امیر حمزہ ثاقب کی دس غزلیں


امیر حمزہ ثاقب کی دس غزلیں

غزل

چراغِ نغمۂ گریہ جلائے رکھا ہے

کسی کی لو نے مرا دل بجھائے رکھا ہے

کہاں یہ رمز و کنایہ وہ بحرِحسن کہاں

سخن کو ہم نے کنارے لگائے رکھا ہے

جہاں سے اہلِ ہوس سلکِ جاں اٹھاتے ہیں

وہاں فقیروں نے تکیہ لگائےرکھا ہے

مہ ونجوم کسی سے کلام کرتے ہیں

کسی نے آسماں سر پر اٹھائے رکھا ہے

دریدہ پیرہنی تو حجاب ہے، ہم نے

لہو میں مشکِ دل آرا چھپائے رکھا ہے

—————————————-

غزل

آسمانوں پہ عجب عالمِ پسپائی تھا

اس تماشے کا مگر میں ہی تماشائی تھا

اب بھی ازبر ہے مجھے تربیتِ مکتبِ دل

درسِ وحشت کے لیے جامۂ رسوائی تھا

وصل کا راگ بھی کھو بیٹھا نظامِ آہنگ

نغمۂ ہجر مرا کس کا تمنائی تھا

اپنی آواز کے جنگل میں بسر کرتا ہوں

میرے اطراف کبھی خطۂ تنہائی تھا

ایک وہ در جسے لاحق تھا تغافل کا مرض

ایک میں تھا مجھے آشوبِ جبیں سائی تھا

نسخۂ شوق کہیں خاک بہ سر تھا ثاقب

اور درپیش مجھے کارِ مسیحائی تھا

—————————————-

غزل

تو کیا میں دل میں تری یاد بو نہیں پایا

کہ تیرے رنگ کا اک شعر ہو نہیں پایا

بچھڑتے وقت اک الماس لمس نے سونپا

میں چاہتا تھا بہت رونا رو نہیں پایا

سند تھی کارِ مسیحائی کی صبا کے ہاتھ

مرا علاج ہواؤں سے ہو نہیں پایا

طرف طرف میں عجب روشنی تھی، خوشبو تھی

وہ اہتمام تھا شب کا کہ سو نہیں پایا

نہ جانے کون سی مٹی تھی چاک پر میرے

میں اپنا خاک زدہ ہاتھ دھو نہیں پایا

مری تلاش کا میدان تنگ تھا شاید

میں تیرے شہر کی گلیوں میں کھو نہیں پایا

—————————————-

غزل

ہر برگ مرا سبز تھا خوشبو سے بھرا تھا

دل کے کسی گوشے میں تیرا پھول کھلا تھا

اب ریشمی لہریں مرے دریا کا نشاں ہیں

میں اپنی ہوا سے کبھی برگشتہ ہوا تھا

کیوں رس بھرے میووں سے ہیں محروم یہ شاخیں

کیا رزق مرا خطۂ جاناں سے بندھا تھا

میں ایک گھنا پیڑ تھا دریا کے کنارے

اک یارِ نوا ساز کہ چڑیوں کی صدا تھا

کیا ہشت جہت میری ہی خوشبو تھی پریشاں

کیا رنگِ تصور میں تجھے دیکھ رہا تھا

—————————————-

غزل

عجب تضاد کا جنگل ہے روبہ رو میرے

کہاں پکاروں تجھے شہر آرزو میرے

مرے ہی ساز پہ گاتے ہیں تیرے بلبل و باغ

تھرکتے رہتے ہیں لفظوں کے رنگ و بو میرے

میں تیری موجوں کی انگلی پکڑ کے چلتا تھا

اب اپنے آپ کا قیدی ہوں آبجو میرے

ترے کلیجے کو پل بھر میں چھلنی کردے گا

لہو کی دھار سے بچ کر نکل عدو میرے

ہر ایک زخم کا حیرت سے منہ کھلا ہوا ہے

تو کیسا خام ہوا ریشہء رفو میرے

نفس نفس سے میں اظہار تیرا کرتا ہوں

طرف طرف میں ہے تو،  یار مشکبو میرے

—————————————-

غزل

جبینِ شب ہے آتش ناک شہرِ جاں پگھلتا ہے

کمانوں طاقچوں میں پھر چراغِ دود جلتا ہے

ہمارے پاس آ ہم لوگ اہلِ دل نہیں ہیں کیا

ہوس نابینا رستہ ہے کہاں اُس راہ چلتا ہے

بھری آنکھوں نے تیری جب عنایت کی نظر کی تھی

وہی اک لمحۂ شبنم مرے سبزے میں پلتا ہے

سبھی اہلِ کمالِ شہر اپنا ہاتھ ملتے ہیں

مری مٹّی میں کیا شے ہے ترا کوزہ نکلتا ہے

بھڑکتا ہے بہ ہر لمحہ،  زمانہ کوئی شعلہ ہے

دماغ اب کوئی برتن ہے جو رہ رہ کر اُبلتا ہے

لہو میں اضطراب ایسا، کسی منزل نہیں ٹکتا

تمھارے خیمۂ فرصت میں میرا دل سنبھلتا ہے

—————————————-

غزل

رنگ برنگے ریشم ریشم خواب دکھائے جاتا ہے

صدہا گرہیں میرے اندر کون لگائے جاتا ہے

میرا غیابی رنگ کہاں سے اہل جہاں پر کھل جائے

میرا چہرا اس دنیا پر خاک اڑائے جاتا ہے

صحرا میرے لعل و گہر سب چُن چُن کر شاداب ہوا

تیرے لیے جو طے کردہ تھا باغ چُرائے جاتا ہے

جب آواز کی رگ رگ میں لفظوں کی شبنم جمتی ہے

میرا نوا بستہ سازِ دل آگ لگائے جاتا ہے

خاموشی کی اجڑی ہوئی پُر پیچ سڑک سے دیوانہ

باغِ فراموشی کی بیلیں سر پہ اٹھائے جاتا ہے

برگِ تمازت کے پہلو میں پھول کسی سسکاری کا

اپنے زخم کی زرخیزی کا سوگ منائے جاتا ہے

—————————————-

غزل

ترے بغیر کہاں نور، آنکھ مردہ ہے

گلِ مزار کی مانند شب کا چہرا ہے

گداز نیلگوں لذت میں ڈوبا ڈوبا ہوں

کہ تیرا ہجر تو ہونٹوں کا پہلا بوسہ ہے

ہمارے پاؤں کے چھالے ہیں اخترِشب تاب

یہ آسمان نہیں ہے ہمارا صحرا ہے

تمام عالمِ پُرشور ہوگیا خاموش

یہ کون شخص ہے اور کیسا اس کا گریہ ہے

میں کیا بتاؤں یہ اہلِ فراق جانتے ہیں

لہو نہیں ہے رگوں میں لبوں کا صدقہ ہے

طلب کہاں ہے کسی مسندِ تمنا کی

کہ ہم نے اس کے کرم کا لباس پہنا ہے

سنارہے ہو ہمیں سامنے کا افسانہ

اک اور قصہ پسِ متن ہم نے رکھا ہے

—————————————-

غزل

جب بھی مجھے اک چپ سی لگی مرشد اول یا مرشد اول

خاموشی مری بول اٹھی مرشد اول یا مرشد اول

اک نعمت وافر مرے حصے میں لکھی تھی یا مجھ میں کجی تھی

اک دن ہو عطا روز غنی مرشد اول یا مرشد اول

میں راہ شہیدان انا میں ہوں ازل سے، گل زار یقیں دے

پلکوں سے چنوں خار نفی مرشد اول یا مرشد اول

بد مست ہے بس اپنی ہی کثرت میں یہ خلقت کیا نعرہ وحدت

کس گام ہے آئینہ روی مرشد اول یا مرشد اول

پندار کے دانے ہیں مرے تار نفس میں، نالے ہیں قفس میں

بے سوز ہوئی رات مری مرشد اول یا مرشد اول

—————————————-

غزل

تنکا تنکا میں خوابوں کی محراب سے جمع کرتا رہا

باد انکار کا وہ تسلسل تھا سب کچھ بکھرتا رہا

اک سیہ پوش لمحے نے رنگوں بھری شام سے کیا کہا

رات بھر ماہ روشن کا چہرا اترتا، نکھرتا رہا

ہم وہ میوہ کہ جن سے کبھی ذائقوں نے بغاوت نہ کی

 ہاں درختوں کی شاخوں سے،  پتوں سے،  موسم گزرتا رہا

جب متاع و مویشی ہلاکت کے کوچے میں بے یار تھے

باغ دل تھا دعاؤں کی شبنم سے پھولوں کو بھرتا رہا

جس نے تاروں کے بستر سے میرے شبستاں کو جگ مگ کیا

میں اسی چشم کے خواب جیتا رہا، خواب مرتا رہا

سید الطائفہ تھا ترا عشق میرا جنوں فقر تھا

نعمت درد سے میرے سینے کا کشکول بھرتا رہا

—————————————-

غزل

کہاں کہاں ہے رکھا زاد صبح و شام مرا

یہ کس جہان تونگر میں ہے قیام مرا

ہے کس بہار کی خواہش میں جسم صحرا بدوش

ہے کس صدا کی طلب میں نڈھال نام مرا

ہزار اس کو میں سمجھاؤں، دل سنبھلتا نہیں

کہ سرکشی پہ ہے آمادہ یہ غلام مرا

مجھے ہے اپنے اندھیروں میں روشنی کی تلاش

مجھے تباہ نہ کردے خیال خام مرا

بصارتیں مری جشن چراغاں کرتی ہیں

تجھے ہی دیکھوں یہی طرز اہتمام مرا

بکھر بکھر گیا اک برگ بے نوائی سے

کسی کے پھول میں گوندھا ہوا سلام مرا

1 تبصرہ

  • ہماری غزل میں آپ بیتی اور جگ بیتی دونوں سنائی گئی۔ لیکن اس سنانے والے نے اپنی کہی، کم کم ہی سنی۔ امیر حمزہ ثاقب اس اعتبار سے ایک نیا ذائقہ فراہم کرتا ہے۔ ثاقب اپنا کہا اپنے آپ کو سناتا ہے۔ اس کی شاعری پڑھ کر محسوس ہوتا ہے جیسا بس اپنے آپ ہی کو سناتا ہو۔ اس سنانے میں طوالت ناپنا اہم نہیں بلکہ گہرائی دیکھنے کے قابل ہے۔ اس کے یہاں زبان پردہءمحض ہے۔ اصل کھیل تو معنی اور اس میں پنہاں تہ بہ تہ دنیاؤں کا ہے۔

    ‘بازگشت’ کی پیشکش میں معیاری ادب پر خاص توجہ دی جاتی رہی ہے۔ امیز حمزہ ثاقب کی شاعری اسی معیاری شاعری کا ایک قابلِ توجہ نمونہ ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے