‘استفسار کا شمارہ ‘بیادِ نیر مسعود’ (یا قصہء پیوند در جامہء ابریشم)
‘استفسار کا شمارہ ‘بیادِ نیر مسعود’
(یا قصہء پیوند در جامہء ابریشم)
(شہرام سرمدی)
اس وقت نظر کے روبرو ‘استفسار’ کا تازہ شمارہ ہے اور ذہن میں سو بہ سو راہِ چپ و راست اور دائیں بائیں کا عقدہ۔ اگر اِس طرف اختیار کرتے ہوئے شمارہ وا کیا جائے تو صورت یعنی سرورق اور سیرت یعنی متن ایک حد تک عین مطابق نظر آئے گا۔
البتہ یہاں ایک مسئلہ ہے کہ بعض قارئین جو طبیعتا کتاب یا رسائل کو اُس طرف سے پڑھنا شروع و پسند فرماتے ہیں۔ ایسی صورت میں ممکن ہے کہ ان کو مذکورہ شمارہ ‘توصیف نامہء سناٹے کی پرچھائیں’ محسوس ہو۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس "بیاد نیر مسعود” شمارے کے آخر میں یکے بعد دیگرے چھے (6) توصیفی تحریریں ‘سناٹے کی پرچھائیں’ پر شامل ہیں۔ مزید یہ کہ سرورق و پشت ورق کے اندرونی اوراق پر تصاویر و آراء بھی اس کی بخوبی شہادت دیتی ہیں کہ اسے ‘توصیف نامہ’ کہنا غلط نہیں ہوگا۔واقعیت یہ ہے کہ سرورق پر نیر مسعود کے نام شمارہ معنون کرنے کے بعد کسی دیگر کا موضوعِ گفتگو ہونا ہی دراصل "ذکرِ بیجا” ہے۔
اس ضمن میں یہ عرض کرنا بھی مناسب معلوم دیتا ہے کہ اگر ‘استفسار’، ‘اختر شیرانی ایوارڈ’ یافتہ کی خبر با تصویر شائع کر رہا ہے تو اس کو اسی سال کے ‘محمود شیرانی ایوارڈ’ یافتہ سینئر کی خبر بھی اسی اہتمام سے شائع کرنا چاہیے تھی۔ یہ نہ صرف حفظِ مراتب کا معاملہ ہے بلکہ اپنے بزرگوں کا احترام بھی ہے اور ادبی دیانت داری بھی۔
شمارہء مذکور کی ترتیب بندی جس نہج پر کی گئی ہے اسے دیکھ کر یونہی ایک بات ذہن میں آگئی۔ یہاں جس کا ذکر بے محل نہ ہوگا۔ حال ہی میں رضوان الدین فاروقی نے "ایک فکشن نگار کا سفر” (شمس الرحمٰن فاروقی اور اُدیَن واجپئ کے درمیان مکالمہ) نے عنایت فرمائی۔ اس میں فاروقی صاحب نے ایک واقعہ بیان کیا ہے:
"بشیر بدر فراق صاحب کے یہاں اٹھتے بیٹھتے تھے۔ اپنے آخری وقت میں فراق صاحب کو لکھنے میں مشکل ہوتی تھی۔ ان دنوں وہ غزل لکھوادیتے تھے۔ بشیر بدر وہ غزلیں چھپنے کے لیے بھیجتے تھے، ساتھ میں اپنی ایک آدھ غزل بھی ڈال دیتے تھے اور لکھتے تھے کہ ‘یہ بشیر بدر صاحب ہیں، الہ آباد کے ہونہار شاعر، ان کا کلام بھی دیکھ لیجیے۔’ اس طرح جب پاکستان کے بڑے رسائل جیسے ‘فنون’ یا ‘سویرا’ میں جہاں فراق صاحب چھپ رہے ہیں، وہ بھی چھاپے جارہے ہیں”۔ خیر!
نیر مسعود کے بارے میں سوچتا ہوں تو ایک خیال اکثر تکلیف دیتا ہے۔ بقول ‘صاحبِ شبخون’ لکھنؤ میں نیر مسعود’ سے زیادہ کوئی دوسرا ان کا نزدیکی نہیں تھا۔ غالبا اسی لیے ان کے انتقال پر فاروقی صاحب گڑگڑا گڑگڑا کے روئے بھی بہت تھے۔ حالانکہ یہ بات بھی سچ ہے کہ نیر مسعود پر شمس الرحمن فاروقی کبھی کچھ لکھ نہ سکے۔ ممکن ہے کہ صاحبانِ ‘استفسار’ یعنی شِو کمار صاحب نظام المعروف بہ شین کاف نظام اور عادل رضا صاحب منصوری نے بھی ‘سنتِ فاروقیہ’ پر عمل پیرا ہوتے ہوئے باوجود تقریبا سواچارسو صفحات نیر مسعود مرحوم کو وقف کرنے کے ایک صفحہ بھی بطورِ مدیر حاضر نہیں کیا۔ ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ مدیرانِ محترم کے ذہن میں مولانا روم کا کہا ذہن میں رہا ہو:
چون کہ بی رنگی اسیرِ رنگ شد
(یعنی جب بے رنگی اسیرِ رنگ ہوئی)
شاید اسی سبب سے ‘بے رنگی کو اسیرِ رنگ’ نہ کرتے ہوئے، استفسار کے مدیران ‘حلقہء نا+رنگ’ کے پاسدار رہے ہوں۔ (‘بیاد نیر مسعود’ شمارے میں سے پچیس صفحات عادل رضا منصوری نے بالا ذکر کردہ فراق و بشیر بدر والے واقعے کی رُو سے، اپنے استادِ اول بشیر بدر کے اتباع میں اپنے توصیف نامے کے لیے وقف فرمائے ہیں۔)
عادل رضا منصوری پیشے کے اعتبار سےکارپوریٹ سیکٹر کی دنیا سے وابستہ ہیں اور کور لاجسٹکس پرائیویٹ لمیٹد میں سی ای او بہ اضافہ ڈائریکٹر آپریشنس کے عہدے پر فائز ہیں۔ اسی کے پہلو بہ پہلو عادل کی شعر گوئی و نثر نویسی، ان کا سلیقہ اور ان کی متانت بھی قابلِ ذکر ہے۔ اس کے علاوہ وہ شین کاف نظام کے ساتھ رسالہ ‘استفسار’ کے مدیر بھی ہیں اور استفسار پبلیکیشن کے مالک و سرپرست بھی۔
عادل کی ادبی عمر، ان کے بیشتر ہم عمر اہلِ قلم سے تقریبا آدھی ہی ہے لیکن ‘شین قاف’ پر کام کرنے کے اس مرحلے میں، ان کی خوش بختی کہ انہیں ‘شین کاف’ (صاحب) نصیب ہوۓ اور ان سے وابستہ ‘نظام’ کے زیرِ سایہ وہ مختصر وقت میں ‘الف بے’ سے ‘ادبی اعزازات’ کے مراحل میں داخل ہوۓ۔ ادبی نکتہء نظر سے عادل کی شخصی صفات میں ہدف کا واضح ہونا ہے اور وہ ادبی سماجیات کو اولیت و اہمیت کی نگاہ سے دیکھتے اور اسے سمجھتے ہیں۔ جس کا قابلِ توجہ ثبوت "سناٹے کی پرچھائیں” ہے۔جس میں در آئی فکری و ذہنی باریکیاں اس کو دوسرے مجموعوں سے مختلف ظاہر کرتی ہے۔
استفسار کا ‘بیادِ نیر مسعود’ شمارہ اس اعتبار سے قابلِ ذکر ہے کہ اپنے بزرگوں کو یاد کرنا درحقیقت ایک مستحسن عمل ہے۔ نیر مسعود کا ذکرِ خیر ہو رہا ہے اور ان کی ان کی تحریروں سے کا مجھ پر خاصا اثر بھی ہے تو اتنا عرض کرنا طولِ بیان نہ ہوگا کہ نیر مسعود ایک کثیر جہت علمی و ادبی و تہذیبی شخصیت کا نام ہے۔ وہ سید مسعود حسن رضوی ادیب کے فرزند اور ان کے زیرِ سایہ پرورش یافتہ تھے۔ انہوں نے سانس سانس لکھنؤ کو جیا اور قدم قدم دیکھا تھا۔ ان کی کہانیاں دیکھیں تو نزدیکِ غروب لوبان کی مہک اور ایک طرف سفید ململ کا کرتا،چوڑے پائچے والا لٹھے کا پائجاما والے ‘پیارے میاں’ تو دوسری طرف چکن کی ڈھیلی سی قمیض میں شمیز پہنے خمیدہ کمر ‘بڑی بی’ والا لکھنؤ حافظے میں ڈھڑکنے لگتا ہے۔نیر مسعود کے نقشِ قدم پر اگر سیرِ سرزمینِ پارس پر روانہ ہوں تو نہ صرف وہ ہمہ عمر فارسی کے استاد نظر آتے ہیں بلکہ اپنے ذوقِ مطالعہ کے سبب اپنی انفرادیت ثبت ایک ‘تہذیب کدہ’ دکھائی کرتے ہیں جس کا کچھ حد تک اندازہ ان کے افسانوی مجموعوں میں منتخب کردہ فارسی اشعار سے اور فارسی کہانیوں کے ان کے تراجم سے لگایا جاسکتا ہے۔ اس کے علاوہ اگر مغرب کی سمت نگاہ کرتے ہیں تو کافکا کو اس قدر معقول زبان میں بیان کرجاتے ہیں کہ سیکھنے سے تعلق رکھتا ہے۔ اسے مبالغہ نہیں کہا جاسکتا کہ اردو والوں کے لیے تہذیب لکھنؤ کی بازیافت نیرمسعود سے صرفِ نظر کرکے ممکن ہے نامکمل رہے۔
پانچ مختلف ابواب میں تقسیم کردہ ‘بیادِ نیر مسعود’ والے حصے میں 33 مضامین کو جمع کیا گیا ہے۔ اہم مضمون نگاروں میں سکندر احمد، شارب ردولوی، شہنشاہ مرزا، شمیم حنفی، عتیق اللہ، عرفان صدیقی، قاضی افضال حسین، آصف فرخی، شافع قدوائی، تمثال مسعود، معیدالرحمٰن وغیرہ شامل ہیں۔ یہ مضامین مطالعے سے تعلق رکھتے ہیں۔ ابواب کے عنوان کے اعتبار سے "نیرمسعود” (5 مضامین)، "نظرِ ثانی (14 مضامین)، "افسانہ اور تحریر” (8 مضامین)، "افسانے سے الگ” (3 مضامین) اور "گفتگو” (3 مضامین) شامل ہیں۔ دونوں مدیران کو دلی مبارکباد۔
کوئی تبصرہ نہیں