محمد افسر رہبین: ایک افغان اردو شاعر
(شہرام سرمدی)
فارسی زبان و ادب نے زبان کی سطح پر اردو کو بہت کچھ دیا ہے۔ اس کے پہلو بہ پہلو جب معاصر لسانی و ادبی منظر نامے کو دیکھا تو پایا کہ فارسی سرزمین میں بھی ایسے عشاق کی تعداد خاصی ہے جو ان سرزمینوں میں اردو زبان و ادب کو بہت کچھ دینے میں مصروفِ کار ہیں۔ اس کا ثبوت افغانستان، تاجیکستان اور ایران میں موجود مذکورہ ممالک کے اردو اہلِ قلم ہیں۔
تاجیکستان میں ہندوستان کی اسی سانجھی وراثت کو فروغ دینے کے لیے پروفیسر حبیب اللہ رجبوف کو 2018 میں ‘پدم شری’ سے نوازا گیا۔ ڈاکٹر جاوید خلوف کو ان کی اردو و ہندی زبان میں مشترکہ خدمات کے لیے 2019 میں ‘وِشوَا ہندی سمان’ سے سرفراز کیا گیا۔ دیگر اہلِ قلم میں ڈاکٹرحیدر قربانوف، ڈاکٹر زرینہ رحمت اللہ ایوَا، ڈاکٹر اہتم شاہ یونسی, صباحت یارووا اور علیخان لطیفوف اہمیت کے حامل ہیں۔ ڈاکٹر رفیع الدین کے بعد، ان دنوں ڈاکٹر مشتاق صدف تاجیک نیشنل یونیورسٹی میں وِزیٹنگ فیکلٹی کی حیثیت سے درس و تدریس کے فرائض انجام دے رہے ہیں۔ تاجیکستان میں قیام کے دوران یہ بات تجربے میں آئی کہ تاجیکی لوگوں میں اردو سیکھنے کی صلاحیت خداداد ہے۔
ایران میں اردو کی سپہ سالاری ڈاکٹر علی بیات کے سر ہے۔ دیگر احباب میں ڈاکٹر محمد کیومرسی، ڈاکٹر وفا یزدان منش، ڈاکٹر فرزانہ اعظم لطفی، ڈاکٹر علی کاؤوسی نژاد ایسے صاحبان علم ہیں جو سخنے سخنے اردو کے فروغ میں خوش آئند کام انجام دے رہے ہیں۔ ان حضرات کے تحقیقی کام سنجیدہ مطالعے سے تعلق رکھتے ہیں۔ ڈاکٹر علی بیات نے ‘پنجرہ ای بہ سمتِ باغِ گم شدہ’ کے نام سے افتخار عارف کی شاعری کا اچھا فارسی ترجمہ بھی کیا ہے۔
افغانستان میں محمد افسر رہبین ایک ایسی شخصیت کا نام ہے کہ کبھی کبھار جس پر ایک ادارے کا گمان ہوتا ہے۔ رہبین نے بحیثیت افغان سفارت کار ہندوستان اور ایران میں بھی خدمات انجام دیں ہیں۔ ان کے اہم ادبی کاموں میں:
– غریب نواز ( اردو سے فارسی ترجمہ)
– زخم (اردو غزلوں کا مجموعہ)
– فارسی ترجمہ ء غبارخاطراز مولانا ابوالکلام آزاد
– منظوم فارسی ترجمہء بال جبرئیل، ضرب کلیم، بانگ درا ارمغان حجاز
– فارسی ترجمہ ء یادگار غالب
رہبین مذکورہ بالا ادبی کاموں کے علاوہ فارسی اور اردو کے ایک کہنہ مشق شاعر بھی ہیں۔ ان کی اردو شاعری کئی لحاظ سے اہمیت رکھتی ہے۔ اردو زبان پر تخلیقی اعتبار سے ایسی دسترس حیران بھی کرتی ہے اور خوشی کا باعث بھی ہے۔ رہبین کی صورت میں ہمیں اس معنی میں ایک پورا شاعر ملتا ہے کہ وہ بیان کے مرحلے میں سخن کرتے نظر آتے ہیں۔ وہ ایک ایسے بالیدہ ذہن کے مالک ہیں جس نے دنیا بھی دیکھی ہے اور افغانستان کو اپنے اندر جِیا بھی ہے۔ رہبین کے یہاں ایسے اشعار اچھی تعداد میں موجود ہیں جن میں زبان اپنی صاف ستھرائی کے ساتھ شعر کے قالب میں ڈھلی ہے، جہاں وہ زبان کو لے کر دست و گربیان نہیں ہیں۔ ممکن ہے ان کے طرزِ اظہار میں ایک طرح کا شاعرانہ پن محسوس ہو لیکن اسے ان کے رنگ کی صورت میں قبول کیا جاسکتا ہے۔
فارسی شاعری اپنی سرزمینوں میں باوجود گوناگوں پیشرفتوں اور مختلف جدت طرازیوں کے اپنے نمایاں رویے میں خاصی فیصد میں آج بھی کلاسیکی رنگ کو اپنے دامن میں پناہ دیتی ہے۔ یہ نقوش رہبین کے یہاں بھی ہیں۔ ایک اور بات یہ کہ رہبین کی شاعری میں کسی قسم کی گٹھن نہیں ہے۔ وہ اپنے رنج و غم کا اظہار اس طرح کرتے ہیں کہ دل بجاۓ دُکھ اور مایوسی کے غم میں نشاط انگیزی کی کیفیت پیدا ہوجاتی ہے۔ ان کا غم قنوطیت زدہ نہیں ہے:
زندگی کی حسین راہوں میں
درد بنتا ہے ہم سفر میرا
خوں برستا ہے کشتگانِ وفا
خطہءعشق میں محرم ہے
یہی تو سچ ہے کہ پامالِ آرزو ہیں ہم
ابھی تباہ نہیں تیغ در گلو ہیں ہم
گزر گیا وہ زمانہ وہ روزگارِ وصال
عجب ہے آج کہ محتاجِ گفتگو ہیں ہم
شیخِ شیراز اس اعتبار سے صاحبِ حال تھے کہ روزمرہ حوادث کو نظر میں نہیں لاتے تھے البتہ رہبین گوشت پوست کے ایسے آدمی ہیں جو اُس افغانستان میں زندگی کررہے ہیں۔ وہ افغانستان جس کی حقیقت کی خبریں جابجا موجود ہیں۔ رہبین ان حقائق کو بڑے سلیقے اور ضبط سے بیان کرتے ہیں۔ ان کا قاری ذکر کردہ سلیقے اور ضبط میں پوشیدہ رنج و درد کو بخوبی محسوس کرسکتا ہے:
لوٹ لی آبروی گل کس نے
پھر گلستاں میں شورو ماتم ہے
درد کے میکدے میں بیٹھ کے یوں
آگ دل کو پلا رہا ہوں میں
ڈر گیا ہوں خیالِ خودکُش سے
میرے آغوش میں چھپا بَم ہے
پھر وہ احساس کہ جاں جل جاۓ
یہ عنایت ہے اگر دے مجھ کو
محمد افسر رہبین کی پیدائش 1958 کی ہے۔ یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ انہوں نے افغانستان میں وہ زمانہ دیکھا ہے جس میں عشق اور زندگی ایک دوسرے کے یار و ہم نشیں ہوا کرتے تھے۔ رہبین کے یہاں اس عشق کی سَبُک رو چاپ موجود ہے۔ وہ عشق کے ساتھ عاشقانہ سلیقے ہی سے پیش آتے ہیں۔ عشق کے ساتھ ان کا معالہ اشراف جیسا ہے۔ چھوٹی چھوٹی باتیں کہتے ہیں لیکن مزہ زیادہ لیتے ہیں۔ مزہ لینے کا ان کا انداز دلچسپ ہے۔ تنقیدی اصولوں کے پاسدار ان کے یہاں ‘معاملہ پندی’ والی بات بھی پائیں گے:
تم ہو اور ہم یہی ہے قصہ تمام
کیا وجود و عدم کی بات کریں
خود سے بیگانہ بن گئے ہیں ہم
کاش اک بار ہم سے بات کریں
کسی کے زخم سے ایسا قتیل ناز ہوں میں
کہ آج پھلے سے بہتر نگاہ باز ہوں میں
نہ زندگی کی ہے پروا، نہ موت سے کوئی ڈر
خیال یار جو ہوجائے ہمسفر میرا
عشق نے جو غزل سکھائی ہے
ہاں! وہی گنگنا رہاہوں میں
تم اگر مہرباں نہیں ہوتے
ایسا کچھ بھی برا نہیں ہوتا
پھرسے اےعشق جگر دے مجھ کو
لذت درد سے بھر دے مجھ کو
جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ ہندوستان میں افغانی احباب اپنے خاص طرح کے اردو لہجے کے لیے بھی پہچانے جاتے ہیں۔ ان کے بات کرنے کا انداز مختلف ہوتا ہے جو سنتے ہی پہچان لیا جاتا ہے۔ رہبین کی شاعری میں وہ طرزِ سخنِ بھی ملتا ہے اور افغانی لطفِ سخن کی مٹھاس دیتا نظر آتا ہے:
میں سجدہ تم کو کیا اور شیخ حیراں تھا
انھوں نے سوچ لیا برسر نماز ہوں میں
میں جب سے آپ کو دیکہاہے سوچتاہوں یہی
جو بندہ ایسا بنایا ہے وہ خدا کیا ہے
وہ کہاں ہے آج اور یہ ہم کہاں
ہم کو چھوڑا راہ میں ہمدم کہاں؟
تم نہیں دل کا ہم نشیں غم ہے
غم بھی اک خوش مزاج ہمدم ہے
آخر میں اتنا کہنا عرض کروں گا کہ محمد افسر رہبین نے اردو زبان و ادب میں کئی اہم ادبی کام انجام دیے ہیں جن کی ادبی قدر سے انکار مشکل ہے۔ انہوں نے افغانستان میں اردو شاعری کی بنیاد بڑی مستحکم رکھی ہے اور اس بنیاد پر ایسی مضبوط دیوار بلند ہونے کے خوش آئند امکانات ہیں جس پر ایک مکان کی تعمیر میں شبہ نہیں کیا جانا چاہیے۔ محمد افسررہبین کی اس غزل پر بات ختم یا کہیں آغاز کرتا ہوں:
تم کو بھی ٹھوڑی پیاس ہے شاید
اس لیے دل اداس ہے شاید
آپ کی تیغ اور مرا گردن
یہ بھی اک التماس ہے شاید
جاں نکلنے کے وقت آئےگی
اتنی فرصت شناس ہے شاید
اتنی خوشبوکہاں سے آتی ہے
وہ کہیں آس پاس ہے شاید
کوئی تبصرہ نہیں