جاوید ہمایوں کا ‘چراغِ گمشدہ’


جاوید ہمایوں کا ‘چراغِ گمشدہ’
(شہرام سرمدی)
‘چراغِ گمشدہ’ میں جاوید ہمایوں (پیدائش: 1972) اُسی چلمن سے لگے بیٹھے نظر آتے ہیں جس کے پسِ پردہ وہ صاف چھپتے بھی نہیں، سامنے آتے بھی نہیں۔ مجموعے کے عنوان میں پوشیدہ دھند اور قطعیت بھی اس کا پتہ دیتی ہے۔ لفظ ‘گُم شدہ’ میں ‘ گُم’ دراصل اُس شے کا پیش وند ہے جس کا وجود رہا ہے۔ مجموعے کی قرات کی رُو سے جاوید ہمایوں اپنی بنیادی شخصیت میں احساس کی دھیمی آنچ اور توانائی سے خالی شخص کے لہجے میں اسی ‘گم شدہ’ شے کا ذکرِ خفی کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ اظہار کے عمل میں اُن پر ایک خوف اور جذبہ مسلط رہتا ہے: ‘کہیں کوئی سُن نہ لے’۔ مجھے یہ کہنے میں کوئی قباحت نہیں کہ اُن کا شعری عمل دراصل پیچھے دیکھنے کا عمل ہے اور اُن کا سازوسامان اسی کے بیان سے جمع ہوتا ہے:
شکستہ صدر دروازے پہ آویزاں رہیں شمعیں
کہ جن سے زنگئ شب میں سیہ تقدیر روشن تھی
تاج وَر جو کبھی تھا یہاں آج وہ اک فسانہ ہوا
تہہ نشیں ہوگیا ڈھونڈنا تو ذرا ہڈیاں کیا ہوئیں
عجب ہے ڈھونڈنا بستی جو میرا مسکن تھی
ہوئی تھی آگ کی بارش مرے ٹھکانے پر
جاوید ہمایوں کے یہاں غزل کے عام مزاج سے ذرا ہٹ کر ایک لفظ خاصا ملتا ہے۔ حالانکہ وہ لفظ اس قدر شاعرانہ بھی نہیں ہے اور نہ اس میں ایسا کوئی جمالیاتی پہلو مضمر ہے لیکن وہ اس لفظ کو جس سلیقے اور صداقت سے لاتے ہیں اس سے وہ اس لفظ کو جمالیاتی رنگ میں رنگنے میں کامیاب رہے ہیں۔ وہ لفظ ہے ‘صندوق’۔ امیر حمزہ ثاقب نے متن سے نزدیک تر اور دقیق تر کرتے ہوئے کہا کہ صندوق نہیں، ‘صندوقچہ’ ہے۔ ممکن ہے اس میں روایات کے وہ خزانے پوشیدہ ہوں جن سے جاوید ہمایوں کو بے حد لگاؤ ہے۔
عزیز از جان تھا صندوقچے بھی لے گیا ظالم
قبائیں کیسی کیسی اس میں تھیں کم خواب و ریشم کی
کبھی صندوقچے میں آگ رکھ کر
مجھے اس میں چھپانا اور رونا
جاوید ہمایوں کے مذکورہ پیچھے دیکھنے کے عمل میں پاسدارئ زبان اور سلیقہء بیان جیسے عناصر قاری کی توجہ کو مبذول کرتے ہیں۔ ایک غیر زبان Metropolitan میں زبان و بیان کے تئیں یہ رویہ اہمیت کا حامل ہے۔جاوید ہمایوں کی فکر و ہوش کی بالیدگی ان کے یہاں سنجیدگی و بردباری سے مملو شعری فضا قائم کرتی ہے۔ وہ اپنی شعر سرائی میں دو Notes کم رکھ کر عرضِ حال کرتے ہیں۔ اِس کے معنی یہ ہرگز نہیں کہ وہ اپنے ‘مقامِ باخبری’ سے نیچے اتر آتے ہوں۔ ان کے اندر کا انسانِ بالغ ان کو نوواردانہ شور و غل سے مانع رکھتا ہے۔ جاوید ہمایوں کو اپنی قیمت کا اندازہ ہے لیکن ‘اضافی مصلحت’ کے سبب وہ اس کے اظہار سے خود کو علٰحدہ ظاہر کرتے ہیں:
میں اپنی خود فروشی کی شرائط پر رہا قائم
خریدارِ وفا کے سامنے قیمت نہیں کم کی
حالانکہ وہ اپنے ٹون ڈاؤن والے رویے کا دفاع کرتے ہوئے کہتے ہیں:
سپر جو ڈالی زمانہ کہتا ہے چال اس کو
عجیب دنیا، شکست بھی معتبر نہیں ہے
جس چراغ کا ذکر اوپر آیا ہے وہ درحقیقت جاوید ہمایوں کے اندرون میں ہے۔ اس اندرون میں سکون و آرامش ہے اور وہ چراغ بھی جو انہوں نے اپنے اندرون ہی میں پنہاں رکھا ہوا ہے۔ جس کی گم شدگی ان کو شعرزار میں لاتی ہے۔ اس اندرون میں سلامتی ہے اور گل کا موسم ہے:
احاطہء دل میں جو بھی ٹھہرا رہا سلامت
نواحِ جاں میں ہے گل کا موسم شرر نہیں ہے
لیکن یہی جاوید ہمایوں جب اندرون سے بیرون کی جانب دیکھتے ہیں تو ان کو سماجی سطح پر مساوات میں جانب داریاِں بھی تکلیف دیتی ہیں اور ان مرحلوں میں وہ مختلف نفسیاتی، ذہنی اور فکری پیچیدگیوں کے درمیان نظر آتے ہیں۔ اس دورانیے میں ان کی فکر و فہم پر مخصوص علاقے کی نفسیات اور اس کے سماجی رویے کے نقش مزید گہرے ہوجاتے ہیں۔ اپنے اطراف مختلف بنیادوں پر پیدا ہونے والے خلل و اختلال کو دیکھ کر ان کے اندر ایک طرح کی چڑچڑاہت در آتی ہے:
ہم نے مہتاب کیا کوچہء تاریک ترا
پھر بھی الزام کہ ہیں شہر جلانے والے
جاوید ہمایوں کے لہجے میں گاہ بہ گاہ ایک قسم کا Sarcastic Tone بھی سراعت کرتا دکھائی دیتا ہے۔ اس رنگ میں ان کی بات میں کئی دل چسپ پرتیں اور میٹھی کاٹ کی صفتیں پیدا ہوجاتی ہیں جس سے احساس میں نئی لہر سی آتی ہے۔ اس کی ترسیل میں وہ کامیاب بھی ہیں۔ یہ Tone جس طرح وہ دوسروں پر روا رکھتے ہیں، اسی طرح اپنی ذات پر برقرار رکھتے ہیں:
عدو کی چال میں تمہاری جیت ہے
اسی کے انتظار میں رہا کرو
ہم رقیبوں کے طرف دار رہے ہیں صدیوں
ہم سے ناراض ہیں کیوں سنگ اٹھانے والے
‘چراغِ گمشدہ’ (اشاعت: 2020 ) تقریبا ایک سو سے کچھ زائد غزلوں پر مشتمل جاوید ہمایوں کا پہلا شعری مجموعہ ہے۔ فن پارے کی اس تعداد کے لیے، زمانی اعتبار سے وجود میں آنے کے لیے ایک عرصہ بھی درکار ہوتا ہے۔ایک عرصہ جس میں فکری و ذہنی لحاظ سے ایک فنکار گوناگوں کیفیات و حالات سے گزرتا ہے جن کا اس کے فن پارے پر انداز ہونا بعید از قیاس نہیں ہے۔ اس نکتہءنظر سے ‘چراغِ گمشدہ’ میں شامل غزلیں مختلف رنگوں کو اپنے پہلو میں لیے نظر آتا ہے البتہ ان رنگوں کو سوت اور سِلک سے بُنی ایک رسی یکجا کرتی ہے۔ وہ آغاز ہی میں بیان کردہ جاوید ہمایوں کے احساس کی دھیمی آنچ اور توانائی سے خالی شخص کا لہجہ اور اس کے ذکرِ خفی کی دھنک ہے۔ یہ کہنا بیجا نہ ہوگا کہ جاوید ہمایوں کو تَكَلَّمُوا تُعرَفُوا پر ذرا غور کرنے کی ضرورت ہے۔ یونہی سی ایک مثال ہے کہ موضوع گفتگو مجموعے میں، نہ وہ حمد کو حمد کہتے ہیں، نہ نعت کو نعت، نہ منقبت کو منقبت اور نہ غزل کو غزل۔ اس قدر چپ سے بہت کچھ ‘ناترسیل’ کے ذیل میں آجاتا ہے۔
جیسا کہ عرض کیا اس مجموعے میں شامل غزلیات ایک عرصے پر مبنی ہیں۔ غالبا اسی سبب سے ‘غزل+یات’ میں موضوعات اور افکار کے لحاظ سے رنگا رنگی پراکندہ نظر آئے جو دلکش بھی ہے اور متنوع بھی۔ اس میں ذاتی تجربے سے زیادہ فن کار کے جہانِ رنگ رنگ کی تصویر زیادہ واضح شکل اختیار کرتی ہے :
دیوار پہ لکھ لکھ کے مٹاتا ہے کئی بار
کیا عمر رسیدہ کو شرارت سی لگی ہے
لسانی اعتبار سے جاوید ہمایوں اپنے ماضئ قریب کے شعری سرماۓ سے مثبت استفادہ کرنے اور اسے متانت و دیانت داری سے برتنے میں کامیاب ہیں۔ بیان اور لہجے کی نگاہ سے شب رفتہ کی نانِ جویں کی ذائقہ داری اور مہک ہے۔ یہ نان شدتِ گرمی کے ساتھ تیار کی ہوئی ہے لیکن اسے دسترخوان پر لانے میں ذرا زیادہ میانہ روی برتی گئی ہے۔
ممکن ہے بعض قارئین کو اس مجموعے کی ابتدائی غزلوں کی ترتیب بندی میں ایک قسم کی بالا و پائینی کا احساس ہو۔ اسی طرح بعض جگہ زبان قاری کا ہاتھ پکڑ کر روک لیتی محسوس ہو۔ ‘چراغِ گم شدہ’ کو دیکھنے کے دوران بعض جگہ جاوید ہمایوں کا چراغ گردونواح کی دھند کی زد میں آتا بھی دکھائی دے۔ باوجود ان سب باتوں کے زبان و بیان سے لطف اندوز ہونے والے احباب کے لیے ‘چراغِ گمشدہ’ ایک مرغوب و دل پسند تحفہ کی حیثیت رکھتا ہے۔ جس میں Surprise نہیں لیکن یادِ ماضی تسلی فراہم کرتی ہے۔’چراغِ گمشدہ’ ایک ایسے صاحبِ ذوق اہل قلم کا سرمایہ ہے جس کی ذات کے اہم ترین و بنیادی جوہر میں، اپنی میراث سے عشق، اپنی تہذیب اور اس کی جمالیات سے قلبی وابستگیاں شامل ہیں۔ لطفِ سخن کے لیے چند اشعار بہ غرضِ ملاحظہ::
آندھی چلی تو شاخ سے پتے اتر گئے
طاؤس لا مکاں ہوا جنگل بکھر گئے
کس پیکرِ جمال کی خوشبو ہوا میں ہے
شاہوں کی کیا سواریاں گزری ہیں راہ سے
غم کے فسانے خواب کے قصے ختم ہوۓ
راتوں میں اب جاگنے والے ختم ہوۓ
ہم خواب میں چلتے ہیں سمندر میں سرِ آب
تعبیر مگر اس کی بتانے سے رہے ہم
میں پسِ دیوار تھا کس نے دیا منظر مجھے
سر پھروں کے درمیاں روتا رہا قصہ مرا
چلتے چلتے یونہی ایک بات ذہن میں آئی۔ بقول صارم الازہری، صانع اپنی صنعت کو وہی دے سکتا ہے جس سے وہ خود متصف ہوتا ہے۔ ظاہر ہے کہ صنعت کے وجود میں آنے کے بعد ہی اُس کی قدر و ناقدر کے تعین کا مرحلہ آتا ہے۔ معلوم ہوا کہ قدرِ شعر کے تعین میں شکست کا سبب محض ‘ناشناس’ کی ‘تحسین’ یا ‘سخن شناس’ کا سکوت ہی نہیں ہوا کرتا بلکہ اس میں دوسرے عوامل کی شمولیت بھی ہوا کرتی ہے جس میں ‘مصلحت’ اور اس کی کارگزاریاں بھی ہیں۔ یعنی شعر کہنے والے کی شخصیت میں ‘اضافی مصلحت’ / ‘خود تحفظی’ کے عناصر کابھی کچھ نہ کچھ دخل ہوا کرتا ہے۔ ‘مصلحت’ ممنوعہ شے نہیں ہے لیکن اس سے غرض صرف ‘مصلحت’ ہو تو بہتر ہے۔ ہدفِ دیگر کے سبب اس سے استفادہ یا ذاتِ انسانی میں اس کے تجاوزِ حد کی صورت میں، ‘مصلحت’ ایک مسئلے کا روپ دھارن کرلیتی ہے۔ اس پر غور و فکر لازم ہے اور نتیجے میں پوشیدہ باب کے وا ہونے کے قوی امکانات ہیں۔

کوئی تبصرہ نہیں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے