متن اور معنیاتی نظام از معیدالرحمٰن: چند تاثرات
(شہرام سرمدی)
1998 کے اواخر کا واقعہ ہے۔ مجھے سُریش کمار کی غزلوں کے مجموعے ‘پیڑ جب بولنے پہ آتے ہیں’ پر ایک مضمون لکھ کر شہریار صاحب کو سونپنا تھا۔ مضمون میں ایک لفظ کی غلط ہجے دیکھ کر شہریار صاحب نے کہا،’جوحتمی طور پرمعلوم نہ ہو وہ نہیں لکھنا چاہیے’۔ یہ بظاہر یوں تو ایک سادہ سا جملہ ہے لیکن اصل میں ہے ‘گُرُو مَنتَر’۔ آج ہمارے یہاں بیشتر لکھنے والوں کی تحریریں مذکورہ ‘گُرُو مَنتَر’ سے خالی نظر آتی ہیں۔ اکثر تحریریں ‘نامعلوم’ کے بیان کی اُدھیڑ بُن ہیں۔ ‘بُن’ کا استعمال صرف ‘اُدھیڑ’ کے سبب ہوا ہے ورنہ اصل میں ‘بُن’ ندارد۔
معید الرحمٰن کی تحریروں کی خوبی یہ ہے کہ ان کے یہاں ‘حتمی طور پرمعلوم’ کے بیان کا عمل ہے اور ‘ناپختہ نامعلوم’ سے پرہیز کا رویہ ملتا ہے۔ ان کا بیشتر سروکار پیشِ نظر متن سے ہوتا ہے اور اس متن تک محدود ہوتا ہے۔ اس میں لکھنے اور پڑھنے والے، دونوں کو سہولت بھی ہوتی ہے اور قدروں کے تعین میں مدد ملتی ہے۔
پیشِ نظر کتاب ‘متن کا معنیائی نظام’ معید الرحمٰن کے گیارہ تنقیدی مضامین کا مجموعہ ہے۔ دوسو سولہ صفحات پر مشتمل اس کتاب میں الطاف حسین حالی، سرسید، شبلی نعمانی، آلِ احمد سرور، نیر مسعود اور خالد جاوید کے نعمت خانہ پر مضامین شامل ہیں۔ شخصیات کے ناموں سے بھی معیدالرحمٰن کے ادبی میلان کا اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے۔
ایک ایسے دور میں جہاں شہرت انگلیوں کی ایک حرکت کی رسائی میں سمٹ کر رہ گئی ہے۔ اس حال میں خالص سنجیدگی اور محنت کم ہی دیکھنے کو ملتی ہے۔ اب تک معید الرحمٰن کی جو تحریریں مطالعے میں آئی ہیں ان میں وہ اپنی ‘خالص سنجیدگی’ اور ‘محنت’ کے سبب قاری کی توجہ کو اپنی طرف مبذول کرانے میں کامیاب ہیں۔ یہ خصوصیت ان کو ان کے ہم عمروں میں امتیاز بھی فراہم کرتی ہے۔ ان کی سنجیدگی کو دیکھ کر ایک بات کی یاد دھیانی کا خیال آتا ہے کہ پاسبان عقل کا ہر وقت دل کے پاس نہ ہونا عین زندگی ہے۔
تنقیدی کاموں میں ‘خالص سنجیدگی’ اور ‘محنت’ کے رویے پر معید الرحمٰن کی گامزنی ابولکلام قاسمی سے ان کی نسبت ظاہر کرتی ہے۔ ابولکلام قاسمی کی تنقید کی بنیاد اور اس کا مرجع مشرقی ادب ہے۔ وہ ‘قاسمی’ بھی تھے اس لیے ایک طرح کی سختی کا احساس ہوتا ہے۔ معیدالرحمن کے یہاں طرزِ گفتار میں ایک طرح کا پیناپن ہے اور صاف گوئی ہے جو دلکشی کا سبب بھی بنتی ہے۔ چونکہ نقد و تحقیق کا ذکر ایک ساتھ بھی کیا جاتا رہا ہے اس لیے یہاں یہ کہنا بے جا نہیں ہوگا کہ سنجیدہ ادبی تحقیق کے ضمن میں شہاب الدین ثاقب کا کام اہمیت کا حامل ہے۔
بقول ناصر عباس نیر، ‘معید الرحمٰن تنقید کو تاثر نہیں، مخصوص اصولوں سے عبارت صنفِ ادب سمجھتے ہیں’۔ اس جملے کو پڑھ کر شہریار صاحب کا دیا ‘گُرُو مَنتَر’ یاد آگیا۔ درحقیقت ‘اصول’ اور ‘تاثر’ ایک دوسرے کی ضد نہیں، دو مراحل ہیں۔ مثال کے طور پر نو مشقی کے دور میں شعر کہنے والے کے ذہن میں وزن و عروض وغیرہ کا خیال زیادہ رہتا ہے اور بعد کے مراحل میں جب اس کی توجہ تخلیقِ شعر میں قائم ہوجاتی ہے تو خیال کا مرکز بدل جاتا ہے۔ ‘اصول’ اور ‘تاثر’ کا بھی معاملہ اسی طرح کا ہے۔ یہاں یہ بات بھی توجہ طلب ہے کہ مذکورہ مراحل میں ورود و خروج کا تعلق محض سال سے نہیں بلکہ کمال سے ہے۔
معید الرحمٰن اگر یونہی پیشرفت کرتے رہے تو یقین کیا جانا چاہیے کہ از ‘اصول’ تا ‘تاثر’ کا سفر سرفرازی کے ساتھ طے کریں گے اور ان سے وابستہ احباب کی توقعات زائل نہیں جائیں گی۔
معید الرحمٰن کی ایک خوبی یہ بھی ہے کہ کسی کے علمی و ادبی کام پر اظہارِ خیال کرتے وقت زیرِ بحث مواد کا بہ غور مطالعہ کرتے ہیں۔ البتہ چند ہفتہ قبل ایک خبر ملی کہ انہوں نے ایک تقریب میں شرکت کی تھی اور ایک مضمون بھی پیش کیا تھا۔ جس موضوع پر ‘مذاکرہ’ تھا اس کتاب کے بعض چیدہ ورق پڑوس سے اُڑاُڑا کر دوسروں کی مانند انہیں بھی موصول ہوئے تھے۔ ظاہر ہے کہ ذکر کردہ چیدہ اوراق کو سامنے رکھ کر انہوں نے مضمون بنا ڈالا تھا۔ یہاں میں دوسروں سے کچھ نہیں کہہ سکتا لیکن ان سے امید ہے کہ آئندہ اس روش سے پرہیز کریں گے۔
آخر میں دلی مبارکباد کے ساتھ اتنا عرض کروں گا کہ معید الرحمٰن عزیز! اس وقت سب سے آسانی سے جو چیز دستیاب ہو سکتی ہے وہ شہرت ہے۔ فی زمانہ اعتبار و قبولیت کسب کرنا اصل کار مرداں ہے۔
/
کوئی تبصرہ نہیں