"ایک فکشن نگار کا سفر”: چند تاثرات


"ایک فکشن نگار کا سفر”: چند تاثرات
(شہرام سرمدی)
(جمنا کے قلب میں پیوست اس کی بنیادیں اور گنبد کے سر پر رکھا زریں کلش، از سر تا پا ایک ایسی قصہ خوانی ہے جس سے اس کے صدر دروازے پر کھڑے جوق در جوق سیلفی لینے والے آگاہ نہیں۔ ہرچند اس عمارت کی تعمیر میں مختلف سرزمینوں کے معماروں نے اپنے ہنر اور اپنی استعداد سے اس کو ایک خاص صوری و معنوی حسن دیا البتہ اس کی بنیادیں اور گنبد اس کی مشرقیت کے بیان گر رہے۔ کل بھی، آج بھی اور ۔۔۔ ۔)
یہ "ایک فکشن نگار کا سفر” ہے یا مطالعے کے گھنے جنگلوں میں ایک مسافر کی مسلسل سرگردانی اور اپنی تلاش۔ اس گنجان جنگل میں سو بہ سو بس جنگل ہے اور پیہم راہ پیمائی۔ ایسا لگتا ہے جیسے کنڈلینی یاترا کے ساتویں شریر پر کوئی یاتری ہو۔ نِتانت یاترا۔ اس یاترا میں جو کچھ ملا، وہی وہ دیتا جارہا ہے۔ اس یاترا میں حاصل شدہ کسی بھی شے کو نہ تو وہ اپنی ملکیت کے طور پر قبول کرتا ہے اور نہ ہی اسے اپنی پہچان کی چادر کی صورت میں اپنے شریر پر اوڑھتا ہے۔ اسے اپنی روح کی”نامعلوم” گپھاؤں میں کسی نہ کسی سطح پر یہ "معلوم” تھا کہ جس درخت کی جڑیں اپنی مٹی میں پیوست نہ ہوں، وہ حقیقی پھل دینے سے محروم رہتا ہے۔
پیشِ نظر کتاب ایک ایسے ہی سفر کا سفر نامہ ہے۔ "ایک فکشن نگار کا سفر” اُدیَن واجپئ اور شمس الرحمٰن فاروقی کے درمیان مکالمے ہے۔ جسے اُدیَن واجپئ نے سن 2018 میں دیوناگری رسمِ خط میں شائع کیا اور رضوان الدین فارقی کے توسط سے سن 2023 میں اردو رسمِ خط میں اشاعت پذیر ہوا۔
ذکر کردہ مکالمہ اردو کی کتابی صورت میں تقریبا ایک سو چھتیس (136) صفحات پر مشتمل ہے۔ جس میں انتساب، تقریظ، عرضِ مترجم اور پیش لفظ کو اگر جداگانہ حساب کریں تو کُل ایک سو اٹھارہ (118) کے آس پاس صفحے ہیں اور متن کی صورت میں کم و بیش ایک سو پینتالیس (145) سوالات اور ان کے جوابات ہیں۔ مکالمے کے نصفِ اول میں شمس الرحمٰن فاروقی زندگی کی دھوپ چھاؤں کے ساتھ ساتھ مغرب زمینوں کے مطالعے کے گھنے جنگل میں محوِ راہ پیمائی نظر آتے ہیں۔ نصفِ آخر، فاروقی کے فکشن اور فکشن نگاری سے متعلق سوال و جواب پر مبنی ہے بہ الفاطِ دیگر شمس الرحمن فاروقی کے فکشن کے اشاراتی حوالے ہیں۔
اس کتاب میں ‘انتساب’ اور ‘عرضِ مترجم’ کے تحت رضوان الدین فاروقی کی دو تحریریں ہیں۔ وہ جو کہا جاتا ہے: "ہونہار بروا کے چکنے چکنے پات”، ایسا ہی کچھ رضوان الدین فاروقی کی خوش سلیقہ و خوش مطالعہ صفات کو دیکھ کر ذہن میں آتا ہے۔ انتساب میں انہوں نے عارف قزوینی کے جس شعر کو نقل کیا ہے وہ ان کی خوش انتخابی کا ثبوت ہے:
روحِ پدرم شاد کہ فرمودہ بہ استاد
فرزندِ مرا عشق بیاموز دِگر ہیچ
‘عرضِ مترجم’ میں ان کے یہاں مثبت بینی اور خوش آئندگی کے عمدہ اشارے ملتے ہیں:
_ "شمس الرحمٰن فاروقی صاحب کے افکار و نظریات سے اردو ادب کا کم و بیش ہر قاری (پوری) طرح واقف ہے”۔
یا
_ "ہندی والے (بھی) ان کے افکار و نظریات اور ان کے ادبی کارناموں کے بغیر کسی تعصب کے معترف ہیں”۔
اولِ ذکر کے لیے ‘امید’ اور آخرِ ذکر کے لیے ‘دعاء’ جاری ہے۔ درحقیقت ‘امید و دعاء’ ہی ایک صحت مند حال و مستقبل کا اصل زادِ سفر ہے۔
‘تقریظ’ کے عنوان کے تحت خالد جاوید کی ایک تحریر بھی شامل ہے۔ مختلف کتابوں پر خالد جاوید کی اس نوعیت کی تحریروں کے مطالعے سے ایک بات سامنے آتی ہے کہ انہوں نے "فن بیان” میں ایک نئی صنعت کا اختراع کیا ہے۔ اگر اس صنعت کے اختراع کنندہ کو اس کی معنوی روشنی میں دیکھا جائے تو خالد جاوید کو "ابو المبالغہ” کا نام دینا بیجا نہ ہوگا۔ لطفِ مزید یہ ہے کہ وہ اختراع کردہ کسی بھی "ابوالمبالغہ” کی پے بہ پے اصرار کرنے پر بھی تصدیق نہیں کرتے ہیں۔ ایسے جملے کہنے سننے میں باعث لطف و فرحت بخش ہو سکتے ہیں لیکن تحریر میں توازن کو ملحوظ رکھنا ایک مستحسن عمل ہے. ان کی مختلف تحریروں سے چند اقتباس بطورِ مثال:
_”اس ترجمے کی میں جتنی بھی تعریف کروں وہ کم ہے۔”
_ "خورشید اکرم ہمارے سب سے اچھے افسانہ نگار ہیں۔”
_ "امیر حمزہ ثاقب کی شاعری کی کوئی مثال نہیں۔”
یا میرے بارے میں:
_“You are the only face of genuine intellect among my face book characters”
کتاب میں "پیش لفظ” کے عنوان سے اُدیَن واجپئ کی ایک سنجیدہ اور معقول تحریر ہے۔ سنجیدہ و معقول اس معنی میں بھی کہ اُدیَن واجپئ، شمس الرحمٰن فاروقی کے تعارف کے لیے جس زبان و بیان کو بروئے کار لائے ہیں وہ کتاب کی فضا کو سازگار بناتی ہے۔ شافع قدوائی نے بھی ‘سیاست’ میں شائع کردہ اپنے تبصرے میں شمس الرحمن فاروقی سے متعلق ایسی ہی دیانت داری کو برقرار رکھا ہے۔ شافع قدوائی اس وقت ہمارے بڑے ذہنوں میں سے ایک ہیں۔ باوجود مضافاتی مصروفیات کے، وہ معاصر ادبی منظر نامے پر قابلِ قدر و احترام ہیں۔
اُدیَن واجپئ اور شمس الرحمٰن فاروقی کے درمیان یہ مکالمہ اپنے بینِ سطور میں ایک بات بڑی عمدگی سے واضح کرتا ہے کہ انسان کو اپنے خود ساختہ ہنری چہرے کو ماسک بنا کر, تا عمر پہنے نہیں رکھنا چاہیے بلکہ”ہر لحظہ نیا طُور، نئی برقِ تجلّی” پر عمل پیرا رہنا چاہیے۔ ہمارے یہاں کم ہی اہلِ قلم صحیح معنی میں "مسافر” ہوئے ہیں۔ "ناقابلِ ذکر” کو جانے دیتے ہیں۔ اکثریتِ "قابلِ ذکر” نے خود کو ہنری سطح پر دریافت کیا اور پھر اس دریافت شدہ کے ماسک کو لگا کر مسند پر گرفت کو مضبوط سے مضبوط تر کیا ہے۔
بالا نوشتہ بات کی روشنی میں اگر شمس الرحمٰن فاروقی کے ادبی سفر پر نگاہ کریں تو مشرق – مغرب – مشرق کے مناطق میں ان کا سفر سبق آموز ہے اور نئے در بھی وا کرتا ہے۔ جدیدیت کا علمبردار اور اسکا نمایاں ترین چہرہ اور بنیادی مبلغ، جب اپنی اردو تہذیب و تاریخ کی طرف مراجعت کرتا ہے تو اس میں بھی ایک شاہانہ گفتار و رفتار کی مثال قائم کرنے میں نہ صرف کامیاب رہتا ہے بلکہ ایک جہانِ معانی کا ایک بلند دروازہ قائم کرتا ہے۔ جس میں وارد ہوتے وقت، دیگر زبان والے جب نگاہ کریں گے تو بعید از قیاس نہیں کہ ان کو اپنی کلاہ کو سنبھالنے کی حاجت پیش آئے۔
اردو – ہندی دو ایسی زبانیں ہیں جن میں صرف و نحو کی رُو سے مماثلت ان کے ہم جُفت ہونے کا بخوبی پتہ دیتی ہے۔ اپنی دقیق طرزِ نگارش میں ان کے مابین فرق کچھ بڑھ جاتا ہے البتہ مکالمے کی صورت میں اس قدر اجنبیت کا احساس نہیں ہوتا ہے۔ موردِ نظر کتاب چونکہ اُدیَن واجپئ اور شمس الرحمٰن فاروقی کے بیچ گفتگو کے تحریری متن پر مشتمل ہے اس لیے اس میں ترجمے والی مروجہ دقتیں نسبتا کم رہی ہوں گی۔ یوں بھی اُدیَن واجپئ اور شمس الرحمٰن فاروقی کا ہدف زبان سے زیادہ بیان رہا ہوگا. رضوان الدین فاروقی نے اس مکالمے کو اردو رسمِ خط میں یا عرف عام میں کہا جائے تو ترجمہ کر کے ایک کھڑکی بڑے سلیقے سے وا کی ہے جس کے لیے ان کو دلی مبارکباد۔
اس وقت شمس الرحمٰن فاروقی کا خیال اور امیر خسرو کا درج ذیل شعر بیک وقت ذہن میں آ رہے ہیں:
آفاق را گردیدہ ام، مہرِ بُتاں ورزیدہ ام
بسیار خوباں دیدہ ام، اما تو چیزے دیگری
معلوم ہوا اصل سفر تو "اما تو چیزے دیگری” کی تلاش ہے اور اِس کا جویا ہی تخلیقی ذہن کا مالک ہوتا ہے یعنی حقیقی مسافر۔

کوئی تبصرہ نہیں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے