ادب میں تنقید کی ضرورت اور اس کی اہمیت


نظیرصدیقی

ادب میں تنقید کی ضرورت اور اس کی اہمیت

دنیا کی ہر زبان کا ادب نثر و نظم کی شکل میں ہوتا ہے۔ ہر زبان کے ادب کو آسانی سے دو حصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔ ایک حصہ وہ ہے جو انسان اور ا نسانی زندگی کے بارے میں لکھا گیا مثلاً داستان، ناول، افسانہ، ڈراما، نظم، غزل وغیرہ ادب کی ان اقسام کو تخلیقی ادب کہا جاتا ہے۔ اس تخلیقی ادب کے بارے میں جو کچھ لکھا جاتا ہے اسے تنقیدی ادب کہا جاتا ہے۔ یہ تنقید کی کوئی مکمل تعریف نہیں ہے۔ دراصل یہاں صرف یہ بتانا مقصود ہے کہ ادب کی ایک بڑی تقسیم تو نثر و نظم کے اعتبار سے ہے یعنی ایک نثری ادب ہوتا ہے اور دوسرا شعری ادب۔ ادب کی دوسری بڑی تقسیم یہ ہے کہ ادب کایک حصہ تخلیقی ادب کہلاتا ہے اور دوسرا حصہ تنقیدی ادب۔
تنقیدی ادب کی بنیاد تخلیقی ادب پر ہوتی ہے۔ اگر دنیا میں تخلیقی ادب نہ ہوتا تو تنقید ادب بھی نہ ہوتا۔ وجہ ظاہر ہے تنقیدی ادب تخلیقی ادب کی تشریح کرنے وار اس کی قدر و قیمت کا تعین کرنے سے وجود میں آتا ہے۔ اگر تخلیقی ادب نہ ہو تو تنقیدی ادب کس چیز کی توضیح کرے گا اور کس چیز کی قدر و قیمت متعین کرے گا؟
اب یہ بات واضح ہوگئی کہ تخلیقی ادب پہلے وجود میں آتا ہے اور تنقیدی ادب بعد میں۔ نتیجتاً تخلیقی ادب کو اوّلین اہمیت حاصل ہے اور تنقیدی ادب کو ثانوی اہمیت۔ لیکن اس کے معنی یہ نہیں کہ ہر تخلیقی فن کار اول درجے کا فن کار ہوتا ہے اور ہر تنقید نگار دوسرے درجے کا تنقید نگار۔ تخلیقی فن کار بھی دوسرے اور تیسرے درجے کا ہوسکتا ہے اور تنقید نگار بھی اوّل درجے کا ہوسکتا ہے لیکن بہترین تخلیقی ادب کے مقابلے میں بہترین تنقیدی ادب کا درجہ ثانوی ہی رہے گا۔ دنیا کا بہترین تخلیقی ادب انسانی تاریخ کے ہر دور میں شگفتہ اور شاداب رہتا ہے، جب کہ ایک دوسر ا بہترین تنقیدی ادب دوسرے دور میں اپنی تازگی اور توانائی کھوتا چلا جاتا ہے۔ اس صورت حال کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہر دور کے بہترین تخلیقی ادب کی بنیاد پر سو تنقیدی نظریے وجود میں آتے ہیں لیکن کوئی نظریہ ایسا نہیں ہوتا جس کی اہمیت اور عظمت ہر دور میں قائم رہ سکے۔ بہترین تخلیقی ادب کی دلکشی ہمیشہ قائم رہتی ہے۔ لیکن بہترین تنقیدی ادب کی دلچسپی ہمیشہ برقرار نہیں رہتی۔ تخلیقی ادب کے بارے میں خیالا ت اور نظریات بدلتے رہتے ہیں، جب کہ تخلیقی ادب ہمیشہ جوں کا توں رہتا ہے۔ اس میں ایک نقطے کی بھی کمی یا بیشی نہیں ہوتی۔ اس تاریخی صورت حال کی بنا پر یہ سوال اکثر سامنے آتا رہا ہے کہ کیا ایک تنقید نگار اتنی ہی اہمیت رکھتا ہے، جتنا ایک فن کار۔ دوسرے لفظوں میں یہ سوال یوں بھی کیا گیا ہے کہ کیا اچھی تنقید ایک اچھی تخلیق کے برابر ہوتی ہے، کیا ادب میں تنقید کا مرتبہ وہی ہے جو تخلیق کا ہے؟
اس سوال کے جواب میں اختلافات رہے ہیں، خصوصاً تنقید نگاروں کا طبقہ آسانی سے یہ بات تسلیم نہیں کرتا کہ تنقید تخلیق سے کمتر درجے کی چیز ہے۔ عہد حاضر کے عظیم شاعر اور نقاد ٹی ایس ایلیٹ نے تنقید اور تخلیق کی عدم مساوات کو کم یا ختم کرنے کے لیے یہ بات کہی ہے کہ اچھے تنقید شعور کے بغیر اچھی تخلیق وجود میں نہیں آسکتی۔ یہ بات اپنی جگہ درست ہے لیکن ایک اچھے فن پارے اور اس کے بارے میں ایک اچھے تنقیدی مضمون کا فرق باقی رہ جاتا ہے۔ عام طور پر ایک اچھا فن پارہ ایک اچھے تنقیدی مضمون سے زیادہ پائیدار ثابت ہوتا ہے۔
تنقید تخلیق سے کمتر درجے کی چیز ہے یا اس کی ہم سر؟ ممکن ہے اس سوال کا کوئی حتمی فیصلہ نہ ہوسکے لیکن اس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ تنقید ادب کے لیے نہایت ضروری ہے۔ جس طرح زندگی کو سمجھنے کا فریضہ ادب انجام دیتا ہے، اسی طرح ادب کو سمجھنے کا فریضہ تنقید انجام دیتی ہے۔ جس طرح ادب زندگی کے ادراک کا نہایت حساس آلہ ہے، اسی طرح تنقید ادب کے ادراک کا نہایت حساس آلہ ہے۔ ادب کے بغیر زندگی نہیں سمجھی جاسکتی،تنقید کے بغیر ادب نہیں سمجھا جاسکتا۔ جس طرح ادیبوں اور شاعروں کی حساسیت زندگی کے ناقابل گرفت پہلوؤں کو گرفت میں لے لیتی ہے، اسی طرح تنقید نگار کی ذہانت اور نکتہ رسی ادب کی باریک ترین خوبیوں اور خامیوں کو شعور کے دائرے میں لے آتی ہے۔ ادب وہ آنکھ ہے جس کے ذریعے انسان زندگی کو دیکھتا ہے اور تنقید وہ آنکھ ہے جس کے ذریعے وہ خود ادب کو دیکھتا ہے۔ زندگی کی تعبیر کرنا ادب کا کام ہے اور ادب کی تعبیر کرنا تنقید کا کام۔ دنیا کے بڑے شاعروں، ڈرامانگاروں، ناول نگارو ں اور افسانہ نگاروں نے انسانی زندگی کو پڑھ کر بتایا کہ زندگی کیا ہے اور وہ کتنے زاویوں سے دیکھی جاسکتی ہے۔ دنیا کے بڑے تنقید نگاروں نے ادب کو پڑھ کر بتایا کہ ادب کیا ہے اور وہ کس طرح زندگی کی عکاسی کرتا ہے، کس طرح لفظوں کی مدد سے حقیت پر فتح پاتا اور کس طرح لفظوں کے ذریعے مصوری اور موسیقی دونوں کا حق ادا کرتا ہے۔ ادب اگر زندگی کا عکس ریز ہے تو تنقید خود ادب کا عکس ریز ہے۔
تنقید کی تعریف
یہ بات مسلمات میں سے ہے کہ دنیا کی ہر زبان میں ادب کا آغاز شاعری سے ہوا نہ کہ نثر سے۔ تنقید بنیادی طور پر ادب کی نثری اصناف میں سے ہے گو عالمی ادب کی تاریخ میں کہیں کہیں منظوم تنقید کی مثالیں بھی ملتی ہیں۔ ادب کی ایک نثری صنف کی حیثیت سے تنقید شاعری کے بعد وجود میں آئی۔ لیکن جب تنقید وجود میں آئی تو اس میں پہلا سوال یہ نہیں اٹھا کہ تنقید کیا ہے بلکہ تنقید نے پہلا سوال یہ اٹھایا کہ شاعری کیا ہے؟ اس کی ماہیت کیا ہے؟ اس طرح کے سوال ادب کے پہلے نقاد افلاطون اور ارسطو نے بھی اٹھائے اور اردو میں تنقید کے بانی مولانا حالی نے بھی اسی قسم کے سوالات سے بحث کی۔ چونکہ یونان میں عظیم شاعری نے ڈرامے یا ٹریجڈی کے اصول و اجزا سے بھی بحث کی ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ تنقید نے نہ صرف شاعری سے متعلق نئے مباحث چھیڑے بلکہ ادب کی جو نئی اصناف وجود میں آتی چلی گئیں (مثلاً ناول اور افسانے) تنقید ان سے متعلق بنیادی سوالات اور مسائل کی نہ صرف نشاندہی کرتی چلی گئی بلکہ ان کے جوابات اور حل بھی فراہم کرنے کی کوشش کرتی رہی ہے۔ نتیجتاً تنقید کی کئی اقسام وجود میں آگئی ہیں۔
تنقید ادب کی تخلیقی اصناف کو جانچنے اور پرکھنے کے عمل سے وجود میں آئی تھی یعنی پہلے ادب کی تخلیقی اصناف پر تنقید شروع ہوئی لیکن وہ یہیں تک محدود نہیں رہی۔ ابتدا ہی میں تنقید پر تنقید کا سلسلہ بھی عمل میں آگیا۔ افلاطون اور ارسطو نے شاعری کے بارے میں جو کچھ کہا، وہیں سے تنقید پر تنقید کا سلسلہ بھی شروع ہوگیا۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ تنقید ادب کی صرف تخلیقی اصناف پر اظہار خیال کا نام نہیں بلکہ خود تنقید پر اظہارِ خیال کا نام بھی تنقید ہے۔ سوال یہ ہے کہ تنقید کیا ہے، تنقید کسے کہتے ہیں؟ تنقید کے لغوی معنی پرکھنے اور جانچنے کے ہیں۔ کلام کے عیوب و محاسن کو پرکھنے کے عمل کا نام تنقید ہے۔ اگر پرکھنے کے عمل پر غور کیا جائے تو محسوس ہوگا کہ تنقید تین قسم کے فرائض انجام دیتی ہے:
1 تنقید کلام کے محاسن اور معائب کی نشاندہی کرتی ہے۔
2 محاسن اور عیوب کے اعتبار سے کلام کے اچھے یا برے ہونے پر حکم لگاتی ہے۔
3 اگر کلام اچھا ہے تو اس کلام کے مرتبے کو متعین کرنے کی کوشش کرتی ہے۔
تنقید کے یہ تینوں فرائض نہایت مشکل فرائض ہیں۔ ادب کے عام قارئین نہ تو کلام کے محاسن کی نشاندہی کرپاتے ہیں نہ معائب کی۔ وہ انگلی رکھ کر نہیں بتا سکتے کہ کس کے کلام میں یہ یہ خوبیاں پائی جاتی ہیں اور یہ یہ خامیاں۔ کلام کے محاسن اور معائب کو جاننے اور پہچاننے کے لیے زبان، قواعد، علم بدیع، علم بیان اور علم عروض ان سب سے گہری واقفیت چاہیے اور ان کے علاوہ بھی کئی علوم کا علم ضروری ہے، مثلاً فلسفہ، نفسیات، عمرانیات، تاریخ اور تصوف وغیرہ۔ شعر و ادب کا قاری جس قدر وسیع علم سے بہرہ ور ہوگا اسی قدر کسی شاعر کے کلام کی خوبیوں اور خامیوں کو گہری نظر سے دیکھ سکے گا۔
تنقید میں کسی کام کے محاسن اور معائب کی نشاندہی کرنا کافی نہیں، یہ بتانا بھی ضروری ہے کہ مجموعی طور پر زیربحث کلام اچھا ہے یا برا۔ ایک اچھی اور ایک بری نظم یا غزل میں فرق کرنا تنقید کے مشکل ترین فرائض میں سے ہے۔ یہا ںکلام کے محاسن اور معائب کا علم ہی نہیں بلکہ اس چیز کی بھی ضرورت پڑتی ہے جسے سخن شناسی کہتے ہیں۔ یعنی شعر کو پہچاننا یا اسے پہچاننے کی صلاحیت۔ قدیم ادب کے مقابلے میں جدید ادب کے اچھے یا برے ہونے کو پہچاننا اور بھی مشکل ہوتا ہے۔ دنیا کے بڑے بڑے نقادوں نے بھی جدید ادب اور جدید شاعر کو پہچاننے میں زبردست ٹھوکریں کھائی ہیں۔ نتیجتاً وہ اہم کو غیر اہم اور غیر اہم کو اہم قرار دے گئے ہیں۔
تنقید میں یہ جاننا بھی کافی نہیں کہ یہ نظم یا غزل اچھی ہے یا بری۔ اگر اچھی ہے تو متعلقہ ادب میں اس کا مرتبہ کیا ہے۔ آیا وہ اول درجے کی چیز ہے یا دوم درجے کی یا اس سے بھی کمتر؟ گویا درجہ بندی بھی تنقید کا ایک فرض ہے۔
ہر زمانے کا ادب اس زمانے کے مزاج اور معیار یعنی معاصرانہ مزاج اور معیار سے پرکھا جاتا ہے اور اسی مزاج اور معیار کے مطابق اسے اہمیت حاصل ہوتی ہے۔ مثلاً اٹھارہویں اور انیسویں صدی میں نظیراکبرآبادی جیسے بڑے شاعر کو کوئی اہمیت نہیں دی گئی۔ انھیں بالکل نظرانداز کردیا گیا۔ انیسویں صدی میں نظیر اکبرآبادی کو اردو کے چار پانچ بڑے شاعروں میں شمار کیا جانے لگا اور غالب کے مقابلے میں ذوق کا نام لینا بھی بدذوقی کی علامت تصور کیا جانے لگا۔ اس صورت حال سے یہ نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ تنقید شاعروں اور ادیبوں کے سروں پر اہمیت کا تاج رکھتی بھی ہے اور ان کے سروں سے اہمیت کا تاج اتارتی بھی ہے۔ اس بنا پر یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ تنقید کے فیصلے ناقابل اعتبار ہیں۔
اس میں شک نہیں کہ کوئی بھی تنقیدی فیصلہ حتمی اور ابدی نہیں ہوتا لیکن یہ بات تنقید ہی کے ذریعے دریافت کی جاتی ہے کہ کسی کی شاعری یا کسی کا ادب وقتی اہمیت کا حامل ہے یا ابدی عظمت کا مالک۔ اس بات کے دریافت کرنے میں بعض اوقات صدیاں گزر جاتی ہیں۔ شیکسپیئر کو شیکسپیئر بننے میں تقریباً چار سو سال کی تنقید بحثوں کو دخل ہے اور غالب کی موجودہ عظمت بھی تقریباً ایک سو سال کی تنقیدی کوششوں کا نتیجہ ہے۔ تنقیدی فیصلوں میں غلطیوں کا امکان ضرور ہے لیکن تنقید اپنی ساری لغزشوں کے باوجود صحیح فیصلوں تک پہنچنے میں مدد دیتی ہے۔
یہ صحیح ہے کہ کوئی بھی تخلیقی فنکار (شاعر، ناول نگار، افسانہ نگار، ڈراما نگار وغیرہ) کسی تنقید نگار کے نظریے کے مطابق فن کی تخلیق نہیں کرتا لیکن اس کی فنی تخلیقات میں اس کے تنقیدی شعور کو ضرور دخل ہوتا ہے۔ تنقیدی شعور تخلیقی اور تنقیدی ادب کے مطالعے سے پیدا ہوتا ہے جس ادیب اور شاعر کا تنقیدی شعور جتنا بہتر ہوگا اس کا ادب اور اس کی شاعری بھی دوسروں سے اتنی ہی بہتر ہوگی۔ میر، غالب اور اقبال جیسے شاعر تنقید نگار تو نہیں تھے لیکن نہایت اعلیٰ درجے کا تنقیدی شعور ضرور رکھتے تھے اور اسی لیے وہ نہایت اعلیٰ درجے کے شاعر بن سکے۔
نظری تنقید اور عملی تنقید
تنقید کو اگر دو حصوں میں تقسیم کیا جائے تو ایک کو نظری تنقید کہیں گے اور دوسرے کو عملی تنقید۔ نظری تنقید سے مراد وہ نظریات ہیں جو تنقید نے شعر و ادب کے بارے میں قائم کیے ہیں اور عملی تنقید سے مراد کسی ادیب یا شاعر کا تنقیدی مطالعہ ہے جس میں اس کے ادب یا شاعری کا تجزیہ، تحسین، محاکمہ اور درجہ بندی سبھی کچھ شامل ہے۔
علم و فن کی ترقی کے ساتھ ساتھ شعر و ادب کے تصورات اور نظریات نہ صرف بدلتے رہے ہیں بلکہ ان کی تعداد میں بھی اضافہ ہوتا چلا گیا ہے۔ اس اضافے کے اعتبار سے آج کل مغربی ادب میں نظری تنقید کی سات قسموں کی نشاندہی کی جاسکتی ہے جو حسب ذیل ہے:
(1) اخلاقی تنقید (2) نفسیاتی تنقید (3) اساطیری تنقید
(4) عمرانیاتی تنقید (5) جمالیاتی تنقید (6) ساختیاتی تنقید
(7) وجودی تنقید
یہاں مغربی ادب کے حوالے سے تنقید کی اقسام پر گفتگو کرنے کی دو خاص وجہیں ہیں :
(1) سائنس کی طرح ادب میں بھی مغرب کئی صدیوں سے مشرق کے مقابلے میں رہبرانہ حیثیت (leading position) کا حامل ہے۔
(2) اردو ادب میں تنقید کی صنف مغرب کے اثر سے آئی ہے اور اس کی نشو و نما پر مغرب ہی کا اثر زیادہ ہے۔
اب یہاں نظری تنقید کی مندرجہ بالا اقسام کی مختصر وضاحت ضروری ہے۔ ان میں سے اول الذکر پانچ اقسام کی وضاحت میں ڈبلیو اسکاٹ (W. Scott) کی مرتب کردہ کتاب Five Approaches of Literary Criticism, Macmillan Ltd. Londonسے خاصا استفادہ کیا گیا ہے۔
اخلاقی تنقید
اخلاقی تنقید ادب کی طرف اخلاقی رویے کا نام ہے۔ ہر ادب پارہ یا فن پارہ دو چیزوں سے عبارت ہوتا ہے۔ ہیئت اور معنی سے۔ اخلاقی تنقید ہیئت سے زیادہ بلکہ اکثر اوقات ہیئت کی بجائے معنی سے تعلق رکھتی ہے یعنی اخلاقی تنقید کا مسئلہ ’کیا کہا گیا‘ ہے نہ کہ کیسے کہا گیا ہے۔ اخلاقی تنقید کسی فن پارے کے متن کو اخلاقی معیار پر پرکھتی ہے جس کے معنی یہ ہیں کہ زیربحث فن پارہ کس قسم کی اخلاقی اقدار کی ترجمانی کررہا ہے۔ اخلاقی تنقید کسی فن پارے کی ہیئت یا حسن سے اتنی دلچسپی نہیں لیتی جتنی اس کی افادیت سے۔ جمالیاتی تنقید فن پارے کی ہیئت کو اہمیت دیتی ہے جب کہ اخلاقی تنقید فن پارے کے متن کو۔ اس فرق کو کیا اور کیسے کے الفاظ سے بھی بیان کیا جاسکتا ہے۔ اخلاقی تنقید یہ دیکھتی ہے کہ کیا کہا گیا اور جمالیاتی نتقید اس بات کا جائزہ لیتی ہے کہ کیسے کہا گیا۔
اخلاقی تنقید ادب کو زندگی کی تنقید کے نقطۂ نظر سے دیکھتی ہے۔ وہ ادب کے ان مقاصد سے تعلق رکھتی ہے جو ا نسان پر اثرانداز ہوتے ہیں۔ اخلاقی تنقید میں انسان کا تجزیہ یہ ہے کہ انسان ایک ایسی مخلوق ہے جو اپنی عقل اور اپنے اخلاقی معیار کی بنیاد پر جانور سے مختلف ہے۔ وہ ایک آزاد مخلوق ہے۔ اس کے اندر حیوانی میلانات ضرور موجود ہیں لیکن اس کے اندر یہ قدرت موجو دہے کہ اس کی عقل ان میلانات کو اپنے قابو میں رکھ سکے۔
ادب کی طرف اخلاقی رویہ ادب یا تنقید کا قدیم ترین رویہ ہے جس کی ابتدا افلاطون سے دیکھی جاسکتی ہے۔ اس کی نظر ہمیشہ ادب یا شاعری کے اخلاقی اثر پر رہتی تھی جس کی بنا پر اس نے اپنی مثالی ریاست سے شاعر کو نکال دیا تھا۔ تنقید کی مغربی تاریخ میں افلاطون سے لے کر بیسویں صدی تک ادب کی طرف اخلاقی رویے کا تسلسل ملتا ہے۔ نشاۃ ثانیہ کے زمانے میں فلپ سڈنی اسی رویے کا نمائندہ ہے۔ اٹھارہویں صدی میں ڈاکٹر جانسن، انیسویں صدی میں میتھیو آرنلڈ اور بیسویں صدی میں دوسری شخصیات کے علاوہ ٹی ایس ایلیٹ اس رویے کے خاص نمائندے ہیں۔ ڈاکٹر جانسن شعر و ادب کے اخلاقی متن کو جانچنا ضروری گردانتا تھا۔ ٹی ایس ایلیٹ کا یہ جملہ بے حد مشہور ہے کہ ’ادب کی عظمت ادبی معیاروں سے متعلق نہیں ہوسکتی گو ہمیں یہ ضرور یاد رکھنا چاہیے کہ کوئی تحریر ادب ہے یا نہیں اس کا فیصلہ صرف ادبی معیاروں سے ہوسکتا ہے۔‘
بیسویں صدی میں اخلاقی تنقید کے مغربی نمائندوں نے ادب کے دو اہم میلانات کی شدید مخالفت کی۔ ایک فطرت نگاری (naturalism) کی۔ دوسرے رومانیت (romanticism) کی۔ فطرت نگاری انسان کا نہایت حقارت آمیز تصور پیش کرتی ہے اور اسے آزادی اور ذمہ داری سے محروم دکھاتی ہے۔ رومانیت میں انسانی انا کی پرورش حد سے زیادہ ہے اور اس کا اظہار بھی کسی حد تک پابند نہیں۔
بیسویں صدی کے ان امریکی نقادوں میں جو اخلاقی تنقید کے ممتاز ترین نمائندے ہیں پال ایلمر مور (Paul Elmer More) ارونگ بیبٹ (Irwing Babbit) اور نارمن فورسٹر (Norman Forster) وغیرہ خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔
برطانوی نقاد ٹی ای ہیوم (T.E. Hulme) بھی ادب کی طرف اخلاقی رویے کا طرف دار تھا لیکن اس نے اپنے اور امریکی نقادوں کے موقف میں ایک فرق ظاہر کیا۔ اس نے یہ سوال اٹھایا کہ جو نقاد ادب کی طرف اخلاقی رویے کے حامی ہیں ان کے اخلاقی معیاروں کو مافوق الفطرت جواز حاصل ہے یا نہیں۔ دوسرے لفظوں میں اس کے معنی یہ ہیں کہ ان کے اخلاقی معیار و اقدار کی بنیاد کسی مذہب پر ہے یا نہیں۔
ادب اور اخلاقیات کا رشتہ، اخلاقیات اور مذہب کے رشتے تک لے جاتا ہے۔ لیکن عہد حاضر کے بہت سے مفکرین اور ناقدین انسانی زندگی کے لیے اخلاقیات کی ضرورت پر اصرار کرنے کے باوجود کسی مذہب سے وابستہ ہونا ضروری نہیں سمجھتے۔
یورپ کی مارکسی تنقید بھی بنیادی طور پر اخلاقی تنقید ہے لیکن اس میں مذہب کا کوئی تصور نہیں ہے۔ مشرق میں غیر مذہبی ہونے کا ایک مفہوم مارکسی ہونا بھی ہے گو اس کے معنی یہ نہیں کہ جو مذہبی نہیں ہے وہ مارکسی ضرور ہوگا۔
عہدحاضر کے اخلاقی نقادوں میں برطانوی نقاد ایف آر لیوس اور آئیورونٹرز (Yvor Winters) کا ذکر بھی نہایت ضروری ہے۔ ان نقادوں کی تحریروں کے مطالعے سے اندازہ ہوتا ہے کہ ادب میں اخلاقی اقدار کی موجودگی کیا معنی رکھتی ہے اور ان اقدار کی جستجو کا زاویہ کیا ہونا چاہیے۔ ادب میں اخلاقی اقدار پر زور دینے کے معنی ادب کو وعظ و نصیحت کا مجموعہ بنانے کے نہیں بلکہ انسان کی حیاتیاتی جدوجہد میں اخلاقی کشمکش کے کردار کا مطالعہ ہے۔
اردو ادب میں تنقید حالی سے شروع ہوتی ہے اور حالی کا دور اردو ادب کا وہ دور ہے جب سرسید کے اثر سے شعر و ادب کی طرف اخلاقی رویے کاآغاز ہوچکا تھا۔ ادب اپنا مقصد آپ نہیں رہ گیا تھا بلکہ وہ معاشرتی اور قومی مقاصد کی تکمیل کا ذریعہ بن چکا تھا۔ سرسید نے اپنی قومی اصلاح کے لیے جو تحریک شروع کی تھی وہ بڑی حد تک ادب ہی کے ذریعے اپنا مقصد حاصل کررہی تھی۔ سرسید کے ساتھیوں میں حالی، شبلی اور نذیر احمد سب سے نمایاں تھے۔ ادب کی طرف ان تینوں کا رویہ اپنے وسیع ترین معنوں میں اخلاقی تھا۔ حالی نے ’مقدمہ شعر و شاعری‘ میں اخلاق اور شاعری کے تعلق پر زور دیا اور شعر و ادب کے متن پر معاشرتی اور اخلاقی نقطۂ نظر سے غور کرنے کی ترغیب دی۔
حالی کے بعد سے لے کر اس وقت تک اردو ادب کے جو تنقید نگار منظر عام پر آئے ان میں اخلاقی تنقید کی نمائندگی کرنے والوں کا کوئی باقاعدہ گروہ نظر نہیں آتا لیکن انفرادی سطح پر پروفیسر رشید احمد صدیقی یقینا اخلاقی تنقید کی نمائندگی کرنے والے نقاد تھے۔ ان کے تنقیدی مضامین میں ادب کے متن پر جو تنقید ملتی ہے وہ جمالیاتی نقطۂ نظر سے زیادہ اخلاقی نقطۂ نظر پر مبنی ہے۔ 1936 کے بعد اردو میں جو ترقی پسند تنقید سامنے آتی ہے وہ مارکسی تنقید ہونے کی بنا پر اخلاقی تنقید کہلانے کی مستحق ہے۔ ڈاکٹر اختر حسین رائے پوری، پروفیسر مجنوں گورکھپوری، پروفیسر احتشام حسین، پروفیسر ممتاز حسین، سجاد ظہیر، سردار جعفری، یہ سب لوگ ادب کی ہیئت کی بجائے اس کے متن پر بحث کرتے ہیں۔ اس لحاظ سے ادب کی طرف ان کا رویہ اخلاقی کہا جاسکتا ہے گو ان کی اخلاقیات حالی کی اخلاقیات سے بہت مختلف ہے۔ ترقی پسندو ںکے تصور حیات میں معاشی نظام کو اولیت حاصل ہے۔ ان کے نزدیک زندگی کے باقی سارے پہلو معاشی نظام کے تابع ہوتے ہیں۔ تہذیبی اور اخلاقی اقدار کی نوعیت معاشی نظام کی نوعیت پر منحصر ہوتی ہے جیسا معاشی ڈھانچہ ہوگا ویسی ہی تہذیبی اور اخلاقی اقدار بھی ہوں گی۔
قیام پاکستان کے بعد اخلاقی تنقید کی سب سے بڑی مثال حسن عسکری ہیں۔ یوں تو وہ قیام پاکستان سے پہلے سے تنقید لکھ رہے تھے اور ان کی تنقید پڑھنے والوں کو ہمیشہ چونکاتی رہی۔ لیکن شروع میں ان کا نقطۂ نظر جمالیاتی زیادہ تھا اور اخلاقی کم۔ بعد میں ان کے اخلاقی انداز نظر میں اتنی شدت پیدا ہوگئی کہ وہ حقیت اور روایت کے صرف مذہبی اور مابعدالطبیعیاتی تصور کی بنیاد پر ادب کو پرکھنے لگے۔ اس سلسلے میں ان کے سب سے نمائندہ مضامین ’روایت کیا ہے‘ اور ’اردو کی ادبی روایت کیا ہے‘ خاص طور پر مطالعے کے مستحق ہیں۔ یہ دونوں مضامین ان کی کتاب ’وقت کی راگنی‘ میں شامل ہیں۔ ان کے تنقیدی مضامین کے پہلے مجموعے ’انسان اور آدمی‘ کے تقریباً سارے مضامین ادب کی طرف ان کے اخلاقی رویے کی بہترین ترجمانی کرتے ہیں۔
سلیم احمد جو حسن عسکری کے شاگرد رشید تھے ادب سے ان کی دلچسپی بھی اخلاقی تھی۔ ان کے مضامین بھی اخلاقی تنقید کے عمدہ نمونے ہیں۔ تنقید نگار کا اخلاقی نقطۂ نظر ادب میں صرف اخلاقی مضامین و موضوعات تک اپنے آپ کو محدود نہیں رکھتا بلکہ وہ ادب کے معاشرتی، سیاسی، مذہبی اور مابعدالطبیعیاتی متن و مسائل کا بھی جائزہ لیتا ہے۔
نفسیاتی تنقید
نفسیاتی تنقید کی ابتدا سگمنڈ فرائڈ کے خیالات اور نظریات سے ہوئی۔ بیسویں صدی کے فکر و نظر کی تشکیل میں جن دو ماہرین نفسیات کے اثرات کو سب سے زیادہ دخل ہے ان میں پہلا نام فرائڈ کا ہے اور دوسرا اس کے شاگرد کارل ژونگ کا۔ بیسویں صدی کے دوسرے عشرے میں فرائڈ کی دوکتابوں کے ترجمے انگریزی میں ہوئے اور دوسرے ہی عشرے میں اس کے ایک شاگرد ڈاکٹر ارنسٹ جونس نے شیکسپیئر کے مشہور ڈراما ’ہیملٹ‘ کے بارے میں فرائڈین نقطۂ نظر سے ایک مضمون لکھا۔ یہ تینوں چیزیں ان ادیبوں کے لیے خاص دلچسپی کا سبب بنیں جو تخلیقی فن کے عمل، فن کار کے غیر شعوری ارادوں اور افسانوی کرداروں کے محرکات کی توجیہ کرنا چاہتے تھے۔
تخلیقی فن کاروں کے لیے فرائڈی نظریے کا ایک سبب ادب میں فطرت نگاری کی وہ تحریک بھی تھی جو فرانس سے شروع ہوئی تھی۔ فرائڈ کے خیالات نے فطرت نگاروں کی بصیرتوں کی تصدیق کی۔ فطرت نگار ایک ایسی مخلوق کی مذمت پر آمادہ نہ تھے جو اپنے اعمال کی ذمہ دار نہیں بلکہ جو فطری اور ماورائے انسانی نظام کا شکار ہے۔ اسی طرح نفسیاتی رومانی خود اظہاریت اور گم کردہ راہ لوگوں کے جذبات و خیالات کے اظہار کی بھی حامی تھی۔ فرانس کے علامت نگاروں نے شعر و ادب میں جس دیوانگی کا اظہار کیا اور جن کی تجربہ پسندوں نے تقلید کی اسے شعور کے طریق کار کے طور پر دیکھا جانے لگا۔
فرائڈ کے نظریات اور اصطلاحات نے رومان نگار (انگریزی اصطلاح رومانٹک کا ترجمہ) اور حقیقت نگار دونوں قسم کے لکھنے والوں کو اس قابل بنایا کہ وہ انسانی صورت حال کو زیادہ گہری نظر سے دیکھ سکیں۔ رفتہ رفتہ ایڈلر کا نظریۂ احساس کمتری اور ژونگ کا نظریۂ اجتماعی لاشعور بھی تخلیقی ادب پر اثرانداز ہوا۔ بیسویں صدی کے بڑے بڑے ناول نگاروں اور افسانہ نگاروں کے ہاں فرائڈ، ایڈلر اور ژونگ کے اثرات کی کارفرمائی آسانی سے دیکھی جاسکتی ہے۔ مثلاً مغربی ادیبوں میں ڈی ایچ لارنس، ٹومس مان، جیمس جوائس، کیتھیرین مینسفیلڈ، گراہم گرین وغیرہ اور اردو کے ادیبوں میں حسن عسکری، ممتاز مفتی وغیرہ۔ علم نفسیات کے ارتقا اور اثرات کا لازمی نتیجہ تھا کہ تخلیقی فن کار اور تنقید نگار علم و آگہی کے اس نئے سرچشمے کی طرف متوجہ ہوئے۔ نتیجتاً مغرب میں ماضی کے خلاف جو جنگ جاری تھی، خصوصاً امریکہ میں پیوریٹن کلچر اور انگلینڈ میں وکٹورین کلچر کے خلاف جنگ میں علم نفسیات کی وجہ سے مزید شدت پیدا ہوگئی۔ کم گوئی، کم سخنی، اخفا پسندی، پاک دامنی، نستعلیقیت، آبرومندی، سفید پوشی اور شرافت جیسی خوبیوں کو نفسیات کی روشنی میں انسانی جبلتوں کے دباؤ سے تعبیر کیا جانے لگا اور ان روایتی اقدار کے حامیوں کو لاعلمی اور بے بصری کا شکار تصور کیا جانے لگا۔
ادبی تنقید میں نفسیات کا استعمال امریکہ میں کونرڈ ایکن کی کتاب (1919) Scepticism سے شروع ہوا۔ امریکہ کے مشہور ادبی رسالہ دی ماسیز کے ایڈیٹر میکس ایسٹ مین اور فلوئڈ ڈیل نے عمرانیاتی اقدار پر اصرار کرنے کے باوجود ادب کی طرف نفسیاتی زاویہ نگاہ کو فروغ دیا۔ انگلینڈ میں روبرٹ گریوز نے اس نئے نقطۂ نظر سے لکھنا شروع کیا اور انگلینڈ کے مشہور نقاد ہربرٹ ریڈ نے اپنے مضمون Reason and Romanticism (1926) میں اس نئے علم کی استعمال کی وکالت کی۔
شروع شروع میں نفسیات کے استعمال میں غلطیاں بھی ہوئیں جو ناگزیر تھیں لیکن بعد میں اس علم کے محتاط استعمال سے ادب پر جو روشنی پڑی وہ بصیرت افروز معلوم ہونے لگی۔
ادب پر علم نفسیات کے استعمال اور اطلاق نے عام طور پر تین قسم کی بصیرتیں عطا کی ہیں۔ جیسا کہ انگریز نقاد آئی اے رچرڈز نے دکھایا ہے۔ پہلی بصیرت یہ ہے کہ علم کا یہ نیا میدان تخلیقی عمل کو بیان کرنے کے لیے پہلے سے زیادہ صحیح زبان فراہم کرتا ہے۔ رچرڈز نے اپنی مشہور کتاب ’ادبی تنقید کے اصول‘ (1924) میں جمالیاتی تجربے کے اجزائے ترکیبی کا تجزیہ کیا ہے۔ اگرچہ بہت سے لوگ (نقاد) اس کے اس کام کے کسی نہ کسی حصے سے اختلاف یا جھگڑا کرتے رہے ہیں لیکن رچرڈز کے بعد کوئی نقاد ایسا نہیں پیدا ہوا جس نے اس کی بعض بصیرتوں کا اعتراف کیے بغیر اپنے مطالعے پیش کیے ہوں۔
علم نفسیات کا دوسرا استعمال، جیسا کہ مشہور امریکی نقاد ایڈمنڈولسن نے توجہ دلائی ہے ادبی سوانح عمریوں میں ہوا ہے جہاں مصنفوں کی زندگی کے مطالعے کو ان کے فن کو سمجھنے کا ذریعہ بتایا گیا ہے۔ نفسیات کا یہ موثر استعمال خود ولسن کی کتاب ’زخم اور کمان‘ میں نظر آتا ہے جس کی بدولت لکھنے والو ںکے نہ صرف ذاتی مسائل کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے بلکہ ان کی تخلیقات کے بنیادی سانچے کو سمجھنے میں بھی۔ ڈی ایچ ڈارنس نے کہا ہے کہ فن کار اپنے فن میں اپنی بیماری چھوڑ جاتا ہے۔ نقاد اسی بیماری کا تجزیہ کرتا ہے اور وہ فن کے غیر شعوری دباؤ اور محرکات کو دریافت کرتا ہے۔
نفسیات کا تیسرا استعمال جیسا کہ انگریز عالم اور نقاد ایف ایل لوکس نے اپنی کتاب ’ادب اور نفسیات‘ (1951) میں دکھایا ہے افسانوی کرداروں کی تشریح و توضیح میں اس سے بڑی قیمتی مدد ملتی ہے۔ علم نفسیات کے بغیر بہت سے افسانوی کرداروں کے عمل اور ردعمل کو سمجھنا ممکن نہیں۔ مغربی ادب میں اس بات کی سب سے اہم یا کلاسیکی مثال شیکسپیئر کے ڈرامے ہیملٹ پر فرائڈ کے شاگرد ارنسٹ جونز کا مضمون ہے جس میں اس نے ہیملٹ سے متعلق ایک پرانے معمے کو حل کرنے کی کوشش کی ہے۔ معمہ یہ ہے کہ ہیملٹ اپنے باپ کے قتل کا انتقام لینے میں تاخیر کو کیوں راہ دیتا ہے۔ مغربی تنقید کئی سو سال سے اس معمے کا حل ڈھونڈتی رہی ہے۔ اس معمے کا جو حل ارنسٹ جونز نے پیش کیا ہے وہ فرائڈین نفسیات سے پہلے ممکن نہ تھا اس طرح ہنری جیمس کے ناول The Turn of the Screw کے بہت سے نفسیاتی مطالعے پیش کیے گئے ہیں جن میں اس ناول کی گتھیوں کو سلجھانے کی کوشش کی گئی ہے۔
نفسیاتی تنقید کی ایک شاخ وہ ہے جو کسی ادیب یا افسانوی کردار کے انفرادی لاشعور کی بجائے انسان کی اجتماعی یا نسلی لاشعور سے بحث کرتی ہے۔ یہ زاویۂ نگاہ علم کی ایک دوسری شاخ سماجی بشریات سے تعلق رکھتی ہے اس لیے اس کا مطالعہ اساطیری تنقید کے زیرعنوان کیا گیا ہے۔ تخلیقی فن کار انسانی نفسیات کا علم براہِ راست مشاہدے سے حاصل کرتا ہے۔ کوئی اچھا ناول یا افسانہ یا ڈراما، لکھنے والی کی نفسیاتی بصیرت کے بغیر وجود میں نہیں آسکتا۔ تاہم فن کا روں میں بعض ایسے بھی ہیں جن کی توجہ کا خصوصی مرکز انسان کا نفسیاتی رویہ ہے۔ مثلاً اردو کے افسانہ نگاروں میں ممتاز مفتی اور حسن عسکری،ناول نگاروں میں عصمت چغتائی (ضدی اور ٹیڑھی لکیر پڑھیں) اور ڈراما نگاروں میں امتیاز علی تاج جن کے مشہور ڈراما ’انارکلی‘ میں نفسیاتی ژرف بینی کا ثبوت ملتا ہے۔
نفسیاتی فن کار عام طور پر نفسیاتی نظریات پڑھ کر کوئی فن پارہ تخلیق نہیں کرتا۔ لیکن نفسیاتی تنقید نگار عموماً کسی ماہر نفسیات یا بعض ماہرین نفسیات سے متاثر ہوکر اس کے نظریوں اور اصولوں کی روشنی میں تنقید لکھتا ہے۔ اردو کے کئی تنقید نگار عہد حاضرکے ممتاز ماہرین نفسیات مثلاً فرائڈ، ایڈلر، ژونگ، میکڈوگل اور رائخ وغیرہ سے متاثر رہے ہیں۔ ان کی تنقیدوں میں ان ماہرین نفسیات کے نظریات کا اثر دیکھا جاسکتا ہے۔ اس اجمال کی تفصیل کے لیے ڈاکٹر وحید قریشی کی کتاب ’اردو نثر کے میلانات‘ ملاحظہ فرمائیے۔ ڈاکٹر وحید قریشی نے خود اپنے بارے میں اعتراف کیا ہے کہ انھوں نے اپنی کتاب ’شبلی کی حیات معاشقہ‘ میں فرائڈ اور میکڈوگل کے نظریات استعمال کیے تھے۔ ڈاکٹر وحید قریشی کے علاوہ اردو کے ممتاز نقادوں میں میراجی، حسن عسکری اور ریاض احمد کے ہاں نفسیاتی تنقید کی مثالیں دیکھی جاسکتی ہیں۔ ان تینوں کی نفسیاتی تنقید ان کی مندرجہ ذیل کتابوں میں ملے گی:
.1
میراجی
(i)
مشرق و مغرب کے نغمے (یہ کتاب اب نایاب ہے۔ کہیں کسی لائبریری میں ملے تو ملے)

(ii)
اس نظم میں (یہ کتاب بھی کتب فروشوں کی ہاں نظر نہیں آتی)
.2
حسن عسکری

ستارہ یا بادبان (یہ کتاب بھی نایاب کتابوں میں سے ہے البتہ ہندوستان میں دستیاب ہے)۔
.3
ریاض احمد

تنقیدی مسائل
اساطیری تنقید
عہدحاضر میں تنقید کی وہ قسم جسے بڑی توجہ اور اہمیت حاصل ہوتی جارہی ہے اسے اساطیری تنقید (mythological criticism کہتے ہیں۔ انگریزی میں اس تنقید کو آر کے ٹائپل (archetypal) ٹویٹمک (totemic) اور رچوالسٹک (ritualistic) تنقید بھی کہتے ہیں۔ یہ تنقید بہت سے تنقیدی طریقوں میں سے ایک طریقہ ہے۔ اگرچہ اساطیری تنقید متن کے گہرے مطالعے پر مبنی ہوتی ہے۔ لیکن یہ اس لحاظ سے نفسیاتی تنقید ہوتی ہے کہ اس میں قاری کے لیے ادب یا فن کی دلکشی کا تجزیہ ہوتا ہے۔ اساطیری تنقید اس لحاظ سے تاریخی بھی ہوتی ہے کہ اس میں ماضی کے کسی تہذیبی یا معاشرتی دور کی تحقیق سے کام لیا جاتا ہے لیکن اساطیری تنقید اس لحاظ سے غیرتاریخی بھی ہوتی ہے کہ اس میں ادب کی لازمی قدر و قیمت کو اجاگر کیا جاتا ہے یعنی یہ بتایا جاتا ہے کہ ادب کی اہمیت مخصوص ادوار سے بالاتر ہوتی ہے۔
اساطیری تنقید یہ دکھاتی ہے کہ کسی فن پارے میں کوئی بنیادی تہذیبی سانچہ ہوتا ہے جو انسانیت کے لیے اپنے اندر گہرے معنی اور زبردست دلکشی کا حامل ہوتا ہے۔ تنقید کا یہ زاویۂ نگاہ اسطور (دیوتاؤں کی کہانی‘ خیالی قصہ یا فسانہ) سے عہد حاضر کی دلچسپی اور ان دو شخصیتوں کے اثرات کی عکاسی کرتا ہے جن کی تصانیف ہمارے لیے بڑی اہمیت رکھتی ہیں یعنی فریزر اور ژونگ۔
اسکاٹ لینڈ کے ماہر بشریات سرجیمس جارج فریزر کا سب سے بڑا کارنامہ ’شاخ زریں‘ (The Gloden Bough) کے نام سے 1980 اور 1915 کے درمیان بارہ جلدوںمیں شائع ہوا۔ ’شاخ زریں‘ کی جلدیں جادو اور مذہب کا وہ عظیم الشان مطالعہ ہیں جس میں اس بات کا سراغ لگایا گیا ہے کہ بہت سے اساطیر زمانہ ماقبل تاریخ سے تعلق رکھتے ہیں۔
بیسویں صدی کے تیسرے عشرے میں بہت سے عالموں نے فریزر اور سرایڈورڈ ٹائلر (ارسطو کے مطالعے میں ٹائلر بھی اتنا ہی سرگرم رہا تھا جتنا کہ فریزر۔ اس کی خاص تصنیف ’قدیم کلچر1871 میں شائع ہوئی) کی تصانیف سے متعلق اپنے علم کو کلاسکس کے ایک نئے انداز کے مطالعے میں تبدیل کردیا۔ ان میں جین ہیریسن، ای ایم کورن فورڈ، گلبرٹ مرے، اینڈریولینگ خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ ان لوگوں نے ان مذہبی کشمکشوں سے بحث کی جو ہومر اور یونانی المیہ نگاروں کی تصانیف کی تہہ میں کارفرما ہیں۔ مس ہیریسن نے یونانی مذہب کی سماجی بنیادوں کی تفتیش کی۔ ان لکھنے والوں کے کام جوائس اور دوسرے تخلیقی فن کارو ںپر اثر انداز ہوئے۔ جن کے ہاں اسطور کا تخلیقی استعمال ملتا ہے۔
ژونگ جو شروع میں فرائڈ کے ساتھ وابستہ تھا متعدد تصورات کے ساتھ اپنے استاد سے الگ ہوگیا۔ جہاں تک اساطیری تنقید کا تعلق ہے، اس کا خاص کام اجتماعی لاشعور کا نظریہ ہے جس کے معنی یہ ہیں کہ مہذب یا متمدن آدمی غیرشعوری طور پر اس ماقبل تاریخ علم کو محفوظ رکھتا ہے جس کا بالواسطہ اظہار اس نے اسطور میں کیا ہے۔ اگر اس کا قیاس درست ہے تو وہ ان اساطیری کہانیوں کی پراسرار دلکشی کی توجیہ کرتا ہے جن کے مافوق الفطرت عناصر پر اعتقاد مدتوں پہلے ختم ہوچکا ہے۔
فریزر اور ژونگ نے اسطور کے صحیح ہونے اور سماجی حافظے میں اس کے محفوظ ہونے کا جو دعویٰ کیا وہ تخلیقی تخیل رکھنے والوں کی گہری دلچسپی کا باعث بنا۔ اس کے اثر سے ٹی ایس ایلیٹ کے علاوہ رابرٹ گریوز، جیمس جوائس اور ییٹس جیسے لکھنے والے اسطور کی جانب مائل ہوئے۔ اسی طرح ادبی نقاد اس بات پر مجبور ہوئے کہ وہ ادب کو اس امید کے ساتھ پرکھیں کہ اس کی تہہ میں اساطیری سانچے دریافت کیے جاسکتے ہیں۔
فرائڈ یہ ثابت کرچکا تھا کہ مذہبی رسوم اور ممنوعات پر قدیم انسان نے شعوری طور پر بحث کی تھی لیکن متمدن انسان نے یہ کام غیرشعوری طور پر کیا تھا۔ فرائڈ کے ماننے والے اس طرح کے ممنوعات کے محفوظ رکھنے کے میلان کو بیماری سے تعبیر کرتے تھے اور ژونگ کے ماننے والے اسطور کو ایسے آدمی کا خواب نہیں سمجھتے تھے جو نفسیاتی ہچکچاہٹوں کا شکار ہے بلکہ وہ کسی نسل کا اولین سانچہ سمجھتے تھے۔ اس سانچے کو جب کوئی فرد بار بار ظاہر کرتا ہے تو یہ اس کی بیماری کا ثبوت نہیں ہوتا بلکہ اجتماعی لاشعور میں اس کی فطری شرکت کا ثبوت ہوتا ہے۔ ایرخ فروم (Erich Fromm) کے نزدیک اسطور ایک پیغام ہے جو ہماری ذات سے ہماری ذات کے نام ہے۔ اسطور ایک خفیہ زبان ہے جو ہمیں اس قابل بناتی ہے کہ ہم اندر کی واردات کو باہر کے واقعے کے رنگ میں لے سکیں یا اندر کی واردات کو باہر کے واقعے کی طرح بیان کرسکیں۔ اس لحاظ سے اساطیری تنقیدی کا مقصد اس مخفی زبان کو دریافت کرنا اور اسے پڑھنا ہے جو ادبی تصانیف میں استعمال کی گئی ہے تاکہ اس میں ہم زیادہ عقلی معنی محسوس کرسکیں۔
انگریزی میں مندرجہ ذیل کتابیں اور مقالے اساطیری تنقید کے شاہکار کی حیثیت رکھتے ہیں:
1. Studies in Classic American Literature by D. H. Lawrence.
2. Archetypal Patterns in Poetry by Maud Bodkin.
3. The Timeless Theme by Colin Stik.
4. Herman Melville by Leslie Fiedler
5. Hamlet and Drestes by Gilbert Murray
6. Antony in Behalf of the Play by Kenneth Burke.
آج کل بہت سے نقاد ادب کے بشریاتی مطالعے(Anthropological Study) کی طرف لوٹ رہے ہیں۔ اس پر ایک بنیادی اعتراض یہ ہے کہ اساطیری تنقید ادب کی قدر و قیمت کے تعین کی طرف نہیں لے جاتی بلکہ وہ صرف بعض تحریروں کی بنیادی دلکشی کی توجیہ کرتی ہے۔ دوسرا اعتراض یہ ہے کہ اساطیری تنقید کے نمائندہ نقادوں کے خیالات اور نظریات میں صحت کم ہوتی ہے اور انوکھا پن زیادہ۔
بہرحال اساطیری تنقید اچھی ہو یا بری، انسان کے سائنٹفک تصور سے انسان کی بے اطمینانی کی عکاسی ضرور کرتی ہے۔ اساطیری تنقید ہماری مکمل انسانیت کو بحال کرنے کی کوشش کرتی ہے۔ وہ انسانیت جو انسانی فطرت میں قدیم عناصر کی قدر کرتی ہے۔ اساطیری تنقید اس بات پر زور دیتی ہے کہ ہم لوگ انسان کی قدیم نسل کے اراکین ہیں۔ اساطیری تنقید ادب میں اس رکنیت کی ڈرامائی شکلوں کو دریافت کرنے کی کوشش کرتی ہے۔
اردو ادب میں اساطیری تنقید کی مسلمہ مثالیں تقریباً نایاب ہیں۔ البتہ میراجی اور ڈاکٹر وزیرآغا کی تنقیدی تحریروں میں اس کی تھوڑی بہت جھلکیاں دیکھی جاسکتی ہیں۔ میرا جی کی نظموں میں ہندو دیومالا یا ہندو اساطیر) کا استعمال خاصا ہے۔ انھو نے جدید نظموں کی تشریح و تنقید میں دیومالا کے حوالے دیے ہیں اور اس کی مدد سے جدید نظم میں گہرائی کی تہوں تک پہنچنے کی کوشش کی ہے۔
ڈاکٹر وزیرآغا نے اپنی کتاب ’اردو شاعری کا مزاج‘ میں نسل انسانی کے قدیم سانچوں کو دریافت کرنے کی کوشش کی ہے اور اس طرح گیت غزل اور نظم کی اساطیری بنیادوں تک پہنچنے کی کوشش کی ہے۔
عمرانیاتی تنقید
عمرانیاتی تنقید اس عقیدہ پر زور دیتی ہے کہ ادب یا آرٹ خلا میں پیدا نہیں ہوتا۔ وہ محض ایک شخص کی کارکردگی بھی نہیں ہوتا بلکہ وہ ایک ایسے مصنف کا کام ہوتا ہے جو زمان و مکان میں سانس لیتا ہے اور ایک ایسی جماعت سے متاثر ہوتا ہے جس کے لیے وہ زبان کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس اعتبار سے معاشرے سے ادب کا تعلق نہایت اہم ہے۔ اس تعلق کی تفتیش کسی ادب پارے یا فن پارے کی طرف ہمارے جمالیاتی رویے کی تشکیل بھی کرتی ہے اور اس کی تحسین میں گہرائی بھی پیدا کرتی ہے۔ اس بنا پر عمرانیاتی نقاد ادیب یا فن کار کے معاشرتی ماحول کو سمجھنے پر اصرار کرتا ہے اور اس بات کا سراغ لگاتا ہے کہ کسی فن کار کے فن میں اس کے معاشرتی ماحول کو کس حد تک دخل رہا ہے اور اس دخل کی طرف ادیب کا رویہ کیا رہا ہے۔
امریکہ کے مشہور نقاد ایڈمنڈ ولسن نے عمرانیاتی تنقید کے آغاز کو ویکو (Vico) سے منسوب کیا ہے جس نے اٹھارویں صدی میں ہومر کے رزمیوں کا مطالعہ پیش کیا جس سے ظاہر ہوا کہ یونانی شاعر نے کس قسم کے سماجی حالات میں زندگی بسر کی۔
انیسویں صدی میں ہر ڈرنے اس تنقیدی طریقے کو جاری رکھا لیکن جس شخص نے اس تنقیدی طریقے کو مکمل اظہار عطا کیا وہ فرانسیسی نقاد ٹین (Taine) ہے جس نے کہا کہ ادب لمحے، نسل اور ماحول کی پیداوار ہوتا ہے۔
انیسویں صدی کے خاتمے سے پہلے مارکس اور اینگلز تنقید کو ایک نئے طریقے سے روشناس کراچکے تھے۔ ادب کی تحسین و تنقید کے لیے ہر معاشرے کے پیداواری طریقے کا مطالعہ لازمی قرار پاچکا تھا۔ پیداواری طریقے سے مراد ہے کسی معاشرے کے معاشی نظام کا مطالعہ۔ تنقید کے اس نئے زاویے نے عمرانیاتی تنقید کی ایک خاص شکل مارکسی تنقید کو فروغ دیا۔
مارکسی تنقید مارکس کے دو بنیادی نظریات پر مبنی ہے۔ ایک تو یہ کہ ہر معاشرے کی سماجی روایات اور تہذیبی اقدار کی تشکیل میں اس معاشرے کے اقتصادی ڈھانچے یعنی پیداواری طریقوں کو دخل ہوتا ہے۔ دوسرے مارکسی تنقید مارکس کے نظریۂ تاریخ سے بھی گہرا تعلق رکھتی ہے جسے جدلیاتی مادیت کہتے ہیں۔
مارکس اور اینگلز کے متعدد پیروؤں نے ان کی تحریروں سے تنقید کے جو اصول اور نظریات اخذ کیے ان کے برتنے میں ایسی قطعیت کا ثبوت دیا جس سے مارکسی تنقید کے کئی ممتاز نمائندوں کو اختلاف رہا۔ مثلاً انگلستان میں مارکسی تنقید کا سب سے اہم نمائندہ کرسٹورکا ڈ ویل تھا اور امریکہ کے ممتاز مارکسی نقادوں میں جیمس فیول اور ایڈمنڈولسن کے نام نہایت نمایاں رہے ہیں۔ ان تینوں نے اپنے مارکسی ہم عصروں سے شدید اختلافات کا اظہار کیا۔ ایڈمنڈ ولسن جو ان تینوں میں زیاد قد آور نقاد کی حیثیت رکھتا ہے اس نے اپنے مشہور مقالہ ’مارکسزم اور ادب‘ میں مارکسی نقادوں کی متعدد کوتاہیوں کی نشاندہی کی ہے۔ وہ کہتا ہے کہ مارکس اور اینگلز نے اپنے بعض پیروؤں کے برعکس کبھی ایسے سماجی اور اقتصادی فارمولے فراہم کرنے کی کوشش نہیں کی جس کے ذریعے ادب پاروں اور فن پاروں کی صحت کو جانچا جاسکے۔ تخلیقی تصانیف (یعنی شعر و ادب) میں وہ سب سے پہلے فنی محاسن ڈھونڈتے تھے۔ مارکس تو اس بات کا بھی قائل تھا کہ شعرا اوریجنل ذہن کے مالک ہوتے تھے۔ انھیں اپنے راستے پر جانے کی اجازت ہونی چاہیے۔ انھیں ان معیاروں سے نہیں جانچنا چاہیے جن سے معمولی لوگ جانچے جاتے ہیں۔ وہ جرمنی کے مشہور شاعر ہائنے کے سیاسی طرز عمل سے شدید اختلافات کے باوجود اس کی شاعری کا دلدادہ تھا۔ مارکس اور اینگلز کے ہاں شعر و ادب کو طبقاتی جنگ میں حربے کے طور پر استعمال کرنے کا میلان نہیں پایا جاتا۔ خود روس میں ٹروٹسکی جو لینن کے پائے کا مارکسسٹ تھا لیکن لینن کے برعکس ادبی شخصیت کا مالک تھا اس نے اپنی ایک نہایت اہم تصنیف ’ادب اور انقلاب‘ میں کہہ دیا تھا کہ پرولتاری (عوامی) ادب اور پرولتاری کلچر جیسی اصطلاحات خطرناک اصطلاحات ہیں۔ اس نے اس بات پر بھی اصرار کیا کہ کسی فن پارے کو قبول کرنے یا رد کرنے کے لیے ہمیشہ مارکسیت کے اصولوں سے کام نہیں لیا جاسکتا۔ فن پارے کو سب سے پہلے اس کے اصول و آئین سے جانچنا چاہیے یعنی فن کے اصول و آئین سے۔ ان باتوں کا مفہوم یہ ہے کہ شعر و ادب کی اچھائی کا دار و مدار ادبی اور فنی معیاروں پر ہونا چاہیے نہ کہ اس قسم کی باتوں پر کہ کوئی ادب یا ادبی تصنیف کسی مخصوص نظریے کی حامل ہے یا نہیں یا کسی مخصوص طرزِ حکومت سے وابستگی کا ثبوت دے رہی ہے یا نہیں۔
1936 میں جب اردو ادب میں ترقی پسند تحریک آئی تو اس زمانے سے لے کر اب تک اردو ادب میں مارکسی تنقید نشو و نما پاتی رہی ہے۔ ڈاکٹر اختر حسین رائے پوری اردو میں ترقی پسند ادب اور مارکسی تنقید دونوں کے پیش رو کی حیثیت رکھتے ہیں۔ 1936 سے کچھ پہلے ہی ان کا معرکۃ الآ را مقالہ ’ادب اور انقلاب‘ شائع ہوچکا تھا۔ انھوں نے اپنے اس مقالے میں اردو ادب اور اردو تنقید دونوں کو اس زاویہ نگاہ سے آشنا کردیا تھا جسے بعد کے مارکسی نقادوں نے فروغ دیا۔ ڈاکٹر اختر حسین رائے پوری کے بعد مارکسی تنقید پروفیسر مجنوں گورکھپوری، پروفیسر احتشام حسین، پروفیسر عبدالعلیم، سجادظہیر، پروفیسر ممتاز حسین، سردار جعفری، ظہیرکاشمیری، سبط حسن اور فیض احمد فیض کے سہارے آگے بڑھتی رہی۔ ان سب لوگوں کے تنقیدی نظریات سے اختلاف ممکن ہے لیکن ان کی اہمیت سے انکار ممکن نہیں۔ مارکسی تنقید نے شعر و ادب کے مطالعے کا ایک نیا زاویہ یقینا فراہم کیا ہے۔ البتہ اس نئے زاویہ کے اندر جو کمی اور کوتاہی ہے اس سے باخبر رہنا ضروری ہے۔ لیکن وہ کون سا زاویہ نگاہ ہے جس کے اندر کچھ نہ کچھ کمی اور کوتاہی نہیں ہوتی؟
جمالیاتی تنقید
انگریزی میں جو تنقید formalistic کہلاتی ہے اس کے کچھ دوسرے نام بھی ہیں۔ جمالیاتی تنقید، متنی تنقید، علم الوجودی تنقید (ontological criticism) یا نئی تنقید (new criticism) جو نسبتاً زیادہ رائج ہے۔ دورِ حاضر کی مغربی تنقید میں تنقید کا جو طریقہ انگریزی نقاد کالرج (1772-1834) کے اس خیال میں ملتا ہے کہ ادب پارے کی اپنی ایک زندگی ہوتی ہے وہ اپنے طور پر اپنا وجود رکھتا ہے اس میں ایک عضوی وحدت پائی جاتی ہے یعنی ایک ادب پارہ ایک ایسا کل ہوتا ہے جو اپنے تمام اجزا کی ہم آہنگی سے عبارت ہوتا ہے۔
جمالیاتی تنقید کا شجرۂ نسب کالرج کے علاوہ ایڈگرایلن پو اور ہنری جیمس کے نظریات سے بھی تعلق رکھتا ہے۔ جمالیاتی تنقید کے نشو و نما میں ٹی ایس الیٹ ایک بڑی شخصیت کی حیثیت رکھتا ہے۔ ایزراپاؤنڈر اور ٹی ۔ ای۔ ہیوم کے زیراثر فن کی حیثیت سے فن کے بلند مرتبے یا مقام کا اعلان کیا گیا۔ اس اعلان کا مطلب یہ ہے کہ ادب محض ادب کی حیثیت سے بلند مرتبے یا مقام کا مالک ہے۔ اس وجہ سے نہیں کہ وہ معاشرتی، مذہبی، اخلاقی اور سیاسی خیالات کا اظہار ہے۔ اس نے تنقید نگاروں کو اس با ت کی ترغیب دی کہ وہ کسی نظم کے سوانحی مطالعے کی بجائے اس کے فن یا اس کی صنعت گر ی کو تنقید کا موضوع بنائیں۔ نظم کی تاریخی، اخلاقی، نفسیاتی اور عمرانیاتی تشریح پیش نہ کریں بلکہ اس کے جمالیاتی اوصاف پر اپنی توجہ کو مرکوز کریں۔
جمالیاتی تنقید کے معاملے میں ایک دوسرا عظیم رہنما آئی اے رچرڈز ہے۔ جس طرح اس کی کتاب ادبی تنقید کے اصول (1924) نے نفسیاتی تنقید کو استحکام بخشا اسی طرح اس کی تصنیف ’معنی کے معنی‘ (جو اوگڈن کے ساتھ لکھی گئی) نے ادبی تنقید میں سیمانٹک زاویۂ نگاہ کی بنیاد رکھی۔ جمالیاتی تنقید کے مغربی نمائندوں میں ایلیٹ اور رچرڈ ز کے علاوہ ایمپسن، بلیک مر، ایلن ٹیٹ، رینسم، کلینتھ بروکس اور روبرٹ پن وارن جیسے مشہور و ممتاز تنقید نگار ملتے ہیں۔ انھوں نے انگریزی ادب، امریکی ادب اور مغربی ادب پر جس قسم کی جمالیاتی تنقید لکھی ہے اس طرح کا کوئی کام اردو ادب میں آج تک نہیں ہوسکا ہے۔ ہمارے ہاں جمالیاتی تنقید یا فنی تنقید زبان، بیان اور عروض کی صحت کو جانچنے تک محدود رہی ہے جیسا کہ نیاز فتح پوری اور اثر لکھنوی کے مضامین سے ظاہر ہوتا ہے یا پھر تنقید جمالیاتی تاثرات اور محسوسات کا اظہار بن گئی ہے جیسا کہ فراق گورکھپوری کے یہاں نظر آتا ہے۔ اردو تنقید بڑی حد تک تاثراتی تنقیدہے۔ اس میں تجزیے کی وہ گہرائی اور چمک مفقود ہے جو مغرب کی جمالیاتی تنقید میں موجو دہے۔
ساختیاتی تنقید
بیسویں صدی کی ادبی تنقید ادب یا آرٹ کے نظریے پر مبنی نہیں ہوتی بلکہ اس میں ایک ْسے زائد دوسرے انسانی علوم سے مدد لے کر معنی کی نئی تہیں اور جہتیں ڈھونڈھی جارہی ہیں۔ اس طرح کی کوششوں میں تازہ ترین کوشش وہ تنقید ہے جسے ساختیاتی تنقید (Structural Criticism) کہتے ہیں اور جو لسانیات کے بعض جدید نظریات پر مبنی ہے۔ یوں تو اب تنقید کی دوسری اقسام بھی کچھ کم مشکل نہیں رہ گئی ہیں انھیں سمجھنا اور سمجھانابہت مشکل ہوچکا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ اب تنقید ادب کے عام قاری کے لیے نہیں لکھی جارہی ہے بلکہ غیرمعمولی عالموں اور نقادوں کے لیے لکھی جارہی ہے۔ تنقید کی اقسام میں اس کی جدید ترین قسم ساختیاتی تنقید غالباً سب سے زیادہ مشکل قسم ہے۔
ساختیات متعدد ذہنی علوم پر مشتمل ہے۔ مثلاً لسانیات، بشریات، عمرانیات، جمالیات، نفسیاتی تجزیہ، سیاسی نظریہ۔ ساختیاتی تجزیے کا ایک مخصوص طریقہ کار ہے۔ عام طور پر ایف ڈی ساسیر (1857-1913) تجزیے کے ساختیاتی طریقے کا بانی مانا جاتا ہے۔ اس نے لسانیات کا ایک نیا نظریہ پیش کیا جس کا نام Symiology ہے۔ انگریزی میں اس کی کتاب کا ترجمہ پہلی مرتبہ 1959 میں شائع ہوا۔ سیمیولوجی کے معنی ہیں نشانات کی سائنس۔ اس کتاب میں اس نے یہ نظریہ پیش کیا ہے کہ زبان کا تجزیہ اس کی اندرونی ساخت کے اعتبار سے ہونا چاہیے (یعنی اس اعتبار سے کہ زبان بذاتہ کیا ہے) نہ کہ اس کے متن کے اعتبار سے۔ اس نے اپنے نظریہ کا نچوڑ اس فقرے میں پیش کیا ہے کہ زبان کی ہیئت ہے نہ کہ متن۔ ساسیر کے بعد ماہرین ساختیات نے اس کے لسانی طریق کار کا اطلاق مختلف موضوعات پر کیا مثلاً اساطیر پر لیوی اسٹراس نے، ادب اور نظریے پر رولاں بارتھ نے، لاشعور پر لاکاں (Lacan) نے۔ اردو ادب میں ساختیات پر سب سے پہلا مضمون محمد علی صدیقی نے لکھا لیکن ساختیاتی تنقید کے ممتاز نمائندہ ڈاکٹر گوپی چند نارنگ ہیں۔ آج کل اردو رسالوں میں ساختیاتی تنقید کی حمایت اور مخالفت میں خاصی بحثیں چل پڑی ہیں جن میں محمد علی صدیقی، ڈاکٹر و زیرآغا، قمر جمیل، شہزاد منظر وغیرہ حصہ لے رہے ہیں۔ لیکن ان بحثوں سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ ان میں ساختیات کے بنیادی مسائل اور مباحث واضح نہیں ہورہے ہیں۔ غالباً اس کی ایک اہم وجہ یہ ہے کہ جب تک کسی علم کی بنیادی کتابیں نہ پڑھی جائیں اور اس علم کے بہترین نمائندو ںکے کارنامے پیش نظر نہ ہوں اسے سمجھنا آسان ہوتا ہے نہ سمجھانا آسان۔ ہمارے ادیبوں اور نقادوں میں کتنے لوگ ہیں جنھوں نے ایف ڈی ساسیر، لیوس، اسٹراس، مائکل فوکو، لوئی التھوسے اور رولاں بارتھ کی کتابیں پڑھی ہیں اور انھیں سمجھنے میں کامیاب ہوئے ہیں؟
وجودی تنقید
ولبر اسکاٹ نے اپنی کتاب مطالعۂ ادب کے پانچ طریقوں میں وجودی تنقید یعنی Existential Criticism کا ذکر نہیں کیا ہے جب کہ وجودی تنقید کو وجود میں آئے ہوئے کم ازکم پچاس سال ہوچکے ہیں اور وہ تنقید کی دوسری اقسام کی طرح ادب کے مطالعے میں معاون ثابت ہورہی ہے۔ وجودی تنقید کی ابتدا فلسفۂ وجودیت کے دو ممتاز ترین نمائندے ژاں پال سارتر اور البیر کامیو سے ہوتی ہے۔ ان دونوں نے ادب سے متعلق جو تنقیدی مضامین اور کتابیں لکھی ہیں وہ وجودی تنقید کی بہترین مثالیں ہیں۔ انگریزی ادب میں وجودی تنقید کا آغاز دوسری جنگ عظیم کے بعد کولن ولسن سے ہوتا ہے جو ایک نئی وجودیت کے بانی ہونے کا دعویدار ہے۔ وجودی تنقید کسی ادب پارے کو کس طرح پرکھتی ہے، ادب کا مطالعہ کس زاویے سے کرتی ہے اور ادب سے اس کے مطالبات کیا ہوتے ہیں۔ اس کا اندازہ کولن ولسن کی مشہور تصنیف The Age of Defeat سے بھی کیا جاسکتا ہے۔ اس کتاب میں کولن ولسن نے ایک بات بڑے واضح انداز میں کہہ دی ہے کہ وجودی تنقید ادبی تنقید کا بدل نہیں ہے لیکن دونوں کو ایک دوسرے سے مربوط اور ایک دوسرے کا تکملہ سمجھنا چاہیے۔
کولن ولسن نے اپنی اسی کتاب میں یہ سوال بھی اٹھایا ہے کہ ادب میں ادبی تنقید کے باوجود وجودی تنقید کی ضرورت کیا ہے۔ اس سوال کا جواب دیتے ہوئے ولسن نے کہا ہے کہ کسی بھی فن کو صرف جمالیاتی معیاروں سے پرکھا نہیں جاسکتا۔ وجودی نقاد صحیح اور صاف طور پر جاننا چاہتا ہے کہ آخر کوئی کتاب کیا کہہ رہی ہے۔ یہ نہیں کہ کوئی کتاب زندگی کے عین مطابق ہے یا نہیں۔ کسی کتاب کو راے زنی کے قابل بننے کے لیے معنی کے معیار کی ضرورت ہوتی ہے۔ معنی اخلاقی، مذہبی اور سیاسی نہیں ہوتے۔ یہ دراصل وسیع ترین معنوں میں معنی ہوتے ہیں۔ کسی چیز کے کچھ معنی ہیں تو اس لیے ہیں کہ وہ چیز ہماری زندگی سے کوئی رشتہ رکھتی ہے ہم اس معنی کے بارے میں کچھ نہیں جانتے جس کا زندگی سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ وجودی تنقید معنی کے اس معیار کو فروغ دینے کی ایک کوشش ہے۔
ولسن نے کوئی پچیس سال پہلے یہ بات کہی تھی کہ وجودی تنقید کا یہ طریق کار (معنی کے متذکرہ معنی اور معیار کو فروغ دینے کی کوشش) ابھی بالکل ابتدائی حالت میں ہے۔ یہ ایک ایسی زبان کی حیثیت رکھتی ہے جو ابھی ابھی ایجاد کی گئی ہے۔ لیکن ایک اعتبار سے وجودی تنقید ایک زمانے سے موجود رہی ہے۔ ووستوفسکی پربرڈریو (Berdraev) بور نطشے پر یاسپرس (Jasperse) کی کتاب وجودی تنقید کی کلاسیکس ہیں۔ کولن ولسن نے مشہور امریکی نقاد ایڈمنڈولسن کے مضمون A Dissenting Opinion on Kafka کو بھی وجودی تنقید کی ایک عمدہ مثال قرار دیا ہے۔ اس نے خود اپنے مضمون ’وجودی تنقید‘ میںسیموئل بیکٹ، ڈی ایچ لارنس، آلڈس ہکسلے، ٹی ایس ایلیٹ اور ایوان گونکروف پر وجودی تنقید کی عمدہ مثالیں پیش کی ہیں۔ اس نے اپنے مجموعۂ مضامین Eagle And Earwig اور اپنی تصنیف The Strength to Dream میں مغربی ادیبوں اور ناول نگاروں پر جو کچھ لکھا ہے وہ بھی وجودی تنقید کی عملی مثال ہے۔
ولسن نے اپنے مضمون وجودی تنقید میں سیموئل بیکٹ پر وجودی تنقید کی عملی مثال پیش کرتے ہوئے بتایا ہے کہ بیکٹ کے ڈراموں اور ناولوں نے انگریزی کے ادبی اور ڈرامائی نقادوں کی مکمل بے بسی کا انکشاف کیا ہے۔ ان کی سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ بیکٹ کے ڈراموں اور ناولوں کو کس نقطۂ نظر سے جانچیں۔ اس معاملے میں سارے نقادوں کی قوت فیصلہ جواب دے گئی۔ بیکٹ کے ناول نسبتاً زیادہ پریشانی کا باعث ثابت ہوئے۔ نتیجتاً بعض نقادوں نے اپنی تنقید کو بیکٹ کے طریق کار پر مرکوز کردیا اور بیکٹ کی آئرش ظرافت اور آئرش کرداروں کی مصوری کی تعریف کی۔ بعض نے اپنی تنقید کو اس کے ڈراموں کا خلاصہ پیش کرنے تک محدود رکھا اور بعض نے بیکٹ کی تصانیف کی گہرائی اور اس کی عمیق انسانیت کی تعریف کرکے حق تنقید ادا کردیا۔
ولسن کا کہنا ہے کہ وجودی تنقید کے اصولوں کی روشنی میں بیکٹ کا تنقیدی جائزہ ایک سیدھا سادہ معاملہ ہے۔ بیکٹ کے یہاں جو چیز سب سے نمایاں ہے وہ ہے اس کی مکمل مایوسی (despair)۔ لیکن اس کے نقاد وثوق سے نہیں کہہ سکتے کہ آیا یہ مایوسی کسی ایسے گہرے vision پر مبنی ہے جو ان کے تجربے سے باہر ہے یا یہ مایوسی مطلق مایوسی (absolute despair) ہے۔ قطعی مایوسی اور قطعی امید کے مسائل ادبی تنقید کے دائرے سے باہر ہیں، لیکن بیکٹ کے کرداروں کی ایک سستی اور جامد کلفت (misery) وجودیت کے بنیادی تجربے ہیں۔ بیکٹ کی قنوطیت کو صحیح سیاق و سباق میں رکھنے کے بعد وجودی نقاد کو اس بات میں کوئی ہچکچاہٹ محسوس نہیں ہوتی کہ وہ اس کی قنوطیت کو مابعدالطبعیاتی نشو ونما کا ایک معاملہ (case) قرار دے کر اسے بحث سے خارج کردے۔
ولسن کہتا ہے کہ وجودی نقاد ادیب کے مجموعی احساس زندگی کو چیلنج کرتا ہے۔ وجودی تنقید میں نتائج الگ الگ تسلیم نہیں کیے جاتے۔ سوال یہ نہیں ہے کہ آپ کیا دیکھتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ آپ کس حد تک دیکھتے ہیں۔ ولسن کے ان خیالات سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ وجودی تنقید کیا چیز ہے اور وہ ادب کے مطالعے میں کس قسم کی مسائل سے نبردآزما ہوتی ہے۔
m
)گزرگاہِ خیال: پروفیسر نظیرصدیقی، ناشر: از مصنف(

کوئی تبصرہ نہیں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے