شہپر رسول کی دس غزلیں


شہپر رسول کی دس غزلیں

غزل

پاؤں جم جاتے ہیں زمیں پر جب آسمانوں کو بھول جاتے ہیں

محو ہو کر نئے فسانوں میں داستانوں کو بھول جاتے ہیں

کام لے لیتے ہیں بہانوں سے پھر بہانوں کو بھول جاتے ہیں

ابر کا ٹکڑا ہی کوئی مل جائے سائبانوں کو بھول جاتے ہیں

حال کو سوچو حال کو دیکھو ‘ حافظے پر ذرا سا جبر کرو

اپنے ماضی کو کس نے دیکھا ہے’ چھوڑو  ماضی کو بھول جاتے ہیں

آکے ساحل پہ ڈوبنے والے ہوشیاری کی بد حواسی میں

سمت و رفتار کی تو بات ہی کیا بادبانوں کو بھول جاتے ہیں

مصلحت کے شکار لوگوں نے یہ وطیرہ بنا لیا. شہپر

کچھ بیانوں کو یاد رکھتے ہیں کچھ بیانوں کو بھول جاتے ہیں

———–

غزل

یوں  نہیں آتا  مگر خواب میں  آ جاتا   ہے

میرے ہونے کی خبر مجھ کو سنا جا تا ہے

کچھ نہ کرتے ہیں نہ کرنے کا ارادہ ہے کوئی

صرف کہنا ہے تو کہدینے میں کیا جاتا ہے

اب جو  بننا  نہیں آتا  ہے    بِگڑ  ہی  جاؤ

ڈھَب سے بگڑو تو بگڑنا بھی بنا   جاتا ہے

خود کدے میں وہی بیٹھے ہیں کہ بیٹھا ہے خدا

آئینہ. سامنے.   سے.  ہنس.  کے چلا.   جاتا    ہے

کچھ تو بتلاؤ کہ اُس جشن کا کیا نام رکھیں

قہقہوں میں بھی  جو  چیخ چھُپا  جاتا ہے

وہ حماقت بھی تو کھُل کر نہیں کرتے شہپر

روز  کرتے  رہیں  جس کام  کو   آ  جا تا  ہے

———-

غزل

اب ایسے خود کو بھیڑ میں تنہا کریں گے ہم

ہے  ہی نہیں جو اُس کی  تمنّا کریں   گے  ہم

خوش   رہنا چاہتے   ہو تو  آؤ  ہمارے  ساتھ

مِل جُل کے  اک خیال کو  نقشا کریں گے ہم

اب دوسروں   کو سُننے  سمجھنے  کے دن  گئے

خود سے مِلیں گے خود سے ہی روٹھا کریں گے ہم

امکاں    انا  امید   و  ادا   ہوں   مکیں   جہاں

کس دل سے ایسے شہر کو صحرا کریں گے ہم

تعطیلِ  نطق  و  ذہن و قلم  پر  بھی    سوچیے

کچھ دن کو کچھ کہیں گے نہ لکھّا کریں گے ہم

اپنے  مزاج   ہی  میں کہاں   تھا  قیام و    نام

صحرا  سمجھ  رہا  تھا  کہ دنیا  کریں  گے ہم

———–

غزل

میری تنہائی سے خوابوں کی شناسائی ہے

یہ  بھی   کیا   زاویۂ  انجمن   آرائی     ہے

بھیڑ میں تنہا کھڑا ہوں نظر آؤں کس کو

میری وحشت ہی یہاں میری تماشائی ہے

سادگی  اور شرافت  کو  زمانے  سے  چھپاؤ

اِن کی شہرت میں بھی شہرت نہیں رسوائی ہے

سب  کی  عبرت کے  لیے   کچھ تو  بتا ہی دیتا

آہ کیا  غرض  کروں  میں  نے  قسم  کھائی ہے

اُس  قلندر کو  بھی  مطلوب  ہے شہرت شہپر

جس کو مجذوب  سمجھتے  ہو وہ  دنیائی   ہے

——-

غزل

نغمۂ خامشی  جو شور  میں  گا  آتا   ہے

ایک مشعل سی اندھیرے میں جلا آتا ہے ل

وقت اپنا ہو  تو  آواز  کے  پر  لگتے  ہیں

اُس سے پہلے  تو یہاں اُس کا کہا آتا ہے

راہ تنہائی کا طعنہ  نہیں دے پاتی مجھے

ساتھ میرے  کوئی نقشِ  کفِ پا   آ تا  ہے

اس کو سن کر ہی ملاقات سی کر لیتے ہیں

اب تو آواز  میں  وہ خود بھی چلا  آتا  ہے

کچھ اچانک سے جو ہو جاتا تھا’ ڈر جاتے تھے

آج ان  باتوں  کو  سوچیں  تو   مزہ  آتا  ہے

اُڑ نے لگتا ہوں میں جیسے اُسے پڑھ کر شہپر

صفحۂ   بادِ   صبا. پر. جو.  لکھا آ تا  ہے

———–

غزل

ہم جو ہر بار ہیں فہرست میں آئندہ کی

داد دیتے ہیں تری چشمِ   شمارندہ  کی

سب بھلا بیٹھے تھے حق بات پہ جاں دیدینا

ہم نے مر کر ہی روایت تو کوئی زندہ کی

عقل سب شعر بنانے میں کھپا دیتے ہیں

بات  کر تے  ہیں  سخن نامۂ  آئندہ  کی

خال و خط لمس و نظر جیسے چمک اٹھتے ہیں

یاد  آ تی  ہے  جو  اک  لمحۂ  رقصندہ  کی

یہ جو لہجے  کا فسوں ہے ‘ یہ غضب کرتا ہے

لفظ اب  کے  ہیں مگر  گونج  ہے آئندہ. کی

جھوٹی آوازوں کا گنبد ہے ادب بھی  شہپر

کون  سنتا   ہے صدا   حرفِ  نمائندہ. کی

غزل

ہنستے ہوئے حروف میں جس کو ادا کروں

بچّوں سے کس جہاں کی کہانی کہا کروں

یا رب عذابِ حرف و تخیّل سے دے نجات

غزلیں کہا کروں نہ مضامیں لکھا کروں

قدموں میں کس کے ڈال دوں یہ نام یہ نسب

کچھ تو بتاؤ کس کا قصیدہ پڑھا کروں

اب تک تو اپنے آپ سے پیچھا نہ چھُٹ سکا

ممکن ہے کل سے آپ کے حق میں دعا کروں

شہپر مری حدوں کا تعیّن کرے کوئی

آنکھوں سے بہہ رہوں کہ رگوں میں پھرا کروں

———-

غزل

شجر بھر میں جو  اک پتّا ہرا سا دیکھتا ہے وہ

تو اِس دنیا کے چہرے کو دوبارا دیکھتا ہے وہ

روایت صاف گوئی کی ہمیں بھی یاد ہے لیکن

نہ رشتہ دیکھتا ہے وہ نہ چہرا دیکھتا ہے وہ

میں رُک جاؤں تو رُک جائے میں چلتا ہوں تو چلتا ہے

مرے رستے میں کس منزل کا رستا دیکھتا ہے وہ

سبھی حیران ہوتے ہیں مگر ایسے نہیں ہو تے

تو اپنے آئینے میں کس کا چہرا دیکھتا ہے وہ

کھُلی آنکھیں تو خائف تھا کہ دنیا دیکھتی ہے سب

اور آنکھیں بند کر لی ہیں تو دنیا دیکھتا ہے وہ

جو مجھ کو دیکھتا ہے وہ تو سپنے دیکھتا ہوں میں

میں اُس کو دیکھتا ہوں جب تماشا دیکھتا ہے وہ

خیالوں میں بسر کرنا بہت آسان تھا شہپر

مگر کس شوق سے اک گھر کا نقشا دیکھتا ہے وہ

———–

غزل

پاؤں صحرا  کرتا  ہوں آنکھیں لہو   کرتا  ہوں میں

دن تیمّم  کرتا  ہوں  اور شب  وضو  کرتا  ہوں میں

شعر تو.  میرے   سبھی سے  بات  کرتے    ہیں  مگر

شعر کے پردے میں   اُس سے  گفتگو کرتا ہوں میں

جب   انا   سے  لڑتا   ہوں  تو   آئینہ  بن  جاتا  ہوں

اور  پھر خود کو  ہی خود کے روبرو کرتا ہوں میں

دیکھتا ہوں  کیوں ہر اک  سائے کو  مُڑ  کر دور  تک

کس کی ان پرچھائیوں میں جستجو کرتا ہوں میں

یہ   کہ    ملبوسِ  جنوں    ہے   یا    لباسِ     آگہی

چاک بھی کرتا ہوں خود ہی’خود رفو کرتا ہوں میں

اک زمانہ وہ بھی تھا جب میں ہی میں تھا ہر طرف

جب سے دیکھا ہے تجھے بس تو ہی تو کرتا ہوں میں

عشق  شہپر  لمحہ بھر  میں  دم بخود  ہو  جا تا  ہے

حسن کا  جب نام  لے کر اُس  پہ چھو کر تاہوں میں

———–

غزل

اب  ملاقات   ملاقات  نہیں   ہو  تی    ہے

بات  ہوتی  ہے  مگر    بات  نہیں  ہوتی ہے

ایسے اوڑھی ہے سیاہی نے سپیدی کی ردا

دن ہی دن ہے یہاں اب رات. نہیں ہو تی ہے

شاعری خوب  کرو  عشق میں  برباد  پھرو

اِس سے  کم  عزّتِ سادات  نہیں  ہوتی  ہے

مدحیہ  کوئی  قصیدہ   لکھو  یا  ہجو کہو

کوئی   تبد یلیِ   حالات  . نہیں  ہوتی   ہے

پہلے سچ کہتے ہیں پھر اُس پہ ڈٹے رہتے ہیں

لیکن  اِس  سے  گزر اوقات  نہیں   ہو تی  ہے

فکر  کو  ضبط   سے  ہم لفظ  کیا  کرتے  ہیں

ہم  پہ   اشعار   کی   برسات. نہیں  ہو تی ہے

طنز  تو  کرتے  ہیں. شکوہ  نہیں    کرتے.  شہپر

اِس  سے   عریانیِ  جذبات    نہیں    ہو تی  ہے

———-

غزل

میرا "میں ” مجھ سے جدا ہے یہ عجب سا سچ ہے

پھر بھی رگ رگ میں  بسا ہے یہ عجب سا سچ ہے

بے  سبب  کوئی   خفا  ہے   یہ عجب سا  سچ   ہے

بے رُخی میں  بھی مزا ہے  یہ. عجب  سا سچ   ہے

جانتا ہے کہ منانا نہیں آتا ہے مجھے

پھر بھی وہ روٹھ گیا ہے یہ عجب سا سچ ہے

وہ  انا  ہے  جو  مری  فتح  پہ  جھوم   اُٹھّی    ہے

اور   دل     ہار  گیا   ہے   یہ   عجب   سا  سچ  ہے

اُس کے  دیکھے  سے نہیں آتی  ہے رونق  پھر  بھی

وہ   مجھے  دیکھ   رہا  ہے  یہ عجب سا   سچ   ہے

اک  وہی  بات  بُرا   کہتے   ہیں  جس   کو  ہم. سب

خوب   ہم سب  میں  روا  ہے یہ  عجب سا  سچ  ہے

کوئی تبصرہ نہیں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے