سہیل آزاد کی دس غزلیں


سہیل آزاد کی دس غزلیں

غزل

***

سب نقش اُس دیوار پر ، وحشت کے تھے ، فرقت کے تھے
خالی مکاں ، بے بس جہاں ، یہ سلسلے عبرت کے تھے
جانے ہمیں کیا ہو گیا ، دل ہمسفر تھا ، کھو گیا
کیوں خاکداں سے لوٹتے ، سارے سفر حیرت کے تھے
ہم پر کہاں اُسکی نظر ، اس سمت سے گزرے مگر
پہلے تو لگتا تھا یہی ، ہم بھی بهلی صورت کے تھے
اب کون سنتا ہے ہمیں ، کچھ شعر ہیں ، کچھ کترنیں
مٹنے لگے آخر  سبھی ، جو زاوئے شہرت کے تھے
اے مہرباں تجھ سے بھلا  ہو کر جدا جاتے کہاں
آزاد واپس آ بھی جا ، سب فیصلے عجلت کے تھے

***

غزل

***

تماشہ دیکھ رہی ہے ہوا بکھرنے کا
ہمیں مزاج نہیں ان دنوں سنورنے کا
ذرا سی دیر میں اس نے جواب بھیج دیا
سو کھیل ختم ہوا ڈوبنے ابھرنے کا
یہاں سے اور گھنا ہے وجود کا جنگل
یہاں سے آگے سفر اور بھی ہے ڈرنے کا
تمہارے چہرے پہ کھلتے ہی بن رہی تھی خوشی
ذرا سی دیر کو ناٹک کیا تھا مرنے کا
یہاں بھی کوئی نہیں ہے گلے لگانے کو
چلو ملال  گیا دل سے پار اترنے کا
جو دیکھیے تو اداسی ہے تازہ دم  آزاد
جو سوچئے  تو یہ موسم ہےشاد کرنے  کا

***

غزل

***

کشید کرتا رہوں گا خلا سے عرق ِ صبا
کسی کسی کو ملا ہے مگر ہوا کا پتہ
کوئی تو آئے کسی شام چائے ساتھ پئے
کھلا ہوا ہے زمانے سے گھر کا دروازہ
ہوا اڑا کے وقت لے گئی کہاں جانے
میں لکھ رہا تھا فسانہ تیری محبت کا
کچھ ایسی نیند لگی ،عمر چیختی ہی رہی
کسی درخت کے نیچے ذرا سا ٹھہرا تھا
گزر رہا تھا، مگر دل میں ڈر بھی تھا آزاد
چلو یہ موڑ بھی اس کی گلی سے دور کھلا

***

غزل

***

کچھ تصویریں اپنے آپ سے باتیں کرتی رہتی ہیں
رنگ سنوارا کرتی ہیں، پھر خود ہی سنورتی رہتی ہیں
جانے کب آوازوں کے گونگے لشکر یلغار کریں
میرے کمرے کی دیواریں خود سے ڈرتی رہتی ہیں
خواب  سجانے والی لڑکی! کب تک گم صم سوچے گی
امّیدوں کا کیا ہے !امّیدیں تو مرتی رہتی ہیں
صندوقوں میں بند پڑے ہیں کتنے موسم کتنے خط
آنگن میں جاڑوں کی تصویریں سی ابھرتی رہتی ہیں
کوئی نہیں جو دیاجلائے،  شعر سنائے ، بات کرے
ان دیواروں پر برسوں سے شامیں مرتی رہتی ہیں
اے آزاد! وہ موتی جیسی آنکھیں اب ویران ہوئی
خود ہی چراغ جلا لیتی ہیں ، خود ہی سے سنورتی رہتی ہیں

***

غزل

***

الگنی پر سوکھتے سیلے بدن ، گیلی قبا
دھوپ نکلی،  اب ذرا نکھرے گی برفیلی قبا
کن بگولوں سے الجھ کر آئی ہے خاک ِ بدن
اور ہوا پہنے ہوئے ہے آج بھی ڈھیلی قبا
دور تک پانی کے بہنے کی صدائے دل خراش
دور تک دریا نے پہنی ہے یہاں نیلی قبا
کن تماشوں کا پتا دیتی رہی تصویر ِ خواب
یاد کے شعلہ بدن پر کس قدر گیلی قبا
چاک کر دیتی ہوئی اکثر نظر کی تیز دھار
اور رفو سے پاک ، اس کی شوخ نخریلی قبا
اہتمام ِ ریگ ِ صحرا : آمد ِ باد ِ سموم
خار و خس پہنے ہوئے ہیں کیسی پتھریلی قبا
دل کہیں گروی پڑا تھا ، میں کہیں ،  آنکھیں کہیں
ایک جھلک دیکھی ہے جب سے اس کی چمکیلی قبا

***

غزل

***

اب میں تصویر میں ہو بات نہیں کر سکتا
بے نوا ہوں : کہ سوالات نہیں کر سکتا
شہر ِ امکاں سے گزرنا ہے اکیلی جاں کو
ٹھہر سکتا نہیں ، میں رات نہیں کر سکتا
میرے مرنے پہ بھی شک ہے تو بھلا ہو تیرا
زندگی! اور کرامات نہیں کر سکتا
آخری دن ہے ، تیرے شہر میں میرا ، اور میں
آخری بار ملاقات نہیں کر سکتا
جس کو خود اڑُ کے گزر جانے کی جلدی ہو بہت
ایسا بادل کوئی برسات نہیں کر سکتا
رات آنے پہ ہی موقوف ہے گر وصل،  تو پھر
کوئی اس دن کو کبھی رات نہیں کر سکتا
وہ جو ایک دور ِ جنوں تھا،  وہ گیا ، عمر گئی
خط میں اب ویسی کوئی بات نہیں کر سکتا
راز داروں میں میرے ایک فقط تو ہی تو ہے
اور عیاں تجھ پہ بھی جذبات نہیں کر سکتا
میں بھی انسان ہوں،  انسان بھی ناطق آزاد
عاجزی مثل ِ نباتات نہیں کر سکتا

***

غزل

***

کہ آخری کشکول اس کا، آخری سکہ ہمارا
اک طلب پر جان دے دی بس یہی قصہ ہمارا
شام ہوتے ہی اسی دیوار و در میں لوٹتے ہیں
گھر جسے کہتی ہے وحشت ہے وہی صحرا ہمارا
ایک دریا کی ہوس میں دور تک گرداب لایا
کوئی ساحل پانیوں پر بھی کبھی بہتا ھمارا
عشق کی بندش سے ہم آزاد ہو کر جینے والے
یہ تعلق مشترک ہے کیا کہیں اس کا ہمارا
ہاں وہی بازار صورت, اک نظر بیگانگی کی
آئینے میں ہم نے دیکھا ایک سایا تھا ہمارا
آؤ اب واپس چلیں ، دن چھپ گیا جنگل کے پیچھے
کس سے پوچھو گے  کہاں پر  قافلا چھوٹا ہمارا
آدھے آفس میں ہیں ہم, آدھے سے کم مشق ِ سخن میں
خود کو کب ملتا ہے اے آزاد اب حصہ ہمارا

***

غزل

***

پڑھ کر حروف ِدل کوئی حیرت زدہ نہ تھا
وہ سب بھی خط میں تھا کہ جو خط میں لکھا نہ تھا
مجھ میں ہی دیکھتا تھا وہ ہر عکس ِمنتشر
کمرے میں اس کے آئینہ میرے سوا نہ تھا
رخصت پے ہو بضد کہ مجھے چارہ گر سے کیا
میرے لیے کوئی یہاں محو ِ   دعا نہ تھا
موسم اداس کر گئے اے جان ِ التفات
میں بھی تیرے بغیر یہاں پر رُکا نہ تھا
رستے پہ دل بچھا کے کہیں چھپ گیا تھا میں
لیکن وہ کب گزر ھی گیا،  کچھ پتہ نہ تھا
آزاد جس کو پڑھ کے وہ اتنا اداس ہے
سچ پوچھیے تو اس کے لئے کچھ نیا نہ تھا

***

غزل

***

ذات ہمارے شہر کی ،شہر ہمارے خواب کا
صبح ِنگار ِ زندگی یعنی جگر گلاب کا
اور بھی لوگ آچکے،  آکے چلے بھی جا چکے
کھُلتا نہیں معاملہ آنکھ کے اظطراب کا
دل تھا سو دے دیا گیا،  سینے میں اب بچا ہی کیا
اور بھی کچھ حساب دوں ! میں تجھے انتساب کا ؟
ساقی سے پوچھیے ذرا جام و سبو کہاں گئے
کیسا خمار کیا نشہ دور گیا شراب کا
لکھ کے رکھےتھے خط کئ ،تازہ تھے چند پھول بھی
کب کا ورق نکل چکا ، درد کی اس کتاب کا

***

غزل

***

اک دن کے ڈوبنے کا تماشا نہیں ہوں میں
ہر جلتی بجھتی شام کا سایہ نہیں ہوں میں
روتے ہیں مجھ کو صاحب ِ دل احتیاط سے
ہر آنکھ میں رواں ہو ،وہ دریا نہیں ہوں میں
اک دن شکستہ ہو کے بکھر جاؤں گا کہیں
پتھر سمجھ رہا ہے کہ شیشہ نہیں ہوں میں
اک آس تھی کہ اپنی طرف لوٹ آونگا
اک بات ہے کہ آج بھی اپنا نہیں ہوں میں
لکھتا ہوں بار بار تیرا نام ہاتھ پر
اور ہاتھ کہہ رہا ہے کہ بھولا نہیں ہوں میں
اب اس کے سنگ میل کہاں ڈھونڈتا ہے دل
یا رہ نورد ِ راہ ِ تمنا نہیں ہوں میں
گردش میں ہے جہان ِفلک میرے ساتھ ساتھ
اپنے مدار میں کہیں رُکتا نہیں ہوں میں
لب بستہ مجھ کو دیکھتی رہتی ہے رات دن
تصویر جانتی ہے کہ زندہ نہیں ہوں میں
اب بھی تیرے نقوش ابھرتے ہیں جا بجا
دیوار و در کے ساتھ بھی تنہا نہیں ہوں میں

***

غزل

***

یاد اُسکی دسترس میں ، رات اُسکی ، غم ہمارے
خواب کے سارے شکستہ ، بد نما  موسم ہمارے
اُسنے کب سمجھا بھلا آواز کی لغزش کا مطلب
اُسنے دیکھ ہی کہاں  دامن  کے گوشے  نم ہمارے
آپ ساری رنجشوں کو چچھوڑ کر مل لیں تو بہتر
چراگر  افسردہ  ہیں ، دن  رہ گئے ہیں کم ہمارے
سوچئے گا  مت  کہ یہ آسان سی کچھ  گفتگو  ہے
دیکھئے گا  کس تکلّف سے کھُلینگے خمٙ ہمارے
اے چراغ ِ زندگی تیرا سفر بس ایک شب کا
اے اسیر ِ زندگی ! چلنا ترا باہم ہمارے
آج اُسکی خانہ ویرانی پہ رو لیجے ، کہ جسنے
گھر جلائے ہیں چراغاں کے لئے پیہم ہمارے
اب حروف ِ بے صدا پڑھتا نہیں آزاد کوئی
اب کسی اخبار میں چھپتے نہیں کالم ہمارے

***

غزل

***

وصل اسکی سلطنت ہے   ، اپنے ہاتھ  آئی نہ آئی
اے محبّت تیری منزل ! نارسائی تک رسائی
آج پھر گزرے ہیں اسکے ساتھ دیکھے منظروں سے
آج اسکی با وفا نظروں نے کی ھے بے وفائی
اس بلا کی مصلحت میں ، کیا کسی سینے سے لگنا
لغزش ِ پا جانتی ھے خوب کرب  ِ آشنائی
دشت کی مانوس وحشت اور جنوں کالے دھویں سا
دور تک پھیلے اجالوں کے دلوں میں کیا سمائی
یاد آئی  اسکی بستی ، اسکے ہنگاموں کی بستی
چار سو   بکھری پڑی ہے اب یہاں پر بے  نوائی
ایک بوسیدہ سا بستر دھوپ سے محروم گھر میں
یہ تو بس اک یاد ہے اور یاد بھی یکسر  پرائی
ایک آنگن تھا کسی معدوم موسم کا  ٹھکانہ
اور اسی آنگن میں باندوں  سے بُنی اک چارپائی
***

کوئی تبصرہ نہیں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے