نعمان شوق کا دشت اور رَم


گزشتہ چالیس برس سے، وہ بلا تفریقِ مبتدی و مرجع، با احترامِ تمام، قلم برداروں کی آوازوں کو شب و روز، ایک دنیا کی سماعتوں تک پہنچا رہا ہے لیکن آواز کی نمود کے خواہشمندوں اور نمایش گروں نے اس کے نام کے کسی حرف کو درست خط اور اس کی مناسب جگہ پر لکھنے کی زحمت گوارا نہیں فرمائی۔ وہ اپنی آواز کو ‘اپنے کہے کنارے’ پرلیے بیٹھا رہا۔ آج بھی ‘فریزر میں رکھی شام’ منتظر ہے لیکن ذکر کردہ مبتدی و مرجع اور خاص طور پر اس کے ‘مخلص’ احباب کا ایسا لطف رہا کہ فریزر میں رکھی اس شام پر برف کی تہہ لحظہ بہ لحظہ دبیز سے دبیز تر ہوتی چلی گئی۔ بہ وقتِ شام میں نے اس بات کا ذکر یہ سوچ کر چھیڑ دیا کہ ممکن ہے کچھ گرمی پیدا ہو اور برف پگھلنے لگے کیونکہ وہ ایک ایسی آواز ہے کہ جس نے اپنے کنارے پر کھڑے ہو کر کہا:

روح و بدن برابر لفظوں میں ڈھل رہے ہیں
اک تجربے سے میں بھی ایجاد ہو رہا ہوں

وہ آواز مسلسل اپنی ایجاد کے سفر پر گامزن رہی اور آج بھی اسی حرارت اور ہوش و خرد کے ساتھ مستعدی سے قائم ہے اور ‘صاحبِ آواز’ اپنی تگ و دو میں۔ اس کے ہدف عمیق تر اور وسیع تر ہوتے چلے گئے اور عزم میں تنوع آتا گیا۔ اس کے لہجے میں اعتماد اور تصمیم کی ایک عجب رمق رونما ہوئی۔ وہ اپنے ‘جحرہ ء آواز’ سے بسیط و کشادہ فضا کو نور سے بھر رہا تھا:

اک آخری چراغ جلائیں گے اب ان کے نام
ایسے تمام دل جو منور نہ ہو سکے

اس آگہی تک رسائی کے لیے نعمان شوق نے جو بھی قیمت چکائی ہو لیکن ہمیں ایک اچھا اور باقی رہ جانے والا اہلِ سخن ضرور مل گیا۔ ایک ایسا اہلِ سخن جس کے یہاں تہذیب و فن کے ہمراہ فکر و آگہی کی روشنی ہمیشہ موجود رہی۔ نعمان شوق کی اپنی تہذیب سے وابستگی وقت کے ساتھ واقع ہونے والے ‘تغیرات’ کو اپنے اندر سموتی جاتی ہے۔ نتیجے میں ‘ثبات’ کی صورت میں نعمان شوق ہمارے پاس رہ جاتے ہیں جو تخلیقی سطح پر ‘توانا’ بھی ہیں اور فکری سطح پر ‘دانا و بینا’ بھی۔ غالبا نعمان شوق کو بھی اس بات کا احساس ہے۔ اسی لیے وہ کہتے ہیں:

آۓ تو ہوں گے بہت خاک اڑانے والے
میں اضافہ ہوں ترے دشت کی ویرانی میں

نعمان شوق کا دشت، دراصل ان کے تجربوں کے نتیجے میں ان کے ذہن و دل میں آباد ہونے والا دشت ہے۔ اس معنی میں یہ ہمارے روایتی دشت سے مختلف ہے۔ اس دشت میں ایک وقت تھا جب بڑی ہریالی اور سرسبزی تھی۔ پھر ایک ایسا وقت آیا جب یہ دشت چھاڑ جھنکاڑ اور خاردار ببولوں سے بھر گیا۔ چونکہ یہ دشت الگ طرح کا تھا٫ لھٰذا نعمان شوق کا ‘رَم’ بھی اپنے ساتھیوں سے الگ ہی ہے۔ یہ ‘رَم’ جن آنکھوں کے لیے ہو رہا ہے، وہ ابھی اسے دیکھنے نہیں پہنچی ہیں۔ اس دشت کی کچھ جھلک دکھا سکتا ہوں لیکن دیکھنے والی آنکھوں کو تو خود ہی دیکھنے آنا ہوگا۔

تم چھت پہ آتے جاتے رہوں گے اسی طرح
تو دیکھنے لگیں گے سبھی کے ستارے خواب

سب کچھ دکھائی دینا بھی تشویش ناک ہے
آنکھیں زیادہ ہوگئیں بینائی کم کریں

بولیاں کم لگیں اس بار بھی دیوانوں کی
عشق دنیا میں ضرورت سے زیادہ تو نہیں

ہزاروں بار بدلی ہے ہزارون سال میں دنیا
مگر دیوانگی پہلی سے دیوانے میں رکھی ہے

میں زمیں پر رقص میں ہوں ایک اندیشے کے ساتھ
دیر سے رکھا ہے سر پر آسماں گِرتا ہوا

نعمان شوق یعنی دنیاۓ ادب کی آوازوں کے زیر و بم کو نظم و تنظیم کے ساتھ سنبھالے رکھنے والا، برس دو برس میں سبک دوش ہوجاۓ گا۔ فریزر میں رکھی اُس شام کا درجہ ء حرارت اگر اسی طرح کم ہوتا رہا تو صرف برف باقی رہ جاۓ گی اور شام گُم ہوجاۓ گی۔ ایک امید سی یوں ہے کہ اگر احباب نے ذکر چھیڑا تو اس کی آنچ اردو دنیا میں مجاز کی زبانی ‘ہر شام ہے شامِ مصر یہاں’ ضرور کہتی سنائی دے گی۔

نعمان شوق کے یہاں تقریبا دو دہائی قبل ایک ایسی ‘شام’ آئی جو آج بھی پڑھنے والے کی صبح کو لمحہ بھر میں شام میں تبدیل کرنے کی قوت رکھتی ہے۔ واقعاتی سبب کچھ بھی رہا ہو لیکن اس کا خمیر نعمان شوق کے یہاں کسی نہ کسی سطح پر ہر لحظہ تیار ہو رہا تھا۔ نعمان شوق سردو گرمِ زمانہ چشیدہ ہیں۔ یقینا اسی لیے انہوں نے اس شام کو جان بوجھ کر فریزر میں رکھا تھا۔ ایسی جھنجھلاہٹ، کڑواہٹ اور رگ شگاف حقیقتوں کو فریزر میں رکھ دینا ہی مناسب تھا۔ جس کا اعتراف وہ خود بھی کرتے ہیں، "جہاں دوسرے شاعر اس نفرت کو بڑی تہذیب سے اور صبر کے ساتھ ظاہر کرتے ہیں وہیں مجھ میں کمی یہ ہے کہ میں جھنجھلاتا ہوں، غصہ کرتا ہوں، چیختا ہوں اور سمجھتا ہوں یہی شاعری ہے”۔

میں یہاں فریزر میں رکھی شام کی نظموں کے عنوانات پیش کروں گا جن سے نعمان شوق کے کہی بات کی بخوبی تائید ہوتی ہے۔ مسخروں کے درمیان، مجرا، کچھ نئی آوازیں پرانے قبرستان سے، ہاں مسلمان= نہیں مسلمان، اردو کی مخالفت میں، ریلیف کیمپ میں دیوالی، سرنگ میں بجھتی لالٹین، کوئی نہیں سنتا اور کئی طرح کے سانپ وغیرہ۔ نظمیں قصدا نہیں دے رہا ہوں، اس امید میں کہ شاید کوئی کتاب پڑھ لے۔

نعمان شوق کی نظموں میں وہ باتیں ہیں جن کی زد میں ہر ایک ذہن ہے اور ہر ذہن اس کو کنارے کر دیتا ہے کیونکہ ان باتوں کے ذہن میں داخل ہونے کا مطلب ہے، اپنا سکون و آرام غارت کرنا۔ نعمان شوق نے ان باتوں کو صدقِ دل سے اپنے ذہن و دل میں داخل کر لیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ گزشتہ دو دہائی سے ان کے یہاں تخریب کا ذکر آباد ہے۔

جب میں نعمان شوق سے ملا تو ایک بار پھر وہ خیال تازہ ہوا جو ایران و عراق قیام کے دوران وہاں کے باشندوں کے درمیان رہ کر اکثر میرے ذہن میں آتا تھا۔ واقعہ یہ ہے کہ ایرانیوں اور عراقیوں سے مل کر مجھے محسوس ہوتا تھا کہ صحیح الشجرہ ہونے کے باوجود ‘سید و سادات’ دو قسم کے ہوا کرتے ہیں: (1) محض قال والے (2) قلب و حال والے۔ نعمان شوق کے شخصی رویے میں اخلاق و احسان کی صفات دیکھ کر اس کو مزید تقویت ملی۔ سید راغب اختر سے مل کر بھی اس کی تصدیق ہوتی ہے۔ مذکورہ دونوں حضرات کا شجرہ ‘قلب و حال’ والے ‘سید و سادات’ گھرانے سے ملتا ہے۔

نعمان شوق! آپ ہی نہیں، ہم بھی ہیرے کی قیمت کا اندازہ اس کے زہر ہی سے لگاتے ہیں۔ آپ نے سچ کہا ہے:
میں
ہیرے کی قیمت کا اندازہ
اس کے زہر سے لگاتا ہوں
چمک سے نہیں

کوئی کھرا نہیں اُترا
میری کسوٹی پر
تمہارے سوا

حقیقت بھی یہی ہے۔ ہاں ‘تمھارے سوا’ کوئی کھرا نہیں اترا اس کسوٹی پر، پر؟؟؟ آپ کے احباب سے بھی اس ضمن میں کبھی کچھ نہیں سنا۔ ممکن ہے ایک وجہ یہ بھی رہی ہو کہ آپ مسند پر نہیں بیٹھتے، پان نہیں کھاتے البتہ محدود زاویے ہی میں سہی، مسکراتے تو ہیں آپ۔ ‘اجنبی ساعتوں کے درمیان’، ‘جلتا ہوا شکارا ڈھونڈنے میں’ شاید ایسا ہی ہوتا ہے۔
/

کوئی تبصرہ نہیں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے