عبداللہ ندیم کی دس غزلیں


عبداللہ ندیم کی دس غزلیں

غزل

بہم کچھ اس طرح ہونے کے سب اسباب کرتا ہے

وہ میری خاک کو چھو کر ستارا یاب کرتا ہے

مرے شوقِ سفر کی اک یہ ادنی سی کرامت ہے

کہ دریا خود ہی اپنے آپ کو پایاب کرتا ہے

یہ کیسی پیاس ہے پی جاتی ہے کا ریز تک کو بھی

یہ کیسا غم ہے دل کو اور بھی سیراب کرتا ہے

کبھی دامن پسارا ہی نہیں مہتاب کے آگے

ہماری راہ روشن کرمکِ شب تاب کرتا ہے

یہ آنکھوں کا علاقہ ہے ،یہاں بچ کر قدم رکھیے

کہ دل جیسے شناور کو بھی یہ غرقاب کرتا ہے

———–

غزل

سکوتِ شب پہ کھلا جب بھی میرے حال کا رنگ

فضامیں اور بھی گھلتا گیا ملال کا رنگ

ٹھہر گیا مری مٹی میں رنگِ فصلِ بہار

گزر گیا ہے برس کر ترے جمال کا رنگ

پھر اسکے بعد کہاں آئنے میں تاب رہی

بس ایک عکس تھا اور عکس میں کمال کارنگ

میں بند آنکھوں سے دیدار ان  کا کرتا ہوں

کہیں وہ دیکھ نہ لیں آنکھ میں سوال کا رنگ

ندیم پھر شب ِ فرقت کا رنگ اڑنے لگا

مہک رہا ہے مرے بام پر وصال کا رنگ

          ———–

غزل

بارشِ دید خال خال آئی

میری آنکھوں پہ جم گئی  کائی

شام اتری ہے خانہءِ دل میں

شور کرنے لگی ہے تنہائی

بجھ رہا ہے ستارۂ امید

درد لینے لگا ہے انگڑائی

زخم کی پور پور کھلتی ہے

خوں میں بجنے لگی ہے شہنائی

شب کی کھڑکی میں کون بیٹھا ہے

چاند کس پر ہوا ہے  سودائی

وحشتیں بام ودر پہ رقصاں ہیں

دل کہاں تک کرے شکیبائی

اجنبی شہر اور رات ندیم

کون کرتا مری پذیرائی

———–

غزل

وجودِ خاک کو بخشا ہےاعتبار اس نے

مجھے اڑایا مگر صورتِ غبار اس نے

نکل کے جائے بھی کس سمت کو دلِ وحشی

 رکھا ہے کھینچ کے چاروں طرف حصار اس نے

بھلا تھا راز کی صورت کہیں چھپا ہوا تھا

برا ہوا کہ کیا مجھ کو آشکار اس نے

لگایا اور مرے دل کو اس خرابے میں

بڑھائی یوں بھی مری قید ِ انتظار اس نے

سناں کے بوسے لئے جارہا ہے گرم لہو

عجب ادا سے کیا ہے  مرا شکار اس نے

خزاں تو آنی تھی ،آئی مگر ندیم ہمیں

تمام عمر رکھا صورتِ بہار اس نے

———–

غزل

راز کھلتا نہیں تسخیر کیا ہے کس نے

مجھ سے آزاد کو زنجیر کیا ہے کس نے

اور روشن ہوا جاتا ہوں مٹا دینے پر

مجھ کو اس  طور سے تحریر کیا ہےکس نے

پھانس شاید کوئی  اٹکی  ہے ابھی تک دل میں

ساعتِ وصل کو دل گیر کیا ہے کس نے

جب بھی اٹھتا ہے مری عمر  بڑھا دیتا ہے

درد میرے لئے اکسیر کیا ہے کس نے

وہ جو اک خواب کسی آنکھ نے دیکھا بھی نہیں

مجھ کو اس خواب کی تعبیر کیا ہے کس نے

میں تو اک گوشہءِ تنہائی میں بیٹھا تھا ندیم

میرا ہونا یہاں تشہیر کیا ہے کس نے

         ———–

غزل

کیا  اس سے بڑھ کے اور بھی ہوگا کوئی زیاں

اب خواب بھی گزرنے لگے ہیں ہمیں گراں

ہونے کو خاک ہو بھی چکا ہے شرارِ دل

اٹھنے کو اٹھ رہا ہے ابھی تک مگر دھواں

روحوں کے اختلاط سے بجھنی تھی آگ کب

سو ہم بدن بھی لائے کئی بار  درمیاں

چلنے لگے تو خود ہی سمٹ آئے فاصلے

یوں ہی سمجھ رہے تھے اسے دشتِ بے کراں

جس کو سجا کے رکھا تھا سینے پہ ایک عمر

اس زخم کا بھی آج نہیں ہے کوئی نشاں

تھک ہار کے اسے بھی اتار آئے ایک دن

کب تک اٹھائے پھرتے یونہی دوش پہ جہاں

کچھ اس لئے بھی بڑھ گئیں محرومیاں ندیم

اک آنکھ ان دنوں ہے بہت ہم پہ مہرباں

———–

مرے وجود سے پھیلا یہ انتشار ہے کیا

محیط سارے جہاں پر  مرا غبار ہے کیا

یہ کون خاک اڑاتا پھرے ہے صحرا میں

مرے جنوں میں کوئی اور حصہ دار ہے کیا

کہ اب تو جوئے تمنا بھی ہوچلی ہے خشک

بچھڑنے والے تجھے اور انتظار ہے کیا

مہک اٹھے ہیں دروبام جل اٹھے ہیں چراغ

ہوا کے دوش پہ خوشبو تری سوار ہے کیا

یہ کیا کہ گم رہیں رعنائیوں میں ہم اس کی

کبھی تو دیکھ کے آئیں بدن کے پار ہے کیا

کہیں سے اٹھ تو رہا ہے یہ نالہءِ شب گیر

ندیم ہم سا کوئی اور دل فِگار ہے کیا

             ———–

غزل

ازل سے آکے مری آنکھ میں رکی ہوئی ہے

وہ ایک رات جو تنویر سے بندھی ہوئی ہے

نکال لی ہیں سبھی سوئیاں بدن سے مگر

وہ ایک سوئی کہ جو آنکھ میں گڑی ہوئی ہے

عجب نہیں کہ زمستاں لہو میں اترا ہو

تمام رشتوں پہ اک برف سی جمی ہوئی ہے

تمہارے پاؤں کی ٹھوکر سے معتبر ہوجائیں

ہماری خاک بھی دیکھو یہیں  پڑی ہوئی ہے

ہماری نبض ہی مدھم نہیں پڑی ہے میاں

یہ کائنات بھی لگتا ہے کچھ تھمی ہوئی ہے

بہت قریب سے میں اس کو جانتا ہوں ندیم

مری انا بھی مرے ساتھ ہی بڑی ہوئی ہے

———–

غزل

ساعتِ عمر گزرتی رہی  ارزانی  میں

جسم یکسر تھا نمک اور بسر پانی میں

وہ سمجھتا ہے کہ برباد کیا ہے اس نے

ہم کہ آباد ہوئے جاتے ہیں ویرانی میں

لہریں بڑھ بڑھ کے چلی آتی  ہیں بوسہ لینے

پاؤں رکھا نہں میں نے ابھی طغیانی میں

سہل اتنا بھی نہ جانو مجھے اے ہم سَفَراں

مشکلیں ڈھونڈھتا رہتا ہوں میں آسانی میں

آنکھ دن رات جو اب سونی پڑی رہتی ہے

خواب رہنے لگے یہ کس کی نگہبانی میں

کس کے جلوؤں نے سجارکھی تھی یہ بزم ندیم

عمر  جو ساری گزاری گئی حیرانی میں

———–

غزل

اڑا کے اپنے ہی پرزے کہیں بکھر جاتے

جو اختیار میں ہوتا تو ہم بھی مر جاتے

ہمیں ہی نقلِ مکانی کا شوق تھا ورنہ

مثالِ خواب تری آنکھ میں ٹھہر جاتے

 وہ جن پہ بند ہوئے در ،وہ راندہءِ درگاہ

تری گلی کو نہ جاتے تو پھر کدھر جاتے

برا ہوا کہ ہواؤں نے راز کھول دیا

تمہارے شہر سے چپ چاپ ہم گزر جاتے

بھلا ہوا تری محفل نے دل کو کھینچ لیا

ہم ایسے اہلِ خرد تھے اِ دھر اُدھر جاتے

پسند ہے لب ِ ساحل جو ڈوبتا سورج

تو اس کے ساتھ سمندر میں بھی اتر جاتے

 ندیم آتی کسی روز کوئی ایسی شام

بدن کو ساتھ لئے ہم بھی اپنے گھر جاتے

1 تبصرہ

  • عبداللہ ندیم کی شاعری اپنی تہذیب کی پاسداری کے ساتھ اپنا حال بیان کرتی ہے اور آپ اس میں کامیاب ہیں۔ ایک خوبی بھی ہے کہ آپ کی شاعری علم و علمیت کی گرد سے صاف ہے۔ یہ کارنامہ اس لیے ہے کہ آپ فارغ مکتب اور عالم آدمی بھی ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے