ارشد جمال صارم کی دس غزلیں
غزل
مکین یوں تو سخن زاد ہیں کئی مجھ میں
مگر وہ غم کہ جو کرتا ہے شاعری مجھ میں
کبھی میں اپنی ہی تحویل میں نہیں ہوتا
یہ کائنات سمٹ آتی ہے کبھی مجھ میں
کسی کے عشق کا روشن الاؤ ہے ورنہ
ٹھٹھر گئی تھی کوئی شامِ زندگی مجھ میں
تمھاری یاد کے کاسہ بدست آتے ہی
کھنکنے لگتی ہے زخموں کی پوٹلی مجھ میں
نہ جانے کون سی چوپال ہے اسے مطلوب
وہ داستان جو رکھی ہے ان کہی مجھ میں
میں اضطرار کا منت گزار ہوں پیہم
کبھی تو پھوٹے گی آخر کوئی نمی مجھ میں
ہتھوڑے مارتی رہتی ہے دم بہ دم صارمؔ
ٹنگی ہوئی ہے جو سانسوں کی یہ گھڑی مجھ میں
——————————————————
غزل
ناگاه نوچ کر ہی نہ رکھ دیں کہیں مجھے
ناخن جو یہ نصیب ہیں اپنے تئیں مجھے
کس نے یہ لا کے جلوہ گہِ التباس سے
پیشانیِ یقیں پہ کیا ہے نگیں مجھے
تا ان سے کسب کر لوں معانی کے رس تمام
جانا ہے حرف و لفظ کے اتنے قریں مجھے
میں آسماں کی سمت بڑھا جار ہا تھا اور
حسرت سے تک رہی تھی مسلسل زمیں مجھے
رکھتا ہوں یوں بھی آنکھ میں کشتہ جنون کا
دہلیزِ خواب پر نہیں رکھنی جبیں مجھے
میں ان کے التفات سے نا آشنا رہا
آنکھیں کسی دریچے سے تکتی رہیں مجھے
پھر آ گھرا ہوں سرد رویّوں کی بھیڑ میں
آجائے پھر کوئی کمکِ آتشیں مجھے
کارِ سخن ہے گویا کوئی زہرِ آگہی
رکھتی ہے سبز فکر مری نیلمیں مجھے
——————————————————
غزل
دنیا کو آسمان کی تھالی میں مل گیا
آنسو جو خاکِ گریہ وزاری میں مل گیا
اک پھول اور جھڑ گیا حاجت کی شاخ سے
اک عطر اور جسم کی مٹی میں مل گیا
رقصاں بہ فرطِ جوش ہوئی ناقۂ خیال
سکہ ہی ایسا ذہن کی جھولی میں مل گیا
اک ہوک ماہتاب کے سینے سے کیا اٹھی
صد اضطراب جھیل کے پانی میں مل گیا
ہونا تھا جس کو صبح کی اُجلی پناہ میں
وہ جا کے شب نژادوں کی ٹولی میں مل گیا
اک نم کہ مل سکا نہ جو دریا کی آنکھ میں
صحرا کی خشک سال ہتھیلی میں مل گیا
خاکستری اترنے لگی برگ و بار پر
وہ زہر اب کے بادِ بہاری میں مل گیا
اُٹھّی نہ پھر وہاں سے کوئی نقرئی صدا
سب شور اس بدن کا خموشی میں مل گیا
——————————————————
غزل
تمام عمر حصارِ گل و گہر رہتے
بس ایک بار جو ہم تیرا مستقر رہتے
جنہیں تلاش تھی آئینہ ہائے وحشت کی
وہ میری ذات کے زندان میں اتر رہتے
وہ آیتیں ہیں کہ لرزیدہ ہے جہانِ وجود
ہم اس صحیفے سے اے کاش! بے خبر رہتے
بلا سے خاک ہی ہوتے تمھارے کوچے کی
بجھے بھی رہتے تو پابستۂ شرر رہتے
کفِ ملال پہ رکھے ہوئے چراغ تھے ہم
کہاں بہ چشمِ طرب زاد معتبر رہتے
فشارِ آتشِ سوزاں تھا منکشف ہم پر
ہم اس گلاب کی تحویل میں اگر رہتے
یہ کون لوگ ہیں حیوانیت پر آمادہ
یہ کیوں ہیں شاملِ غارت گری ، بشر رہتے
——————————————————
غزل
زندگی! تجھ سے کیا عہد نبھا سکتے ہیں
بوجھ ہم اور بھی زخموں کا اٹھا سکتے ہیں
اپنی پہنائی کو افلاک کی وسعت کم ہے
اوک میں اپنی سمندر بھی سما سکتے ہیں
اب تو خود بینی سے رشتہ بھی نہیں ہے اپنا
اب محبت تری تحویل میں آ سکتے ہیں؟
بس تجھے دھند کی اک تہہ سے گزرنا ہوگا
ہم ترے روپ کو آئینہ بنا سکتے ہیں
بچ کے رہنا کہ یہ خوابیدہ نگاہوں والے
خیمۂ شب سے تری نیند اڑا سکتے ہیں
یہ جو اوڑھے ہوئے پھرتے میں ردائے اوہام
گلِ ایقان سرِ دشت کھلا سکتے ہیں
ناز و انداز ترے ایسے ہی از بر ہیں کہ ہم
تیری آواز کی تصویر بنا سکتے ہیں
آج بھی جاگی ہے آنکھوں میں اذیت کی طلب
آج بھی آپ مرے خواب میں آ سکتے ہیں
——————————————————
غزل
بخشتی ہے قرب اپنا یوں بھی ویرانی مجھے
راس آتی ہے توحش کی فراوانی مجھے
مستقل رہتا ہے مجھ پر منعکس اک آئنہ
دیکھتی رہتی ہے پیہم ایک حیرانی مجھے
ختم ہو جاتا ہے یکدم عالمِ ناممکنات
گھیر لیتی ہے یکایک موجِ امکانی مجھے
کیا کہوں دشوار کتنی ہیں مجھے آسانیاں
کیا کہوں کیسی سہولت ہے پریشانی مجھے
اولاً اک آگ بھڑکائی گئی مجھ خاک میں
اور پھر دیکھا گیا ہوتے ہوئے پانی مجھے
کیا کیا جائے کہ رکھتی ہے اندھیروں کی غلام
بیشتر اوقات خود اپنی ہی تابانی مجھے
——————————————————
غزل
سانسوں کو اعتبار عطا کر دیا گیا
مجھ میں کسی کا عشق خدا کر دیا گیا
آنکھیں ہماری نورِ بصیرت سےبھر گئیں
ہم پر ترا خیال ردا کر دیا گیا
بس ڈوبنے ہی والے تھے خوابوں کے قافلے
دریا سپردِ ضربِ عصا کر دیا گیا
اک میں کہ محوِ یاس ہوں در پہ پڑا ہوا
اک وہ کہ ان کو گھر سے بلا کر دیا گیا
ورنہ رہِ حیات نہ مشکل تھی بس ہمیں
پابستۂ نقوشِ وفا کر دیا گیا
رگ رگ میں بھر دیا گیا احساس کا نمک
زخموں کو جسم و جاں کی قبا کر دیا گیا
دل مائلِ طلب تھا به آئینۂ سکوت
اک شور اور مجھ میں بپا کر دیا گیا
——————————————————
غزل
کاش یہ سوچتی پھرتی ہوئی افلاک پہ خاک
اک نہ اک روز تو پڑ جانی ہے اس خاک پہ خاک
سوچتا ہوں نہ اُبل آئے اسی راہ لہو
ڈالتا رہتا میں دیدۂ نمناک پہ خاک
منحرف اپنی ہی تقویم سے یوں ہے انساں
خاک پوشاک کو معیوب ہے پوشاک پہ خاک
کوزہ گر ہاتھ نے کچھ بوندیں ہی چھڑکی تھیں مگر
ایک مہکار سی بکھرانے لگی چاک پہ خاک
مجھ میں سجتے تھے کبھی لالہ و گل، ماہ و نجوم
کیا کہوں! کیوں ہے برستی مری املاک یہ خاک
اپنی ہستی سے ہی بیگانہ جو رکھے صارمؔ
خاک اس عقل پر، اس فہم پہ، ادراک پہ خاک
——————————————————
غزل
کیا کہوں کتنا فزوں ہے تیرے دیوانے کا دکھ
اک طرف جانے کا غم ہے اک طرف آنے کا دکھ
ہے عجب بے رنگیِ احوال مجھ میں موجزن
نے ہی جینے کی طلب ہے نے ہی مرجانے کا دکھ
توڑ ڈالا تھا سبھی کو درد کے آزار نے
سہہ نہ پایا تھا کوئی کردار افسانے کا دکھ
خون رو اٹھتی ہیں سب آنکھیں نگارِ صبح کی
بانٹتی ہے شب کبھی جو آئنہ خانے کا دکھ
شمع بھی تو ہورہی ہوتی ہے ہر پل رایگاں
کیوں فقط ہم کو نظر آتا ہے پروانے کا دکھ
سر پٹکتی تھیں مسلسل موج ہائے تشنگی
ہونٹ کے ساحل یہ خیمہ زن تھا پیمانے کا دکھ
وار دیتا ہوں میں صارمؔ اپنی سب آبادیاں
مجھ سے دیکھا ہی نہیں جاتا ہے ویرانے کا دکھ
——————————————————
غزل
جڑے ہوئے ہیں پری خانے میرے کاغذ سے
جو اٹھ رہے ہیں یہ افسانے میرے کاغذ سے
کترتا رہتا ہے مقراضِ چشم سے مجھ کو
بنانا کیا ہے اسے جانے میرے کاغذ سے
قلم نے نوکِ الم کیا رکھی بہ چشمِ دل
چھلکنے لگ گئے پیمانے میرے کاغذ سے
رقم کروں بھی تو کیسے میں داستانِ حیات
حروف پھرتے ہیں بیگانے میرے کاغذ سے
ابھی رکھی بھی نہ تھی لَو چراغ پر میں نے
لپٹ گئے کئی پروانے میرے کاغذ سے
کدالِ خامہ سے بوتا ہوں میں جنوں صارمؔ
سو اگتے رہتے ہیں دیوانے میرے کاغذ سے
——————————————————
بعض تخلیق کار اپنی تخلیقات کے ذریعے ادبی اقدار و معیار کو نباہنے اور قائم رکھنے میں کامیاب ہوتے ہیں. تخلیقی ماحول میں ان کا نہ ہونا، انحطاط عمومی کا باعث ہو سکتا ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ اسی عمومی گروہ کے درمیان وہ خاص تخلیق کار یا تخلیق بھی پرورش پاتی ہے اور پروان چڑھتی ہے جو منفرد کہلاتا یا کہلاتی ہے۔
ارشد جمال صارم کی جو تخلیقات میرے پڑھنے میں آئی ہیں ان کی رو سے، صارم اسی اہمیت کو لے کر سامنے آتے ہیں اور میں اسے قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہوں۔ ان کی زبان و بیان مشق و محنت کی نشاندہی کرتے ہیں۔ دیگر شعری نکات جن کو پسندیدگی کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے وہ ان کو برتنے میں کامیاب ہیں۔ اور یہ بذاتِ خود اہم ہے۔