فی زمانہ اردو نظم کے حوالے سے جن شعرا کو تخلیقی سبقت حاصل ہے ان میں شہرام سرمدی کا نام بہت اہم ہے۔ ان کا پہلا مجموعہ "ناموعود” سن 2014ء میں شائع ہؤا جس میں نظم اور غزل دونوں اصناف شامل تھیں۔ تازہ مجموعہ "حواشی” (2023ء) صرف نظموں پر مشتمل ہے اور خوش آئند بات یہ ہے کہ اس کی نظمیں "ناموعود ” کی نظموں سے ایک قدم آگے ہیں۔ ہم میں سے جو لوگ رسائل پڑھتے ہیں یا فیس بک پر شہرام سرمدی کے حلقۂ احباب میں شامل ہیں وہ وقفے وقفے سے "حواشی” کی نظمیں پڑھتے رہے ہیں اور ان کے اسلوب سے متأثر ہوئے ہیں لیکن ہم ہی میں سے معدودے چند شاکی بھی ہیں کہ شہرام سرمدی کی نظموں میں قدرے مشکل پسندی یا ابہام کی کار فرمائی بھی ہے جو متن اور قاری کے رابطے کو اتنا مضبوط نہیں رہنے دیتی جتنی کہ مطلوب ہے۔ یہ موقع نہیں کے اس کی تفصیل میں کچھ عرض کیا جائے البتہ یہ باور کرانا کافی ہو گا کہ مشرقی شعریات ( اور بعدہ مغرب میں بھی ) مجاز کو حقیقت پر ترجیح ہے اور جب حقیقت کو منہا کیا جائے گا تو مجاز کی تخلیق بہر حال اس شاعر کی تخلیقی تربیت اور خود اس کے تخلیقی مزاج کی پابند ہو گی۔ مشرقی شعریات میں استعارہ ہی شعر ہے اور جہاں استعارہ ہے ، وہاں ابہام بھی لازماً ہے۔ اب معاملہ یہ ہے کہ آج کا قاری تفہیم کے روایتی تفاعل ( traditional elucidation system ) کا عادی ہے یعنی اس کی معنیاتی سمجھ بوجھ پہلے سے موجود تفہیمی سسٹم کا اتباع کرتی ہے جب کہ ارتقاء پذیر تخلیقی نظام وقت سے آگے چلتا ہے ۔ ۔ ۔ اور اگر وہ قاری / سامع سے تخلیق کی تفہیم میں شرکت کا مطالبہ کرتا ہے تو یہ ہر طرح مناسب بلکہ ناگزیر ہے۔ اگر ایسا نہیں ہو گا تو تخلیق کار کے لیے اظہار کے نئے خلیوں کی تجسیم ممکن نہیں ہو گی۔ شہرام سرمدی کی پہلی شناخت ہی یہی ہے کہ وہ اپنی نظم کو ادبی فیشن شو کی جگمگ روشنیوں کے فریب میں نہیں چھپاتے بلکہ اپنی طرز خود ایجاد کرتے ہیں۔ اس فیشن زدگی پر خود ان کی ایک بہت دلچسپ نظم ہے :
نادیدہ قاری کا بیان
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ورق ابھی باقی تھا
اک آواز سی آئی
روشنیوں کا ہالہ بنا
یک لخت لگا
میں عالمی فیشن شو میں ہوں
اور تازہ کاری کی دھن میں ہر لحظہ گم
اس ڈریس ڈیزائنر کی
فنکاری
پیرہنوں کو دیکھ رہا ہوں
جس کے ڈزائن کیے پیراہن
فیشن شو کے بعد کبھی
من بھا نہ سکے
تن پا نہ سکے
۔۔۔۔۔۔۔۔
۔ ۔ ۔ ظاہر ہے کہ اس ادراک کا شاعر اپنی نظموں میں معنی اور تاثیر کو فیشن شو کے اس المیے میں تو گم نہیں کرے گا جس کی تخلیقات کو نہ من ملے ، نہ تن۔
شہرام اپنے اسلوب میں ایک بہترین ایڈیٹر ثابت ہوتے ہیں۔ وہ اپنی تخلیقات کو حشو و زوائد سے سختی کے ساتھ پاک رکھتے ہیں یہاں تک کہ وہ امدادی افعال اور دیگر صرفی و نحوی ضرورتوں کو بھی مقدور بھر پس پشت رکھنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ دوسری اہم بات یہ کہ ان کی نظموں کے متن میں الفاظ کا انسلاک عمودی نہیں ، افقی ہوتا ہے چنانچہ ہم ان کے الفاظ کو جتنا مجاز میں سوچیں گے ، اتنے ہی اس کے جواہر کھلتے جائیں گے۔ اس کا ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ الفاظ علامتی صورت اختیار کرتے جاتے ہیں اور یہ علامت کبھی تصویری ہوتی ہے تو کبھی تحلیلی۔ کبھی الفاظ کے ذریعے دو مناظر پینٹ کر دیے جاتے ہیں اور ان کا تقابل ہی نظم کی معنوی اساس بن جاتا ہے۔ شہرام سرمدی اپنے موضوع کے تفاعل میں جذباتیت سے کام نہیں لیتے لیکن جذبے سے دست بردار بھی نہیں ہوتے بلکہ ان کے تدبر کی تہ میں جذبے اور احساس کا محلول ہمیشہ تیرتا رہتا ہے۔ اب یہ اتنی باتیں جو میں نے کہیں تو یہ محض دعویٰ نہیں رہنا چاہیے اور اس کے ثبوت میں "حواشی” کی ہر نظم پیش کی جا سکتی ہے لیکن اختصار کے پیش نظر ایک دو مثالوں پر اکتفاء کرتا ہوں۔ شروعات ” ناموعود” کی ایک نظم سے کرنا چاہوں گا :
پتنگ اڑانے سے پہلے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پتنگ اڑانے سے پہلے یہ جان لینا تھا
کہ اس کی اصل ہے کیا اور ماہیت کیا ہے
بہت نحیف سی دو بانس کی کھپچیں ہیں
اور ان سے لپٹا مربعے میں ناتواں کاغذ
یہ جس کے دم پہ ہوا میں کلیلیں پھرتی ہے
ذرا سی ضرب سے وہ ڈور ٹوٹ جاتی ہے
پتنگ کٹ گئی تو اس کا اتنا غم کیوں ہے
پتنگ اڑانے سے پہلے یہ جان لینا تھا
کہ اس کی اصل ہے کیا اور ماہیت کیا ہے ؟
۔۔۔۔۔۔۔
۔ ۔ ۔ اب دیکھیں کہ اس نظم میں بظاہر ایک مدبرانہ تنبیہ ہے کہ پتنگ اڑانے سے پہلے اس کی اصلیت اور ماہیت کا جان لینا ضروری تھا لیکن اس تدبر میں جذبے کا جو عنصر ہے وہ اتنا خاموش اور زیرین لہر کے طور پر ہے کہ اسے پہچان لینا ضروری ہے اور وہ ” نحیف سی بانس کی کھپچیوں ، ناتواں کاغذ اور ہوا میں کلیلیں بھرنے ” کے عمل میں مضمر ہے۔ یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ پتنگ اور اس کے متعلقات نظم کی معنوی بافت کے علامتی نظام کا حصہ ہیں۔
۔ ۔ ۔ خیر اب ذرا ” حواشی ” سے یہ نظم دیکھیے :
طرف طرف ہی تمام تر ہوں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
طرف طرف ہی
تمام تر ہوں
ہدف پہ موجود
نام بھر ہوں
میں جانتا ہوں یقیں نہ ہو گا
کہ دھیان مرکوز بس ادھر ہے
نفس کا آواگمن جدھر ہے
پرے قفس کے دوبارہ دیکھو
ادھر نفس کے
طرف طرف ہی تمام تر ہوں
۔۔۔۔۔۔۔۔
۔ ۔ ۔ نظم کی معنویت اپنے آپ میں مکمل ہے لیکن اسلوب میں نفس اور قفس کے عناصر نے طرف اور ہدف سے جو افقی انسلاک استوار کیا ہے وہ دیکھتے ہی بنتا ہے۔
شہرام کی نظموں کے فکری پس منظر میں ان کا تاریخی شعور اس پردہء سیمیں کی طرح ہے جس پر موضوع اور معنی کی رواں تصاویر ان کے تناظر ( vision ) کو مزید روشن کر دیتی ہیں۔ اسی طرح ان کی نظموں کی بافت اور ہیئتی تنوع حیران کر دینے والا ہے۔ کبھی کبھی تو ان کی نظمیں دیدنی زیادہ اور خواندنی کم ہوتی ہیں۔ کاغذ پر وہ اپنی نظموں کے مصاریع جس انداز میں مرتب کرتے ہیں ، کبھی درمیان میں انھیں نثری اقتباس کی شکل دے دیتے ہیں اور کبھی ایک مصرع کو دوسرے سے دور لکھتے ہیں ۔ ۔ ۔ تو یہ سب نظم کی بافت ہی کا حصہ ہوتا ہے اور کہنا نہ ہو گا کہ نظم کی ہیئت و بافت نظم کی معنویت ہی کا حصہ ہوتی ہے۔ ہمارے عہد میں نظم کی ہیئت سازی کا یہ ہنر بہت کم نظم نگاروں میں نظر آتا ہے۔ میں نے فیس بک پر ان کی ایک نظم پڑھی تھی ۔ ۔ ۔ "ے ا د د ا ش ت ” ۔ یہ نظم واقعی دیدنی ہے۔ ایک نوع کی پراسراریت از اول تا آخر طاری ہے۔ یہ اسرار نظم کے عنوان ہی سے شروع ہو جاتے ہیں ۔ یادداشت کے حروف کی علیحدگی حافظے کے بکھراؤ کی علامت ہے۔ عنوان کے بعد نظم کا آغاز فاعلاتن کی گردان کے ایک اقتباس سے ہوتا ہے۔ یہ اقتباس ایسا رواں ہے کہ قاری آخر تک پڑھ کر ہی دم لیتا ہے۔ یہ دم لینا اس لیے ممکن ہوتا ہے کہ آگے کے مصاریع میں آہنگ بدل جاتا ہے اور موضوع بھی ۔ ۔ ۔ لیکن دو تین بندوں کے بعد پھر فاعلاتن والا اقتباسی آہنگ لوٹ آتا ہے۔ نظم کی یہ تنظیم ، یہ بافت تخلیقی ہے۔ نظم کی ڈرافٹنگ کا یہ تمام تر نقشہ اس ہیولے کا سا لگتا ہے جس کا ذکر پہلے اقتباس میں ہے۔ تاریک سیارے پر ہونا ، فاصلے پر اک آسیب کا نظر آنا ۔ ۔ ۔ آسیب کا بیان کنندہ کی شخصیت میں داخل ہو جانا اور پھر یہ یاد نہ رہنا کہ ۔ ۔ کس نے یہ حکایت مختصر کی ۔ ۔ وغیرہ کا کسی طور جواب نہیں۔ یہ بافت ڈرامائی کیفیت کو بھی سمیٹتی ہے اور بیانیہ کو پٹری سے اترنے بھی نہیں دیتی۔
حکایت کیا تھی ؟ یہی کہ وہ تم نہیں تھیں ، وہ عشق کی آیت تھی ۔ ۔ ۔ یہاں نظم کی فکر فلسفیانہ رنگ اختیار کر لیتی ہے کہ محبوب الگ ہے اور عشق الگ ۔ ۔ یہیں سے تصوف شروع ہوتا ہے ۔ ۔ کہ وسیلہ منزل نہیں ۔ ۔ ۔ منزل تو عشق ہے ۔ ۔ ۔ جو وسیلے سے آگے نکل کر عشق تک پہنچ گیا ۔ ۔ وہی کامیاب ہوا۔
اس تذکرے کے بعد پھر سیارہ نظر آتا ہے ۔ ۔ اب کی بار یہ ہیولا زلفیہ اور اخترالایمان کے حوالے سے ابھرتا ہے ۔ ۔ اور قاری زیر نظر نظم کے متن سے ایک دوسرے متن میں پہنچ جاتا ہے۔ یہ بین المتونی انسلاک ہمیں بتاتا ہے کہ زلفیہ سے آگے ایک روشنی تھی ۔ ۔ روشنی باقی رہی ، زلفیہ کھو گئی کیونکہ وہ اس تاریک سیارے کی باشندہ نہیں تھی ۔ ۔ ۔
تاریک سیارے سے روشنی تک کے اس نہایت دبیز سفر میں نہ صرف موضوع اور مضمون کی دبازت اور پر اسراریت مضمر ہے بلکہ معنوی بہاؤ میں جو نشیب و فراز ( پر آہنگ اقتباس + ہیولے جیسے مصرعے + پر آہنگ اقتباس ) آئے ہیں وہ اپنا ایک تخلیقی کردار ادا کرتے ہیں۔ حیران کن کمال یہ ہے کہ ایک جانب اقتباس قائم کرنا ، آہنگ بدل لینا ، ڈرامائیت سے کام لینا ، ایک نوع کا اسرار آخر تک بنائے رکھنا اور اختر الایمان کے حوالے سے بین المتونی تسلسل قائم کرنا ۔ ۔ ۔ اللہ اللہ ۔ ۔ کتنے تکنیکی حربوں کو یکجا کر دیا گیا ہے اور اس طریقۂ کار سے نظم کی جو انفرادیت قائم ہوئی ہے ، وہ دیکھتے ہی بنتی ہے ۔ ۔ ۔
” حواشی ” ہمارے عہد کی نظموں کا ایسا نمائندہ مجموعہ ہے جو ایک مکمل تفصیلی مضمون کا متقاضی ہے۔ مجھے یقین ہے کہ اس پر دیر تک اور دور تک گفتگو ہو گی اور ہمارے عہد کی نظموں کا کوئی تذکرہ "حواشی” کو مرکز میں رکھے بغیر مکمل نہیں ہو گا۔
کتاب نہایت نفاست کے ساتھ اور بہت خوبصورت شائع ہوئی ہے۔ گرد و پیش فنکاری سے مزین اور کاغذ بہت عمدہ ہے۔ فلیپ پر افتخار عارف اور عقیل احمد صدیقی کی آراء شامل ہیں لیکن امیر حمزہ ثاقب کا مضمون ” حواشی : صورت ہستی کی معنوی تفسیر ” سب سے زیادہ توجہ کا حامل ہے۔ ثاقب خود ایک بہت عمدہ شاعر ہیں اور شہرام سرمدی کے تخلیقی عمل سے بخوبی واقف ہیں چنانچہ انھوں نے اپنے مضمون میں جن تنقیدی ذرائع سے کام لیا ہے اور ان کی نظم نگاری کو جس گہری نظر سے دیکھا ہے وہ اپنے آپ میں ایک ادبی وقوعہ ہے۔
144 صفحات کی یہ خوبصورت اور معنی خیز کتاب 225 روپے میں باز گشت بکس ، نئی دہلی سے خریدی جا سکتی ہے۔
کوئی تبصرہ نہیں