محمد حمید شاہد
تماش بین
عورت اور خُوشبو ہمیشہ سے میری کمزوری رہے ہیں۔
شاید مجھے یہ کہنا چاہیے تھا کہ عورت اور اس کی خُوشبو میری کمزوری رہے ہیں۔
یہ جو‘ اَب میں عورت کو بہ غور دیکھنے یا نظر سے نظر ملا کر بات کرنے سے کتراتا ہوں تو میں شروع سے ایسا نہیں ہوں۔
ہاں تو میں کَہ رہا تھا‘ عورت اور اُس کی خُوشبو ہمیشہ سے مجھے مرغوب رہے ہیں۔
اس روز‘ جب وہ میرے آفس میں داخل ہوئی تھی ‘ عورت کو چہرے کی بہ جائے نیچے سے اوپر قسطوں میں دیکھنے کی خواہش میرے اَندر شدّت سے مچل رہی تھی۔
ہوا یوں کہ میں نے جیفرے آرچر کی کہانیوں کی کتاب’’اے ٹوسٹ اِن دی ٹیل‘‘ رات ہی ختم کی تھی اور اسکی کہانی جو ایمینڈا کرزن نامی دِل کش دوشیزہ کے گرد گھومتی تھی‘ میرے حواس پربُر ی طرح چھائی ہوئی تھی۔
میں رات بھر وقفے وقفے سے خواب دیکھتا رہا۔ نامکمل خواب۔
نامکمل کی بہ جائے مجھے تشنہ کہنا چاہیے ۔
پہلے سارے میں دُھند ہی دُھند ہوتی ‘پھر اُونچی اِیڑی والے سیاہ جوتوں اور سٹاکنگ سے جھانکتی گوری گوری سڈول ٹانگیں نظر آتیں‘ پھر مجھے یوں لگتا جیسے کوئی شطرنج کی چال چل رہا ہو۔ اس کے ساتھ ہی خواب رِی وائنڈ ہو کر رِی پلے ہونے لگتا۔
ایک ہی منظر باربار دیکھ کر میں خواب میں جھنجھلاہٹ کا شکار ہوا ۔ میں نے لڑکی کا پورا ہیولا دِیکھنا چاہا مگر ہر بار میرا تصور ٹوٹ ٹوٹ جاتا۔
جب وہ میرے آفس میں داخل ہوئی تب تک میں اُس کہانی کے چنگل سے نہ نکلا تھا۔ اُس کی آواز سن کر چونکا تو اس کا چہرہ دیکھنے کی بہ جائے نگاہ اس کے قدموں کی طرف لپکی ۔ میں نے یہ تو بتایا ہی نہیں کہ میں عموماً لڑکیوں کو کس ترتیب سے دِیکھنے کا عادی رہا ہوں۔ ٹھہریے‘مجھے سوچ لینے دِیجئے۔ شاید میں پہلے ہونٹ دیکھتا ہوں گا۔ رَس بھری قاشوں کی طرح سرخ ‘ تروتازہ چھوٹے بڑے ‘ادا سے کھلتے آپس میں جڑتے ہونٹ۔ یا پھر آنکھیں دِیکھتا ہوں گا‘ گہری جھیل جیسی آنکھیں ‘ بڑی بڑی آنکھیں کہ جن میں کائنات سما جائے۔ کالی‘ نیلی یا پھر بھوری آنکھیں۔ نہیں میرا خیال ہے میں چہرہ لخت لخت نہیں بل کہ مکمل دِیکھتا رہا ہوں۔ جب کبھی کوئی چہرہ مجھے متاثرکرتا ہو گا تو اُسے مُفصَّل دِیکھتا ہوں گا۔
لیکن یہ کبھی بھی نہیں ہوا کہ میں نے کسی کو قدموں سے دِیکھنا شروع کیا ہو۔ تاہم جیفرے آرچر کی کہانی کے زِیر اَثر میری نظر اُس کے قدموں پر پڑی۔ ایمینڈاکرزن جب اس کلب کی عمارت میں داخل ہوئی تھی‘ جہاں شطرنج کا ٹورنامنٹ ہو رہا تھاتو اس نے اونچی اِیڑی والے سیاہ ویلوٹ کے جوتے پہن رکھے تھے۔ میں گزشتہ رات اِنہی سیاہ جوتوں کے اُوپر گوری گوری سڈول پنڈلیاں دِیکھتا رہا تھا۔ میں نے جب اُس کے قدموں کو دِیکھا تو مجھے پہلا دھچکا لگا۔
اس کے پائوں میں جو سینڈل تھے ‘وہ کبھی سیاہ رہے ہوں گے‘ لیکن کثرت اِستعمال اور پالش نہ ہونے کے سبب اب ان کا کوئی رنگ نہ تھا۔
دوسرا دھچکا مجھے اس وقت لگا‘ جب میں نے بے رنگ سینڈلوں میں سے جھانکتے سانولے پائوں اور ٹخنے دیکھے۔ میں بے دلی سے اوپر دیکھتا چلا گیا۔
راہ میں کوئی رکاوٹ نہ تھی جو میری نظر کوگرفت میں لے لیتی۔
ہاں‘ یہ بتانا تو میں ہی بھول گیا کہ جب میں نے جھولتے پائنچوں کے نیچے اس کے سانولے ٹخنوں کو دیکھا تھاا ور گوری شفاف جلد کا تصور ٹوٹ گیا تھا ‘تو میرا باطن مشتعل ہو گیا تھا۔ دِل کرتا تھا اُٹھوں اور اُس کے پائنچے نیچے کھینچ کر اُس کے سانولے ٹخنے ‘ پائوں اور بے رنگ جوتے اُن میں چھپا ڈالوں۔
میں جانتا ہوں یہ ایک بے ہودہ خیال تھا۔ مگر میں اس شاعرانہ خیال کا شدّت سے حامی رہا ہوں کہ… وجودِ زن سے ہے تصویرِ کائنات میں رنگ… ایسے رَنگ جو میںاَدھورے اَدھورے گزشتہ رات خواب میں دیکھتا رہا تھا‘ اب دَھنک کی طرح اِدھر اُدھر بکھرے دیکھنا چاہتا تھا۔
غالباً میں یہ بتا چکا ہوں کہ ٹخنوں سے اُس کے چہرے تک بیچ میںرُکنے کا کوئی مَقام نہ آتا تھا۔
وہ آگے بڑھی اور میرے مقابل کرسی پر بیٹھ گئی۔
’’جی میں بشریٰ ہوں… شاہنواز کی بیوہ۔‘‘
شاہنواز کو میں جانتا تھا۔ میں کیا دفتر کا ہر فرد جانتا تھا۔
اِس تعارف کے بعد میں نے بشریٰ کو غور سے دیکھا۔ وہ کیا بات تھی کہ کمہاروں کی اِس لڑکی کے لیے شاہنواز کو اپنے خاندان کی لڑکی سے منگنی توڑ کر عزیزوں کی ناراضی مول لینا پڑی۔
میں نے آنکھوں میں جھانکا۔ بہ ظاہر آنکھیں کالی تھیں مگر بہ غور دیکھنے پر بھورا رنگ غالب آنے لگتا تھا۔ پلکیں اُٹھا کر جب وہ اُوپر دِیکھتی تھی تو کوئی بھی دِل والا اُن میں ڈوب سکتا تھا۔ چہرہ گول نہ لمبوترا‘ بھرابھرا ‘ سانولا مگر شفاف ۔ منھ کا دہانہ چھوٹا تھا۔ ہونٹوں پر عموداً نفاست سے بنی لکیریں ‘ یوں جیسے پیمانہ رکھ کر اور مناسب فاصلے دے کر کھنچی گئی ہوں۔ وہ بات ٹھہر ٹھہر کر کرتی تھی‘ ایسے کہ سیدھی دل میں جا اُترتی ۔
یہ تسلیم کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں کہ بشریٰ جیسی لڑکی کے لیے کچھ ناراضیاں مول لی جا سکتی تھیں۔
شاہنواز سے سب ناراض تھے مگر وہ بشریٰ کے ساتھ خُوش تھا۔
یہ بات اس نے کوئی ڈیڑھ برس پہلے تب بتائی تھی‘ جب اُس کی شادی کو صرف دوماہ گزرے تھے۔ تب وہ میرے پاس صدردفتر میں کام کرتا تھا۔ جب اُسے کوئی کام ہوتا تھا تو وہ باربار سامنے آکر کھڑا ہوجاتا۔ منھ سے کچھ نہ کہتا۔ حتّٰی کہ میں خود پوچھنے پر مجبور ہو جاتا۔
ایک روز وہ حسب معمول جب تیسری بار میرے سامنے چپ چاپ کھڑا ہو گیا تو میں نے معنی خیز نظروں سے اُسے دِیکھا۔ اُس نے جیب سے تہہ کی ہوئی درخواست نکالی‘ اُسے سیدھا کیا اور میرے سامنے رَکھ دی۔
وہ کینٹ برانچ میں تبادلہ چاہتا تھا۔
میں نے وجہ پوچھی توکہنے لگا:
’’وہ جی یہاں سے روز گائوں جانا مشکل ہو جاتا ہے۔‘‘
اس نے یہ اس قدر شرماتے ہوے کہا کہ میں ہنسے بنا نہ رہ سکا۔
اس کا تبادلہ کینٹ برانچ ہو گیا۔
یہ تبدیلی اس کے حق میں بہتر ثابت نہ ہوئی ۔کینٹ برانچ میں دِن دِہاڑے ڈاکہ پڑا۔گولی چلی اور وہ مزاحمت کرتے ہوے گولیوں کا نشانہ بن گیا۔
برانچ لٹنے سے بچ گئی تھی۔
مجھے شاہنواز کے مارے جانے کا بڑا دُکھ تھا۔ میں نے مناسب اِمدادی رقم کا کیس بنا کر اعلیٰ حکام کو بھیجا‘ جو منظور ہو گیا۔
میں نے مرحوم کی بیوہ کو اِطلاع کے لیے چٹھی لکھ دی۔
جب وہ آئی تو میں نے جیفرے آرچر کی کہانی زیرِاَثر اُسے ایک نئے ڈھنگ سے دیکھا۔ پھر جب وہ سامنے بیٹھ گئی اور دِھیرے دِھیرے گفتگو کرنے لگی تو مجھے اُس کے ہونٹوں کی جنبش بہت اچھی لگی تھی۔ اِس قدر اچھی کہ میں نے اُس روزاُسے چیک نہ دینے کا فیصلہ کیا۔
مجھے یاد نہیں پڑتا میں نے اُس سے کیا گفتگو کی تھی۔ ہاں اِتنا یاد ہے کہ اُس کے شوہر کی ہمت اور جراْت کی تعریف کی تھی تو اُس کی آنکھیں بھیگ گئی تھیں۔ یوں کہ مجھے اُس کے ہونٹوں پر توجہ مرکوز رَکھنے میں دِقت ہو رہی تھی۔ پھر جب اُس کے اور شاہنواز کے عزیزوں کا تذکرہ چھیڑا تو اس نے بتایا‘اسے منحوس گردانا جا رہا تھا اور یہ کہ وہ بالکل اکیلی ہو گئی تھی۔ اُسے زمانے کے خراب ہونے کا بھی گلہ تھا۔ وہ اکیلی شہر آنا نہیں چاہتی تھی مگر کسی کو ساتھ لاتی تو کیسے؟ کہ جوان جہان تھی اور لوگ تو ایسے ہی موقع کی تلاش میں رہتے تھے۔ لوگوں کی زبانیں بھلا کیسے بند کی جاسکتی تھیں؟ لہٰذا وہ احتیاطاً کسی کو بھی ساتھ نہ لائی تھی۔
جب وہ زمانے کی خرابی کا ذِکر کر رہی تھی تو میں نے دِل ہی دِل میں خدا کا شکر ادا کیاکہ میں خراب نہ تھا۔ میری خواہشات ہمیشہ سے بے ضرر رہی ہیں۔ میں فقط پھول کو دِیکھتا اور خُوشبو سے مشامِ جاں معطر کرتا ہوں۔ ہنستی مسکراتی تروتازہ چہروں والی لڑکیاں کسے اَچھی نہیں لگتیں مجھے بھی اَچھی لگتی ہیں۔ میں ذرا ہمت والا ہوں اور اُن سے راہ ورسم بڑھا لیتا ہوں کہ اُن سے باتیں کر سکوں۔ اُن کی آنکھوں میں جھانک سکوں اور اُن کے کھنکتے قہقہوں کے پھولوں سے سماعت کی کارنس کو سجا لوں۔
غالباً میں نے آپ کو یہ نہیں بتایا کہ بشریٰ اُس روز جلد ی میں تھی۔ اُسے خدشہ تھا‘ گائوں جانے والی آخری گاڑی نکل جائے گی۔ مجھے اُس کی یہ بات اچھی نہ لگی تھی۔ جی چاہتا تھا ‘وہ کچھ اور بیٹھے۔ مگر جب وہ اُٹھ کھڑی ہوئی تو میں نے اس سے معذرت کی کہ چیک اُسے آج نہ مل سکے گا۔
میں نے اُسے آئندہ بدھ آنے کا کہا۔ وہ نہایت لجاجت سے کہنے لگی:
’’اس روز چیک ضرور مل جانا چاہئے کہ باربار شہر آنا ممکن نہیں۔‘‘
میں نے اُسے یقین دلایا: ’’ایسا ہی ہوگا۔‘‘
مگر جب اگلا بدھ آیا‘ میں دفتر میں کچھ فائلیں نکال رَہا تھااور بشریٰ ابھی تک نہیں آئی تھی کہ شکیلہ کا فون آگیا۔
وہی شکیلہ جو بات کرتی ہے تو اُس کے گال اُوپر کو اُچھلتے ہیں‘ ہنستی ہے تو آنکھیں میچ لیتی ہے اور بولتی ہے تو پہروں بولتے ہی چلی جاتی ہے۔
اُس کا فون بہت دِنوں بعد آیا تھا۔ وہ شہر سے باہر تھی۔ اب آئی تھی تو چاہتی تھی‘ میںاِسی وقت دفتر سے نکلوں‘ اُسے پک کروں اور کہیں بیٹھ کر ڈِھیر ساری باتیںسنوں۔
مجھے اس کی آفر اچھی لگی۔
میرے فرائض میں شامل ہے کہ میں وقتاً فوقتاً ذیلی دفاتر کوسرپرائز دوں۔ اُن کی کارکردگی چیک کروں۔ لہٰذا میرا دفتر سے بغیر اِطلاع غائب ہو جانا بھی اِسی زمرہ میں آتا ہے۔
پھر یوں ہوا کہ وقت کا پتہ ہی نہیں چلا اور وہ بیت گیا۔
شکیلہ جیسی لڑکی کا ساتھ ہوتو وقت پلک جھپکتے میں گزر جاتا ہے۔
اُس روز دوبارہ دفتر نہ جاسکا۔
اور اگلے روز جب میں دفتر پہنچا تو مجھے بتایا گیا کہ بشریٰ آئی تھی اور یہ کہ وہ دفتر بند ہونے تک اِنتظار کرتی رہی۔
’’مگر اس کی آخری گاڑی تو ساڑھے تین بجے جاتی تھی؟‘‘
’’جی ۔ وہ بھی یہی کہتی تھی پھر بھی اِنتظار کرتی رہی‘‘
’’پھر کہاں گئی؟‘‘
’’جی پتہ نہیں۔‘‘
میں رات دیر سے سونے اور صبح دیر سے اُٹھنے کے باعث جلدی جلدی دفتر کے لیے تیاری کرتا ہوں۔ یوںنہ تو ناشتہ سکون سے کر سکتا ہوں اور نہ ہی اخبار پڑھ پاتا ہوں۔ یہی وجہ ہے کہ دفتر آتے ہی پہلے اخبار پڑھتا ہوں۔
اخبار میرے سامنے تھا اور روز مرہ کی طرح سیاست دانوں کے بیانات ‘ حادثات‘ قتل واغوا کی خبریں شائع ہوئی تھیں۔ من چلے نوجوان‘ جو راہ چلتی لڑکیوں پر آوازیں کستے ہیں۔ نئے نئے طریقوں سے ستاتے ہیں ۔ جدید ماڈل کی کاروں میں لفٹ دیتے ہیں۔ یا پھر سائلنسر اُترے شور مچاتے موٹر سائیکلوںپر سوار ہو کر آتے ہیں اور پرس لے اُڑتے ہیں۔ اِن مَن چلوں کی سرگرمیاں بھی اَخبارات کے چوکھٹوں میںجگہ پانے میں کام یاب ہوگئی ہیں۔ میں نے اَخبار تہہ کر کے ایک طرف رَکھ دِیا اور ہاتھ فائلوں کی طرف بڑھایا ہی تھا کہ بشریٰ آگئی۔
اَب کے وہ آئی تو میرے اَندر اُسے نیچے سے اُوپر قسط دَرقسط دِیکھنے کی مطلق خواہش نہ تھی۔ تاہم نہ چاہتے ہوے بھی میں اُسے اُوپر سے نیچے اور نیچے سے اُوپر دِیکھ رہا تھا۔ اور دِل سینے کے اَندر ہی کہیں گہرا اور گہرا ڈوبتا جارہا تھا۔
اُس نے دروازے سے کرسی تک کا فاصلہ یوں طے کیا تھا جیسے اُس پر صدیوں کی مسافت طے کرنے کی تھکن ہو۔
وہ کرسی پر گر گئی۔ نظر سیدھی اُس کے ہونٹوں پرپڑی تو کلیجہ منھ کو آگیا۔
ہونٹ‘ یوں لگتا تھا‘ کسی نے چبا ڈالے تھے۔
اُس نے آنکھیں اُوپر اُٹھائیں۔ سوجی اور اُجڑی آنکھوں سے آنسو کب کے خشک ہو چکے تھے۔
میں بے قرار ہوگیا۔
’’خیریت تو ہے نا خاتون؟‘‘
’’خیریت؟‘‘
وہ سامنے خلا کو دِیکھ رہی تھی۔
میرے اَندر بے شمار وسوسے سر اُٹھانے لگے‘ مگر پوچھنے کا حوصلہ نہ تھا۔ میں نے گھنٹی دِے کر چپڑاسی کو بلایا۔ اُسے چیک لانے کو کہا۔ اور جب وہ چیک لے آیا تو اُسے تھمانے کے لیے بڑھایا۔
’’یہ رہا آپ کے معاوضے کا چیک‘‘
وہ سسک پڑی ۔ منھ ہی منھ میں بڑبڑائی:
’’چیک … معاوضہ… کس بات کا؟… میرے شوہر کے مارے جانے کا
یاپھر…؟‘‘
وہ اور کچھ نہ کَہ سکی ۔ اَپنے کٹے ہونٹوں کو دانتوں تلے دبا لیا۔
اور مجھے یوں لگا جیسے اس کے گائوںجانے والی آخری گاڑی مجھے روندتی کچلتی گزر رہی تھی اور میرے سامنے آخری بازی جیتنے والی ایمینڈا نہیں آخری بازی ہارنے والی ایک دوسری بشریٰ تھی۔
ٍ
کوئی تبصرہ نہیں