۔ یہ زمین پر منحصر ہوتا ہے۔ اسی لیے باغ میں لالہ کے پھول اگتے ہیں اور شوریدہ زمین میں خس و خاشاک۔
‘ادب اور سائبر اسپیس’ میں قائم کردہ ابواب سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ کتاب اپنے موضوع کا جامعیت کے ساتھ احاطہ کرتی ہے۔ کتاب کے سادہ و غیر پیچیدہ اندازِ بیاں کے سبب کتاب پڑھتے ہوئے ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے کوئی پریکٹکل نوٹ بک ہے جو قدم بہ قدم بتدریج آگے بڑھ رہی ہے۔ پڑھتے ہوئے لگتا ہے کہ ہر قدم پر ایک نئی کھڑکی کھل رہی ہے اور نیا منظرواضح تر اور روشن ہوتا جا رہا ہے۔ اگر آپ کتاب کے ابواب / ذیلی ابواب پر نگاہ ڈالیں تو ممکن ہے میری بات سے اتفاق کریں۔ ملاحظہ کریں۔
سائبر اسپیس مفہوم اور افادیت:
سائبر اسپیس کیا ہے، سائبر اسپیس اور درلڈ وائب ویب، پائپر ٹیکسٹ اور میڈیا، موجودہ دور میں سائبر اسپیس کی افادیت، عام آدمی اور سائبر اسپیس، ترسیل عامہ اور سائبر اسپیس، سائبر اسپیس تعلیماتی پہلو، دینی مقاصد کے لیے سائبر اسپیس کا استعمال
ادبی تحیق اور سائبر اسپیس:
سائبر اسپیس پر مواد کی تلاش، سرچ انجن کا استعمال، سرچ انجن کیا ہے، ببلیوگرافی کے نئے زاویے اور اردو کا ابدی سائبر اسپیس
یہ کتاب انٹرنیٹ پر موجود اردو ادب سے متعلق علمی مواد کی فراہمی اور اس تک رسائی کے آسان اور صحیح طریقوں کو جاننے میں بھی کمک بہم پہنچانے میں کامیاب ہے۔ انٹرنیٹ پر موجود مواد کی فراوانی کی وجہ سے اس کی چھان پھٹک ایک اہم اور مشکل مرحلہ ہے۔ یہ کتاب اس مرحلے میں بھی ایک اچھے رہنما کا کام انجام دیتی ہے۔ کتاب میں کئی مراحل پر ضروری باتوں کو عملی مثالوں کے ذریعے سمجھا کر آسان بنایا گیا ہے جس پڑھنے والے کو سمجھنے میں سہولت ہوتی ہے۔
ممکن ہے کتاب میں ذکر شدہ باتیں بعض انگریزی جاننے والے قارئین کو سامنے کی باتیں معلوم دیں۔ اس کے برخلاف غور کرنا ہوگا کہ انگریزی سے براہِ راست استفادہ نہ کر سکنے والے دوستوں کے لیے یہ معلومات کس قدر مددگار ثابت ہو ں گی۔
یہ کتاب ایک گائیڈ کے طور پر پاس رکھی جانے اور وقتاًفوقتاً استفادہ یا رجوع کرنے والی کتابوں کے ضمن میں آتی ہے۔ امید کہ اس کام کی ارزش کو سمجھا اور صاحبِ کتاب کی کوششوں کو سراہا جائے گا۔
/
کوئی تبصرہ نہیں