رفاقت راضی کی دس غزلیں 


رفاقت راضی کی دس غزلیں

غزل

برا ہے درد پر آخر تری ضرورت ہے

بدن  سرائے مسافر تری ضرورت ہے

نہیں ہے کچھ بھی اگر سامنے نہیں تیرے

یہ آئنہ جو بظاہر تری ضرورت ہے

ہوا نہ ہو تو یہ سب پھول ہیں فقط رنگت

سو دیکھ لے کہ یہ شاعر تری ضرورت ہے

تجھے بھلایا سہاروں کی بھیڑ میں جس نے

اس ایک شخص کو اب پھر تری ضرورت ہے

انا کے حکم پہ دشمن سے رابطہ مت توڑ

ترے وجود کا منکر تری ضرورت ہے

یونہی سجا نہ خراشوں سے چشمِ آئینہ

ابھی ہجومِ مناظر تری ضرورت ہے

میں جانتا ہوں کہ اس میں نہیں ہے دل راضی

مگر یہ قیدِ عناصر تری ضرورت ہے

——————————————————

غزل

بے ثباتی   رائگانی سے الگ

ایک  بپتا  ہر کہانی سے الگ

تجھ سے ملنے میں بچھڑ جانے کا خوف

سر خوشی سی شادمانی سے الگ

آنکھ میں پھیلی تعلق کی دعا

جانے پہچانے معانی سے الگ

دو دیے اپنی کتھا کہتے ہوئے

رابطوں کے شہرِ  فانی سے الگ

اس کی باتوں میں طلسمِ خامشی

ایک ٹھہراؤ   روانی سے الگ

——————————————————

غزل

محبتوں کی نہایت ہی جیسے کوئی نہیں

مرے لیے تو رعایت ہی جیسے کوئی نہیں

کئی برس سے مگن ہے وہ اپنے حال میں یوں

اسے کسی سے شکایت ہی جیسے کوئی نہیں

تمام شہر وقوعے کی طرح جیتا ہے

کسی کے دل میں روایت ہی جیسے کوئی نہیں

مجھے خلوص کی شدت جتانے آیا ہے

عدو کو تیری حمایت ہی جیسے کوئی نہیں

درِ قبول پہ اشکوں کے قافلے چپ چاپ

کھڑے ہوئے ہیں کہ غایت ہی جیسے کوئی نہیں

گزر رہی ہے درختوں سے منھ چھپائے ہوئے

ندی کے پاس حکایت ہی جیسے کوئی نہیں

سفر کو ایسے حمائل کیے ہوئے ہے دل

حضر کے باب میں آیت ہی جیسے کوئی نہیں

تہی شعور سمجھتے ہیں کم نصیب مجھے

تری جدائی عنایت ہی جیسے کوئی نہیں

——————————————————

غزل

کوئی  نگر ہو کہ دیہات جاگا کرتا تھا

کبھی یہ چاند مرے ساتھ جاگا کرتا تھا

تمہیں پتا ہے کہنے کو کچھ رہا ہی نہیں

کہ جب تھی دل میں کوئی بات جاگا کرتا تھا

وہ دن بھی کیا تھے نظر میں کسی کے نام کے ساتھ

خمارِ سیرِ طلسمات جاگا کرتا تھا

وہ غایتوں کی ہوا تھم گئی کہ جس سے کبھی

تمھارا شوقِ ملاقات جاگا کرتا تھا

وہ خواب میرا نہیں تھا کہ جس کی خاطر میں

طلب کے غار میں دن رات جاگا کرتا تھا

اسے بھلا کے میں کرتا تھا نوحہ خوانی اور

پھر ایک قریۂ نغمات جاگا کرتا تھا

ؔتھا جس کے ہونٹوں پر انکار دائمی راضی

جو دیکھتا تھا تو اثبات جاگا کرتا تھا

——————————————————

غزل

لہو دریا میں  طوفاں تھا تو منظر دور تک بکھرے

اور اب ٹوٹے پڑے ہیں خواب کے گھر دور تک بکھرے

تجھے دل سے نکالا تو بہت سے قہقہوں کے ساتھ

کئی آنسو بھی نکلے اور برابر دور تک بکھرے

شکستہ پر کوئی ضدی پرندہ تھا کبھی دل میں

مَرا پیاسا مگر امید کے پر دور تک بکھرے

کسی بے انت خواہش کے تسلسل میں گذشتہ شب

اندھیرے سے ملے ہم اور مل کر دور تک بکھرے

ضرورت یاد ہوتی ہے مگر رشتہ نہیں راضی

زمیں کب ختم کر پائے  سمندر دور تک بکھرے

——————————————————

غزل

لکھا ہے جو بھی سب تیرے حوالے سے لکھا ہے

سو تو بھی دیکھ لے ہم نے قرینے سے لکھا ہے

تمنا سے نکلتے ہیں سبھی لفظوں کے چشمے

جو اب کہنے لگے ہیں وہ بھی پہلے سے لکھا ہے

پس ہر سطر جاگ اٹھے فسانے کیسے کیسے

کوئی کردار کیا تھوڑا سلیقے سے لکھا ہے

لکھی ہیں ہم نے کتنی ہی کتھائیں مو قلم سے

مگر جو واقعہ لہجے کے تیشے سے لکھا ہے

غزل ہے اک جسے ہم نے زمینِ خامشی میں

کہیں شامل نہ کرنے کے ارادے سے لکھا ہے

وہ آنکھیں آج کہتی ہیں ہمارے دل میں راضی

تمھارا نام تو کتنے زمانے سے لکھا ہے

——————————————————

غزل

دل کے رستے رہے کنارے ہم

پھر جو سیدھی طرح سے الجھے ہم

دھوپ میں بہہ گئی سخن کی چبھن

کھولتے رہ گئے دریچے ہم

تجھ پہ الہام ہو گئے ورنہ

اتنے آسان تو نہیں تھے ہم

تیری مرضی دیا بجھا نہ بجھا

آ گئے کشتیاں جلا کے ہم

رنگ ہی رنگ تھے مگر بے راگ

اک نظر کی ہوا سے پہلے ہم

——————————————————

غزل

یونہی پسند کوئی عبایا نہیں اسے

ہم نے تو خواب کیا کیا دکھایا نہیں اسے

دل کے افق میں ٹھیر گئی قربتِ شفق

ہم نے بھی اس کے بعد بلایا نہیں اسے

حالت طلب نگاہوں کی خاموشیوں کا رنگ

لہجے میں آگیا تو جتایا نہیں اسے

مہکی پھری دیے کی لوؤں میں سفر سفر

وہ شام تھی کہ ہم نے منایا نہیں اسے

ہم سے تعلقات کی مہندی رچی رہی

جب حرف آ گیا تو اٹھایا نہیں اسے

معمار دل شکوہِ عمارت سے دور دور

کہتا رہا کہ میں نے بنایا نہیں اسے

پھر پل کے اگلے نشانوں کو چل دیے

پھر مسئلہ انا کا بنایا نہیں اسے

راضی بہت عزیز رہی نسبتوں کی لاج

جی بھر کے غم دیے ہیں، ستایا نہیں اسے

——————————————————

غزل

جہاں سے درد کا قلزم بھی آنے والا ہے

اسی دیار سے مرہم بھی آنے والا ہے

نظر نظر جو لٹاتا رہا زرِ تفہیم

ترا زمانۂ مبہم بھی آنے والا ہے

ترے لیے تو نہیں ہے یہ واقعات کی بھیڑ

ٹھہرنا دوست ترا غم بھی آنے والا ہے

ہماری خندہ لبی پر چراغ پا لوگو

ابھی قرینۂ ماتم بھی آنے والا ہے

پڑی رہے گی نظر منظروں کی عجلت میں

ہمارے بعد وہ موسم بھی آنے والا ہے

ملی تھی تیغ تو کیا شہر کا ہوا تھا حال

اب اس کے ہاتھ میں پرچم بھی آنے والا ہے

——————————————————

غزل

دبی دبی ترے ہونٹوں پہ واہ تھے ہم بھی

ترا یقین ترا اشتباہ تھے ہم بھی

محبتوں کے خزانے لٹاتے رہتے تھے

گئے دنوں میں بہت بادشاہ تھے ہم بھی

ہمیں تو اب بھی کئی منزلیں بلاتی ہیں

جنھیں پتا ہے کبھی شاہ راہ تھے ہم بھی

ہمیں پکارتا رہتا تھا جنگ کا میدان

صعوبتوں کے مقابل سپاہ تھے ہم بھی

کسی کے دل میں فروزاں تھیں قربتیں اپنی

کسی کی آنکھوں میں ملنے کی چاہ تھے ہم بھی

پھر آتے آتے ہمیں بھی گریز پن آیا

تجھے خبر ہے سراپا نباہ تھے ہم بھی

——————————————————

کوئی تبصرہ نہیں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے